حالیہ انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ مزاحمت کا وقفہ ابھی اور طویل ہونے والا ہے

ہندوستان کے لیے گجرات کے انتخابی نتائج کے نظریاتی مضمرات بہت سنگین ہوں گے۔ مسلمان اور عیسائی مخالف نفرت اور تشدد گجرات کے باہر بھی شدت اختیار کریں گے۔ مزدوروں، کسانوں، طلبہ وغیرہ کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے قانونی طریقے اپنائے جائیں گے۔ آئینی اداروں پر بھی دباؤ بڑھے گا۔

ہندوستان کے لیے گجرات کے انتخابی نتائج کے نظریاتی مضمرات بہت سنگین ہوں گے۔ مسلمان اور عیسائی مخالف نفرت اور تشدد گجرات کے باہر بھی شدت اختیار کریں گے۔ مزدوروں، کسانوں، طلبہ وغیرہ کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے قانونی طریقے اپنائے جائیں گے۔ آئینی اداروں پر بھی دباؤ بڑھے گا۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

انتخابات کا ایک دور ختم ہو چکا ہے۔ نتائج یک طرفہ نہیں رہے۔ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی نے گجرات میں ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی ہے تو ہماچل پردیش میں وہ اقتدار سے باہر ہو گئی ہے اور دہلی کی میونسپلٹی میں بھی اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگر گجرات کانگریس پارٹی کے لیے مایوس کن رہا ہے تو ہماچل پردیش نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو چیلنج کرنے کی اپنی صلاحیت پر یقین کو باقی رکھا ہے۔

عام آدمی پارٹی کو ان انتخابات کی اہم خبر کہنا چاہیے۔ کیونکہ اس نے گجرات میں اپنی طاقتور موجودگی درج کرائی ہے اور دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھاری اور چست الیکشن مشین کو ناکارہ ثابت کر دیا ہے۔ ودھان سبھا اور لوک سبھا کے جو ضمنی انتخابات ہوئے، ان  کے نتائج نے بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ناقابل تسخیر ہونے کے بھرم کو توڑ دیا ہے۔

کیا ان ریاستوں سے باہر ہندوستان کے لوگ ان نتائج پر اس طرح غور کر سکیں گے؟ سچ تو یہ ہے کہ ٹی وی اور باقی میڈیا کی وجہ سے ہماچل پردیش اور دہلی کے نتائج سے زیادہ گجرات میں بی جے پی کی بے مثال جیت کا چرچہ ہوتا رہے گا۔ اسی کواصلی خبر بتایا جائے گا۔

دہلی کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی شکست کے باوجود بی جے پی لیڈر ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ بھلے ہی  عام آدمی پارٹی کے پاس اکثریت ہو، میئر کے عہدہ پر ان کا قبضہ ہوگا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی اپنے ووٹروں سے کہہ رہی ہے کہ نتیجہ کچھ بھی ہو، وہ جانتی ہے کہ کس طرح اقتدار پر قبضہ کرنا ہے۔

ہماچل پردیش کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی فاتح کانگریس پارٹی کے ایم ایل اے کو خریدے گی اور اقتدار اسی کے پاس رہے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ بی جے پی اقتدار کی دعویدار ہوگی اور اقتدار حاصل کرنے کا اس کا ہر طریقہ جائز ہے۔ منی پور، مدھیہ پردیش، کرناٹک یا مہاراشٹر میں اقلیت میں ہونے کے باوجود اقتدار پر قبضہ کرنے کی ان کی چال کو عوامی قبولیت نے بھی اسے کہیں اور دہرانے کا حوصلہ دیا ہے۔

انتخابات کو جنگ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ مانتے ہوئے کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہے، انتخابات کے نتائج کو الٹ دینے کی ہر چال کو جائز سمجھا جا رہا ہے۔ گویا اقتدار اب بی جے پی کا حق ہے اور اگر عوام نے کسی اور کو منتخب کرنے کی غلطی کر دی ہے تو اسے درست کرنے کا حق بی جے پی کو ہے۔ اسی لیے گجرات کے انتخابی نتائج کو ہماچل پردیش، دہلی اور دیگر جگہوں پر دوسری پارٹیوں کی حکومتیں گرانے یا نہ بننے دینے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

اگر گجرات جیسی ‘خوشحال’ ریاست کے لوگ بی جے پی کے حق میں ووٹ دے رہے ہیں تو باقی ریاستوں کے لوگوں کی جمہوری حماقتوں کا خمیازہ وہ غریب ریاستیں کیوں بھگتیں؟ ہر ریاست کو گجرات کی کسوٹی پر کھرا اترنا ہوگا۔

اس پس منظر میں ان انتخابی نتائج کے قومی مضمرات پر غور کرنا ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ الیکشن میں کسی ایک نتیجے کی وجہ ایک ہی نہیں ہوتی۔ مختلف ووٹرز مختلف وجوہات کی بنا پر ایک ہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ہر کسی کے فیصلے کے پیچھے ایک ہی  وجہ نہیں ہوتی۔ لیکن ایک ‘مینڈیٹ’ جو ان مختلف وجوہات سے ابھرتا ہے اس کے بالکل مختلف نتائج ہو سکتے ہیں۔ یعنی وجہ اور اثر کے درمیان کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوگا۔

مثال کے طور پر، 2014 اور 2019 میں، بہت سے ووٹروں نے یہ سوچ کر بی جے پی کو ووٹ دیا کہ ملک کی اقتصادی ترقی تیزی سے ہوگی۔ لیکن ان کے ووٹ سے جو نتیجہ آیا اس نے کچھ اور ہی کر دیا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت اور تشدد اور اکثریتی قوانین کی تشکیل، آزاد میڈیا کا خاتمہ، تعلیمی اداروں کی خود مختاری کا خاتمہ، سبھی بی جے پی کے ووٹروں نے اسے اس کے لیے منتخب نہیں کیا۔ لیکن یہ سب ان کے ووٹ کی وجہ سے ہوا۔

بی جے پی کے تمام ووٹر عمر خالد یا سدھا بھاردواج کی گرفتاری نہیں چاہتے ہوں گے اور شاید ان کا کریڈٹ نہ لینا چاہیں۔ لیکن انہوں نے جس طرح سے ووٹ دیا، اس کا یہی نتیجہ نکلا۔ اس بار کیا ہوگا؟

جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ گجرات کا سایہ ہی سب سے دراز ہوگا، اس کے نتائج  ہی ہندوستانی عوام کو زیادہ متاثر کریں گے۔ اس بار گجرات میں بی جے پی کے سرکردہ لیڈروں نے مسلم مخالف اور گجراتی شناخت کی بنیاد پر الیکشن لڑا۔ وزیر اعظم نے بار بار اپنے ووٹروں کو ‘اربن نکسلیوں’ کا خوف دکھایا۔ یہ کہ وہ انہیں ان نکسلیوں سے بچانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کانگریس پارٹی پر میدھا پاٹکر کے ساتھ ہونے کا الزام لگایا جو کہ گجرات مخالف ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ گجرات میں میدھا پاٹکر بھی انتخابی ایشو بن سکتی ہیں!

