خود نوشت: میں شاید ژاں پال سارتر کی طرح موت کو عظمت کا کفن نہ دے سکوں مگر میں اُس کی طرح یہ جان گیا ہوں کہ میرے پاس کچھ زیادہ برس باقی نہیں ہیں۔ بڑھاپا میرے وجود کے اندر نقب لگا کر داخل ہو چکا اور الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود میں موت سے خوف زدہ نہیں ہوں۔ جب وہ مجھے لینے آئے گی تو یہ ایک فطری عمل ہو گا جس کے سامنے مجھے سرِتسلیم خم کرنا ہو گا۔
محمد حمید شاہد23 مارچ 1957ء کو ضلع کیمبل پور / اٹک کے شہر پنڈی گھیب میں معروف سیاسی اور سماجی شخصیت غلام محمد کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے شہر کے تعلیمی اداروں میں حاصل کی۔ گورنمنٹ ہائی سکول پنڈی گھیب سے میٹرک کے بعد زرعی یونیورسٹی لائل پور / فیصل آباد میں داخلہ لیا۔ یونیورسٹی ہی سے ایف ایس سی کے بعد بقول سیّد ضمیر جعفری زراعت اور بستانیت کے فاضل ہوئے۔ طالبِ علمی کے زمانے سے ادبی اور تصنیفی زندگی کا آغاز ہو چکا تھا۔
یونیورسٹی میگزین ”کشتِ نو“ کے مدیرِ اعلیٰ رہے۔ اسی زمانے میں اوّـل اوّل انشائیے، نثمیں اور پہلی کتاب ”پیکر جمیلؐ“ لکھی اور افسانہ نگاری کی طرف متوجہ ہو گئے۔ 1983ء میں بطور بینکار عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مختلف مناصب پر اور مختلف شعبہ جات میں مجموعی طور پر 34 سال خدمات سر انجام دیں۔ زرعی ترقیاتی بینک ہیڈ آفس اسلام آباد سے خدمات کے اعتراف اور اعزاز کے ساتھ 22 مارچ 2017ء کو بطور وائس پریذیڈنٹ ریٹائر ہوئے۔
بعد ازاں ایک مالیاتی ادارے کے بورڈ میں کچھ عرصہ کے لیے بطور ڈائریکٹر منسلک رہے۔ وہ زرعی ترقیاتی بینک کے سٹاف کالج میں تین دہائیوں سے مستقل لیکچرز دیتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاری ہے۔ محمد حمید شاہد نے بطور افسانہ نگار اپنے پہلے مجموعے ”بند آنکھوں سے پرے“ سے شناخت بنالی تھی۔ ”جنم جہنم“، ”مرگ زار“، ”آدمی“، ”سانس لینے میں درد ہوتا ہے“ اور ”گندم کی مہک“ اُن کے دیگر افسانوں کے مجموعے ہیں۔ ”مٹّی آدم کھاتی ہے“ اور ”جنگ میں محبت کی تصویر نہیں بنتی“ اُن کے ناول ہیں۔
ان کے افسانوں کے کئی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ انھوں نے ادبی تنقید میں بھی اپنا الگ سے مقام بنایا ہے جس کا اعتراف ادبی حلقوں میں ہوا ہے۔ ان کی تنقیدی کتب میں ”ادبی تنازعات“، ”اُردو افسانہ؛ صورت و معنٰی“، ”اُردو فکشن نئے مباحث“، ”کہانی اور یوسا سے معاملہ“، ”راشد، میراجی، فیض: نایاب ہیں ہم“، ”منٹو: آج بھی زندہ ہے“ اور دوسری کتب شامل ہیں۔ انھوں نے خدائے سخن میر تقی میر کی غزلیات کا تاریخی انتخاب کیا جو ان کے مبسوط مقدمے کے ساتھ ”انتخاب غزلیاتِ میر“ کے نام سے 2021ء میں شائع ہوا۔
محمد حمید شاہد نے ملک میں اور ملک سے باہر متعدد بین الاقومی ادبی کانفرنسوں میں شرکت کی اور مقالات پیش کیے۔ ملک کی متعدد یونیورسٹیوں میں اُن کے فن اور شخصیت پر ڈیڑھ درجن سے زائد مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ 2016ء اور 2017ء میں بالترتیب ان کی تنقیدی کتاب اور افسانوں کے مجموعے کو یو بی ایل لٹریری ایکسی لینس ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ 2017ء میں افسانوں کے مجموعے ”دہشت میں محبت“ کو یہ ایوارڈ ملا۔ 2017ء ہی میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں صدرِ پاکستان نے انھیں تمغۂ امتیاز دیا۔
محمد حمید شاہد کی تازہ ترین تصنیف ان کی خود نوشت ”خوشبو کی دیوار کے پیچھے“ ہے جو ان کی زندگی کی کہانی کے علاوہ ایک عہد کی علمی، اَدبی اور سیاسی دستاویز بھی ہو گئی ہے۔
فلیپ، خوشبو کی دیوار کے پیچھے
ابتدائیہ
بول مٹّی دیا باویا!
کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ زندگی ایک سسکی سے شروع ہوتی ہے اور ہچکی پر تمام ہو جاتی ہے مگر کس کی سسکی؛ عورت کی؟ اور کب کی ہچکی؛ دمِ واپسیں پر؟ زندگی کو آغاز دینے والی سسکیاں تو لذت کے لمحے نگل جاتے ہیں گویا یہ اس سطح کا وجودی تجربہ نہ ہوا جو زندگی کی تفہیم ہو سکے۔ رہا آخری ہچکی کا تجربہ، یہ یقینی سہی مگر اس کا ذائقہ جو بھی چکھ لیتا ہے وہ اس کی بابت کچھ بتانے کے لائق ہی کہاں رہتا ہے؟
اور ہاں یہ جو سسکی اور ہچکی کے بیچ سوتے جاگتے میں گزر گئی؛ سوتے میں زیادہ، جاگتے میں کم، اگر یہ زندگی نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟
جو جاگ کر گزاری، مان لیا کہ وہ زندگی ہے مگر وہ جو خوابیدہ گزر گئی کیا وہ بھی زندگی ہے؟
اچھا، اس جاگ جاگ کر گزاری گئی زندگی کا معاملہ بھی کچھ ٹیڑھا ہے کہ اس کا بہت سا حصہ میری یادداشت سے منہا ہو گیا ہے؛ کہہ لیجیے یہ والا حصہ تو موت جیسا ہوا۔ تب نہیں جب یہ مجھ پر گزر رہا تھا بلکہ اب، کہ جب میں اسے اپنی یادداشت کی پوٹلی ٹٹول کر تلاش کر رہا ہوں اور یہ کہیں نہیں ہے۔
میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو لگتا ہے جیسے عمر کا غالب حصہ میری یادداشت کی تختی سے مِٹ چکا ہے۔ گویا وہ ایسی زندگی تھی جو مجھ پر گزری ہو گی، یقیناً گزری ہو گی مگر وہ میری نہیں تھی۔ اس دولت کی طرح جو آپ نے کمائی، مگر اس سے پہلے کہ وہ آپ کے تصرف میں آتی آپ کے ہاتھ سے نکل گئی۔
یہ بھی نہیں، وہ بھی نہیں؛ تو پھر باقی بچا کیا؟ اور ہاں جو بچ گیا ہے کیا اُسے یقین کے ساتھ زندگی کہا بھی جا سکتا ہے؟
یقین کے ساتھ اگر کسی کی بابت بات کی جا سکتی ہے تو وہ موت ہے۔
جی، موت کو آمنے سامنے رکھے بغیر زندگی کو ڈھنگ سے سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔
”موت زندگی ہے اور زندگی موت۔“
یہ ہرمن ہیسے نے اپنے ایک افسانے میں کہا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا؛
”موت اور زندگی ایک دوسرے کی چاہت کی لافانی اور بےرحم جدوجہد میں اس طرح گندھی ہوئی ہیں کہ انھیں حرفِ آخر کہا جا سکتا ہے اور فی الاصل دُنیا کا مفہوم یہی ہے۔“
دُنیا کا مفہوم بھی اور ہمارے اپنے ہونے کا مفہوم بھی۔ موت اور زندگی خالی خولی دو لفظ نہیں، ایسی جڑواں بہنیں ہیں جن کے ہاتھوں میں کائنات کی معنویت سے بھرے ہوئے جام چھلک رہے ہیں۔ ہم چاہیں نہ چاہیں اپنے وجود کی تشنگی انہی سے بجھانے کو مجبور ہیں۔
زندگی کو میں نے ہمیشہ موت کے مقابل رکھ کر دیکھا ہے۔ اس کی اگر کوئی معنویت ہے یا قائم ہو سکتی ہے تو اسے الگ سے دیکھنے میں نہیں موت جیسی تلخ اور یقینی حقیقت کے ساتھ دیکھنے ہی سے ممکن ہے۔ میں شاید ژاں پال سارتر کی طرح موت کو عظمت کا کفن نہ دے سکوں مگر میں اُس کی طرح یہ جان گیا ہوں کہ میرے پاس کچھ زیادہ برس باقی نہیں ہیں۔ بڑھاپا میرے وجود کے اندر نقب لگا کر داخل ہو چکا اور الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود میں موت سے خوف زدہ نہیں ہوں۔ جب وہ مجھے لینے آئے گی تو یہ ایک فطری عمل ہو گا جس کے سامنے مجھے سرِتسلیم خم کرنا ہو گا۔
