حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے مقتبس؛ کربلا والوں کے دُکھ میں شامل ہونا ہماری تہذیب کا لازمی جزو تھا۔سوگ کی اس تہذیب کے اپنے تقاضے تھے۔ میں نے تو اپنے شہر کے غیر مسلموں کو بھی اس سوگ کا حصہ بنتے دیکھا تھا۔تب ہمارے دِل نرم تھے۔عزادار جہاں سے گزرتے انہیں احترام دِیا جاتا۔
تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک
زنجیر زَن پیرو
ابھی تک پیرو کا چہرہ میری نظروں کے سامنےگھوم رہا ہے۔ وہ زنجیر کاایسا گچھا لے کر محرم کے جلوس میں حلقہ بنائےماتمی حضرات کے وسط میں کھڑا ہو جاتاتھاجس کی ہر لڑی کے آگے تیز دھاربڑا سا پترا ہوتا۔ زنجیر سے ماتم کرنے والے بالعموم ایک بازو اُٹھا کر دوسرے ہاتھ میں تھامی زنجیر کو گھماتے ہوئے اپنی پشت یا سینے پر وار کرتے تھے۔
مگر پیرو کا انداز جدا گانہ تھا۔
جو ماتمی حضرات اپنے کالے کرتے اُتار کر اپنی ننگی پیٹھ پر ضربات لگاتے اُن کے زخموں سے لہو پھوٹ بہتا اورگاڑھی دھار بنا کر سفید شلواروں کے نیفوں سے ہوتا آسنوں تک کو سرخ کرتا رہتاتھا۔
پیرو دونوں ہاتھوں میں زنجیر تھام کر اپنے مُنڈھے ہوئے سرپر ضربات لگاتا تھا۔ لوگ اُسے یوں ماتم کرنے سے روکتے تو بھی اس کے ہاتھ رکتے نہ تھے۔
میں ابھی لڑکا ہی تھا کہ جب میں نے اُسے محرم کے جلوسوں میں پورے جوش و جذبے کے ساتھ زنجیر زنی کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ پھر میں شہر سے چلا گیا۔ نہ جانے مجھ تک یہ نادرست اطلاع کیسے پہنچی تھی کہ ایک زنجیر کا پترا اُس کے بھیجے میں کھب گیاتھا اور وہ مر گیا تھا۔
ایک تصویر ایک مدت تک میرے ذہن میں نقش رہی؛ سیاہ کرتوں اور سفید شلواروں میں ملبوس ماتمی حضرات کا حلقہ جن کاایک ہاتھ فضا میں اُٹھا ہوا اور دوسرا سینہ کوبی کو بڑھتا ہوا لگتا۔ جبکہ پیرو اس حلقے کے درمیان زنجیرکو یوں اچھال کر کھینچ چکا ہوتا کہ ایک پترا اس کی ننگی کھوپڑی میں دھنسا ہوتا۔
یہ تو اب کہیں جاکر سید اسد غازی کےبیٹے غضنفر شاہ ( جو میرے چھوٹے بھائی کا دوست رہا اور میرا ہم کار بھی) نے میری تصحیح کی ہے کہ پیرو یوں نہیں مرا تھا۔ وہ محرم میں ماتم کرتے ہوئے زخمی ہوتا تھا۔ ان زخموں سے اتنا نڈھا ل ہوتا کہ اُٹھنے کے قابل نہ رہتا مگر کچھ دِنوں بعد پھر جی اُٹھتا تھا۔ پیرو کی موت کا اُس نے مجھے جو سبب بتایا تھااسے محرم کے ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا تھا۔
محرم کا چاند نظر آتے ہی جیسے سارے شہر میں سوگ کی چادر بچھ جاتی تھی۔ کربلا والے تو یاد آتے ہی تھے ، لوگوں کو اپنے گزرے ہوئے پیارے بھی یاد آجاتے۔ قبرستان میں مردوں، عورتوں اور بچوں کی آرجار بڑھ جاتی ۔ قبروں کی صفائی اور مرمت جیسے مذہبی فریضہ ہوجاتا۔
