کریم گنج پارلیامانی حلقہ کے ایک مسلم اکثریتی گاؤں کے لوگوں نے آسام کے محکمہ جنگلات کے افسران اور ملازمین پر الزام لگایا ہے کہ وہ انہیں مبینہ طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے یا ‘بلڈوزر کارروائی’ کے لیے تیار رہنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
کریم گنج اور سی ایم ہمنتا بسوا شرما۔ (تصویر بہ شکریہ: گوگل میپس/فیس بک)
نئی دہلی: آسام کے کریم گنج پارلیامانی حلقہ کے ایک مسلم اکثریتی گاؤں کے لوگوں نے آسام کے محکمہ جنگلات کے 9 افسران کے خلاف مقامی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
گاؤں والوں کا الزام ہے کہ انہیں مبینہ طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے امیدوار کو ووٹ دینے یا ‘بلڈوزر کارروائی’ کے لیے تیار رہنے کی دھمکی دی گئی ہے۔
نامزد 9 افسران میں چیف سکریٹری ایم کے یادو کا نام بھی شامل ہے۔ یادو کے علاوہ گاؤں والوں نے بی جے پی امیدوار کرپاناتھ ملاح کے خلاف بھی شکایت درج کرائی ہے۔ اس سیٹ پر ووٹنگ جمعہ (26 اپریل) کو ہوئی ہے۔
ہیلاکانڈی ضلع کے بٹوکوسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں نے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کریم گنج کی عدالت سے ووٹنگ سے قبل ‘ایک آزاد اتھارٹی’ کی تقرری کرنے اور ان کی مبینہ ‘مجرمانہ دھمکی’ کی ‘غیر جانبدارانہ تحقیقات’ کا حکم دینے کی مانگ کی ہے۔
ایم کے یادو
ایم کے یادو ایک متنازعہ انڈین فاریسٹ سروس (آئ ایف ایس) افسر ہیں، جو اس سال فروری میں ریاست کے چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ اور ریاست کے جنگلات کے چیف وائلڈ لائف وارڈن کے طور پر ریٹائر ہوئے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عام انتخابات سے ٹھیک پہلے ہمنتا بسوا شرما کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے انہیں دوبارہ خصوصی چیف سکریٹری (جنگل) کے طور پر مقرر کیا۔
ان کی دوبارہ تقرری پر ہنگامہ بھی ہوا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آسام میں شیروں کے تحفظ کے لیے فنڈز کا غلط استعمال اور اس وقت کے صدر ہند رام ناتھ کووند کے کازیرنگا دورے کے دوران بلوں میں بے تحاشہ اضافہ سمیت بدعنوانی کے کئی واقعات میں ان کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی بات سامنےآئی تھی۔
اس وقت، ان تنازعات نے شرما حکومت کو انہیں ریاست کے چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ اور چیف وائلڈ لائف وارڈن کے عہدے سے عارضی طور پر ہٹانے کے لیے مجبور کر دیا تھا۔
ایم کے یادو۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب/ڈیجیٹل انڈیا۔)
ان کی دوبارہ تقرری کے فوراً بعد کانگریس کے ایم ایل اے اور آسام اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر دیب برت سیکیہ نے گورنر گلاب چند کٹاریہ کو ایک خط لکھ کر دس وجوہات بھی بتائی تھی کہ کیوں یادو کو آسام حکومت کے ذریعے مقرر نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔
دیب برت نے جن مسائل کا ذکر کیا تھا، ان میں الکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے الزامات بھی شامل ہیں، جو مبینہ طور پر اس وقت ہوئے تھے جب یادو اے ای ڈی سی ایل— اے ایم ٹران کے منیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ یہ سرکاری کمپنی عام انتخابات کے لیے یہ مشینیں فراہم کرتی ہے۔ سی ایم شرما، اس وقت کانگریس میں تھے اور ایم ٹران کے چیئرمین تھے۔
آسام میں یادو کو شرما کے قریبی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
خط میں دیب برت کے ایم ٹران کا حوالہ 2009 کا تھا، جب ریاست کی اپوزیشن پارٹیاں، خاص طور پر آسام گن پریشد (اے جی پی)، جو اب آسام میں بی جے پی کی اتحادی ہے، نے یادو کی قیادت میں ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
بدسلوکی، زبردستی کے الزامات
کریم گنج کی سی جے ایم عدالت میں 24 اپریل کی عرضی سعیدل علی، دلور حسین، موجمون نیہر اور علیم النسا کی طرف سے دائر کی گئی تھی، جو تمام ہیلاکنڈی ضلع کے رتباری تھانہ حلقہ کے بٹوکوسی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔
یادو کے ساتھ، جن لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے، اس میں سلچر کے چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ راجیو کمار داس، ہیلاکھنڈی فاریسٹ ڈویژن کے ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر اکھل دتہ، آئی ایف ایس آفیسر اور کچھار ڈویژن کے ڈی ایف او وجئے ٹمبک پالوے، چرنگی رینج کے رتباری ڈپٹی انچارج منوج سنہا، چرنگی رینج کے فاریسٹر اجیت پال، دلا وچیرہ بیٹ آفیسر فیض احمد بوربھویا، چرنگی فارسٹ گارڈ تپس داس، چرنگی بیٹ آفیسر عبدالنور، اور چرنگی فارسٹ گارڈ فیض الدین لشکر کے نام شامل ہیں۔
عرضی میں یہ بھی کہا گیا کہ ‘کالے کپڑوں میں کئی دیگر جنگلات کے ملازمین، پولیس اہلکار، آسام پولیس کمانڈو اور فاریسٹ فورس کے کل 40 سے 45 افراد تھے، ان سب کے نام اور پتے معلوم نہیں ہیں۔’
شکایت کنندگان نے عدالت میں اپنی اپیل میں واضح طور پر کہا ہے کہ 21 اپریل سے پڑوسی مسلم اکثریتی دیہاتوں میں بھی ان اہلکاروں کی طرف سے ایسی ہی دھمکیاں دی گئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ تین دنوں سے آسام پولس کمانڈوز اور فاریسٹ فورس کے ساتھ 40 سے 45 کی تعداد میں کالے کپڑوں میں مسلح پولیس، مسلح فارسٹ گارڈز کے ہمراہ بٹوکوسی، رونگ پور، چرنگی، جلال واد، نیویا اور دیگر علاقوں میں دن اور رات میں گھر گھر جا رہے ہیں۔
الزام لگایا گیا ہے کہ یہ لوگ گھروں کے مکینوں سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں، انہیں گھر سے باہر بلا رہے ہیں اور ان کے گھروں کی تصاویر لے رہے ہیں۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ بی جے پی امیدوار کرپاناتھ ملاح کو ووٹ دیں۔ ساتھ ہی دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو 4 جون 2024 (عام انتخابات کے ووٹوں کی گنتی) کے بعد انہیں بلڈوزر کے ذریعے گھروں سے بے دخل کر دیا جائے گا۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملزمان ان لوگوں کے لیے مہاجرین، ‘بنگال سے آئے لوگ’ جیسی ہتک آمیز زبان استعمال کر رہے ہیں۔ ان تمام لوگوں سے بی جے پی امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے کہا جا رہا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کیا یہ لوگ یہاں رہنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ یہاں پر سکون اور خوشی سے رہنا چاہتے ہیں تو انہیں بی جے پی کے امیدوار کو ووٹ دینا ہوگا، ورنہ انہیں یہاں سے بے دخل کر دیا جائے گا…’
درخواست گزاروں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ان کے پاس واقعے کی کئی تصاویر اور ویڈیو کلپ ہیں اور انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ‘انہیں کیس کی مناسب سماعت کے لیے پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔’
اسے ملزم کی طرف سے ‘جان بوجھ کر دی گئی مجرمانہ دھمکی اور توہین’ قرار دیتے ہوئے گاؤں والوں نے ایک آزاد اتھارٹی سے اس معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
واقعے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے آسامی روزنامہ ایکسومیا پرتی دن نے کہا کہ گاؤں والوں کے مطابق، ملزمان نے جنگل کی زمین پر بنے ‘گزشتہ 50-60 سالوں’ کےمکانات کی بھی نشاندہی کی ہے۔
درخواست گزاروں کے مطابق، ‘ان کے پاس عدالت کو حکمراں جماعت کی جانب سے ریاستی حکومت کے اہلکاروں کے ذریعے دھمکی دینے کی بات کو دکھانے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں۔’
ٹرین رد
چونکہ یہ معاملہ ووٹنگ کے دن مقامی میڈیا میں رپورٹ کیا گیا ہے، اس لیے دی وائر نے ریاستی الیکشن کمیشن سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن اب تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
دی وائر نے ووٹنگ کے دن سلچر جانے والی چھ ٹرینوں کو اچانک رد کرنے پر بھی الیکشن کمیشن سے جواب طلب کیا ہے۔
واضح ہو کہ 25 اپریل کو نارتھ ایسٹ فرنٹیئر ریلوے کی طرف سے ان ٹرینوں کو رد کرنے کی وجہ سے، سلچر اور کریم گنج پارلیامانی حلقوں کے ہزاروں ووٹر جمعہ کو ووٹنگ نہیں کر پائے۔
بی جے پی کے کرپاناتھ ملاح کریم گنج لوک سبھا سیٹ سے دوبارہ انتخاب لڑ رہے ہیں، جبکہ ریاستی وزیر پرمل سکلاویدھ سلچر حلقے سے اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، اس بنگالی ہندو اکثریتی سلچر سیٹ پر بی جے پی کے امکانات زیادہ ہیں، جبکہ کریم گنج میں کانگریس امیدوار حافظ راشد چودھری سب سے آگے ہیں۔
پہلے درج فہرست ذات کے امیدواروں کے لیے مخصوص یہ سیٹ، آسام میں انتخابی حلقوں کی حد بندی کے بعد، کریم گنج لوک سبھا سیٹ نے
مسلم کمیونٹی کو ان انتخابات میں کمیونٹی کے اندر سے ایک رکن پارلیامنٹ کو امیدوار کے طور پر دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)