جسٹس گانگولی نے کہا، کیاسپریم کورٹ اس بات کو بھول جائےگا کہ جب آئین وجودمیں آیا تو وہاں ایک مسجد تھی؟آئین میں اہتمام ہیں اور سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے۔ انہوں نے کہا ،بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی بھی مسجد کو توڑ سکتے ہیں ،وہ آج کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ ان کو حکومت کی حمایت پہلے سے حاصل تھی ،اب ان کو عدلیہ سے بھی حمایت مل رہی ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے ریٹائر جج جسٹس اشوک کمار گانگولی نے ایودھیا پر آئے سپریم کورٹ کے فیصلے بعد اپنے شبہات کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے دی وائرکو بتایاکہ،جسٹس گانگولی نےمبینہ طور پر سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ،اس ملک میں اقلیتوں نے کئی نسلوں سے دیکھاہےکہ وہاں ایک مسجد تھی۔ مسجد توڑدی گئی۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق، وہاں مندر بنےگا۔
انہوں نے کہا ،اس فیصلے نے میرے من میں ایک شبہ پیدا کردیا ہے۔ آئین کے ایک سٹوڈنٹ کے ناطے مجھے اس فیصلے کو قبول کرنے میں میں تامل ہے۔مجھے اس کو قبو ل کرنے میں دقت ہورہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ،72 سالہ جسٹس گانگولی نے 2012 میں2 جی اسپیکٹرم معاملے میں فیصلہ سنایا تھا۔جسٹس گانگولی نے کہاکہ، 1856-57 میں بھلے نماز پڑھنے کے ثبوت نہ ملے ہوں ،لیکن 1949 سے یہاں نماز پڑھی گئی ہے۔ یہ ثبوت ہے۔ ہمارا آئین جب وجود میں آیا اس وقت نماز یہاں پڑھی جا رہی تھی۔ ایک ایسی جگہ جہاں نماز پڑھی گئی اور اگر اس جگہ پر ایک مسجد تھی تو پھر اقلیتوں کو حق ہے کہ وہ اپنی مذہبی آزادی کی تحفظ کریں۔ یہ آئین میں لوگوں کو بنیادی حقوق حاصل ہیں۔
جسٹس گانگولی نے مزید کہاکہ،’اس فیصلے کے بعد ایک مسلمان کیا سوچےگا؟ وہاں سالوں سے ایک مسجد تھی، جس کو توڑ دیا گیا۔ اب سپریم کورٹ نے وہاں مندر بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ اجازت اس بنیاد پر دی گئی کہ زمین رام للا سے جڑی تھی۔ صدیوں پہلے زمین پر مالکان حق کس کا تھا اس کو سپریم کورٹ طے کرےگا؟ سپریم کورٹ کیا اس بات کو بھول جائےگا کہ جب آئین وجودمیں آیا تو وہاں ایک مسجد تھی؟ آئین میں اہتمام ہیں اور سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس گانگولی نے کہا،آئین کے وجود میں آنے سے پہلے وہاں کیا تھا اس کو طے کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس وقت ہندوستان کوئی جمہوری ریاست نہیں تھا۔ تب وہاں ایک مسجد تھی، ایک مندر تھا، ایک بودھ ستوپ تھا، ایک چرچ تھا۔اس پر فیصلہ کرنے بیٹھیں گے تو کئی مندر مسجد اور دوسری طرح کے ڈھانچوں کو توڑنا ہوگا۔ ہم mythological ‘facts’ کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتے۔
انہوں نے کہا، رام کون ہیں؟ کیا اس کے تاریخی شواہد موجود ہیں ؟ یہ صرف عقیدے اور یقین کی بات ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ آپ کے مطابق ،صحیح فیصلہ کیا ہونا چاہیے ؟ انہوں نے کہا ،یا تو میں مسجد کو دوبارہ وہاں بنانے کی ہدایت دیتا، یا پھر اگر یہ تنازع کا باعث ہے تو میں وہاں مندر مسجد کے بجائے اسکول کالج یا ہاسپٹل بنانے کی ہدایت دیتا۔ کہیں اور مندرمسجد بھی بنانے کو کہتا۔ انہوں نے کہا کہ ، یہ زمین ہندوؤں کو نہیں دی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ،بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی بھی مسجد کو توڑ سکتے ہیں ،وہ آج کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ ان کو حکومت کی حمایت پہلے سے حاصل ہےاب ان کو عدلیہ سے بھی حمایت مل رہی ہے۔ جسٹس گانگولی نے کہا ، میں بہت پریشان ہوں ، اکثر لوگ اس معاملے میں صاف گوئی سے کام نہیں لینا چاہ رہے۔
بتادیں کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج اشوک کمار گانگولی مغربی بنگال ہیومن رائٹس کمیشن کےصدربھی رہ چکے ہیں۔
غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کرتے ہوئے متنازعہ مقام پر مسلم فریق کا دعویٰ خارج کر دیا ہے۔ رام جنم بھومی ٹرسٹ کو 2.77 ایکڑ زمین کا مالکانہ حق دیا جائےگا۔سپریم کورٹ کےذریعےزمین ہندوفریق کو دینے کے فیصلے کے بعد معاملے کے مسلم فریق سنی وقف بورڈ کے وکیل آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکے ممبرظفریاب جیلانی نے کہا کہ وہ اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں، لیکن وہ اس کا احترام کرتے ہیں۔
اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی ہےکہ وہ ایودھیا میں مسجد کے لیے کسی اہم مقام پر پانچ ایکڑ زمین دے۔ یہ زمین سنی وقف بورڈ کو دی جائےگی۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ نےمرکزی حکومت کو مندرکی تعمیر کے لیے تین مہینے میں منصوبہ تیار کرنے اور ٹرسٹ بنانے کی ہدایت دی ہے۔