مجرم کے حمایتی مجرم ہی ہو سکتے ہیں اور وہ ہیں۔ اسٹیٹ کے ذریعے سماج کے ایک حصے کو قتل کاساجھے دار بنا دینے کی سازش ہمارے لیے باعث تشویش ہے۔اس کے ساتھ ہی ہماری تشویش یہ بھی ہے کہ قانون کی حکمرانی کا مفہوم عوام کے ذہنوں سے غائب ہو گیا ہے۔
یہ قانون کے راج کاکھلےعام مرڈر ہے۔ اور سماج اس کا جشن منا رہا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ہندو سماج کا ایک حصہ اس کا جشن منا رہا ہے۔ یہ ایک گہری بیماری کی علامت ہے جو اس معاشرے میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ یا اس کا نتیجہ۔اس بیماری کا علاج کیا ہے؟ یا بیمار کو معلوم بھی ہے کہ وہ بیمار ہے؟
الہ آباد ،نہیں پریاگ راج میں گینگسٹر– سیاستداں عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کو پولیس کے گھیرے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ قاتل اطمینان سے عتیق احمد اور اشرف کے قریب پہنچے اور گولیوں کی بوچھار کر دی۔ عتیق اور اشرف کے اردگرد جو پولیس اہلکارتھے، انہوں نے جیسے گولیوں کو راستہ دیا۔ قاتل تب تک پیچھے ہٹتے رہے جب تک گولیاں چلتی رہیں۔ پھر حملہ آوروں نے ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگاتے ہوئے سرینڈر کر دیا۔
قتل کا سارا منظر ٹیلی ویژن پر لوگ دیکھتے رہے۔ ٹی وی نیوز ریڈرز اس قتل کو بار بار پرجوش لہجے میں دکھاتے رہے اور ایک ایک فریم کا تجزیہ کرتے رہے۔ قتل کا پورا مزہ تمام ناظرین لے پائیں، اپنے اس فرض کے حوالے سے ٹی وی چینل بہت محتاط تھے۔ لائیو مرڈر دکھانے کا مزہ کچھ اور ہی ہے!
ٹی وی کو چھوڑ دیجیے، ‘ہندو‘ جیسے اخبار نے قتل کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا کہ کیسے عتیق احمد کو خاک میں ملا دیا گیا۔ یا اسے مٹی میں ملا دیا گیا، جیساوعدہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اجئے بشٹ نے کیا تھا، جنہیں لوگ یوگی آدتیہ ناتھ کے نام سے جانتے ہیں۔ ‘ مافیا کو مٹی میں ملا دوں گا’، یہ وزیراعلیٰ کی زبان تھی۔ اب یہ مہذب لوگوں کے لیے بھی قابل قبول ہے۔
ہمیں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے پولیس کے گھیرے میں ہونے والی ان ہلاکتوں کی تحقیقات کے حکم دیے ہیں۔ان کے وزیر نے قتل کے بعد اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ پاپ پنیہ کا حساب اسی جنم میں ہو جاتا ہے(گناہ اور نیکی کا حساب اسی جنم میں ہو جاتا ہے)۔ دوسرے وزیر نے اسے خدا کا انصاف (ایشوریہ )کہا۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ مانے کہ قاتلوں نے بیچاری پولیس کو چکمہ دے کر دونوں بھائیوں کو مار ڈالا،تو اس کی ذہانت پر اٖفسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی خبرملی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے یوتھ ونگ نے الہ آباد میں پٹاخے پھوڑ کر اس کاجشن منایا۔ یہ مسلسل ہونے والے جشن کی ایک قسط تھی۔ ابھی دو دن پہلے ہی عتیق احمد کے بیٹے کو پولیس نے ‘انکاؤنٹر‘ میں مار ڈالا تھا۔ لیکن اس کا جشن اس وقت تک ادھورا تھا جب تک عتیق احمد کا خون لوگوں کو نہ ملتا۔ اور وہ مایوس نہیں ہوئے۔
