کانگریس اگر ہندو بیلٹ میں بی جے پی کے رتھ کو روکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا ٹرم مکمل کرنے میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔
علامتی تصویر (فوٹو بہ شکریہ: بی جے پی اور کانگریس فیس بک پیج)
دس سال بعد جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے لیے مہم اب اپنے عروج پر ہے۔ 2014 کے انتخابات میں حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے جموں ڈویژن کے ہندو بیلٹ کی سبھی سیٹوں پر قبضہ کرکے ایک تاریخ رقم کردی تھی۔
دوسری طرف مسلم اکثریتی وادی کشمیر اور جموں کے پیر پنچال اور چناب ویلی میں سیٹیں ، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یعنی پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے درمیان تقسیم ہوگئیں۔ اس بار بھی بے جے پی یہی حربہ اپنا رہی ہے۔
بی جے پی نے 2014 میں کیے گئے اپنے تمام وعدے پورے کیے، جن کا مقصد اس خطے کی اکثریتی مسلم آبادی کو سیاسی طور پر بے وزن اور بے اختیار بنایا تھا۔
نہ صرف اس نے ہندوستانی آئین کی دفعہ 370 میں کشمیر کو دی گئی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے اور 1947ء میں پاکستان سے آئے ہندو شرنارتھیوں کو ووٹ ڈالنے کے حقوق دیے جانے کے اپنے وعدے پورے کیے، بلکہ اسمبلی حلقوں کی حد بندیا ں اس طرح کیں، جن سے ہندو بیلٹ کی سیٹوں میں اضافہ ہوا۔ پچھلی اسمبلی کی 87 سیٹوں میں 24 کے قریب ہندو اکثریتی حلقے تھے، جن کو اب تیس کے قریب بڑھایا گیا ہے۔
مگر اس کے باوجود بے جے پی کو اس بار ان سبھی سیٹوں پر قبضہ کرنے کے لیے جتن کرنے پڑ رہے ہیں۔ جموں کو وادی کشمیر کے مقابل کھڑا کرکے اوریہ بتا کر اس نے کشمیری مسلمانوں کو اوقات دکھائی ہے اور جذباتی نعروں سے پولرائزیشن کرکے مہم تو چلا رہی ہے، مگر وہ اس بار پُر اعتماد نہیں ہے۔
زمینی حالات بہت زیادہ پارٹی کے حق میں نہیں ہیں۔ خصوصی پوزیشن کے خاتمہ کے بعد جموں کا کاروباری ہی سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، اس کا ادراک اب ہندو آبادی کو ہو رہا ہے۔
چند ماہ قبل ہوئے لوک سبھا کے انتخابات کا اگر اسمبلی حلقہ وار جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوتا کہ ہندو اکثریتی حلقوں میں سے سات میں کانگریس کو لیڈ حاصل ہوئی اور بی جے پی کا ووٹ بینک بھی 46 فی صد سے 24 فیصد رہ گیا۔
اس صورت حال میں اگر کانگریس اس ہندو بیلٹ میں خم ٹھوک کر میدان میں آتی ہے، تو بی جے پی کو بیس سے کم سیٹوں تک محدود کیا جاسکتا ہے۔ مگر کیا کریں، کانگریس جموں و کشمیر میں وہی داؤ کھیل رہی ہے، جو وہ مغربی بنگال میں کرتی ہے، یعنی سیکولر یا مسلمان ووٹوں کو تقسیم کرنے کا ذریعہ۔
گو کہ اس نے نیشنل کانفرنس کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا ہے، جس کی رو سے وہ جموں کی اکثریتی سیٹوں پر انتخاب لڑے گی، مگر جموں کے ہندو بیلٹ میں ایک فیصلہ کن مہم چلانے سے زیادہ اس کی نظریں وادی کشمیر اور جموں خطے کی مسلم سیٹوں پر ٹکی ہوئی ہے، جو ان کو آسان ترنوالہ لگتا ہے۔
پچھلے انتخابات میں کانگریس پارٹی کو اپنے گڑھ جموں کے ہندو بیلٹ میں ایسی ہزیمت کا سامنا کرناپڑا کہ اس کے مقتدر لیڈران بی جے پی کے نو آموز ممبروں کے سامنے بونے لگے۔ اس کے پاس اس وقت ایک بھی ہندو ممبر اسمبلی نہیں تھا۔اس بار ان کو موقع ہے کہ اپنی انتخابی زمین میں واپسی کریں۔ مگر لگتا ہے وہ ابھی تک کوئی سبق سیکھنے کے موڈ میں نہیں ہے۔
ووٹروں کی ناراضگی کے پیش نظر بی جے پی نے اپنی مربی تنظیم راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کا سہارا لیا ہے۔ اس لیے آر ایس ایس کے وابستہ لیڈر رام مادھو کو انتخابی مہم کا انچارج بنایا ہے۔وہ پچھلے انتخابات میں بھی انچارج تھے، مگر بعد میں ان کو بے جے پی سے بے دخل کرکے واپس آرایس ایس میں بھیج دیا گیا تھا۔
