ایودھیا میں میڈیا کے ایک حصے کی طرف سے ‘منفی’ خبروں سے انکار کرنے کا سلسلہ رام مندر کی پران —پرتشٹھاکی تقریب کے اگلے دن ہی شروع ہو گیا تھا۔ اسی وقت، جب رام للا کے درشن کے لیے جمع ہونے والے ہجوم کی دھکا مکی میں کچھ لوگ زخمی ہوگئے تھے اور ان میں سے ایک کی موت ہو گئی تھی، تو میڈیا نے اسےنشر کرنے سے گریز کیا تھا۔
ایودھیا کے رام جنم بھومی پولیس اسٹیشن میں جمع ہوئے چھینا جھپٹی کا نشانہ بننے والے تلنگانہ کے عقیدت مند۔ (تصویر: کرشن پرتاپ سنگھ)
اگر آپ ایودھیا سے ‘بہت دور’ رہتے ہیں اور یہاں کی خبروں کے لیے صرف اخبارات، نیوز ایجنسیوں اور نیوز چینلوں پر انحصار کرتے ہیں، تو بلاشبہ، ان دنوں آپ کو لگ رہا ہوگا کہ ‘عظیم’ اور ‘روحانی’ ہوکر وہ ‘تریتا کی واپسی’ کی ‘خواہش سے آگے بڑھ کر ‘رام راجیہ کے قیام’ کا ‘خواب’ شرمندہ تعبیر ہونے تک جا پہنچا ہے۔
اپنی زبان کے ذائقے اور ذاتی مفادات کے مدنظر خبر دینے یا دبانے اور دینے میں خبر اور اشتہار کا فرق ختم کر دینے کے اس دور میں ایسا لگنا بلا وجہ یا غیر فطری بھی نہیں ہے، کیونکہ ان کے ذریعے زورو شورسے یہی دکھایا/سنایا اور پڑھایا جا رہا ہے کہ 22 جنوری کو رام للا کی پران —پرتشٹھا کے بعد اپنی آستھا اورعقیدے کے سیاسی مظاہرہ کے لیے پوری طاقت کے ساتھ ایودھیا پہنچ رہے مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور وزراء(اپنی حکومتوں کو اس مظاہرے سے الگ کیے بغیر) سراپا سپاس، سرشار یا ‘من مست مگن’ ہوکر کہہ رہے ہیں کہ پورے ملک میں نہیں تو کم از کم ایودھیا میں تو رام راجیہ قائم ہو ہی گیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ آستھا اور عقیدے سے سرشار ہجوم سے جوش میں ڈوبی ایودھیا کو جلدہی تین نئے پتھ – اودھ آگمن پتھ، لکشمن پتھ اور چھیر ساگر پتھ کی سوغات مل جائے گی،جس کی وجہ سے زائرین، عقیدت مند اور سیاح کی کتنی بھی بھیڑ کیوں نہ ہو،وہ روڈ جام میں نہیں پھنسیں گے۔
یہ تیرتھ یاتری، عقیدت مند اور سیاح اب سریو میں سنت تلسی داس گھاٹ سے گپتار گھاٹ تک جدید ترین سہولیات سے آراستہ واٹر میٹرو کے ذریعے جل وہار (پانی میں نہانے) کا لطف بھی اٹھا سکیں گے، کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے رام للا کی پران —پرتشٹھا کر کے ہی ان کی نگری کے تئیں اپنے فرض کو پورا نہیں مانا ہے۔اور اپنے پارلیامانی حلقہ وارانسی کے گزشتہ دورے کے دوران ایودھیا میں واٹر میٹرو کا ورچوئل طور پر افتتاح کرنا نہیں بھولے ہیں۔
اتنا ہی نہیں، اتر پردیش حکومت کی گراؤنڈ بریکنگ تقریب-4 کے تحت ایودھیا ضلع میں 192 انڈسٹریل یونٹوں میں 10156 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری پر اتفاق ہوگیا ہے اور سیاحت کے بے پناہ امکانات کے استحصال کی غرض سےسیاحوں کے لیے عالمی معیار کی سہولیات فراہم کرنے کی سمت میں کچھ بھی کسر اٹھا نہیں رکھا جا رہا ہے۔
کرناٹک اور تلنگانہ کے عقیدت مندوں کے ان گروپوں نے بھی جو 10 فروری کو وارانسی میں کاشی وشوناتھ کے درشن کرنے کے بعد آستھا اسپیشل ٹرین سے ایودھیا پہنچے، اخبارات اور نیوز چینلوں کی معرفت یہی سب سن، دیکھ اور پڑھ رکھا تھا اور جیسے بہت سے دوسرے لوگوں کو دیکھے، پڑھے اور سنے، کا ‘دوسرا پہلو’ جاننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، انہیں بھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
اسی لیے انہوں نے تصور تک نہیں کیا تھا کہ ‘ایودھیا میں رام راجیہ’ کی زمینی حقیقت اتنی تلخ ہو گی اور رام جنم بھومی پتھ اور ہنومان گڑھی کے قریب چور—اچکے ان کا اس طرح ‘استقبال’ کرنے کے لیے ‘آزاد’ ہوں گے کہ نہ ان کے گلے کے بیش قیمتی لاکٹ ان کے گلے میں رہنے دیں گے، نہ چین۔ یہاں تک کہ سہاگ کی نشانی منگل سوتر اور ایکمکھی رودراکش جیسی چیزیں بھی نہیں۔
اس لیے آنند، سشما، سدھاکر رائے، اداولی منجلا، اپیندر رائے، اہلیا، کٹیپو رینوکا، سریندر ریڈی، ککرا شریمتی، چدوویتا رانی اور کلانی ودیالکشمی نامی ان عقیدت مندوں کو، جن میں کئی آپس میں میاں بیوی تھے، چور—اچکوں کے شکار ہونے کے بعد یکبارگی کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا کریں، کہاں جائیں اور کس سے فریاد کریں۔
ان میں سے کئی کے لاکٹ اور چین 30 سے 80 گرام سونے کے تھے اور وہ اتنے بڑے نقصان کا صدمہ برداشت کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔ اچھی بات یہ تھی کہ ان میں حیدرآباد ہائی کورٹ کے ایک وکیل بھی تھے، جن کی مدد سے وہ سب رام جنم بھومی تھانہ پہنچے، لیکن وہاں تھانے کی پولیس نے ان سے کوئی ہمدردی نہیں دکھائی اور بغیر کسی تاخیر کے تفتیش اور کارروائی کرنے کے بجائے حیلہ بہانہ کرنے انہیں ٹالنے میں لگی رہی۔
‘رام راجیہ کے قیام’ کے سب سے مضبوط دعویداروں میں سے ایک وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی اس ہدایت کا بھی اس پر کوئی اثر نظر نہیں آیا کہ ایودھیا آنے والے تیرتھ یاتریوں، عقیدت مندوں اور سیاحوں کے ساتھ شائستگی سے پیش آنا چاہیے ، تاکہ وہ اپنے دل و دماغ میں اچھی یادیں لے کر جائیں اور اپنے ذہن ودل میں ایودھیا کے ساتھ—ساتھ اتر پردیش کی بہتر تصویر لے کر واپس جائیں۔
متاثرہ عقیدت مندوں کایہاں تک کہنا تھا کہ کچھ مشتبہ افراد کی نشاندہی کرنے کے باوجود پولیس نے آسانی سے ان کی ایف آئی آر درج نہیں کی۔ اس کے لیے انہیں رام جنم بھومی تھانے میں دھرنا دے کر ‘انصاف چاہیے، انصاف چاہیے’ اور ‘ہمیں ہمارا گولڈ واپس چاہیے’ کے نعرے لگانے پڑے۔
پولیس کی طرح میڈیا نے بھی ان متاثرین سے کوئی ہمدردی نہیں دکھائی۔ اکثر اخبارات اور نیوز چینلوں نے ان سے چھینا جھپٹی کی رپورٹنگ میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ جنہوں نے لی بھی ، خبر کا ٹون اتنا ڈاؤن کرکےخبریں نشر کیں کہ ایودھیا میں رام راجیہ اور ریاستی حکومت کی ‘ساکھ’ پر آنچ نہ آئے۔
فطری طور پر یہ ‘پرتشٹھا’ متاثرین کے دردپر بھاری پڑی۔جانکاروں کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس واقعے کے اگلے ہی دن پوری اتر پردیش حکومت اپوزیشن جماعتوں (سوائے سماج وادی پارٹی کے) کے ساتھ رام للا کے درپر حاضری دینے والی تھی اور پولیس اور میڈیا کاایک بڑا حصہ چاہتا تھا کہ رنگ کو پھیکا کرنے والی کوئی آواز نہ ابھرے۔ اس کی وجہ سے عام لوگ حقیقت جاننے سے محروم رہ جائیں یا عقیدت مندوں کی حق تلفی ہو جائے ان کی بلا سے۔
لیکن بعد میں پولیس نے بہار کے ایک مبینہ گینگ کے 16 ارکان کو گرفتار کیا اور ان کے پاس سے 355 گرام کی 11 سونے کی چین (جن کی تخمینہ قیمت 21 لاکھ روپے بتائی گئی) اور کئی گاڑیاں برآمد کرکے مذکورہ چھینا جھپٹی کے اسکینڈل کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کیا تو میڈیا کے اس حصے کے ذریعے اس کو پولیس کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر مشتہر کیا گیا۔
