این آر سی کی حتمی فہرست کی اشاعت کے ایک سال بعد بھی اس میں شامل نہ ہونے والےلوگوں کو آگے کی کارروائی کے لیے ضروری ریجیکشن سلپ کا انتظار ہے۔ کارروائی میں ہوئی تاخیر کے لیے تکنیکی خامیوں سے لےکر کورونا جیسے کئی اسباب بتائے جا رہے ہیں، لیکن جانکاروں کی مانیں تو بات صرف یہ نہیں ہے۔
آسام کے موری گاؤں میں این آر سی کی حتمی فہرست میں اپنا نام دیکھنے کے لئے آئے مقامی لوگ(فوٹو : پی ٹی آئی)
‘لوگوں کو امید تھی کہ فائنل این آر سی کے آنے کے بعد دہائیوں سے موجودغیرقانونی بنگلہ دیشیوں کا مسئلہ حل ہو جائےگا، لیکن اس کی اشاعت کے بعد جس طرح سے چیزیں بدلیں، اس سے ہم پس و پیش ہیں۔اسمبلی انتخابات کی آہٹ سنی جا سکتی ہے، پھر ایک بار اس پرسیاست ہوگی۔’
دس پور کے رہنے والے
بسنت ہزاریکا کی یہ بات این آر سی کو لےکر ریاست کے اکثر لوگوں کےنظریے کی ترجمانی ہے۔گزشتہ31 اگست کو آسام این آر سی کی حتمی فہرست کو ایک سال مکمل ہو گیا۔ پچھلے سال اس کو لےکرقومی سطح سے لےکر ریاست کے اندر جس طرح کی گھبراہٹ اور گہما گہمی کی حالت بنی ہوئی تھی، اس بار تصویر اس کے بالکل الٹ تھی۔
غورطلب ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پرآسام میں1951 میں ہوئے این آرسی کو اپ ڈیٹ کیا گیا تھا، جس کی حتمی فہرست31 اگست 2019 کو جاری کی گئی تھی۔اس میں کل 33027661 لوگوں نے درخواست دی تھی۔ حتمی فہرست میں تین کروڑ 11 لاکھ لوگوں کا نام آیا اور 19 لاکھ سے زیادہ لوگ اس سے باہر رہ گئے۔
این آر سی کو لےکر اس سے پہلے چھڑی بحث کے مدنظر اس سے باہر رہے لوگوں میں گھبراہٹ تو تھی ہی، یہ ڈر بھی تھا کہ انہیں ڈٹینشن سینٹر بھیج دیا جائےگا، لیکن یہ امید بھی تھی کہ انہیں اپنی بات رکھنے کا موقع ملےگا جو اس معاملے میں دوبارہ اپیل کرنا تھا۔لوگوں میں پھیلے ڈر کو دیکھتے ہوئے ریاستی سرکار نے پہلے ہی صاف کر دیا تھا کہ این آر سی کی حتمی فہرست سے سے باہر کیے جانے والے لوگوں کو غیرملکی قرار نہیں دیا جائےگا۔
ان کے پاس 120 دنوں کے اندر فارن ٹریبونل[ایف ٹی]میں اپیل داخل کرنے کا موقع ہوگا، جس کی بنیاد پر غیرملکی ایکٹ، 1946 اور غیر ملکی ٹریبونل آرڈر، 1964 کے تحت ان کی شہریت کا فیصلہ ہوگا۔اگر وہ یہاں ہوئے فیصلے سے بھی مطمئن نہیں ہیں، تب وہ اوپری عدالتوں میں جا سکتے ہیں۔ لیکن اب ایک سال بعد ایف ٹی میں جانے کی بات تو دور، این آر سی کا پروسس ہی ڈھنگ سےمکمل نہیں ہوا ہے۔
سال بھر بیتنے کے بعد باہر رہے لوگوں کو ‘ریجیکشن سلپ’ تک نہیں ملی ہے، جس کی بنیاد پر وہ کسی ٹربیونل میں آگے اپیل کر سکتے ہیں۔
گوہاٹی واقع این آر سی ڈائریکٹریٹ کے مطابق کاغذی کارروائی میں ہوئی گڑبڑیوں کی وجہ سے ریجیکشن سلپ بانٹنے میں تاخیر ہوئی۔ ساتھ ہی اسٹاف کی کمی اور کورونا کا آ جانا اور لاک ڈاؤن بھی ایک سبب بنا۔
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے این آر سی کوآرڈنیٹر ہتیش دیو سرما نے بتایا کہ فائنل فہرست سے باہر رہے ہر فرد کو ریجیکشن آرڈر دیا جانا ہے، لیکن اس کے ساتھ ایک اور دستاویز جڑتا ہے، جسے ‘اسپیکنگ آرڈر’ کہتے ہیں۔ا سپیکنگ آرڈر میں اس فرد کے فہرست سے باہر رہنے کی وجہ درج ہوتی ہے۔