میں ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نے زندگی اور موت دونوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے؛ کہہ لیجیے چھو کر، اس کے ذائقے کو چکھ کر، اس سے بغل گیر ہو کر اور موت کا معاملہ یہ ہے کہ یہ تو میرے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی رہی ہے۔ بائی پاس سرجری کے مراحل سے پہلے ایک دو بار، اور اِس دوران بھی کچھ یوں ہوا کہ میں تھا اور نہیں تھا۔ پھر جب ہوش آیا تو فراق کا کہا یاد آیا:
کیا جانیے موت پہلے کیا تھی
اب میری حیات ہو گئی ہے
میں نے اپنے والد صاحب کے بدن سے اُن کی روح کو یوں نکلتے ہوئے محسوس کیا تھا جیسے میرے اپنے بدن سے روح نکل رہی ہو۔ پھر چھوٹے بھائی کی لاش کے ٹکڑے دیکھے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں اپنے دوستوں کو گولیوں سے چھلنی ہوتے اور انھیں لاشیں ہوتے دیکھا اور میری باجی جو ٹھیک ٹھاک میرے ہاں آئی تھیں، ہسپتال داخل ہوئیں تو ان کے اپنے گھر میت گئی تھی۔ ہسپتال میں اس خوبصورت اور جواں سال لڑکی کا مرنا تو میں بھول ہی نہیں پاؤں گا؛ جی، زندگی بھر بھول نہیں پاؤں گا جو میرے ساتھ اس ہسپتال میں داخل ہوئی تھی جہاں میں اپنی گردے کی پتّھری نکلوانے گیا تھا۔
نہیں، اصل واقعہ یہ ہے کہ ہم بے شک ایک روز ہسپتال پہنچے تھے، مگر وہ میرے ساتھ نہیں، اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ داخل ہوئی تھی۔ ایک خوبصورت جواں سال لڑکی جس نے اپنا گردہ اپنے باپ کو دینے کا فیصلہ کیا تھا کہ اس کا بوڑھا باپ مر رہا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ باپ بیٹی کا گردہ پا کر ٹھیک ہو گیا اور بیٹی مر گئی تھی۔ جسے زندہ رہنا تھا وہ مر گئی اور جو مر رہا تھا وہ زندہ رہا۔ تو یوں ہے کہ موت اور زندگی کی یہی کہانی ہے۔
زندگی جس کی حفاظت موت کرتی ہے؛ ایک خاص لمحے کے آنے تک۔ زندگی کاغذ کے ایک ٹکڑے کی طرح ہے جس کے دوسری طرف موت لکھا ہوا ہے۔ زندگی ختم ہوتی ہے تو موت کا خوف بھی ختم ہو جاتا ہے۔ موت کو موت آتی تو اسے موت کا خوف ہوتا۔ آپ کاغذ کے ایک ٹکڑے کو چاک کرتے ہیں تو اس کے دونوں رُخ چاک ہو جاتے ہیں۔ وہ رُخ جس پر زندگی لکھا ہوا ہے اور وہ رُخ بھی جس پر موت لکھا ہے۔
خیر، جو میں نے کہا یہی زندگی کو سمجھنے کا قرینہ نہیں ہے۔ یہ تو بس ایک زاویہ ہے۔ انسان بہت خوبصورت اور حیران کن تخلیقی وجود ہے؛ اس نے موت کو غچہ دے کر اپنی طبعی زندگی سے زیادہ جینے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ دیکھا جائے تو اصل انسانی جوہر ہی یہی ہے۔ جی، ایسی تخلیقی قوتوں کا اظہار جو اس دُنیا میں انسان ہی کو ودیعت ہوئی ہیں اور اسی وسیلے سے وہ نباتات اور حیوانات کی طرح ختم ہونے والی زندگی سے اپنی زندگی کو مختلف کر سکتا ہے۔ اس نے اپنی زندگی کو اسی وسیلے سے مختلف کیا بھی ہے۔ میرا اور آپ کا معاملہ اسی زندگی سے ہے۔ اس زندگی کی کئی جہتیں اور کئی پرتیں ہیں۔