میں ایسے میں قبرستان جاتا تو کہیں قبروں پر تازہ مٹی چڑھائی جارہی ہوتی، کہیں اُن پر چونا پھیرا جا رہا ہوتا، کوئی سپارہ لے کر قبر کے تعویز کے پاس بیٹھا ہوتا اور کوئی وہاں گڑگڑا کر مرنے والے کی بخشش کی دعاکر رہا ہوتا۔
محلہ ملکاں سےپرے،اگلے دو تین محلے چھوڑ کر ،مغرب کی سمت، بازار سے بھی آگے جہاں آبادی قدرے چھدری ہو جاتی تھی وہاں راستے کے دونوں طرف کھجوروں کے جھنڈ تھے۔
ہم قبرستان جانے سے پہلے وہاں جاتے اور کھجور کے لمبوترے نوک دارپتے توڑ لاتے۔ ان تازہ پتوں کو باہم بُن کر خوب صورت کھلونا نما ڈیزائن بنائے جاتے جنہیں قبرستان جاکر قبروں پر رکھ آتے تھے۔ یہ بھی اپنے رفتگاں سے محبت کا ایک قرینہ تھا کہ عورتیں اپنے پیاروں کی قبروں پر مسور کی دال اورگلاب کے پھولوں کی کلیاں بکھیرا کرتی تھیں ۔
کربلا والوں کے دُکھ میں شامل ہونا ہماری تہذیب کا لازمی جزو تھا۔ سوگ کی اس تہذیب کے اپنے تقاضے تھے اور ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے شیعہ سنی کی تفریق ضروری نہ تھی۔ میں نے تو اپنے شہر کے غیر مسلموں کو بھی اس سوگ کا حصہ بنتے دیکھا تھا۔ گلیوں بازاروں میں چلتے ہوئے اِحساس ہوتا تھا کہ محرم آچکا ہے۔
تب ابھی ٹیلی وژن نہیں آیا تھا ۔ ریڈیو پر محرم کے احترام میں موسیقی اور گانے بجانے کے پروگرام بند کر دِیے جاتے تھے۔ اس ماہ میں شادی بیاہ کی تقاریب منعقد کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ جہاں گھروں اور امام بارگاہوں سے مرثیوں، نوحوں اور سوز و سلام کی آوازیں سنائی دیتیں وہیں مساجد میں کربلا کے سانحے کا بیان بھی خطبات کا حصہ ہو جاتاتھا۔
تب ہمارے دِل نرم تھے۔عزادار جہاں سے گزرتے انہیں احترام دِیا جاتا۔ ابھی مسجدوں ، مندروں، امام بارگاہوں، مزاروں اور بازاروں کے خود کش دھماکوں میں اِنسانی وجود کے چیتھڑے اُڑنے کے مناظر ہماری نفسیات کا حصہ نہ ہوئے تھے ۔ ایسا تو بہت بعد میں ہونا تھا؛ نائن الیون کے بعد۔ ابھی ہم وقت کے اس دورانیے میں تھے کہ ایک بے گناہ قتل ہوتا تھا تو چاروں کھونٹ میں سنسنی دوڑ جاتی تھی۔ اُفق سرخ ہو جاتا اور لوگ سہم کر استغفار کرنے لگتے تھے کہ تب ایک بے گناہ کا قتل، انسانیت کا قتل ہوتا تھا اور لوگوں کو یقین ہوتا کہ یہ قبیح عمل قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک تھا۔