سرما کے مطابق جب انہوں نے کئی ریجیکشن آرڈر چیک کئے، تب انہیں کئی خامیاں نظر آئیں، جس کی وجہ سے انہوں نے اسے دوبارہ چیک کیے جانے کا آرڈر دیا۔ لیکن کووڈ کی وجہ سے اکثر سرکاری اسٹاف اس سے جڑی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، اس لیےاس کام میں تاخیر ہو رہی ہے۔
اس بیچ سپریم کورٹ جس کی نگرانی میں یہ پوری کارروائی ہوئی ہے، اس نے اس بارے میں آخری شنوائی 6 جنوری کو کی تھی۔غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ ریجیکشن سلپس تبھی جاری کی جا سکتی ہیں جب این آر سی کی فائنل فہرست کو رجسٹرار جنرل آف انڈیا (آرجی آئی)کے ذریعے نوٹیفائیڈکر لیا جائے۔
آسام این آر سی کے لیےشہریت(سول رجسٹریشن اور نیشنل آئی ڈی ڈسٹری بیوشن)قانون2003 کے تحت دیے گئے خصوصی اہتماموں کے مطابق سول رجسٹریشن کے بعدمقامی رجسٹرار تمام دعووں اور اعتراضات کے نپٹارے کے بعد ناموں کو جوڑے جانے یا ہٹائے جانے کی ایک ضمنی فہرست تیار کر کے اس کو شائع کرےگا اور اس کے بعد آرجی آئی آسام این آر سی کی اس فائنل فہرست کو شائع کرےگا۔
لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔
’یہ این آر سی قابل قبول نہیں‘
این آر سی کی فہرست کے اشاعت کے بعد سے ہی اس پر سوال اٹھتے رہے ہیں اور دوبارہ تصدیق کی مانگ لگاتار اٹھائی گئی۔ سوال اٹھانے والوں میں سب سے پہلے ریاست کی مقتدرہ پارٹی بی جے پی رہی۔کسی وقت این آر سی کے بعد ‘گھس پیٹھیوں’ کو ملک سے کھدیڑ باہر کرنے کے دعوے کرنے والی
بی جے پی کے تیوراین آر سی کو لےکر فائنل فہرست کی اشاعت سے پہلے ہی بدلنے لگے تھے۔
جون 2019 میں این آر سی کی فائنل فہرست جاری ہونے سے پہلے ایک ایکسکلوشن لسٹ جاری کی گئی تھی، جس کے بعد سے بی جے پی کی جانب سےدوبارہ تصدیق کی مانگ اٹھائی جانے لگی۔
اسی سال جولائی میں آسام سرکار اورمرکز نے دوبارہ تصدیق کی اس کارروائی کو لےکر سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی لیکن اس وقت کےاین آر سی کوآرڈنیٹر پرتیک ہجیلا کے ذریعے27 فیصدی ناموں کی پہلے ہی تصدیق کرائے جانے کی بات کہنے کے بعد عدالت نے عرضی خارج کر دی تھی۔
اس کے بعد 31 اگست کو حتمی فہرست کی اشاعت کے بعد بی جے پی نے کہا تھا کہ وہ این آر سی کی اپ ڈیٹ ہوئی فہرست پر بھروسہ نہیں کرتی ہیں۔بی جے پی آسام کے صدر رنجیت کمار داس کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ این آر سی کی حتمی فہرست میں سرکاری طور پر پہلے بتائے گئےاعدادوشمار کے مقابلےباہر کیے گئے لوگوں کی بہت چھوٹی تعداد بتائی گئی ہے۔
اس کے بعد ریاست کے سینئر رہنمااوروزیر خزانہ ہمنتا بسوا شرما نے بھی کہا تھا کہ این آر سی کی حتمی فہرست میں کئی ایسے لوگوں کے نام شامل نہیں ہیں جو 1971 سے پہلے بنگلہ دیش سے ہندوستان آئے تھے۔اس کے بعد ایک دوسرے موقع پر انہوں نے کہا تھا، ‘بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس پر بھروسہ نہیں ہے کیونکہ جو ہم چاہتے تھے اس کے الٹ ہوا۔ ہم سپریم کورٹ کو بتائیں گے کہ بی جے پی اس این آر سی کو خارج کرتی ہے۔ یہ آسام کے لوگوں کی پہچان کا دستاویز نہیں ہے۔’