یہیں مجھے وہ مثال یاد آتی ہے جو ٹالسٹائی نے، اگر میں بھول نہیں رہا تو، اپنے معروف ناول ”جنگ اور امن“ میں دی تھی۔ اس کا کہنا کچھ یوں تھا کہ جب پھولوں پر منڈلانے والی شہد کی مکھی کسی بچّے کو ڈنک مارتی ہے تو اس بچّے کے نزدیک اس مکھی کا کام یہی ڈنک مارنا ہے۔ ایک شاعر پھولوں کا رَس پیتے اُس مکھی کو دیکھتا ہے تو اُسے اپنے شعر کا موضوع سوجھتا ہے۔ مکھیوں کو پالنے والے کے لیے اس کا کام بس شہد اکٹھا کرنا ہے۔ وہیں موجود ایک اور شخص کے لیے مکھیوں کا کام اپنے بچوں کے لیے غذا کا اہتمام کرنا اور ملکہ مکھی کو تروتازہ اور توانا رکھنا ہے۔
آپ جانتے ہی ہیں کہ میں نے ایگریکلچر کی تعلیم پا رکھی ہے اور ہم نے پڑھا ہے کہ یہ شہد کی مکھی زرگل ایک پھول سے دوسرے پھول تک پہنچاتی ہے؛ جی نر پھول سے مادہ پھول کے بقچہ تک کہ اسے بار آور کرے۔ تو یوں ہے کہ ایک زرعی ماہر کے نزدیک اس مکھی کا یہی کام ہے۔ یہ زندگی بھی کچھ ایسی ہی ہے؛ یگانہ کے لفظوں میں ”جیسی جس کے گمان میں آئی۔“ یگانہ نے یہ بات علم اور علم کی حقیقت کے بارے میں کہی تھی۔ ایک سطح پر جا کر علم اور زندگی میں کوئی تفریق نہیں رہتی اس لیے یہی بات زندگی اور اس کی حقیقت پر بھی منطبق بیٹھتی ہے۔
موت انجام زندگی ہے مگر
لوگ مرتے ہیں زندگی کے لیے
میں نہیں جانتا یہ کس کا شعر ہے، مگر یہاں مجھے یوں یاد آیا کہ جس زندگی کے لیے ہم مر رہے ہوتے ہیں وہ ہمارے بس میں ہوتی ہی کہاں ہے؟ اسے تو مقدّر کے جنم استھان سے نکلنا اور اِسی کی بھول بھلیوں میں سے ہو کر گزرنا ہوتا ہے۔ یہ تقدیر کا لکھا ہوتا ہے کہ کوئی کس کے ہاں جنم لے۔ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہو یا غربت کی گدڑی میں۔ گورا چٹا ہو یا کالا کلوٹا۔ زمانہ کون سا ہو اور کس کی حکمرانی۔ ایمان والی کی گود میں پلے یا کافر کی۔ قاتل، ڈاکو، چور بھی والدین بن جاتے ہیں اور صوفی، سنت فقیر بھی۔
کسی کی پیدائش دو دِلوں کے بیچ محبّت کی عطا ہو سکتی ہے اور کسی کی لذت بھرے گناہ کا شاخسانہ۔ کوئی اپنے صحیح سالم اعضا اور چوکس حسیات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور کوئی معذور اور بے بس۔ کہہ لیجیے، تقدیر کا یہ جبر وہ آنول نال ہے جس سے ہر پیدا ہونے والا وجود ابتدائی زندگی کا رزق پاتا ہے۔ یہ آنول نال اگرچہ پیدا ہوتے ہی وجود سے الگ کر کے زمین میں گاڑ دِی جاتی ہے مگر بسا اوقات یوں ہوتا ہے کہ ہمارے زمین کا رزق ہونے تک نادیدہ ریشوں کے ساتھ وہ اسی وجود سے منسلک رہتی ہے۔ کوئی لاکھ جتن کرے اس مدار سے نکل ہی نہیں پاتا جس میں اس نے جنم لیا ہوتا ہے۔