تمام حدیں توڑتے ہوئے ہندوستان کے وزیر داخلہ نے 2002 کے تشدد کو حق بہ جانب ٹھہرایا۔ یہ کہہ کر کہ وہ  دراصل فسادیوں کو سبق سکھانے کی کارروائی تھی۔ یا واضح طور پر یہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف صف آراکرنے کا ایک آزمودہ نسخہ تھا۔ انتخابی مہم کے اختتام پر ایک اداکار اور بی جے پی لیڈر نے ہندوؤں کو یہ کہہ کر ڈرایا کہ وہ بنگالیوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ آخر وہ سستی گیس کا کیا کریں گے؟ کیا آپ بنگالیوں کے لیے مچھلی پکائیں گے؟ اصل چیز مہنگائی ہے یا اپنی جان بچانا؟

اتنی بے شرم فرقہ وارانہ زبان میں گجرات میں بھی الیکشن اس سے پہلے بھی نہیں لڑے گئے ۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بی جے پی کو جو بھاری اکثریت ملی ہے اس میں اس اپیل کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ بنیادی اپیل رہی ہے جس کی وجہ سے ووٹروں نے بی جے پی کو منتخب کیا۔ اب تجزیہ کار اور بھی بہت سی وجوہات دیں گے لیکن یہ واضح ہے کہ یہ ایک اکثریتی مینڈیٹ ہے۔

یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بلقیس بانو کی عصمت دری اور اس کے خاندان کے افراد کے قاتلوں کی رہائی کی حمایت کرنے والے بی جے پی لیڈر کو بھاری ووٹوں سے جیت ملی ہے۔ اسی طرح انتخابی مہم کے درمیان موربی میں جھولتے پل کے گرنے اور اس کی وجہ سے 130 سے زیادہ اموات کے باوجود وہاں بی جے پی امیدوار کو بھاری اکثریت ملی۔ نرودا پاٹیااجتماعی تشدد اور قتل کیس میں سزا یافتہ کلیدی  ملزم کی بیٹی بھی جیت گئی۔

اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ ان ووٹرز کے لیے روزی روٹی، انتظامی کارکردگی، کرپشن وغیرہ ایشوز نہیں تھے۔ وہ ‘ثقافتی’ وجوہات کی بنا پر اپنا فیصلہ کر رہے تھے۔ پھر اس مینڈیٹ کی بنیاد پر منتخب ہونے والی سیاسی جماعت آگے کیا کرے گی؟ بی جے پی نے شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔

انتخابی ضابطہ نافذ ہونے کے ساتھ ہی گجرات پولیس نے راجستھان میں ترنمول کانگریس کے ترجمان کو موربی پل حادثے کے بعد وزیر اعظم کے دورے کے بارے میں ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کر لیا۔ اس میں جب اسے ضمانت ملی تو رہا ہوتے ہی اسے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ گجرات میں حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی تنقید یا احتجاج کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

یہ گرفتاری علامتی نہیں تھی۔ حکومت کی طرف سے واضح دھمکی ہے۔ مخالف سیاسی جماعتوں کو، تنقید کرنے والوں کو۔ آنے والے وقتوں میں گجرات میں انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی  کو ڈھٹائی سے دبایا جائے گا۔

انتخابات کے دوران ہی گجرات ودیا پیٹھ کے عین سامنے پل کے ستون پر ساورکر کی تصویر بنائے جانے سے یہ پیغام علامتی طور پر دیا گیا تھا کہ ریاست کا نظریہ اب گاندھی سے ساورکر کی طرف منتقل ہو چکا ہے،اور اب صاف صاف کہا جا رہا ہے۔ پہلے ہی گجرات ودیا پیٹھ کے وی سی کے عہدے پر گورنر دیوورت شاستری کی تقرری سےیہ  واضح تھا۔ گاندھی کے اداروں کو اب ہندوتوا قوم پرستی کے لیے استعمال کیا جائے گا، یہ سابرمتی آشرم پر حکومت کے قبضے سے بھی واضح تھا۔

ہندوستان کے لیے گجرات کے انتخابی نتائج کے نظریاتی مضمرات بہت سنگین ہوں گے۔ مسلمان اور عیسائی مخالف نفرت اور تشدد گجرات کے باہر بھی شدت اختیار کریں گے۔ ایسے قوانین بنائے جائیں گے جن کے ذریعے انہیں مزید ہراساں کیا جائے اور کونے میں دھکیل دیا جائے۔ مزدوروں، کسانوں، طلبہ اور سماج کے دیگر طبقات کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے انتظامی اور قانونی طریقے اپنائے جائیں گے۔

آئینی اداروں پر بھی دباؤ بڑھے گا اور وہ ہندوتوا قوم پرستی کے لیے کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ہندوتوا قوم پرستی کا دباؤ دیگر سیاسی جماعتوں پر بھی بڑھے گا۔ عین ممکن ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو اب موضوع بحث نہیں سمجھا جائے گا اور کوئی فریق اس پر بحث نہیں کرے گا۔

ایسے میں دانشوروں اور سول سوسائٹی کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ جمہوریت کے مفہوم کو عوامی تصورات میں زندہ رکھنے کے لیے، مسلمانوں اور عیسائیوں کو یہ احساس دلانے کے لیے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا، یہ سب اوراس کے آگے بھی  بہت کچھ ہمیں کرنا ہوگا۔ مزاحمت کا وقفہ ابھی اوراور طویل ہونے والا ہے۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)

Next Article

مہاراشٹر: اسی فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والے علاقے کے رہائشی لگاتار نگرانی کی اذیت میں مبتلا

مہاراشٹر کی دارالحکومت سے محض 55 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اسی فیصد سے زیادہ کی مسلم آبادی والا یہ گاؤں تقریباً چار دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں ہے۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی

علی الصبح 3 بجےسعیدہ* کے دروازے پر دستک اب کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا۔ عام طور پر، اس وقت دستک کا مطلب یہ ہے کہ پولیس کی ایک بڑی نفری ان کی زندگی کو تباہ کرنے آن  پہنچی ہے۔ 1 اور 2 جون کی درمیانی شب کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جب مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کی قیادت میں ممبئی اور تھانے کی مقامی پولیس سمیت 350 سے زیادہ پولیس اہلکاروں نے ممبئی سے 55 کلومیٹر دور بوریولی-پڑگھا گاؤں کو اپنے محاصرے میں لے لیا۔ ایک مربوط آپریشن میں، عدالتی سرچ وارنٹ کے ساتھ  ٹیموں نےبیک وقت 22  لوگوں کے دروازے پر دستک دی اور چھاپے ماری  کی کارروائی شروع کر دی۔

سعیدہ کہتی ہیں،’چھاپے ماری میں صرف 22 افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا (جن میں تین بھائی ایک ساتھ رہتے تھے)، لیکن پورے گاؤں کو گھیرے میں لے لیا گیا، اور پولیس نے ایسی صورتحال بنا دی جیسے یہاں خوفناک دہشت گرد چھپے ہوئے ہوں۔’

سعیدہ کہتی ہیں کہ ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصے میں گاؤں میں یہ دوسری  بڑی  چھاپے ماری تھی۔ دسمبر 2023 میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی(این آئی اے) کی جانب سے کی گئی پچھلی چھاپے ماری اور گرفتاریوں میں، ان کے شوہر ان 15 لوگوں میں سے ایک تھے، جنہیں علاقےمیں  کالعدم دہشت گرد تنظیم، آئی ایس آئی ایس میں شامل ہونے کے لیے مبینہ طور پر ‘نوجوانوں کو متاثر’ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ ‘پچھلی بار، تقریباً اسی وقت، وہ میرے شوہر کو لے گئے اور میرے بچوں کے اسکول پروجیکٹ کے لیے استعمال کیے جانے والے فون اور کمپیوٹر ہارڈ ڈسک سب ضبط کر لیے ،’ انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا۔