اب ریاست کی بی جے پی سرکار کی مانگ ہے کہ بنگلہ دیش سے سٹے اضلاع سے این آر سی فہرست میں شامل 20 فیصدی اور باقی ضلعوں سے 10 فیصدی ناموں کی دوبارہ تصدیق ہونی چاہیے۔اس کے لیے اس نے عدالت میں حلف نامہ بھی داخل کیا ہے۔ پچھلے ہفتے اسمبلی کے چارروزہ سیشن میں پارلیامانی امور کے وزیر چندرموہن پٹواری نے یہی بات کہی تھی اور میڈیا میں بھی این آر سی کے سوال پر وہ اسے دوہراتے نظر آئے۔
حالانکہ بی جے پی اکیلی نہیں ہے جو این آر سی کے موجودہ اعدادوشمار کو قبول نہیں کر رہی ہے۔ این آر سی سے ناخوش لوگوں کی فہرست میں آسام پبلک ورکرس (اےپی ڈبلیو)بھی شامل ہے۔
این آر سی کی حتمی فہرست جاری ہونے کے بعد گوہاٹی میں اس کے خلاف مظاہرہ کررہےآسام پبلک ورکرس کے صدرابھیجیت شرما (گلابی قمیص میں)اور کارکن۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
قابل ذکر ہے کہ یہ وہی غیر سرکاری تنظیم بھی ہے، جو سپریم کورٹ کی نگرانی کے تحت آسام میں این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے عدالت میں عرضی گزار تھی۔پچھلے سال اگست میں فہرست کی اشاعت کے بعد اےپی ڈبلیو کا کہنا تھا کہ حتمی این آر سی فہرست کی ناقص طریقے سے مکمل کیا گیا تھا۔
اسی سال ستمبر میں اس کے سربراہ ابھیجیت شرما نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے این آر سی کے پروسس، اس وقت کےاین آر سی کوآرڈنیٹر پرتیک ہجیلا کو لےکر کئی سوال اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ اس میں کئی ایسے نام بھی جڑے ہیں، جنہیں اس میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔
ان کی مانگ ہے کہ فہرست کی سو فیصدی دوبارہ تصدیق کی جائے۔
’سرکارسی اے اے لا سکے اس لیے این آر سی کو پٹری سے اتار دیا‘
آسام میں آسامی بنام باہری کا مسئلہ آسام کی تاریخ جتنا ہی پرانا ہے اور اس کے مرکز میں آل آسام سٹوڈنٹس یونین(آسو)رہا ہے۔وہ اس فائنل فہرست کو تو قبول کر رہے ہیں لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ این آر سی نامکمل ہے اور اس کی کارروائی میں گڑبڑیاں ہوئی ہیں، جس کے لیے تنظیم نے سپریم کورٹ میں عرضی دی ہوئی ہے۔
این آر سی کے ایک سال پورے ہونے کے بعد آسو کی جانب سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ریاست میں شہریت ترمیم قانون (سی اے اے)نافذ کرنے کے لیے ریاستی سرکار کے ذریعےاین آر سی کو پٹری سے اتارنے کی سازش کی گئی۔
ان کے مطابق ایسا کرنے کی وجہ ‘ووٹ بینک کی سیاست’ہے۔ 1 ستمبر کو آسو صدر دیپانکر کمار ناتھ کی طر ف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ‘دہلی اور دس پور’(قومی اور ریاست کی راجدھانی)کے ذریعےاین آر سی کے اشاعت میں بہت سی انتظامی مشکلیں کھڑی کی گئیں اور آج ایک سال بعد بھی اس کو لےکرغیریقینی کی حالت بنی ہوئی ہے۔