جامع مسجد شیعان میں مجالس ہوتیں تو شہر بھر کی بیبیاں جوق درجوق ہمارے گھر آتیں اور چھت پر مسجد کے صحن کی سمت والے جنگلے سے لگ کر بیٹھ جاتی تھیں۔ ہم نے اُن کے مجلس سننے کا اہتمام پہلے سے کر رکھا ہوتا تھا۔ گھر کی ساری کھاٹیں اوپر چھت پر چڑھا دیتے تھے۔ کم پڑتیں کو محلے بھر سے مانگ لایاکرتے۔ مجھے یاد ہے کھاٹیں ہم اُلٹی بچھایا کرتے تھے، یعنی پائے اوپر کو۔
پھر جب مجلس شروع ہو جاتی اور کر بلا والوں کے ذِکر پر اُلٹی پڑی کھاٹوں میں دھنسی ہوئی عورتوں کی سسکیاں سنائی دینے لگتیں تو ہم شربت کی بھری بالٹیاں لے کر بھاگتے ہوئے سیڑھیاں چڑھتے تھے۔ یہ شربت اماں نے کھانڈ گھول کر پہلے سے تیار رکھا ہوتاوہ اسے کربلا کے پیاسوں کے نام معنون کرتیں۔ ہم یہ شربت اُن بیبیوں کوکمہاروں کی آویوں میں پکے ہوئے پیالوں میں دیا کرتے جنھیں ہم ٹاسیں کہتے تھے۔ تب دُکھ سانجھے ہوتے تھے۔
دسویں محرم کو دو جلوس نکلا کرتے ۔ ایک پیر محمد شاہ کی رہائش سے جس میں شامل حسین ابن علی علیہ السلام کے روضہ مبارک کی شبیہ جیساسنہری تعزیہ ایک گونگا درزی بنایا کرتا تھا۔ اس درزی کی دکان مسجد شہداکے پاس ہی تھی۔ وہ سال بھر اِس کی تیاری کرتا رہتا۔ تعزیہ بردار نہایت خوب صورت اور اونچے تعزیے کو کندھوں پر اٹھا کر جلوس کے ساتھ چلتے تھے اور جہاں ماتمی حضرات رُک جاتے ، اس کے نیچے لکڑی کے سہارے رکھ لیے جاتے تھے۔
اس جلوس میں سید اسد غازی کے گھر سے ذوالجناح برآمد ہوکر شامل ہو جایاکرتا۔ذوالجناح کے بارے میں روایت ہے کہ یہ وہ گھوڑا تھا جو سانحہ کربلا کے دوران امام حسین علیہ السلام کی سواری بنا تھا۔ غازی صاحب کے ہاں سے برآمد ہونے والا ذوالجناح بہت خوب صورت تھا۔
یقیناً اس کی بہت خدمت کی جاتی ہوگی۔ اس کی جلدیوں چمک رہی ہوتی کہ نظر نہ ٹکتی تھی۔ اسے بڑی محبت سے سجایا جاتا۔ اس پر ڈالی گئی کاٹھی اور جسم پریہاں وہاں تیر اُڑسے ہوئے ہوتےاور یوں وہ کربلا میں امام عالی مقام کی علامتی سواری ہو کر جلوس کا حصہ ہوتا تھا۔ جلوس کے شرکا اسے عقیدت اسے چھوتے تھے۔
محرم کا دوسرا جلوس محلہ مولا سے موچیاں والی امام بارگاہ سے برآمد ہوکر چیف چوک سے ہوتے ہوئے ہروالہ کی طرف بڑھتاتھا۔ شاہ والے کھوہ پرجہاں مرکزی امام بارگاہ تھی، دونوں جلوس شام کے وقت بہم ہو جاتے تھے۔ان جلوسوں میں نام عباس اور دست پاک کے نقش سے مزین علم بھی ہوتے جنہیں اُٹھانے والے، اپنی اپنی کمر کے گرد پٹکا باندھ کراس میں بانس کا سرا ٹکا لیا کرتے تھے۔ دونوں جلوسوں میں خواتین بھی شریک ہوا کرتیں اور ہمیشہ جلوس کے آخر میں سوزخوانی کرتے ہوئے چلتی تھیں۔ شام غریباں کی مجلس مرکزی امام بارگاہ میں منعقد ہوا کرتی تھی۔