کشمیر کی دو نوں سیاسی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے باری باری بے جے پی کے ساتھ ہاتھ ملاکر ان کو اس خطے میں ایک بیس بنانے کا موقع دیا ہے۔ اس بار بھی بجائے متحد ہوکر لڑنے اور ایک بڑے خطرے کے ساتھ مقابلہ کرنے کے وہ ایک دوسرےکے ساتھ برسرپیکار ہیں۔
سال 2014 میں نتائج کے اگلے روز ہی بی جے پی نے نیشنل کانفرنس کو اتحاد کی دعوت دی تھی اور عمر عبداللہ کے اس وقت کے دست راست دیوندر رانا، جو اب بی جے میں ہیں، نے دہلی میں ملاقاتیں کی تھیں۔ بتایا جاتا تھا کہ جموں کے بی جے پی کے لیڈر نرمل سنگھ کو وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے مقتدر لیڈر علی محمد ساگر کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے کے طور پر کسی حد تک اتفاق ہوگیا تھا۔ مگر یہ بیل اس لیے منڈھے چڑھ نہیں سکی، کیونکہ ساگر کے علاوہ دیگر لیڈروں نے سرینگر میں اس کی پرزور مخالفت کی۔
بعد میں بی جے پی نے پی ڈی پی کو شیشے میں اتار کر مفتی محمد سعید اور پھر ان کی رحلت کے بعد ان کی بیٹی محبوبہ مفتی کےسر پر تاج رکھ کر ان کی معیت میں حکومت بنائی۔ مگر پھر 2018 میں ان کی حکومت سے حمایت واپس لےکر گورنر راج کی راہ ہموار کی، جو اب تک جاری ہے۔
ان دونوں پارٹیوں نے اقتدار کی نیلم پری سے بوس کنار کی خاطر اپنے ووٹروں سے کیے گئے وعدوں اور ان کی شناخت کو مٹانے والوں سے کئی بار سمجھوتے کئے۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمرعبداللہ بھی اس بار ووٹروں سے خائف ہیں۔ اس لئے وہ روایتی حلقہ گاندر بل کے علاوہ بڈگام سے بھی میدا ن میں اترے ہیں۔
اس دوران انہوں نے عوامی ہمددری حاصل کرنے لےلیے افضل گوورو کا بھی معاملہ اٹھایا اور بتایا کہ ان کو پوچھے بغیر ہی ان کو 2013 میں پھانسی پر چڑھایا گیا۔ مگر اب شاید وقت آگیا ہے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ گورو کو پھانسی دینے سے تقریباً 10 دن پہلے، 30 جنوری 2013 کو نارتھ بلاک میں وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے ملاقات کے دوران ان سے کیا کہا تھا؟
اس میٹنگ کے فورا بعد وہ اپنے والد فاروق عبداللہ جو مرکزی وزیر تھے سے ملنے پہنچے۔ 8 فروری کی شام، جب عمر عبداللہ خان مارکیٹ میں رات کا کھانا کھا رہے تھے، تو کیا شندے نے انہیں فون کرکے یہ تو نہیں بتایا کہ اس دن جو بات ہوئی ہے وہ کل ہورہا ہے۔ خیال رکھیں۔ اس کے بعد صبح سویرے وزیر اعلیٰ سرینگر وارد ہوگئے، تاکہ امن و قانون کو یقینی بنایا جائے۔
حالات بتاتے ہیں کہ عمر کو تمام چیزوں کا علم تھا ۔شندے نے بھی ان کو شاید اسی لیے بتایا تھا کہ وہ کوئی وبال کھڑا کریں تاکہ افضل گورو کے وکلا کو ان کے لیے مزید قانونی راستہ ڈھونڈنے کا موقع ملے۔ یہ قیاس اس لیے لگایا جا رہا ہے کہ شندے نے کچھ ایسا ہی موت کی سزا کا انتظار کر رہے دو سکھ قیدیوں بلونت سنگھ روجانہ اور دیوندر پال سنگھ بھلر کے حوالے سے کیا۔ جب اس نے اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو ان کی موت کی سزا پر عملدرآمد کے بارے میں مطلع کیا، تو انہوں نے اس پر ایک ہنگامہ کھڑا کیا اور اس کے وکلا کے قانونی داؤ پیچ چلالڑا کر ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کروایا۔
اسی طرح 1984 میں وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے اپنی کرسی بچانے کےلیے جموں میں سکریٹریٹ میں اپنے کمرے میں مجسٹریٹ پوتر سنگھ کو طلب کرکے مقبول بٹ کی بلیک وارنٹ پر دستخط کروائے تھے۔ مگر کیا کریں اس کے چار ماہ بعد ہی ان کو اندرا گاندھی نے معزول کراکے ان کے بہنوئی غلام محمد شاہ کو وزیر اعلیٰ بنایا۔
خیر دیکھتے ہیں کہ کشمیر میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
کانگریس اگر ہندو بیلٹ میں بی جے پی کے رتھ کو روکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا ٹرم مکمل کرنے میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔
ان انتخابات کی باز گشت ہندوستان کے کئی دیگر صوبوں میں بھی سنائی دے گی۔