میں نے اگر پنجاب کے قدیم شہر پنڈی گھیب کے محلہ ملکاں کے ایک گھر میں دو محبّت کرنے والے وجودوں کے ہاں جنم لیا تو اس میں میرا کوئی کمال نہ تھا۔ قدرت مجھ پر مہربان تھی۔ یہ الگ بات کہ بعد میں آنے والے ہر لمحے نے میری زندگی کو ایسا مکتب بنا دِیا تھا جہاں سے ہر بار نیا سبق ملتا رہا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں نے اوروں کی زندگیوں سے کچھ نہیں سیکھا، بہت کچھ سیکھا ہے مگر سیکھنے کے اس عمل میں میری اپنی زندگی کی عطا ایسی ہے کہ اس میں کچھ نہ کچھ ایزاد کر کے اسے مختلف کرتی رہی ہے۔ بالکل یوں جیسے ہر حاملہ بچہ پیدا کرنے کے لگ بھگ ایک سے تجربے سے گزرتی ہے مگر پیدا ہونے والا بچہ ہر بار مختلف اور منفرد شناخت پاتا ہے۔
درست نا درست یہی وہ احساس تھا جس نے مجھے مڑ کر عقب میں دیکھنے اور اس سے پہلے کہ سب کچھ طاقِ نسیاں کی نذر ہو جائے اُسے لکھ لینے پر مائل کیا اور جب لکھنے بیٹھا تو اندازہ ہوا کہ میری زندگی کے ساتھ کئی اور زندگیاں جڑی ہوئی ہیں، بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ میں کئی اور زندگیوں سے توانائی پاتا رہا ہوں۔ اُس آکاس بیل کی طرح جس کی اپنی کوئی جڑ نہیں ہوتی۔ ہمارے پیارے دوست اور ایک بڑے مصنّف عرفان جاوید نے اس مقام پر پہنچ کر میری گرفت کی اور کہا تھا:
”یہاں آکاس بیل کی مثال دینے میں آپ سے چُوک ہوئی، ہماری اپنی جبلت بھی تو ہے جو ہمیں دوسروں سے مختلف کرتی ہے؛ یہی انسانی جبلت ہر انسان کی جڑ ہے جہاں سے وہ غذا پاتا اور اپنے وجود کو الگ سے قیام اور استحکام دیتا ہے۔“
بات اُن کی معقول تھی۔ دِل کو لگی بھی۔ مگر پھر مجھے اِس خیال نے آگھیرا تھا کہ یہ جبلت بھی تو کسی کی عطا ہے؛ اپنی ہے مگر اپنی نہیں۔ وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا؛
ایک مصرع ہے زندگی میری
آپ چاہیں تو شعر ہو جائے
میری حیات بھی سسکی اور ہچکی کے بیچ ایک مصرع رہ جاتی اگر مجھ پر خاص عطا نہ ہوتی اور مجھے وہ سب مہربان نہ ملتے جنھوں نے میری زندگی کو شعر کی طرح حسین اور بامعنی بنا دیا ہے۔ اپنے والدین، اپنے بہن بھائیوں، اپنے بیوی بچوں، عزیز و اقارب، اساتذہ اور دوست احباب، سب کا شکریہ کہ زندگی کی جتنی بھی معنویت مجھے عطا ہوئی ہے اس میں ان سب کا کچھ نہ کچھ حصہ شامل رہا ہے۔
کتاب مکمل ہو چکی تھی کہ عرفان جاوید ملنے تشریف لائے۔ آپ بیتی کا ذکر چل نکلا تو کہنے لگے میں کتاب کی اشاعت سے پہلے اس کا قاری بننا چاہوں گا۔ یہ میرے لیے بہت اچھا ہوا۔ انھوں نے حرف حرف پڑھا، کچھ مشورے بھی دیے۔ ایسے پُرخلوص دوست کا شکریہ ادا کرنا مجھ پر واجب ہو گیا ہے۔
شاید عرفان جاوید ہی سے اَمر شاہد کو کتاب کی تکمیل کی خبر ملی تھی، وہ تشریف لائے اور کہا کہ اِسے ”بک کارنر“ چھاپے گا۔ جب کوئی اتنی محبّت سے کہے گا تو آپ کچھ اور کیسے سوچیں گے۔ اِس ادارے نے جس محبّت سے اِسے شائع کیا ہے میں دل کی گہرائیوں سے اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