عاشورہ کے روز کربلا کے پیاسوں کی یاد میں گھروں کے باہر میٹھے پانی کی سبیلیں لگائی جاتیں اور نیاز پکوا کرتقسیم کی جاتی۔ میں نے کئی سنی گھرانوں کو دیگی پلاؤ کی نیاز پکوا کر عوام اور جلوس کے شرکا میں بانٹتے دیکھاتھا۔ یہ نیاز درود دِلوا کر ہمارے گھر سے بھی تقسیم ہوا کرتی تھی۔
ذوالجناح والے سید اسد غازی کے بیٹے نے بتایا تھا کہ محرم کے دِنوں میں اگرچہ پیروکربلا والوں کے غم میں ماتم کرکے نڈھال ہو جایا کرتا تھا مگرسال کے باقی گیارہ مہینوں میں مذہب یا اس کی رسومات سے کوسوں دور رہتاتھا۔عام دِنوں میں وہ چرس کے سوٹے لگاتااور کبھی یہاں اور کبھی وہاں پڑا ہوتا تھا۔ یہی چرس نوشی کی کثرت اُس کی موت کا سبب ہو گئی تھی۔
آدمی پوست کا ڈوڈا ہے
مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ پیرو چرس پینے کے سبب مرا ہوگا۔ اس الجھن سے نکلنے کے لیے میں نے اپنے ایک ڈاکٹر دوست سے پوچھا؛
‘کیا کوئی چرس پینے سے مر سکتا ہے؟’
اُس کا جواب ‘ہاں’ تھا اور’ نہیں’ بھی۔ ڈاکٹر کے مطابق چرس ایک نشہ تھا جس کا سرور کسی کو زندگی کی دوسری سرگرمیوں سے بےگانہ کر سکتاتھا۔ میں نے پوچھاتھا؛
‘اگر کوئی شخص اس نشے کو کثرت سے استعمال شروع کر دے تو؟’
‘وہ ہیلوسینیشنکا شکار ہوجائےگا۔ یہ اس کےسائیکو ایکٹوجزو ٹی ایچ ایس کے سبب ہوتاہے۔ اس میں سائیکوسسزکی بیماری ہو سکتی ہے، ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے، چرسی کا دِل شدت سے گھبرائے گا، وہ قے کرے گا، اُسے شدید بھوک لگے گی اور دیوانوں کی سی حرکات کرنے لگے گا۔تاہم چرسی عام طور پر اس نشے سے نہیں مرتا لیکن مرنے کے لیے دوسرے یقینی اسباب ضرور پیدا کر لیتا ہے۔’
ڈاکٹر کا جواب مفصل تھا اورسمجھ میں آنے والا۔
میں نے اپنے بچپن دیکھا تھا کہ بھنگ کے پودے کھیتوں کی منڈیروں پر مل جاتے تھے۔ انہی سے چرس بھی حاصل کی جاتی ۔ بھنگ گھوٹتے تو میں نے لوگوں کو دیکھا تھا مگر بھنگ کے خشک پتوں سے چرس بنانا شاید بہت مشکل اور وقت طلب تھا اس لیے وہ اس شہر کی افیون کی واحد دکان پر مل جاتی تھی۔ کئی افیمی /افیونی اور چرسی ، مرکزی بازار کے جنوبی سرے پر عقب میں موجود اس دکان کے باہر جھرمٹ کیے رکھتے تھے۔
والد صاحب نے ہمیں بازار کے اُس طرف جانے سے منع کر رکھا تھا تاہم اگر بہ امر مجبوری اُدھر سے ہو کر گزرناہوتا تو ہمیں کہا جاتا وہاں رُکے بغیر تیزی سے گزر جائیں ۔ مجھ پر اس ہدایت کا اُلٹا اثر ہوا اور اِشتیاق بڑھ گیا تھا کہ آخر اس دکان پر ایسی کیا شئے بکتی ہوگی جسے دیکھنے سے بھی منع کر دیا گیا تھا۔ اُس دکان کے اندر جس تھڑے پر دکاندار بیٹھاکرتا تھا وہ کوئی پانچ فٹ اونچا ہوگا۔
دکان کے پاس کھڑے ہو کرمجھے اندر کچھ نظرآیا تو میں نے گلی کی سامنے والی دیوار کے ساتھ لگ کر دور سے دکان کے اندر جھانکا۔ دکاندار کی پرلی طرف ایک پرات میں بہت گہرے رنگ کی چھوٹی روٹی کے برابر ٹکی پڑی تھی اور وہ اسی سے چاقو سے چھوٹاسا ٹکڑا کاٹ کر ترازو میں رکھ رہا تھا۔ وہ اسے تول چکا تو اخباری کا غذ میں لپٹ کرگاہک کے حوالے کر دیا ۔ مجھے یہ سب دیکھ کر بہت مایوس کن اور غیر دلچسپ لگا تھا ۔
یہ دکان وہاں بہت عرصہ رہی ۔ دکان بند ہو گئی تو بھی وہ ٹین کی پٹی دکان سے باہر دیوار میں نصب رہی جس پر نیلا رنگ کرکے سفید رنگ سے لکھا گیا تھا؛
‘یہاں اعلیٰ درجے کی افیون فروخت کی جاتی ہے۔’
ایک شام ہم اباجان کے پاس بیٹھے تھے ۔ امی جان ان کو دینے ایک دیسی دوا لائیں جو انہوں نے بادام، خشخاش اور کالپی مصری پیس کر بنائی تھی ۔ یہ نسخہ نہ جانے انہوں نے کہاں سے لیا تھا مگر اُن سے میں نے سنا تھا کہ دماغ کے لیے بہت مفید تھا۔ یہ دوا ہمیں بھی بہت پسند تھی لہٰذا جب موقع ملتا شیشی سے چٹکی بھر اڑا لیا کرتے تھے۔ اباجان نے دوا لی اور ہم سے پوچھنے لگے؛
‘آپ لوگ جانتے ہیں خشخاش کیسے حاصل ہوتی ہے؟’
ہم ایک دوسرے کا منھ دیکھنےلگے ۔ شاید ہم بھائیوں میں سے کوئی بھی نہ جانتا تھا۔ اباجان مسکرائے؛
‘پوست کے ڈوڈے سے۔’
ابا جان اس روز خوش گوار موڈ میں تھے ۔ کہنے لگے؛
‘یہ آدمی بھی پوست کا ڈوڈا ہے ۔ حلال حرام کا مجموعہ…خیر چھوڑیں یہ بات آپ کو سمجھ نہیں آئے گی۔’
اباجان کبھی کبھی ایسی بات کہہ جاتے تھے جو ہمیں سمجھ نہ آتی اور جونہی انہیں احساس ہوتا کہ بات مشکل ہو گئی ہے وہ درمیان میں چھوڑ کر کوئی اور بات شروع کر دیتے۔ اس روز انہوں نے کوئی اور بات شروع کرنے کی بہ جائے ہمیں پوست کے ڈوڈے کے بارے میں بتایا تھا؛
‘ڈوڈے سے دودھ نکلتاہے ۔جم جائے تو یہی افیون ہے۔ افیون نشہ ہے اور نشہ حرام۔ اسی ڈوڈے کے بیج خشخاش ہیں۔ خشخاش دوا ہے اور حلال ہے۔’
وہ پھر ہنسے؛
‘بس حلال اور حرام میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے۔’
میں نے گاؤں میں پوست کے پودے اور اُن پر زردی مائل بھورے ڈوڈے دِیکھ رکھے تھے ۔نیچے سے گول اور اوپر سے کنگرے دار۔ اُن پر خوب صورت پھول اُگتے تھے ۔ میں نے یہ بھی دیکھا تھا کہ وہاں یہ ڈوڈے گھروں میں عام استعمال میں تھے۔ مائیں اُن بچوں کو ڈوڈے کا چھوٹا سا خشک چھلکا پانی میں کاڑھ کر پلادیا کرتیں تھیں جو بلاسبب روتے رہتے یاجنہیں نیند نہ آتی تھی۔ کچھ بوڑھیاں پوست کے ڈوڈے کو شگاف لگا کر اس میں سے دودھ لے کر جمالیتی تھیں۔ دراصل یہی افیون تھی جو وہ باجرے کے دانے کے برابر لے کر اپنی بے خوابی کا علاج کر لیا کرتی تھیں۔