یاد رکھیے کہ عتیق کے بیٹے کے قتل کے بعد ایک ہندوتوادی سادھوی نے لکھا تھا کہ وہ قتل توصرف جھانکی ہے،ابھی عتیق باقی ہے۔ اور عتیق کا قتل ہو ہی گیا۔
عتیق احمد نے سپریم کورٹ میں اپنی جان کو خطرہ بتاتے ہوئےفریاد کی تھی۔ عدالت نے سننے سے انکار کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ وہ ریاست کی حفاظت میں ہے۔ اس کے باوجود کہ عدالت جانتی تھی کہ ریاست میں اس طرح کی ہلاکتوں کا سلسلہ رہا ہے، اس نے عتیق احمد کے خدشات پر توجہ نہیں دی۔ خدشہ سچ نکلا؟ کیا عدالت ابھی بھی اپنی صوابدید سے مطمئن دیگر مقدمات کی سماعت کرتی رہے گی؟
قتل کے بعد قاتلوں نے’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگایا، یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ یہ ان دنوں مجرموں کے لیے ڈھال بن چکا ہے۔ بالخصوص اگر قتل مسلمان کا ہو رہا ہو۔
کیا اس کو پڑھ کر یہ کہا جائے گا کہ مصنف مجرم عتیق احمد کا حمایتی ہے؟ ممکن ہے۔ مثال کے طور پر عتیق احمد کے بیٹے کی ‘انکاؤنٹر’ میں ہلاکت پر تنقید کرنے پر پوچھا گیا کہ کیا آپ مجرموں کی حمایت کرتے ہیں۔ جس طرح بھی ہو، سماج کو ان سے نجات مل جائے ، اس سے آپ خوش کیوں نہیں؟
مجرموں کے حمایتی صرف مجرم ہی ہو سکتے ہیں۔ اور وہ ہیں۔ ہماری فکراس ریاست کے مجرم بن جانے کی ہے جس نے ہمیں تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اور ہماری تشویش معاشرے کے ایک حصے کو قتل میں ساجھے دار بنانے کی ریاست کی سازش کے بارے میں ہے۔ ہماری تشویش یہ بھی ہے کہ قانون کی حکمرانی کا مفہوم عوام کے ذہنوں سے غائب ہو گیا ہے۔
معاملہ لیکن قانون کی حکمرانی کے خون کے علاوہ بڑا بھی ہے۔آخر قاتل ‘جئے شری رام’ کا نعرہ کیوں لگا رہے تھے؟ جئے شری رام کے نعرے کے ساتھ تو مسلمانوں کے خلاف تشدد کیا جاتا ہے۔ پھر کیا صرف ایک مجرم کو ہی مارا جا رہا تھا؟
سوال تکلیف دہ ہے لیکن بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے، اس لیے اسے شائع بھی ہونا ہی چاہیے۔ کیا قاتلوں نے اس نعرے کے ساتھ اپنی پہچان ظاہر کی تھی؟ اور یہ بتایا تھاکہ یہ قتل ان لوگوں کی طرف سے کیا جا رہا ہے جو اس نعرے کو اپنا سمجھتے ہیں؟
کچھ دوست قتل کی تاریخ کے حوالے سے قتل کی ایمانداری پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عتیق احمد کو ستیہ پال ملک کے حکومت مخالف انٹرویو سے توجہ ہٹانے کے لیے قتل کیا گیا۔ تاکہ ہم اس قتل پر بات کرتے رہیں اور ملک کے الزامات پر بات نہ ہو؟
توجہ ہٹانے کا یہ حربہ پہلے بھی کئی بار استعمال کیا گیا ہے۔ مسلمانوں پر حملوں کو مہنگائی اور بے روزگاری کے حقیقی قومی مسائل سے توجہ ہٹانے کی سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم حقیقی مسائل پر قائم رہیں۔
سوال ہے کہ کس کے دھیان بھٹک جانے کے بارے میں ہم فکر مند ہیں؟ کس عوام کے؟ کس کے لیے یہ ہلاکتیں نیند اڑا دینے والی ہیں اور کس کے محض حقیقی ماڈل سے توجہ ہٹانے کی ایک چال ؟
تو کیا ہمیں قومی مفاد میں ان ہلاکتوں کو بس جانے دینا چاہیے؟ آخر مارا تو ایک مجرم ہی گیا ہے نا؟ لیکن کیا ہمیں واقعی اس قتل پر بات نہیں کرنی چاہیے؟ کیا یہ قتل حقیقی مسئلہ نہیں ہے؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)