یہ بتاتے ہوئے کہ مذکورہ گینگ کاشی اور متھرا سمیت کئی دیگر مذہبی مقامات پر جنوبی ہندوستانیوں کو، جن میں کئی کئی بیش قیمتی سونے کے زیورات پہن کر تیرتھ یاترا پر نکلنے کا چلن ہیں، اپنا شکار بناتا تھا۔ اس کا ایک رکن زیورات لے کر فوراً گینگ کے دوسرے رکن کو دے دیتا تھا جس کی وجہ سے پکڑے جانے پر بھی زیورات برآمد نہیں ہو پاتے تھے۔
کیا تعجب کہ پولیس والوں کے غیر رسمی طور پر یہ ماننے کے باوجود کہ پران —پرتشٹھا کے بعد ایودھیا میں ہجوم کے درمیان چین اور لاکٹ وغیرہ کی چھینا جھپٹی اور موبائل وغیرہ قیمتی سامانوں کی چوریاں ان کا سر درد بن گئی ہیں۔
پولیس میڈیا کے اس سوال کا سامنا کرنے سے پوری طرح بچی رہ گئی کہ اتنی احتیاط کیوں نہیں کی گئی کہ یہ گینگ ایودھیا میں سرگرم ہوکر عقیدت مندوں کو شکار بنانے اور نئی قائم ہونے والی ‘رام راجیہ’ پر سوال اٹھوانے میں کامیاب نہ ہو پائیں۔
وہ بچی کیوں نہ رہے؟ ‘رام راجیہ’ کی ‘پرتشٹھا’ کے دفاع کے لیے ‘وقف’ میڈیا کے اس حصے کے ذریعے’منفی خبروں سے پرہیز’ کی تعمیل میں ایودھیا آنے والے عقیدت مندوں کے ساتھ ہونے والے حادثات کی خبریں بھی نہیں دے رہا۔
گجرات کے عقیدت مندوں کو لے کر کاشی سے ایودھیا آ رہے ایک ٹیمپو ٹریولر کے الہ آباد نیشنل ہائی وے پر 18 فروری کی دیر رات بیکا پور کوتوالی علاقے کے بلاریمافی گاؤں کے نزدیک گنا لدی ٹریکٹر ٹرالی سے ٹکرا جانے کی خبر بھی اس نے نہیں ہی دی۔
بھلے ہی اس میں گجرات کے نوساری ضلع کے سجلی تھانہ حلقہ کے ایک درجن کے قریب عقیدت مند زخمی ہوگئے تھے۔ اس سے ایک دن پہلے 17 فروری کی صبح ایودھیا میں بندروں کی لڑائی کے دوران بھکتی پتھ پر دکانوں کے چھجوں پر بھاری بھرکم لوہے کے اینگل میں لگائی گئی فینسی لائٹ گرنے سے ایک مقامی ٹھیلے والے اور کئی عقیدت مندوں کو چوٹیں آنے کی خبر کی بھی اس نے خبر نہیں ہی لی۔
بھلے ہی کئی لوگ اسے ایودھیا کو ‘روحانی’ اور ‘عظیم’ بنانے کے کام میں بدعنوانی اور معیار کے سمجھوتہ سے جوڑ کر دیکھ رہے تھے۔ اپنی بات کی تائید میں وہ حال ہی میں تعمیر ہونے والی سڑکوں کی مثالیں دے رہے تھے جو کئی جگہوں پر دھنس گئی تھیں۔
قابل ذکر ہے کہ میڈیا کے اس حصے کی طرف سے ‘منفی’ خبروں سے انکار کرنے کا سلسلہ پران —پرتشٹھا کی تقریب کے اگلے ہی دن شروع ہو گیا تھا۔اسی وقت جب رام للا کے درشن کے لیے جمع ہونے والے ہجوم نے تمام حفاظتی انتظامات کو ناکافی ثابت کر دیا اور دھکا مکی اور بھگدڑ مچنے کی حالت میں نصف درجن سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔
ان زخمی لوگوں میں بہار سے تعلق رکھنے والی 45 سالہ چننا دیوی کی میڈیکل کالج میں موت ہو گئی تھی، لیکن اکثر اخبارات اور نیوز چینلوں نے اسے نشر کرنے سے گریز کیا اور مقامی روزنامہ جن مورچہ میں اس کی خبر چھپ جانے کے دباؤ میں بھی اسے نشر بھی کیا تو بھگدڑ میں زخمی ہونے یا مرنے کی بات چھپا گئے۔
آپ نے یہاں تک پڑھ لیا ہے تو بہتر ہے کہ اب بیدار ہو جائیں۔ سمجھ لیجیے کہ حادثات میں لوگوں کے زخمی ہونے اور مرنے کی خبروں کو بھی منفی قرار دے کر نہ دینے تک آ پہنچا میڈیا آپ کو حقیقت بتانے میں نہیں ‘پانی خشکی اور خشکی میں پانی ‘ کا بھرم پیدا کرکے گمراہ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔اس لیے کہ اس کے مفادات صرف آپ کو گمراہ کرنے سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔
آپ کو گمراہ کرنے کے لیے اس نے ایودھیا کی ان میرا مانجھی کے مسائل کو اٹھانے کے بجائے ان کی بات ہی ہضم کرلی، 30 دسمبر کو جس کے گھر وزیر اعظم نے جاکر چائے پی تھی۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)