رام جنم بھومی-بابری مسجد زمین تنازعہ معاملے میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔
نئی دہلی: رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ معاملے میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ایک نوٹس کے ذریعے جمعہ کی شام کو اس بارے میں جانکاری دی گئی۔ آئینی بنچ نے 16 اکتوبر کو اس معاملے کی سماعت پوری کی تھی۔ معاملے کا پورا واقعہ اس طرح ہے-
1528: مغل بادشاہ بابر کے کمانڈر میر باقی نے بابری مسجد کی تعمیر کرائی۔
1885: مہنت رگھوبیر داس نے فیض آباد ضلع عدالت میں عرضی دائر کر کے متنازعہ ڈھانچے کے باہر شامیانہ تاننے کی اجازت مانگی۔ عدالت نے عرضی خارج کر دی۔
1949: متنازعہ ڈھانچے کے باہر مرکزی گنبد میں رام للا کی مورتیاں قائم کی گئیں۔
1950: رام للا کی مورتیوں کی پوجا کا حق حاصل کرنے کے لئے گوپال سملا ویشارد نے فیض آباد ضلع عدالت میں عرضی دائر کی۔
1950: پرم ہنس رام چندر داس نے پوجا جاری رکھنے اور مورتی رکھنے کے لئے عرضی دائر کی۔
1959: نرموہی اکھاڑہ نے زمین پر اختیار دیے جانے کے لئے عرضی دائر کی۔
1981: اترپردیش سنی مرکزی وقف بورڈ نے مقام پر اختیار کے لئے عرضی دائر کی۔
1 فروری 1986: مقامی عدالت نے حکومت کو پوجا کے مقصد سے ہندو عقیدت مندوں کے لئے مقام کھولنے کا حکم دیا۔
14 اگست 1986: الٰہ آباد ہائی کورٹ نے متنازعہ ڈھانچے کے لئے صورت حال قائم رکھنے کا حکم دیا۔
6 دسمبر 1992: رام جنم بھومی-بابری مسجد ڈھانچے کو منہدم کردیا گیا۔
3 اپریل 1993: متنازعہ مقام میں حصول اراضی کے لئے مرکز نے ‘ ایودھیا میں فکسڈ ایریاحصول سے متعلق ایکٹ ‘ پاس کیا۔ قانون کے مختلف پہلوؤں کو لےکر الٰہ آباد ہائی کورٹ میں کئی رٹ عرضیاں دائر کی گئیں۔ ان میں اسماعیل فاروقی کی عرضی بھی شامل۔ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 139 اے کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرکے رٹ عرضی کو منتقل کر دیا جو سپریم کورٹ میں زیر التوا تھیں۔
24 اکتوبر 1994: سپریم کورٹ نے تاریخی اسماعیل فاروقی معاملے میں کہا کہ مسجد اسلام سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔
اپریل 2002: ہائی کورٹ میں متنازعہ مقام کے مالکانہ حق کو لےکر سماعت شروع۔
13 مارچ 2003: سپریم کورٹ نے اسلم عرف بھورے معاملے میں کہا، مقبوضہ مقام پر کسی بھی طرح کی مذہبی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔
30 ستمبر 2010: سپریم کورٹ نے2:1 اکثریت سے متنازعہ علاقے کو سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے درمیان تین حصوں میں بانٹنے کا حکم دیا۔
9 مئی 2011: سپریم کورٹ نے ایودھیا زمینی تنازعہ میں ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگائی۔
26 فروری 2016: سبرامنیم سوامی نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرکے متنازعہ مقام پر رام مندر بنائے جانے کی مانگ کی۔
21 مارچ 2017: سی جے آئی جے ایس کھیہر نے متعلقہ فریقین کے درمیان عدالت کے باہر حل کا مشورہ دیا۔
7 اگست 2017: سپریم کورٹ نے تین رکنی بنچ کی تشکیل کی جو 1994 کے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج دینے والی عرضی پر سماعت کرےگی۔
8 اگست 2017: اترپردیش شیعہ مرکزی وقف بورڈ نےسپریم کورٹ سے کہا کہ متنازعہ مقام سے مناسب دوری پر مسلم اکثریتی علاقے میں مسجد بنائی جا سکتی ہے۔
11 ستمبر 2017: سپریم کورٹ نے الٰہ آبادہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہدایت دی کہ دس دنوں کے اندر دو ایڈیشنل ضلع ججوں کی تقرری کریں جو متنازعہ مقام کی صورت حال کی نگرانی کرے۔
20 نومبر 2017: یوپی شیعہ مرکزی وقف بورڈ نے سپریم کورٹ سے کہا کہ مندر کی تعمیر ایودھیا میں کی جا سکتی ہے اور مسجد کی لکھنؤ میں۔
1 دسمبر 2017: الٰہ آبادہائی کورٹ کے 2010 کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے 32 ہیومن رائٹس کارکنان نے عرضی دائر کی۔
8 فروری 2018: سول عرضیوں پر سپریم کورٹ نے سماعت شروع کی۔
14 مارچ : سپریم کورٹ نے سوامی کی عرضی سمیت تمام عبوری عرضیوں کو خارج کیا۔