اس بیچ تنظیم کےچیف صلاح کار ڈاکٹر سمجل بھٹاچاریہ نے صاف کیا کہ وہ اس این آر سی کو رد نہیں کررہے ہیں، بلکہ ان کے مطابق اس میں جو کمیاں رہ گئی ہیں، انہیں ٹھیک کرنے کے لیے وہ قانون کی مدد لے رہے ہیں۔انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ این آر سی سے خوش نہیں ہیں کیونکہ وقت وقت پرمختلف سرکاروں کے ذریعے‘غیرملکیوں’ کی تعداد کو لےکر دعوے کیے گئے تھے، لیکن جب فائنل فہرست آئی تب یہ تعدادقیاس آرائیوں کے مقابلے بےحد کم تھی۔
بھٹاچاریہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ سالوں میں بی جے پی کا رویہ این آر سی کو لےکر بدل گیا ہے۔
ایسا انہیں کیوں لگا، یہ پوچھے جانے پر وہ جواب دیتے ہیں، ‘کیونکہ ان کے ذہن میں اب سی اے اے چلتا رہتا ہے۔ اگر این آر سی میں(غیرملکیوں کی)قابل قبول تعداد ہوتی، تو آسام کے لوگ اسے خوشی خوشی اپنا لیتے۔ اس حالت میں اگر سرکار سی اے اے جیسا کوئی قانون لاتی، تو یہ لوگوں کو ناراض کر سکتا تھا کیونکہ اس سے این آر سی کا کیا ہوا سب بیکار ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ایک صحیح این آر سی نہیں چاہیے۔’
کانگریس رہنما دیب برت سیکیہ کے مطابق بی جے پی میں آسام میں غیرقانی غیرملکیوں کے مسئلے کو سلجھانے کی خواہش ہی نہیں ہے۔ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘یہ بدقسمتی ہے کہ بی جے پی این آر سی کوقبول نہیں کر رہی ہے جبکہ اس کی کٹ آف ڈیٹ کو ریاست کے تمام طبقوں نےقبول کیا تھا۔ اور غیرملکیوں کی اس پریشانی کو ختم کرنے کے لیے 1600 کروڑ روپے خرچ کیےجا چکے ہیں۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘وے این پی آر اور ملک گیر این آر سی کا حوالہ دیتے ہوئے اس این آر سی کو قبول نہیں کر رہے ہیں، جو عملی نہیں ہے۔ یہ آسام میں غیرملکیوں کا مدعا حل کرنے کے لیے بی جے پی میں قوت ارادی کی کمی کو دکھاتا ہے۔’دیب برت کا یہ بھی ماننا ہے کہ این آر سی کو بیچ میں چھوڑکر نریندر مودی سرکار کا سی اے اے لے آنا آسام سمجھوتے کی خلاف ورزی ہے۔
کامروپ ضلع یں این آر سی کی حتمی فہرست کی اشاعت کے بعد اپنا نام چیک کرتے مقامی لوگ۔ (فوٹو پی ٹی آئی)
لوگوں کے ڈر، پریشانیاں اورشہریت پر سوال
مغربی آسام کے بارپیٹا ضلع کے 48 سال کے اتم دیب ناتھ کرانہ کی دکان چلاتے ہیں اور ان 19 لاکھ لوگوں میں شامل ہیں، جن کا نام این آر سی کی حتمی فہرست میں نہیں آیا تھا۔دیب ناتھ کا کہنا ہے کہ ان کے بھائیوں اوررشتہ داروں کا نام لسٹ میں تھا اس لیے انہیں لگا تھا کہ ان کا نام بھی لسٹ میں آ جائےگا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پر اب سال بھر بعد بھی ان کا ڈر بنا ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا، ‘میں این آر سی دفتر سے ملنے والی ریجیکشن سلپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ اسی کی بنیاد پر ٹربیونل میں اپیل دائر کر سکتا ہوں۔ لیکن ابھی سرکار کی طرف سے جس طرح کی ٹال مٹول چل رہی ہے، اس سے میری تشویش بڑھ گئی ہے۔ اس ایک سال میں ہمارے نام کلیئر کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوا۔’
