اسدالدین اویسی نے کہا کہ جب سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں کہتا ہے کہ 1949 میں مورتیاں رکھ دی گئیں۔6 دسمبر کو مسجد کا ڈھانچہ گرائے جانے کو وہ جرم قرار دیتا ہے۔ 1934 میں ہوئے فسادات کو جرم بتاتا ہے۔تو یہ جگہ ہندوؤں کو کیسے مل سکتی ہے؟
نئی دہلی: لوک سبھا ایم پی اور اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی نے ایودھیا معاملے پر ریویو پیٹیشن ڈالنے کو لے کر کہا کہ آئین ان کو اس بات کا حق دیتا ہے اس لیے ریویو پیٹیشن ڈالی جا رہی ہے۔سبری مالا معاملے میں بھی دالی گئی تھی۔
این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘جب سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں کہتا ہے کہ 1949 میں مورتیاں رکھ دی گئیں۔6 دسمبر کو مسجد کا ڈھانچہ گرائے جانے کو وہ جرم قرار دیتا ہے۔ 1934 میں ہوئے فسادات کو جرم بتاتا ہے۔تو یہ جگہ ہندوؤں کو کیسے مل سکتی ہے؟’
انھوں نے کہا کہ بی جے پی آر ایس ایس خود بابر کے وقت کو فرقہ وارانہ طور پر بے حد ظالمانہ مانتے ہیں ۔ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ وہاں مسجد میں نماز کی اجازت نہیں دی گئی ہوگی۔انھوں نے کہاکہ مجھے یقین ہے کہ راجیو دھون اس معاملے کو مضبوطی سے سپریم کورٹ کے سامنے رکھیں گے۔
اویسی نے کہا کہ 5 ایکڑ دے دینا فیصلہ نہیں ہے۔مسلمان بھلے ہی غریب ہو لیکن اتنا کمزور نہیں کہ 5 ایکڑ زمین نہ ملے تو مسجد نہیں بنا سکتا۔انھوں نے کہا کہ ابھی اگر میں بہار کے سب سے پچھڑے علاقے سیمانچل میں جاکر بھیک مانگوں گا تو 2 گھنٹے میں پیسے مل جائیں گے اور مسجد بنا لوں گا۔اویسی نے کہا کہ میری لڑائی 5 ایکڑ کی لرائی نہیں تھی، میری لڑائی میری مسجد کی لڑائی تھی۔
اس سے پہلے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین(اے آئی ایم آئی ایم)رہنما
اسدالدین اویسی نے ایودھیا معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کوحقائق پر عقیدے کی جیت قرار دیا تھا۔ اویسی نے عدالت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں۔انھوں نے کہا تھا،’میں اس فیصلے پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی بات کی حمایت کرتا ہوں۔ ہم انصاف اور اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہے تھے، ہمیں خیرات میں ملی پانچ ایکڑ زمین کی ضرورت نہیں۔ مسجد کو لےکر کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جائےگا۔’
بتا دیں کہ آئینی بنچ نے ایودھیا میں 2.77 ایکڑ کی متنازعہ زمین سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑا اور رام للا وراجمان کےدرمیان برابر برابر بانٹنے کے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ستمبر، 2010 کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں پر گزشتہ 9 نومبر کواپنا متفقہ فیصلہ سنایا تھا۔ اس معاملے 40 دنوں تک عدالت میں چلی بحث میں دھون نے مسلم فریقوں کی پیروی کی تھی۔9 نومبر کوکورٹ نےبابری مسجد-رام جنم بھومی زمینی تنازعے پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ زمین پرمسلم فریق کا دعویٰ خارج کرتے ہوئے
ہندو فریق کو زمین دینے کو کہا ہے۔
ایک صدی سے زیادہ پرانے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ رام جنم بھومی ٹرسٹ کو 2.77 ایکڑ زمین کامالکانہ حق ملےگا۔ وہیں، سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی پانچ ایکڑ زمین دی جائےگی۔ مندر تعمیر کے لئے مرکزی حکومت کو تین مہینے کے اندر ٹرسٹ بنانا ہوگا اوراس ٹرسٹ میں نرموہی اکھاڑا کا ایک ممبر شامل ہوگا۔ عدالت نے کہا کہ متنازعہ2.77 ایکڑ زمین اب مرکزی حکومت کے ریسیور کے پاس رہےگی،جو اس کو حکومت کے ذریعے بنائے جانے والے ٹرسٹ کو سونپےگی۔