ایودھیا کے فیصلے کے بعد ‘امن ‘ اور معاملے کے آخرکار ‘ختم ‘ ہونے کی باتوں کے درمیان ان ہزاروں لوگوں کو بھلا دیا گیا ہے، جن کی زندگی بابری مسجد کےانہدام کے بعد برباد ہو گئی۔
ایودھیا میں متنازعہ زمین کے مالکانہ حق کے مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلےکے اعلان کے فوراً بعد سوشل میڈیا میں اب آگے بڑھنے کا وقت ؛ پرانی باتوں کوبھلانے کا وقت-جیسے تبصروں کی باڑھ آ گئی۔ ہم سب کو اتفاق رائے سے دئے گئے فیصلےکو قبول کرنا چاہیے اور تاریخ کو پیچھے چھوڑکر آگے بڑھنا چاہیے۔ نام نہاد لبرلوں نے اس خیال کو آگے بڑھانے کے لئے مورچہ سنبھال رکھا تھا۔سیاسی جماعت بھی اپنے رد عمل میں اعتدال برت رہی تھی اور کانگریس نے تو ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے امن قائم رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے یہ بیان دیا کہ وہ اس فیصلےکا استقبال کرتی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا بھی سرکاری سر بھی میل ملاپ والا تھا۔ بھکتوں نےجےجے کارکرنے کی اپنی طرف سے کوشش کی، لیکن جب خود وزیر اعظم نے کورٹ کی سمجھداری کی تعریف کرتے ہوئے ملی-جلی تہذیب اور کثرت میں وحدت جیسے جملوں کااستعمال کیا، تو ٹرولنگ کی رفتار سست پڑ گئی۔ ایسا لگا کہ لیفٹ، رائٹ اور سینٹر میں اس بات کو لےکر اتفاق ہے کہ یہ شکایت کرنے کا نہیں، بلکہ ساتھ آنے کا وقت ہے۔ ایک طرح سے یہ پورے ملک کے ایک ساتھ آنے جیسا تھا۔
یہ سب دل کو چھونے والا ہے، لیکن تبھی تک جب تک کہ ہم متوازی منظرنامہ کےبارے میں سوچنا نہیں شروع کرتے ہیں-تصور کیجئے کہ ججوں کے ذریعے یہ فیصلہ سنایاجاتا ہے کہ ہندو گروپوں کا دعویٰ منظور کرنے والا نہیں ہے اور متنازعہ مقام کو،پوری طرح سے مسلم فریقوں کو دیا جاتا۔ یا ججوں کی بنچ الٰہ آبادہائی کورٹ کی ہی طرز پر زمین کو ایک تہائی اور دو تہائی کے تناسب میں بانٹکرمندر اور مسجد کی تعمیر کے لئے دےدیتی۔ کیا تب بھی اتنی دریادلی دکھائی جاتی؟ کیا تب بھی ہمیں شرافت اور آپسی میل جول کا اتنی آوازیں سنائی دیتیں؟ کیا بی جے پی کے رہنما یا کسی بھی دیگر پارٹی کےرہنما فیصلے کا استقبال کرنے اور ججوں کی دور اندیشی کی اتنی تعریف کرنے میں اتنابولڈرہتے؟
یہاں تک کہ اس فیصلے کے بعد بھی کچھ جگہوں پر انٹرنیٹ خدمات بند کر دی گئیں اور ممبئی میں پولیس کا سخت بندوبست کیا گیا، جہاں بابری مسجد انہدام کے بعد 1992-93 کے ممبئی فساد کی یاد آج بھی درد دیتی ہے۔ تصور کیجئے کہ کیا ہوا ہوتا، اگر فیصلہ’دوسرے فریق ‘کی طرف جاتا۔ اس مقدمہ کا حل ‘ہندوؤں’کے لئے اطمینان بخش رہا ہے ؛ ایسے میں یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ وہ خود کو بڑادل والا سمجھیں۔ یہ بےمعنی اٹکل بازی نہیں ہے-بدقسمتی سےاس میں ہندوستان کی انتہائی سخت حقیقت کا عکس جھلکتا ہے۔
آج ‘ قومی میل جول ‘ یا اصل میں باب کا خاتمہ تبھی ہوتا ہے، جب اکثریتی طبقے کی مانگ پوری طرح سے مان لی جاتی ہے۔ یہ اکثریتی کمیونٹی کی باقی تمام دیگر،جو ملک کے بی اور سی گریڈ شہری ہیں، کے متعلق فراخدلی کا اظہار ہے۔ یہ شہریت کی درجہ بندی کے بارے میں وحشیانہ درس دینے کے بعد اور کروڑوں لوگوں کی شخصیت ان سےچھینکر، ان کو دیا جانے والا تحفہ ہے۔ آپ کو پانچ ایکڑ ملے ہیں، کیا یہ سچ نہیں ہے؟ کورٹ نے انہدام کو غیرقانونی کارنامہ کہا ہے، کیا یہ صحیح نہیں ہے؟ انہدام کی سازش رچنے والوں کے خلاف مجرمانہ مقدمہ ابھی بھی چل رہا ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ پھر آپ کو شکایت کس بات کی ہے؟