پچھلی چھاپے ماری فلسطین میں اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہوئی تھی۔ سعیدہ کے اسکول جانے والے بچوں نے اپنی جیب خرچ سے گاؤں میں ہونے والےاحتجاج کے لیے فلسطینی پرچم خریدا تھا۔ جھنڈے ضبط کر لیے گئے، اور بعد میں این آئی اے نے دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق ‘عسکریت پسند گروپ حماس’ سے تھا۔ چھاپے اور گرفتاریوں کے دوران اکثر کیے جانے والے یہ دعوے میڈیا میں سنسنی پیدا کرتے ہیں اور عدالت میں ابتدائی حراستی ریمانڈ کو یقینی بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ تاہم، ان کے قانونی جواز کو عدالت میں ثابت کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ تب تک فوجداری نظام انصاف کے اندر طویل عرصے تک انصاف کے حصول میں الجھی  نسلیں تباہ ہو چکی ہوتی  ہیں۔

اس بار اے ٹی ایس ان کے ایک اوربیٹے کے خلاف جاری سرچ وارنٹ کے ساتھ پہنچی تھی۔ اے ٹی ایس نے مقامی عدالت سے اس بنیاد پرسرچ وارنٹ حاصل کیا تھا کہ ان کے گھروں میں ‘غیر قانونی/اینٹی نیشنل’ سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جانے والے ‘مجرمانہ دستاویز/مواد’ جمع تھے۔ تقریباً 10 گھنٹے تک جاری رہنے والی چھاپے ماری میں پولیس نے 19 موبائل فون، ایک تلوار اور ایک چاقو ضبط کیا۔ گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس اور میڈیا نے جسے ’مہلک ہتھیار ‘ بتایا ہے وہ دراصل باورچی خانے میں استعمال کیا جانے والا چاقو ہے۔

‘کیا واقعی کسی گھرکے باورچی خانے میں، خصوصی طور پر مچھلی اور گوشت کھانے والے گھروں میں بڑی، تیز دھار چھریوں کا ملنااس قدر غیر معمولی واقعہ ہے؟’ جن کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، ان میں سے ایک نے سوال کیا۔

چھاپے ماری میں تلوار اور ایک چاقو کی ضبطی کے بعد دو الگ الگ ایف آئی آر درج کی گئیں۔ پولیس نے ابھی تک گاؤں میں کوئی گرفتاری نہیں کی ہے۔

سال 2023 میں کی گئی آخری چھاپے  ماری میں، پولیس نے اور بھی بڑے دعوے کیے تھےکہ بڑی تعداد میں چاقو ضبط کیے کیے گئے ہیں۔’اس کے بعد، تقریباً ہم سب نے بڑے چاقوپھینک دیے اور کچن میں چھوٹی چھریاں استعمال کر رہے ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ پولیس کب ہمارے گھر میں داخل ہو گی اور ہمارے برتنوں کو گولہ بارود میں بدل دے گی،’ ایک نوجوان خاتون نے کہا، جس کے گھر پر 2023 میں چھاپہ مارا گیا تھا، حالانکہ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

چھاپے کے دوران مقامی پڑگھا پولیس اے ٹی ایس کے ساتھ تھی۔ ایک مولانا کے گھر میں، پولیس نے دعویٰ کیا کہ دو گائے ضروری کاغذی کارروائی کے بغیر رکھی گئی تھی۔ پڑگھا پولیس نے مولانا کو مہاراشٹر اینیمل پریزرویشن ایکٹ کے تحت گرفتار کیا  تھا۔ انہیں ایک دن بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں

بوریولی-پڑگھا ممبئی-ناسک ہائی وے پر واقع ہے۔ 80فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والا یہ گاؤں تقریباً چار دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں ہے۔ یہ سب 1980 کی دہائی کے اوائل میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ سابق فائربرانڈ اسٹوڈنٹ لیڈرثاقب ناچن کے واسطہ پڑنے کےبعدسے شروع ہوا تھا۔ ناچن کی طرح کئی دوسرے لوگوں پر اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) کا حصہ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا، ایک ایسی تنظیم جو بعد میں 2001 کے اوائل میں کالعدم قرار دی گئی ۔

ثاقب ناچن۔ تصویر: ایکس

ناچن، جس نے دہشت گردی کے متعدد مقدمات کا سامنا کیا ہے، قصوروار ٹھہرائے گئے، اور انہوں نےکئی سال جیل میں گزارے ہیں، ان پر ریاست میں آئی ایس آئی ایس ماڈیول کی سربراہی کا الزام ہے۔ وہ اور ان کا چھوٹا بیٹا شمیل 2023 سے حراست میں ہیں۔ ناچن فی الحال دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں، جبکہ شمیل کو ممبئی کی تلوجا جیل میں رکھا گیا ہے۔

اے ٹی ایس کا دعویٰ ہے کہ حالیہ چھاپے ماری انٹلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی  گئی تھی کہ ناچن خاندان ابھی بھی گاؤں پر کنٹرول رکھتا ہے۔ تقریباً 10000 کی آبادی والے بوریولی-پڑگھا گاؤں میں زیادہ تر کونکنی مسلمان رہتے ہیں۔ یہاں کے مسلمان معاشی طور پر خوشحال ہیں، وہ ممبئی-ناسک ہائی وے کے پاس  زمینوں کے مالک ہیں۔ پچھلی دہائی کے دوران، یہاں زمین کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہےاور کئی  گودام بنائے گئے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ روایتی طور پر ماہی گیری، ریت یا تعمیراتی کاروبار سے وابستہ ہیں۔ لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ پولیس کے مسلسل چھاپوں نے ان کے کاروبار کو بہت متاثر کیا ہے۔

زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پوچھ گچھ کا موضوع ناچن کے ساتھ ان کی ‘وابستگی’ کے اردگرد گھومتا ہے۔ ‘ہم میں سے اکثر لوگ براہ راست یا دور سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،جس میں ناچن خاندان بھی شامل ہے۔ ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، ایک ہی مسجد میں جاتے ہیں؛ ہم رابطے میں ضرور رہتے ہیں، اسے غیر قانونی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟’ اس بار کی چھاپے ماری میں شامل 22 افراد میں سے ایک نوجوان سوال کرتا ہے ۔

اس بار جب اے ٹی ایس آئی تو انہوں نے ناچن کے ایک اور بیٹے عاقب کو نشانہ بنایا۔ وارنٹ میں اس کا نام تھا، اور پولیس نے اس کا فون ضبط کر لیا۔ چھاپے کے وقت گھر میں موجود ایک رشتہ دار نے بتایا کہ جیسے ہی پولیس اندر داخل ہوئی، شمیل کا پانچ سالہ بیٹا خوف سے چیخنے لگا۔ اس نے کہا، ‘بچے نے اتنی سی چھوٹی عمر میں بہت کچھ دیکھا ہے۔