6 اپریل 2018: راجیو دھون نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرکے 1994 کے فیصلے کے تبصروں پر نظرثانی کے مدعے کو بڑی بنچ کے پاس بھیجنے کی درخواست کی۔
6 جولائی2018 : یوپی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا کہ کچھ مسلم گروپ 1994 کے فیصلے کے تبصروں پر نظرثانی کی مانگکر کے سماعت میں دیر کرنا چاہتے ہیں۔
20 جولائی2018 : سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھا۔
27 ستمبر2018 : سپریم کورٹ نے معاملے کو پانچ رکنی آئینی بنچ کے سامنے بھیجنے سے انکار کیا۔ معاملے کی سماعت 29 اکتوبر کو تین رکنی نئی بنچ کے ذریعے کئے جانے کی بات کہی۔
29 اکتوبر2018 : سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت مناسب بنچ کے سامنے جنوری کے پہلے ہفتے میں طے کی جو سماعت کے وقت پر فیصلہ کرےگی۔
12 نومبر2018 :اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کی عرضی پر جلد شنوائی سے سپریم کورٹ کا انکار۔
4 جنوری 2019: سپریم کورٹ نے کہا کہ مالکانہ حق معاملے میں سماعت کی تاریخ طے کرنے کے لئے اس کے ذریعے تشکیل کی گئی مناسب بنچ دس جنوری کو فیصلہ سنائےگی۔
8 جنوری 2019: سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت کے لئے پانچ ججوں کی آئینی بنچ کی تشکیل کی جس کی صدارت چیف جسٹس رنجن گگوئی کریںگے اور اس میں جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس این وی رمنا، جسٹس یو یو للت اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ شامل ہوںگے۔
10 جنوری2019 : جسٹس یو یو للت نے معاملے سے خود کو الگ کیا جس کے بعد سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت 29 جنوری کو نئی بنچ کے سامنے طے کی۔
25 جنوری 2019 : سپریم کورٹ نے معاملے کی شنوائی کے لئے پانچ رکنی آئینی بنچ کی تشکیل نو کی۔ نئی بنچ میں چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس اے نذیر شامل تھے۔
26 فروری2019 : سپریم کورٹ نے ثالثی کا مشورہ دیا اور فیصلے کے لئے پانچ مارچ کی تاریخ طے کی جس میں معاملے کو عدالت کی طرف سے مقرر کیے گئے ثالث کے پاس بھیجا جائے یا نہیں اس پر فیصلہ لیا جائےگا۔
8 مارچ2019 : سپریم کورٹ نے ثالثی کے لئے تنازعہ کو ایک کمیٹی کے پاس بھیج دیا جس کے صدر سپریم کورٹ کے سابق جج ایف ایم آئی کلیف اللّہ بنائے گئے۔
9 اپریل 2019: نرموہی اکھاڑہ نے ایودھیا مقام کے آس پاس کی مقبوضہ زمین کو مالکوں کو لوٹانے کے مرکز کی عرضی کی سپریم کورٹ میں مخالفت کی۔
10 مئی 2019: ثالثی عمل کو پورا کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے 15 اگست تک وقت بڑھایا۔
11 جولائی 2019: سپریم کورٹ نے ‘ثالثی کی پیش رفت ‘ پر رپورٹ مانگی۔
18 جولائی2019 : سپریم کورٹ نے ثالثی عمل کو جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے ایک اگست تک رپورٹ دینے کے لئے کہا۔
1 اگست2019 : ثالثی کی رپورٹ سیل بند لفافے میں عدالت کو دی گئی۔
2 اگست 2019 : سپریم کورٹ نے ثالثی ناکام ہونے پر چھ اگست سے روزانہ سماعت کا فیصلہ کیا۔
6 اگست 2019: سپریم کورٹ نے روزانہ کی بنیاد پر زمینی تنازعے پر سماعت شروع کی۔
4 اکتوبر 2019: عدالت نے کہا کہ 17 اکتوبر تک سماعت پوری کر کے17 نومبر تک فیصلہ سنایا جائےگا۔سپریم کورٹ نے اترپردیش حکومت کو ریاستی وقف بورڈ کے صدر کو تحفظ عطا کرنے کے لئے کہا۔
16 اکتوبر2019: سپریم کورٹ نے شنوائی پوری کر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
9 نومبر 2019: سپریم کورٹ نے بابری مسجد-رام جنم بھومی زمینی تنازعہ پر اپنا تاریخی فیصلہ سنا یا جس میں متنازعہ زمین پر مسلم فریق کا دعویٰ خارج کرتے ہوئے ہندو فریق کو زمین دینے کو کہا ۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ رام جنم بھومی نیاس کو 2.77 ایکڑ زمین کا مالکانہ حق ملے گا ۔وہیں سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی 5 ایکڑ زمین دی جائے گی۔مندر کی تعمیر کے لیے مرکزی حکومت کو تین مہینے کے اندر ٹرسٹ بنانا ہوگا اور اس ٹرسٹ میں نرموہی اکھاڑہ کا ایک ممبر شامل ہوگا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)