باب کا خاتمہ کرنے کے اعلان کے مقدس ماحول میں ان ہندوستانیوں کے اندرگہرے پیوست درد تک پہنچنے یا اس کو سمجھنے کی بھی کوئی کوشش کہیں گم ہوکر رہ گئی،جن کی زندگی لال کرشن اڈوانی کے ذریعے رتھ یاترا نکالنے کے بعد برباد ہو گئی تھی۔ خون بھری اس یاترا نے واقعات کے ایک سریز کو جنم دیا، جس نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے-اور یہ راستے کا خاتمہ نہیں ہے۔ اس وقت کے جاں باز اڈوانی، جو ریٹائرکر دئے جانے کے بعد محض’ مارگ درشک ‘ میں سمٹکر رہ گئے ہیں، صرف مسجد کو ہی گرانا نہیں چاہتے تھے، بلکہ اس بنیاد کو بھی تباہ کر دینا چاہتے تھے، جس پر جدید ہندوستان ٹکاہوا تھا۔
وہ تو ایسا نہیں کر سکے، مگر ان کے شاگرد نے، ان کو راستے سے ہٹانے کےبعد، سب کی امیدوں سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔ ایک حتمی فیصلہ کے ساتھ نریندرمودی ہندوستان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بدل دینا چاہتے ہیں اور ان کے پاس کروڑوں ہندوستانیوں کی ہی نہیں، اداروں کی بھی حمایت ہے۔ لیکن چلیے فی الحال ہم تمام پرانے تجربات کو پیچھے رکھکر ان کے الفاظ پریقین کر لیتے ہیں۔ مودی بڑی-بڑی نظریاتی باتیں کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں اوراس کے بعد وہ انتخابی تشہیر میں تیزی سے ناشائستہ تقریروں کی طرف مڑتے ہیں، آنےوالے کئی انتخابات ہمیں یہ دکھائیںگے کہ کیا وہ ‘ ملی جلی تہذیب’والی لائن پرقائم رہتے ہیں، یا اس سے پلٹ جاتے ہیں۔ لیکن اس میں ابھی تھوڑا وقت ہے۔
آر ایس ایس چیف نے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ اس کوکسی کی جیت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ وشو ہندو پریشد نے بھی اپنے پرانے اوتار سے الگ دکھتے ہوئے-جب اس نے کاشی اور متھرا کی مسجدوں کو بھی توڑے جانے کی مانگ کی تھی-کہاہے کہ یہ ماضی کا ایجنڈہ ہے۔ یہ سب سننے میں کافی خوش کن ہے۔ لیکن پھر بھی شک اور خدشات ختم نہیں ہوتے۔ ان تنظیموں کا اایجنڈہ بالکل واضح رہا ہے اور اپنے ہدف کو پانے کی سمت میں آگے بڑھنے کے لئے وہ پرعزم رہے ہیں۔ان کے پاس ہندوستان کا اپنا ایک نظریہ ہے اور وہ منصوبہ بند طریقے سے-اور اگرضرورت ہوئی تو سنگدلی سے-اس کی سمت میں آگے بڑھیںگے۔
این آر سی، شہریت ترمیم بل، یکساں سول کوڈ وغیرہ اس منزل تک پہنچنے کی سیڑھیاں ہیں۔ آر ایس ایس اور بی جے پی آئین کے کئی اہتماموں کو لےکرکبھی بھی مطمئن نہیں رہے ہیں-سیکولرزم پر زور یقینی طور پر ان کی چڑ کی ایک وجہ ہے۔ایودھیا جیسے کچھ تدبیروں میں دہائیوں کا وقت لگ جاتا ہے، باقی کو بےحد مستعدی کےساتھ انجام دے دیا جائےگا۔ اصلی مرہم تب لگتا ہے، جب صرف حل نہیں ہوتا، بلکہ میل جول اور ناانصافی کےبدلے میں انصاف بھی ملتا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی کا بھی زیادہ ذکر نہیں کیا گیاہے۔
جے جے کار کی غیرحاضری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ یہ کھیلکے درمیان تھوڑا سستانے کا وقت ہے۔ ملک ابھی بھی اس کے ہونے والے نتیجہ کوسمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جہاں تک اقلیتوں کا سوال ہے، تو وہ اس فیصلے کا تجزیہ اپنے ذہن میں کریںگےاور اس زمین پر، جس کو ہمیشہ سے اپنا وطن مانتے رہے ہیں، اپنی بدل رہی حیثیت کےساتھ تال میل بٹھانے کی کوشش کریںگے۔
اور یہ صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں رہےگا-کون-سی چیز کسی کو چرچے کی طرف نظر گھمانے اور ان میں سے کچھ کو گرانے کی مانگ کرنے سے روک سکتی ہے؟ نہیں، یہ باب کا خاتمہ نہیں ہے۔یہ ایک میل کا پتھر ہے-اور بےشک ایک اہم میل کا پتھر ہے۔ لیکن ایک لمبےراستے میں ایسے کئی اور میل کے پتھر آئیںگے۔ اس پوائنٹ سے ہندتووادی منصوبہ نئی تازگی اور جوش کے ساتھ آگے کی طرف بڑھےگا۔