چھاپے بچوں کو کس طرح  متاثر کرتے ہیں

بوریولی-پڑگھا گاؤں میں بڑا ہونا اور زندگی گزارنا آسان نہیں رہا۔ گزشتہ برسوں میں چھاپے اور گرفتاریاں اس قدر معمول  کا حصہ بن چکی ہیں کہ اب یہ بچوں کے درمیان ایک عام ساکھیل بن گیا ہے۔ ایک ماں نے بتایا،’یہاں کے بچوں نے اپنے خودکے کھیل ایجاد کرلیے ہیں۔ وہ چھاپے، جیل ملاقات اور گرفتاری کھیلتے ہیں،’، جبکہ اس کے چھوٹے بچے اور چند پڑوسی بچے تجسس کے ساتھ ہماری بات چیت سن رہے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو اس طرح کی  بات چیت سے دور رکھنا فضول ہے۔حال ہی میں دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے والی لڑکی نے پوچھا،’جب پولیس وقت کا خیال کیے بغیر ہمارے دروازے پر دستک دیتی ہے اور صرف ایک یا دو لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پورے گاؤں کو دہشت گرد سمجھتی ہے تو ہم ان سے کیسے بچ سکتے ہیں؟’پولیس اس بار اس کے بڑے بھائی کی تلاش میں آئی تھی۔ ‘انہوں نے میرا فون بھی لے لیا، اور رابطے کی فہرست اور ایپس کو اسکرول کیا۔ جیسے ہی انہوں نے  میری فوٹو گیلری دیکھنا شروع کی، میں نے طے کر لیا کہ بہت ہوگیا۔ مجھے اپنا فون چھیننا پڑا اور سختی سے کہنا پڑا کہ میں ایک نوجوان لڑکی ہوں اور وہ غیر قانونی طور پر ایک نوجوان لڑکی کی فوٹو گیلری تک رسائی کی کوشش کر رہے ہیں۔’

تلاشی کے 22 وارنٹ میں سے کم از کم دو افراد حج پر گئے ہوئے تھے۔ تاہم سرچ ٹیم ان کے گھروں میں بھی داخل ہوئی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ چھاپے کے وقت صرف ان کی دو نوعمر بچیاں گھر پر تھیں۔ ایک رشتہ دار نے سوال کیا،’اے ٹی ایس نے دعویٰ کیا ہےکہ ان کے پاس ٹھوس انٹلی جنس معلومات  تھیں۔ انہیں یقیناً معلوم رہا ہوگا کہ بچیاں  گھر میں اکیلی ہیں، پھر بھی انہوں نے چھاپے ماری کی۔ کیا یہ بھی قانونی ہے؟’

چھوٹی عمر کے کچھ لڑکوں نے شکایت کی کہ پولیس نے انہیں کئی بار اٹھایا اور پوچھ گچھ کی ۔ ایک 22 سالہ نوجوان نے کہا،’وہ ہم سے ہماری پیدائش سے پہلے کی باتیں پوچھتے ہیں۔ جب ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ہم 80 اور 90 کی دہائی کے بارے میں نہیں جانتے تو وہ ہم پر بھروسہ نہیں کرتے ۔’

’میڈیا ہمارا موقف سننے میں دلچسپی نہیں رکھتا‘

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ میڈیا یکطرفہ خبریں دے کر پولیس کے اقدامات کو مزید تقویت دیتا ہے، اور پولیس کی اس طرح کی کارروائیوں کے کمیونٹی پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنے کی کبھی زحمت نہیں کرتا۔ جب بھی کوئی چھاپہ پڑتا ہے تو میڈیا کا عملہ بڑی تعداد میں پہنچ جاتا ہے۔ سعید* کا دعویٰ ہے کہ ،’انہیں ہماری کہانی سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ،  بلکہ وہ مسلم مخالف بیان بازی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔’

وہ ایک مثال پیش کرتے ہیں، جب ٹی وی رپورٹروں کی ایک ٹیم نے خفیہ طور پر ایک کار سے گاؤں کی فلم بندی شروع کر دی تھی۔ سعید کہتے ہیں، ‘میں حیران تھا کہ انہیں کارسے اس قدر دھندلے مناظر کیوں لینے پڑے۔ میں نے ان میں سے ایک کو باہر نکل کر مقامی لوگوں سے ملنے اور ان کا انٹرویو کرنے کو بھی کہا۔ لیکن انہوں نے منع  کر دیا۔’ ان کا خیال ہے کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا، تاکہ گاؤں کو صحافیوں کے لیے بھی ‘خطرناک’ جگہ کے طور پر پیش کیا جا سکے ۔

پولیس اور میڈیا دونوں کی دشمنی نے گاؤں والوں کوحددرجہ شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے۔ جب دی وائر نے ان سے رابطہ کیا تو وہ بات کرنے کو تیار تھے لیکن انہوں نے واضح طور پر کہا کہ کسی کی تصویر نہ لیں یا اسٹوری میں ان کی شناخت کو ظاہرنہ کریں۔ ان میں سے ایک نے کہا، ‘وہ تمام لوگ جو آخری چھاپے کے بعد آواز اٹھا رہے تھے، اب انہیں تلاشی کے وارنٹ مل چکے ہیں۔’

پولیس کی طرف سے پیش کی گئی متعدد تھیوریوں  میں سے، جس نے میڈیا کی توجہ حاصل کی، وہ یہ ہے کہ ناچن نے گاؤں کو ایک ‘آزاد اسلامی اسٹیٹ’بنا دیا اور اس کا نام بدل کر’الشام’ رکھ دیا، یہ اصطلاح دہشت گرد گروہ آئی ایس آئی ایس کے علاقائی عزائم کو ظاہر کرتی ہے۔ مقامی لوگ اس دعوے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جیل میں رہ چکے ایک بزرگ شخص کہتے ہیں۔’ہمارے گاؤں میں مسلمانوں، دلتوں اور آدی واسیوں کا گھر ہے،جو تاریخی طور پر ایک دوسرے کا تہوار مناتے آئے ہیں۔’ وہ پوچھتے ہیں،’ہم اجتماعی طور پر ایک سالانہ گنپتی جلوس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ‘ وہ پوچھتے ہیں ،’ایک ‘اسلامی اسٹیٹ’ میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟’

دی وائر نے ایک 65 سالہ خاتون وسیمہ ملا کے گھر کا دورہ کیا جو پولیس کے گھر میں داخل ہوتے ہی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئی تھیں۔ ان کے گھر والوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا، لیکن مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب پولیس نے ان کی بیٹی کے گھر پر چھاپے ماری کی تو خاتون گھبرا گئی تھیں۔ایک پڑوسی نے بتایا، ‘وہ چیخنے لگیں اور پھر فرش پر گر گئیں۔’ پڑوسی نے دعویٰ کیا کہ یہ جاننے کے بعد بھی کہ ان کی موت ہو گئی ہے، پولیس نے ان کے داماد کو انہیں دیکھنے تک کی اجازت نہیں دی۔

گاؤں والوں کا خیال ہے کہ چھاپے ماری، اگر اتنی اہم تھی، تو اس کو دن کے وقت بھی انجام دیاجا سکتا تھا۔ ایک بزرگ خاتون نے کہا، ’وہ چاہتے تھے کہ ہم گھبرا جائیں، وہ چاہتے تھے کہ لوگ حیران ہو جائیں، وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور کوئی بھی ان سے سوال نہیں کر سکتا۔‘

*رازداری کے لیے نام  تبدیل کر دیا گیا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Next Article

اکتوبر 2026 سے دو مرحلوں میں ہوگی مردم شماری

مرکزی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 15 سال بعد مردم شماری اکتوبر 2026 سے دو مرحلوں میں شروع ہو گی۔ اس کے ساتھ ذات پر مبنی  اعداد و شماربھی جمع کیے جائیں گے۔ اپوزیشن نے تاخیر پر سوال اٹھائے ہیں اور الزام لگایا ہے کہ بی جے پی حد بندی کے ذریعے جنوبی ریاستوں کی سیٹیں گھٹانا چاہتی ہے۔

بہار میں 2023 ذات پر مبنی سروے کے دوران شہریوں کا ڈیٹا اکٹھا کرتے ہوئے اہلکار۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے بدھ 4 جون کو اعلان کیا کہ مردم شماری اور ذات پر مبنی گنتی دو مرحلوں میں کی جائے گی، جس کی شروعات 1 اکتوبر 2026 سے ہوگی۔

مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری  بیان میں کہا گیا ہے کہ مردم شماری کی ریفرنس ڈیٹ (تاریخ) 1 مارچ 2027 کو  رات 12 بجے ہوگی، جبکہ مرکز کے زیر انتظام علاقے لداخ اور جموں و کشمیر، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کے برفانی علاقوں میں یہ تاریخ 1 اکتوبر 2026 کی رات 12 بجے ہوگی۔

یہ پہلا موقع ہوگاجب 15 سال کے وقفے کے بعد مردم شماری کرائی جائے گی۔ آخری مردم شماری 2011 میں کی گئی تھی، جبکہ 2021 میں مجوزہ مردم شماری کووڈ 19 کی وجہ سے ملتوی کر دی گئی تھی۔

وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا، ‘ہندوستان کی آخری مردم شماری 2011 میں دو مرحلوں میں کی گئی تھی(الف)پہلا مرحلہ-ہاؤس لسٹنگ (1 اپریل سے 30 ستمبر 2010 تک) اور (ب) دوسرا مرحلہ-آبادی کی گنتی (9 فروری سے 28 فروری 2011 تک)، جس کی ریفرنس ڈیٹ 1مارچ 2011 کی رات 12 بجےتھی۔ تاہم،جموں و کشمیر، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کے برفانی علاقوں میں یہ عمل 11 سے 30 ستمبر 2010 کے درمیان انجام دیاگیا تھااور ریفرنس ڈیٹ 1 اکتوبر 2010 کی رات  12بجے  رکھی گئی تھی۔’

مرکزی وزارت داخلہ نے کہا کہ 2021 کی مردم شماری بھی اسی طرح دو مرحلوں میں کی جانی تھی – پہلا مرحلہ اپریل-ستمبر 2020 کے دوران اور دوسرا مرحلہ فروری 2021 میں۔ لیکن وبائی امراض کی وجہ سے اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ تاہم، وزارت نے یہ نہیں بتایا کہ یہ عمل پانچ سال تک کیوں تاخیر کا شکار ہوا۔

‘سال2021میں مردم شماری کے پہلے مرحلے کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں اور کچھ ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 1 اپریل 2020 سے فیلڈ ورک شروع ہونا تھا۔ لیکن ملک بھر میں کووڈ کے پھیلاؤ کی وجہ سے مردم شماری کا کام ملتوی کر دیا گیا۔’ وزارت نے کہا۔

اپوزیشن نے مردم شماری میں تاخیر پر سوال اٹھائے

اپوزیشن جماعتوں نے مردم شماری کی شروعات کو اور ٹالنے کے حکومت کے فیصلے پر سوال اٹھایا ہے۔

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ جئے رام رمیش نے کہا، ‘2021 میں ہونے والی مردم شماری کو اب اور 23 ماہ کے لیے ملتوی کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ مودی حکومت صرف سرخیاں ہی بنا سکتی ہے، وقت پر کام مکمل نہیں کر سکتی۔’

تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ 2027 میں مردم شماری کرانے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ بی جے پی تمل ناڈو کی پارلیامانی نشستیں گھٹانا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ہندوستانی آئین کے مطابق 2026 کے بعد ہونے والی پہلی مردم شماری کی بنیاد پر حد بندی کی جانی ہے۔ بی جے پی نے اب مردم شماری کو 2027 تک ملتوی کر دیا ہے، جس سے ان کا مقصد واضح ہوگیاہے کہ وہ تمل ناڈو کی پارلیامانی نشستوں کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس بارے میں پہلے ہی خبردار کیا تھا اور اب یہ حقیقت بن رہا ہے۔’

حد بندی ایک متنازعہ مسئلہ بن گیا ہے، خاص طور پر جنوبی ریاستوں میں، جو آبادی پر قابو پانے کے بہتر اقدامات کی وجہ سے پارلیامنٹ میں اپنی نمائندگی میں کمی کا خدشہ  ظاہر کر رہے ہیں۔

سال1976 میں، 1971 کی مردم شماری کے اعداد و شمار پر مبنی حد بندی کو روک دیا گیا تھا تاکہ وہ ریاستیں جنہوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی آبادی کم کی تھی، اپنی نشستوں سے محروم نہ ہوں۔ 2001 میں اس پابندی کو 2026 تک بڑھا دیا گیا۔

ذات پر مبنی مردم شماری

اس سال اپریل میں مرکزی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ مردم شماری میں ذات کے ڈیٹا کو شامل کیا جائے گا، لیکن اس وقت یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ مردم شماری اور ذات پر مبنی مردم شماری کب کرائی جائے گی۔

ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ اپوزیشن جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی یہ ایک بڑا ایشو تھا۔

بیس اپریل کو مرکزی کابینہ کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے مرکزی وزیر اشونی ویشنو نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سماج اور ملک کی اقدار کے تئیں وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے اپوزیشن انڈیا الائنس پر ذات پر مبنی مردم شماری کو ‘سیاسی ہتھیار’ کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ کانگریس کی حکومتوں نے ہمیشہ ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کی ہے۔

تاہم، یہ فیصلہ بی جے پی کے 2024 کے انتخابی موقف کے بالکل برعکس ہے، جب انہوں نے ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو سماج کو تقسیم کرنے والا قدم قرار دیا تھا۔

سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور لوک سبھا ایم پی اکھلیش یادو نے اس معاملے کو 2027 میں ہونے والے اتر پردیش اسمبلی انتخابات سے جوڑا۔

انہوں نے کہا، ‘ مطلب یہ کہ جب یوپی میں پی ڈی اے کی حکومت آئے گی، تب ہی ذات پر مبنی مردم شماری شروع ہوگی۔’ انہوں نے یہ تبصرہ اپنے 2024 کے انتخابی نعرے ‘پچھڑا، دلت، الپ سنکھیک’ (پی ڈی اے) کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے  یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

پہلی جماعت کے بچوں کے لیے فوجی تربیت: مہاراشٹر حکومت کے منصوبے پر اٹھتے سوال

مہاراشٹر حکومت کے پہلی جماعت کے اسکولی بچوں کو فوجی تربیت دینے کے منصوبے نے تعلیم اور بچوں کے حقوق سے متعلق بنیادی خدشات کو جنم دیا ہے۔ حکومت اسے ‘نظم وضبط’ اور ‘حب الوطنی’ کی مثال قرار دے رہی ہے، لیکن یہ قدم بچوں کی ذہنی نشوونما، تعلیم کی آزادی اور جمہوری اقدار کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

’ میں نے جاپان میں لوگوں کو اپنی حکومت کی طرف سے عائد کردہ آزادی کی حدود کو خوشی سے قبول کرتے ہوئے دیکھا ہے… لوگ اس ہمہ گیر ذہنی غلامی کو خوشی اور فخر کے ساتھ قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو طاقت کی ایک مشین، جسے قوم کہا جاتا ہے، میں تبدیل کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں …‘-رابندر ناتھ ٹیگور، ‘قوم پرستی’

بچوں کے لیے فوجی تعلیم

1

ہندوستان کی سب سے خوشحال ریاستوں میں شامل مہاراشٹر حکومت نے ایک نئی اسکیم شروع کی ہے، جس کے تحت پہلی جماعت کے اسکولی بچوں کو بنیادی فوجی تربیت دی جائے گی ۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کا مقصد بچوں میں حب الوطنی، نظم و ضبط اور بہتر جسمانی صحت کو فروغ دینا ہے۔ اس مرحلہ وار منصوبے کے تحت تقریباً ڈھائی لاکھ ریٹائرڈ فوجیوں کی تقرری کی جائے گی۔

آپریشن سیندور کے بعد اس تجویز پر پورے ملک کی نظر ہے اور ممکن ہے کہ بی جے پی مقتدرہ دیگر ریاستیں بھی اس طرح کی اسکیم کی شروعات کریں۔

یہ منصوبہ کئی سطحوں پر خدشات کو جنم دیتا ہے۔

سب سے پہلے، ماہرین تعلیم کے مطابق، ریاست کا اسکول سسٹم پہلے ہی شدید بحران کا سامنا کر رہا ہے — ناقص انفراسٹرکچر، اساتذہ کی شدید کمی اور پالیسی پر عملدرآمد میں رکاوٹیں۔ نتیجتاً طلبہ کے امتحانی نتائج متاثر ہو رہے ہیں،ا سکولوں میں طلبہ کی تعداد کم ہو رہی ہے، اور بنیادی سہولیات بھی ناپید ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت فوجی تربیت پر زور دیتی ہے تو امکان ہے کہ تعلیم کے لیے مختص وسائل مزید کم ہو جائیں گے۔

دوسرا، مہاراشٹرا میں پچھلی دہائی میں ہزاروں اسکول بند ہوچکے ہیں، جس کی بنیادی وجہ وسائل کی کمی اور پالیسی میں تبدیلی ہے۔ اس سے تعلیم کے حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ سالانہ رپورٹیں بھی ریاست کی بگڑتی ہوئی تعلیمی صورتحال کی تصدیق کرتی ہیں ۔ اب خدشہ ہے کہ حکومت یہ نئی اور دکھاوے کی اسکیم لا کر ان مسائل پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔

تیسری بات، یہ تجویز یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کے پاس تعلیم کے حوالے سے کوئی ٹھوس یا دور بیں پالیسی نہیں ہے۔ حال ہی میں، ریاستی حکومت نے بغیر کسی عوامی مشاورت کے، اپنے اسکول کے نصاب کو ترک کرنے اور سی بی ایس ای کے نصاب کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے 2.1 کروڑ طلبہ اور 7 لاکھ اساتذہ متاثر ہوں گے ۔ اس پر ماہرین کی جانب سے پہلے ہی شدید تنقید کی جا چکی ہے۔

چوتھا، سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ تین- چار سال کے بچوں کو فوجی تربیت دینا تعلیم کے جوہر کے خلاف ہے۔ تعلیم کا مقصد بچوں کی سوچ کو آزاد بنانا ہے، معاشرے، خاندان یا ریاست وغیرہ کی طرف سے بچوں کے ذہنوں پر جو طرح طرح کی زنجیریں ڈالی جاتی ہیں، انہیں ایک جھٹکے میں توڑنا ہوتاہے، نہ کہ اطاعت اور نظم و ضبط کے نام پر انہیں خوف اور پابندیوں کا غلام بنانا ۔

پانچویں، پہلی جماعت سے فوجی تربیت کا آغاز بچوں کے ذہنوں میں ‘نامعلوم دشمنوں’ کا خوف پیدا کر سکتا ہے۔ یہ خوف ان کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے اور مختلف نفسیاتی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

2

تہذیب کا سب سے اہم کام لوگوں کو سوچنا سکھانا ہے۔ ہمارے پبلک اسکولوں کا بنیادی مقصد یہی ہونا چاہیے… ہمارے طریقہ تعلیم کی پریشانی یہ ہے کہ یہ ذہن  میں لچک پیدانہیں ہونے دیتا۔ یہ ذہن کو ایک سانچے میں ڈھالتا ہے۔ یہ بچے کے موافق ہونے پر اصرار کرتا ہے۔ یہ   غوروفکریا استدلال کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، اور یہ مشاہدے کے مقابلے میں یادداشت پر زیادہ زور دیتا ہے۔- تھامس ایڈیسن

حکومت کا یہ منصوبہ اسکولی تعلیم میں ایک بڑا قدم مانا جا سکتا ہے، جو دوسری ریاستوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔ ایسے میں توقع تھی کہ حکومت ماہرین تعلیم سے مشورہ کرے گی اور پرائمری سطح پر فوجی تربیت کے اثرات کا جائزہ لے گی اور پھر کوئی فیصلہ کرے گی۔

لیکن حالیہ برسوں میں، مرکز میں بی جے پی کی حکومت اور مختلف ریاستوں میں اس کی حکومتوں نے وسیع بحث اور مشاورت کے بغیر بڑے فیصلے لینے کی عادت بنالی ہے – چاہے وہ نوٹ بندی ہو، اچانک لاک ڈاؤن ہو یا سینٹرل وسٹا پروجیکٹ جس کی لاگت ہزاروں کروڑ روپے ہے۔ مہاراشٹر حکومت کا یہ فیصلہ بھی اسی  غیرشفافیت کی  مثال ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کسی بھی قیمت پر اس اسکیم کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔

تعلیمی دنیا پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام براہ راست وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کے اس سابقہ منصوبے سے منسلک ہے ، جس میں سینک اسکول ماڈل کو کیندریہ ودیالیوں اور نوودیا ودیالیوں میں لاگو کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اس تجویز میں سخت جسمانی تربیت، نظم و ضبط اور حب الوطنی پر زور دینے کی بات کہی گئی تھی۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر کی اس متنازعہ سفارش کا ایک اثر یہ ہواہے کہ ملک کے دو تہائی سینک اسکولوں کا انتظام اب سنگھ پریوار، بی جے پی لیڈروں اور ان سے منسلک تنظیموں کے ہاتھوں  میں ہے۔ اس تبدیلی کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا تھا، لیکن رپورٹرز کلیکٹو کی رپورٹ میں اس کا انکشاف ہوا تھا۔

آزادی کے بعد، ملک میں تعلیمی پالیسی پر فیصلہ کرنے کے لیے ماہرین تعلیم کی قیادت میں وقتاً فوقتاً تعلیمی کمیشن بنائے جاتے رہے ہیں – جیسے 1953 کے رادھا کرشنن کمیشن۔ لیکن پچھلی دہائی میں، اس طرح کے ادارہ جاتی عمل تقریباً رک گئے ہیں۔ اب پالیسی سازی اور اس کے نفاذ کا مرکز صرف پی ایم او رہ گیا ہے جہاں تعینات نوکرشاہ اور کچھ ماہرین ہی اہم فیصلوں کی سمت ورفتار طے کرتے ہیں۔

3

پچھلی دہائی میں، مرکز میں ہندوتوا کی بالادستی والی حکومت کے عروج کے بعد، ‘نظم و ضبط’ اور ‘حب الوطنی’ کا فوجی ماڈل اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قائم کیا گیا ہے۔

اس سوچ کی ایک مثال جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر جگدیش کمار کی تجویز تھی، جس میں انہوں نے یوم کارگل کے موقع پر کیمپس میں ایک پرانا فوجی ٹینک نصب کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ طلبہ میں ‘فوج کے تئیں محبت’ پیدا ہو سکے۔ انہوں نے اس سیاسی تقریب میں موجود دو مرکزی وزراء سے ٹینک کا بندوبست کرنے کی اپیل کی تھی ۔

اس کے ساتھ ہی پروگرام میں موجود دو ریٹائرڈ فوجی افسران نے جے این یو پر ‘کنٹرول’ قائم کرنے کے لیے مرکزی حکومت کو مبارکباد دی تھی اور کہا تھا کہ یہی کنٹرول دوسری یونیورسٹیوں پر بھی لاگو کیا جانا چاہیے۔

جے این یو میں ٹینکوں کی نمائش کی تجویز کی طلبہ، ماہرین تعلیم اور سماجی طور پر باشعور شہریوں نے سخت مخالفت کی تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ قدم یونیورسٹی میں اختلاف کی آوازوں کو دبانے کی نیت سے اٹھایا گیا ہے۔ یونیورسٹیوں کا مقصد سپاہی یا فرمانبردار عوام  پیدا کرنا نہیں بلکہ ایسے باشعور شہری پیدا کرنا ہے جو ذی علم ہوں ، ان میں تجسس کا مادہ ہو اور اختلاف رائے کا اظہار کرنے کی ہمت رکھتے ہوں۔

درحقیقت، یہ بات اکثر فراموش کر د ی جاتی ہے کہ آزادی کے بعد ہی حکومت ہند کی طرف سے ملک میں سینک اسکولوں کا ایک سلسلہ  قائم کیا گیا تھا اور چند ڈیفنس اکیڈمیاں بھی قائم کی گئی تھیں جہاں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کو داخلہ مل سکتا تھا۔

پہلی جماعت سے فوجی تربیت شروع کرنے کے مہاراشٹر حکومت کے فیصلے پر سنجیدگی سے نظرثانی نہیں کی گئی ہے۔ نہ ہی اس بات کی چھان بین کی جا رہی ہے کہ کیا یہ اقدام تعلیم کے شعبے کی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش ہے، اور نہ ہی یہ دیکھا جا رہا ہے کہ یہ ہندوستانی معاشرے کی عسکریت پسندی کی سمت  ایک اہم قدم ہے۔ یہ منصوبہ ہندوتوا کی بالادستی کے نظریے کے ایجنڈے سے میل کھاتا ہے، جو پورے سماج کو عسکری بنا کر ‘اندرونی دشمنوں’ سے لڑنے کی  تیاری کراتا ہے۔

آر ایس ایس کے بانی رکن اور ڈاکٹر ہیڈگیوار کے سیاسی سرپرست بی ایم مونجے نے 1930 کی دہائی میں اٹلی کا سفر کیا تھا اور فاشسٹ منصوبوں کا مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ آر ایس ایس کے لیے ایسے ادارے قائم کریں گے اور ہندوستان واپس آکر انہوں نے بھونسالہ ملٹری اسکول قائم کرنے کی تگ ودوکی۔

ہندوتوا جماعتوں کے پسندیدہ ویر ساورکر نے 1942 میں ‘ہندوستان چھوڑو تحریک’ کے دوران ملک بھر کا سفر کیا تھااور نوجوانوں سے برطانوی فوج میں شامل ہونے کی اپیل کی تھی۔ ان کا نعرہ تھا، ‘ سیاست کا ہندو کرن کرو اور ہندوتوا کا سنیہ کرن کرو۔’

مہاراشٹر حکومت کا یہ قدم اسی خواب کو پورا کرتا ہے۔

(سبھاش گاتاڈے بائیں بازو کے کارکن، مصنف اور مترجم ہیں۔)

Next Article

ایران میں اغوا تین ہندوستانی شہری پاکستانی ایجنٹوں کے چنگل سے آزاد کرائے گئے

آسٹریلیا جانے کے لیے ایران پہنچے پنجاب کے تین افراد کو پاکستانی ایجنٹوں نے اغوا کر لیا تھا۔ اغوا کاروں نے ان کے اہل خانہ کو ویڈیو کال کر کے رقم کا مطالبہ کیا تھا۔ اب خبر آئی ہے کہ ایرانی پولیس نے ان تینوں کو بچا لیا ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

جالندھر: پنجاب کے تین افراد کو ایک ہفتے تک لاپتہ رہنےکے بعد ایرانی پولیس نےبچا لیا ہے۔ یہ تمام افراد ورک پرمٹ ویزے پر آسٹریلیا جا رہے تھے، لیکن انہیں ایران کے دارالحکومت تہران سے پاکستانی ڈونکروں نے اغوا کر لیا  تھا۔

ان تین نوجوانوں کی شناخت نواں شہر کے جسپال سنگھ (32)، ہوشیار پور کے امرتپال سنگھ (23) اور سنگرور کے حسن پریت سنگھ (23) کے طور پر کی گئی ہے۔ یہ سب یکم مئی 2025 کو تہران ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد لاپتہ ہوگئے تھے۔

ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ اتوار (1 جون) کی شام کو ایرانی پولیس نے دارالحکومت تہران میں اغوا کاروں کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا اور ان سب کو بازیاب کرالیا۔ ‘وہ اب اپنے خاندانوں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ ہندوستانی سفارت خانہ ان کا علاج کروا رہا ہے اور ایگزٹ فارمیلیٹی کے بعد انہیں ہندوستان واپس لایا جائے گا۔’

پولیس حکام نے تصدیق کی ہے کہ اغوا کار بنیادی طور پر پاکستانی شہریوں کا ایک گروہ تھا۔ چھاپے کے دوران کچھ پاکستانی شہریوں کو بھی بازیاب کرایا گیا، جنہیں اسی گینگ نے اغوا کیا تھا۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ تینوں ہندوستانیوں کو چاقو سے زخمی کیا گیا تھااور گینگ کے ارکان نے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

معلوم ہو کہ پاکستان کی ایران کے ساتھ تقریباً 900 کلومیٹر کی سرحد لگتی ہے، جس کی وجہ سے سرحد عبور کرنا نسبتاً آسان ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ‘ایران سے پاکستان میں ڈیزل کی بڑی اسمگلنگ ہوتی ہے اور اس میں بہت سے گروہ ملوث ہیں۔’

تین جون کی شام دو افراد نے اپنے اہل خانہ سے مختصر بات چیت کی۔ پاکستانی انسانی اسمگلروں نے ان نوجوانوں کو تہران کے ہوائی اڈے سے اغوا کیا تھا اور ایک کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا، جسے بعد میں کم کر کے 54 لاکھ روپے کر دیا گیا، یعنی ہر نوجوان کے لیے 18 لاکھ روپے۔

خاندان کے افراد نے بتایا تھا، ‘ڈونکروں (انسانی اسمگلروں یا اغوا کاروں کے لیے استعمال ہونے والی مقامی اصطلاح) نے ہمارے بیٹوں کو اغوا کیا اور ان پر تشدد کیا۔ وہ ویڈیو کال کراتے تھے اور ہم سے 18 لاکھ روپے مانگتے تھے۔ کال کے دوران ہمارے بیٹے برہنہ ہوتے تھے اور ان کے جسموں پر گہرے زخم اور کٹے ہوئے نشانات صاف دکھائی دے رہے تھے۔’

دی وائر سے بات کرتے ہوئےہوشیار پور کے رہنے والے امرت پال سنگھ کے کزن یدھویر سنگھ نے بتایا کہ انہیں 3 جون کی شام 5:30 سے ​​6 بجے کے درمیان امرت پال کا فون آیا تھا۔ ‘بہت مختصر گفتگو میں امرت پال نے مجھے صرف اتنا بتایا کہ انہیں بچا لیا گیا ہے اور انہیں تہران میں ہندوستانی سفارت خانے لے جایا جا رہا ہے۔’

یدھویر نے یہ بھی بتایا کہ امرت پال نے کہا کہ وہ اگلی صبح یعنی 4 جون 2025 کو دوبارہ کال کریں گے۔

اسی طرح حسن پریت سنگھ کے کزن من پریت سنگھ نے بھی کہا کہ ان کا بھائی محفوظ ہے اور اسے بچا لیا گیا ہے۔

تاہم جسپال سنگھ کے بھائی اشوک کمار نے دی وائر کو بتایا کہ انہیں میڈیا سے نوجوانوں کے ریسکیو آپریشن کے بارے میں معلوم ہوا۔ ‘ہمیں اپنے بھائی کی محفوظ رہائی کا علم میڈیا رپورٹس سے ہی ہوا، خاص طور پر کچھ پنجابی اخبارات سے۔ ابھی تک، ہمیں میرے بھائی یا پنجاب پولیس کے کسی افسر کا کوئی فون نہیں آیا۔’

اشوک نے کہا کہ ان کے بھائی کے بچنے کی خبر پورے خاندان کے لیے بڑی راحت کی بات ہے۔ ‘ہم نے ہر لمحہ اس کے لیے دعا کی۔ اب ہم صرف ان کی کال یا کسی سرکاری اہلکار کی تصدیق کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ ہماری پریشانیاں دور ہو ں۔’ انہوں نے کہا.

اس سے قبل 28 مئی کو تہران میں ہندوستانی سفارت خانے نے ایکس پر ایک بیان جاری کیا تھا  جس میں کہا گیا تھا کہ ایران میں تین ہندوستانی لاپتہ ہیں اور ان کا سراغ لگانے کی کوششیں جاری ہیں۔

بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) 2023 کی دفعہ 143، 318 (4)، 61 (2) اور پنجاب ٹریول پروفیشنلز (ریگولیشن) ایکٹ 2014 کی دفعہ 13 کے تحت ہوشیار پور کے تین ٹریول ایجنٹوں – دھیرج اٹوال، کمل اٹوال اور سویتا سویا کے خلاف  نوجوانوں کے اہل خانہ کی شکایت پر ایف آئی آردرج کی گئی تھی۔

اشوک کمار نے پہلے یہ بھی بتایا تھا کہ انہوں نے اور دیگر دو نوجوانوں کے بھائیوں نے پیسے اکٹھے کرکے ٹریول ایجنٹ دھیرج اٹوال کو خود چنڈی گڑھ کے ہوائی اڈے پر ڈراپ کیا تھا۔ یہ ایجنٹ 4 مئی 2025 کو ایک پرواز میں سوار ہونے کے بعد سے لاپتہ ہے جو مبینہ طور پر ایران جا رہی تھی۔

‘دھیرج شروع میں تین دن تک ہمارے ساتھ رابطے میں تھا۔ پھر اس نے کہا کہ وہ تینوں کی تلاش میں ایران جا رہا ہے اور تب سے لاپتہ ہے۔ اس کا چھوٹا بھائی کمل اٹوال بھی لاپتہ ہے۔ گاؤں میں ان کا گھر بھی بند ہے، ‘ انہوں نے کہا۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

راجیہ سبھا کی مداخلت کے بعد جسٹس شیکھر یادو کے خلاف سپریم کورٹ کی انٹرنل جانچ کا منصوبہ روک دیا گیا

الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو نے وشو ہندو پریشد کے ایک پروگرام میں مسلمانوں کے خلاف متنازعہ بیان دیا تھا، جس کے بارے میں سپریم کورٹ اندرونی تحقیقات شروع کرنا چاہتی تھی، لیکن راجیہ سبھا سکریٹریٹ نے واضح کیا کہ یہ اختیار صرف پارلیامنٹ اور صدرجمہوریہ کے پاس ہے۔

جسٹس شیکھر یادو (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی:  سپریم کورٹ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو کے خلاف وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ایک پروگرام میں دیے گئے متنازعہ بیان پر اندرونی تحقیقات شروع کرنے کی تیاری کر رہی  تھی۔ لیکن راجیہ سبھا سکریٹریٹ کی طرف سے ایک خط موصول ہونے کے بعد عدالت نے اس منصوبہ کو ترک کر دیا ۔

ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس معاملے سے واقف لوگوں نے بتایاکہ مارچ میں راجیہ سبھا کی طرف سے بھیجے گئے ایک خط میں کہا گیا تھا کہ صرف راجیہ سبھا کے چیئرمین کے پاس ایسی کارروائی شروع کرنے کا آئینی اختیار ہے، اور بالآخر یہ پارلیامنٹ اور صدر کے دائرے میں آتا ہے۔

اس خط کی وجہ سے سپریم کورٹ نے جسٹس یادو کے خلاف اندرونی تحقیقات کا منصوبہ روک دیا۔ اس سے قبل، الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سنگین اعتراضات کی رپورٹ کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ نے یہ جائزہ لینے کے لیے یہ عمل شروع کیا تھا کہ کیا جسٹس شیکھر یادو کے طرز عمل کی تحقیقات ضروری ہے یا نہیں۔

اخبار نے راجیہ سبھا سکریٹریٹ سے یہ پوچھنے کے لیے رابطہ کیا کہ آب آگے کیا کارروائی ہوگی، لیکن اسے فوری جواب نہیں ملا۔

اس سے قبل فروری میں راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ نے کہا تھا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا اختیارصرف پارلیامنٹ کے پاس ہے۔

دھنکھڑ نے کہا تھا، ‘معزز اراکین، 13 دسمبر 2024 کو، مجھے راجیہ سبھا کے 55 اراکین کے دستخط شدہ قرارداد کا ایک غیر تاریخ شدہ نوٹس ملا ہے۔ یہ قرارداد آئین کے آرٹیکل 124(4) کے تحت الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ آئین کے مطابق، اس موضوع پر فیصلہ لینے کا حق صرف راجیہ سبھا کے چیئرمین کو ہے، اور بالآخر یہ معاملہ پارلیامنٹ اور معزز صدر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔’

دھنکھڑ کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں آیا تھا جب 55 اپوزیشن ممبران پارلیامنٹ نے راجیہ سبھا میں جسٹس یادو کے مبینہ ‘طرزعمل’ کے تعلق سے ایک قرارداد پیش کی تھی۔

گزشتہ سال 8 دسمبر کو وی ایچ پی کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے جسٹس شیکھر یادو نے کہا تھا کہ ہندوستان صرف ‘اکثریت’ یعنی ہندوؤں  کی مرضی کے مطابق چلے گا۔ انہوں نے کچھ مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ‘کٹھ ملا’ جیسے متنازعہ الفاظ کا استعمال کیا تھا اور چار شادیوں اور تین طلاق وغیرہ  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ملک کے لیے ‘مہلک’ ہیں۔