افیون کی دکان بند ہونے کا زمانہ ان برسوں کے قریب کا ہے جب صدر ایوب خان کے خلاف جلوس نکلنا شروع ہوگئے تھے۔ میں مڈل اسکول پہنچ چکا تھا اور ہم طالبعلموں کو ایک ایسی سرگرمی مل گئی تھی کہ اس میں پورے جوش و خروش سے حصہ لے سکتے تھے ۔ ہم ان جلوسوں میں شامل ہوتے اور گلے پھاڑ پھاڑ کر’چینی چور’ اور’ ایوب کتا ہائے ہائے ‘کے نعرے لگائے تھے۔
افیون کا نشہ
میں نے ہوش سنبھالا تو جس حکمران کا نام کانوں میں پڑا تھا وہ ایوب خان تھے۔ تب خیبر پختونخواہ کا نام صوبہ سرحد تھا۔ ایوب خان اس صوبے کے ضلع ہزارہ کے شہر ہری پورکے گاؤں ریحانہ کے رہنے والے تھے۔ شایدیہی سبب رہا ہوگا کہ اس صوبے سے آنے والے ٹرالروں،ٹینکروں اور ٹرکوں پر ایوب خان کی تصویر بنی ہوتی۔
ٹرک آرٹ کے ان شوخ رنگ شاہ پاروں میں ایوب خان کو ہمیشہ فوجی وردی میں دِکھایا جاتاتھا۔
ہماراشہرمال بردار گاڑیوں کی ایسی قدیم گزر گاہ پر واقع تھا جن کی ایک طرف اگر منزل صوبہ سرحد، شمالی علاقہ جات حتی کہ افغانستان کے علاقے ہوتے تو دوسری طرف انہیں ڈھلیاں اور تلہ گنگ کے راستے اندرون ملک اور کراچی بندرگاہ تک جانا ہوتا۔ ان ٹرکوں اور ٹرالوں کے عقبی ڈھانچے پر مصوروں نے جس شخصیت کی سب سے زیادہ تصویریں بنائی ہوں گی وہ ایوب خان تھے۔
ٹرک آرٹ کے ان شوخ رنگ شاہ پاروں میں ایوب خان کو ہمیشہ فوجی وردی میں دِکھایا جاتاتھا۔ سرپر فوجی ٹوپی، ہاتھ میں چھڑی، سینے اور کندھوں پر بہت سارے تمغے اور رینک کے نشان ۔
اس سب نے اس تصویر والی شخصیت کا رعب بڑھا دِیا تھا۔ ہمارے علاقے میں فوجیوں کو ویسے بھی بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اوریہاں ہر گاؤں،ہر قصبے اور ہر شہر سے لوگ فوج کا حصہ بنتے رہتے تھے۔ ایوب خان کے ساتھ گاہے گاہے ایک اور تصویر بھی نظر آ جاتی تھی۔
اس تصویر والی شخصیت کا رُعب الگ طرح کا تھا۔ یہ تصویرتاؤ دِی ہوئی مونچھوں اور نخوت اُچھالتے چہرے والے گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان کی ہوتی تھی۔ کبھی سیاہ کبھی سفید شیروانی،زرتار کلاہ پرمکلف طرے دار ابرق لگی سفید دستار جس کا ایک لڑ گردن سے پشت کی سمت جاتا ہوا نظر آتاتھا۔ یہ سب اتنے قرینے سے ٹرک آرٹ کے مصور وں نے تصاویر کا حصہ بنایا ہوتا تھاکہ اُن سے جاگیردارانہ کروفر جھلک دینے لگتا تھا۔انہی دو شخصیات کے تصویریں ہمیں حجام کی دکانوں اور ہوٹلوں کے علاوہ اس دکان پر بھی نظر آجاتی تھیں جہاں خالص افیون بکتی تھی۔
اِن تصویروں کا نشہ بھی اُن دنوں خالص افیون کا سا تھا۔