مستقبل کو لےکر غیریقینی ایک بڑی پریشانی ہے، جس کا سامنا فہرست سے باہر رہے لوگ کر رہے ہیں۔نوگاؤں کے رہنے والے 24 سالہ دیپانکر بسواس پلائی ووڈ کی ایک دکان میں کام کرتے ہیں۔ ان کی ماں کو چھوڑکر ان کا، ان کے ایک بھائی اور دو بہنوں میں سے کسی کا نام این آر سی کی فہرست میں نہیں آیا۔
دیپانکر نے بتایا کہ کچھ سال پہلے ان کےوالد کو ‘ڈی’ووٹر بتاتے ہوئے گوآلپاڑا کے ڈٹینشن سینٹر لے جایا گیا تھا، پھر وہاں سے تیج پور شفٹ کر دیا گیا۔ پچھلے سال وہیں وہ گزر گئے، جس کے بارے میں اہل خانہ کو بعد میں پتہ لگا۔وہ کہتے ہیں، ‘ان کو ڈی ووٹر بتاکر لے گئے تھے لیکن ان کا نام ووٹر لسٹ میں تھا، انہوں نے کئی بار ووٹ دیا تھا۔ شاید ان کی وجہ سے ہمارا نام این آر سی میں نہیں آیا لیکن ہم بھی ووٹرلسٹ میں ہیں اور ووٹ دے چکے ہیں۔’
این آر سی میں نام نہ آنے پر ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک یا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، لیکن این آر سینٹر کی جانب سے سال بھر گزرنے پر کوئی کاغذ نہیں ملا، اسے لے کر وہ تھوڑا پریشان ہیں۔وہ کہتے ہیں، ‘پتاجی کو آواس یوجنا والا گھر ملنے والا تھا، لیکن ان کو لے گئے۔ اب ہم گھر کو لینا چاہتے ہیں لیکن این آر سی کا کاغذ مانگتا ہے۔ ہم آگے تب کچھ کر پائیں گے نہ جب کوئی کاغذ ملےگا۔’
اس کے علاوہ کئی ایسی فیملی بھی ہیں، جہاں این آر سی میں نام آنے کو لے کر شادیوں میں پریشانیاں آ رہی ہیں۔ لوگوں کو پاسپورٹ بنوانے میں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ساتھ ہی اگر زمین خریدی ہے، تو اس کی رجسٹری نہیں ہو پا رہی ہے۔حالانکہ سرکار کی طرف سے باربار اس بات کو زور دےکر کہا گیا تھا کہ این آر سی میں نام نہ آنے بھر سے کسی کو غیرملکی قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن شہریت کے نام پر ہو رہی سیاست کے بیچ فہرست میں ان کا نام نہ آنا ہی ان کے عدم تحفظی کے احساس کے لیے کافی ہے۔
آسام میں شہریت ایک بڑا مدعا رہا ہے اور اگلے سال اسمبلی انتخاب بھی ہونے ہیں۔پچھلے انتخاب سے پہلےسربانندسونووال کے ذریعےاین آر سی کا وعدہ کیا گیا تھا، جسے نبھانے میں ان کی سرکار پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ ایسے میں کیا انتخاب میں یہ کوئی مؤثر مدعا رہےگا؟
ریاست کے ایک سینئرصحافی کا کہنا ہے، ‘بہت خاص نہیں۔ لوگ ناراض ہو سکتے ہیں، انہیں لگ سکتا ہے کہ اسے لےکر ہمیشہ کی طرح پھر سیاست ہوگی لیکن ایسا نہیں ہے۔’
وہ آگے کہتے ہیں، ‘آپ اس وقت کسی بھی پارٹی کو دیکھ لیجئے، کوئی بھی این آر سی کو لےکر کچھ بول نہیں رہا ہے۔ بی جے پی کے اسے نہ اٹھانے کی اپنی وجہیں ہو سکتی ہیں لیکن اپوزیشن کانگریس، اےآئی یوڈی ایف؟ جس دن این آر سی کا ایک سال پورا ہوا اتفاق سے اسی دن سےاسمبلی کاسیشن بھی شروع ہوا تھا، لیکن ایوان میں کسی نے اس کا نام بھی نہیں لیا۔ یہ دکھاتا ہے کہ اب پارٹیوں کےلیے شاید اس کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔’