حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ میں نہیں جانتا تھا کہ جس چھوٹے بھائی کا نام میں نے اپنے نام کا حصہ بنایا تھا ، ایسے وقت نے آنا تھا کہ وہ نہیں رہے گا۔مجھے اس کے بدن کے لوتھڑے اپنی آنکھوں سے دیکھنے تھے ۔ اس کا جنازہ پڑھنا تھا مگر اس کی تدفین میں شرکت سے معذور رہنا تھا ۔مجھے نہیں معلوم اس کی قبر کہاں ہے مگر یوں لگتا ہے وہ میرے وجود کے اندر ہی کہیں ہے۔ میں جب جب اسے یاد کرتا ہوں بے اختیار میرے آنسو بہہ نکلتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ مجھے اپنے نام کے اس حصے سے بھی محبت ہو گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:محمد حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘ کا ابتدائیہ
میرا نام جو اباجان کی ڈائری میں پیدائش والے اندراجات کے صفحے پر درج تھا وہ ‘ محمد حمید’ تھا ۔ پرائمری اسکول میں داخلے کے وقت بھی یہی نام لکھوایا گیا مگر میں نے بعد ازاں ‘شاہد ‘ کا اضافہ خود کر لیا تھا۔ میٹرک کا زمانہ تھا اور جو استاد مکرم ہم سے امتحان کے لیے بورڈ کا فارم پُر کرارہے تھے، اُن کی طرف سے اجازت بھی مل چکی تھی کہ جو کوئی اپنے نام کے ساتھ کچھ لگانا چاہے لگالے۔ یہیں بتاتا چلوں کہ سال ڈیڑھ سال سے مجھے اپنے نام کے باب میں ایک اُلجھن سی ہو چلی تھی کہ شایدیہ مناسب نہ تھا۔ اُن دنوں میں لفظوں کے لغوی معنوں سے چھری کٹاری کرنے لگا تھا۔ خیال گزرتا عبدالحمید نام ہوتا تواچھا ہوتا مگر اس طرح میرے نام کا آغاز بھائیوں کے نام سے مختلف ہو جاتااور ایسا مجھے قبول نہیں تھا۔ اپنے نام پر غور کرنے کا سلسلہ رُکا نہیں ۔ مجھے اپنے نام کا پہلا حصہ محض اسم صفت نہ لگتاتھا جناب رسالت مآب ﷺ کا اسم پاک لگتا تھا۔ نام کا یہ حصہ دوسرے حصے سے جڑنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے ہر کہیں سے نبی پاک ﷺ پر درود بھیجا جا رہا ہو۔لیکن جب سے مجھے پتہ چلا تھا کہ ‘ حمید’ خدا وند کریم کے صفاتی ناموں میں سے ایک ہے،میں اپنے دو لفظی نام کا عجیب و غریب خاکہ بناتا رہتا۔ نہ جانے کیوں میں اِن دوالفاظ کو محض نام کے طور پر قبول کرتے ہوئے خود کو گناہ گار اور بے ادبی کا مرتکب سمجھنے لگا تھا۔ میٹرک کے امتحان کے لیے داخلے کا فارم بھرتے ہوئے اِس اُلجھن سے نکلنے کی صورت یوں نکلی کہ میں نے اپنے نام کے ساتھ ‘شاہد ‘ کا اضافہ کر لیا۔ میرے چھوٹے بھائی کا نام محمدشاہد تھامگر نہ جانے کیوں مجھے یہ احساس ہو چلا تھا کہ ‘شاہد ‘ ہی وہ لفظ ہے جو میرے نام کے ساتھ جڑ کر اسےایسے معنی عطا کر سکتا تھا جو مجھے مطمئن کر سکیں۔ اپنے نام کے بعد بار بار میں نے ‘شاہد ‘ لکھ کر دیکھا ہر بار مجھے یوں لگتا جیسے آسمان کی وسعتوں سے میرے آقا ﷺ پردرود و سلام بھیجا جارہا ہو۔ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ۔ اور میں دور کہیں زمین کے الگ تھلگ ٹکڑے پر مؤدب کھڑا سارے نورانی اور پرجمال منظر کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں آٹھویں یانویں درجے میں تھا کہ ان دنوں ختم نبوت تحریک کے حوالے سے اخبارات میں تین علماء کا بہت ذِکر ہورہاتھا؛ سید مودودی، مولانا مفتی محمود اور شاہ احمد نورانی۔
یہ بھی پڑھیں:سبت کا دِن
اباجان کے یہاں جو مختلف جرائد آتے رہتے تھے ان میں مجھے اِن تینوں کے پتے مل گئے میں نے اپنے نام والی اُلجھن کے بارے میں استفسار پر مشتمل ایک خط تیار کیا اور تینوں کو الگ الگ بھیج دِیا۔ مجھے صرف سید مودودی کی طرف سے خط کا جواب ملا تھا ۔ اُن کے خط میں مجھے مطمئن کرنے کے لیے بڑی دلیل سے بات کی گئی تھی مگر میری اُلجھن رفع نہ ہوئی ۔ ستم یہ ہوا کہ میں وہ خط پاکرایک اور اُلجھن میں گرفتار ہو گیا تھا۔ ہوا یوں کہ مودودی صاحب نے اُردو ٹائپ کی عبارت کے آخر میں والسلام کے بعد اپنے قلم سے اپنا نام ‘ابوالاعلیٰ’ لکھا تھا۔ میری الجھن یہ تھی کہ یہ نام درست کیسے ہو سکتاتھا جب کہ اعلیٰ ذات تو بس ایک ہی تھی۔ میں جب جب سجدے میں جاتا تھا یہی تو دہراتا آیاتھا: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ جس چھوٹے بھائی کا نام میں نے اپنے نام کا حصہ بنایا تھا ، ایسے وقت نے آنا تھا کہ وہ نہیں رہے گا۔مجھے اس کے بدن کے لوتھڑے اپنی آنکھوں سے دیکھنے تھے ۔ اس کا جنازہ پڑھنا تھا مگر اس کی تدفین میں شرکت سے معذور رہنا تھا ۔مجھے نہیں معلوم اس کی قبر کہاں ہے مگر یوں لگتا ہے وہ میرے وجود کے اندر ہی کہیں ہے۔ میں جب جب اسے یاد کرتا ہوں بے اختیار میرے آنسو بہہ نکلتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ مجھے اپنے نام کے اس حصے سے بھی محبت ہو گئی ہے۔