
سیدہ حمید کے پاس آسام کی بے حدخوبصورت یادیں ہیں۔لیکن آج اچانک انہیں یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ وہ عورت ہیں اور مسلمان ہیں۔ان کی تکلیف کون محسوس کرنا چاہتا ہے؟

سیدہ حمید نے توہندوستان کو اپنی محبت دی۔ زندگی کے اس مرحلے پر اس محبت کا جواب ان کا وطن کس زبان میں دے رہا ہے؟ (تصویر: پی ٹی آئی)
آسام کے دورے سے واپس آئی ٹیم اپنی رپورٹ جاری کرنے والی تھی۔ سیدہ حمید، وجاہت حبیب اللہ، جواہر سرکار، ہرش مندر، پرشانت بھوشن، فواز شاہین دو دن کےلیےآسام گئے تھے۔آسام میں کئی جگہوں سے بنگالی مسلمانوں کی بستیاں اجاڑے جانے کی خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ یہ لوگ حالات کا جائزہ لینے اور اس کوسمجھنے کے لیے آسام گئے تھے۔ اس دورے کی رپورٹ جاری کی جانی تھی۔ پروگرام کانسٹی ٹیوشن کلب میں تھا۔ میں وقت سے کچھ پہلے پہنچ گیا تھا۔ سامنے والے دروازے کی طرف بڑھا تو سیکورٹی گارڈ نے روک دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ راستہ صرف اراکین کے لیے ہے۔ اس نے کہا بغل کے گلیارے سےباقی لوگ اندر جا سکتے ہیں۔
میں نے کچھ دیر توقف کیا اور سوچا؛ ایم پی یہاں آ ہی نہیں سکتے اگر ہم جیسے لوگ انہیں منتخب کرکے دہلی نہ بھیجیں۔ لیکن وہ منتخب ہوتے ہی اپنے اور عوام کے درمیان دیوار کھڑی کر لیتے ہیں۔ عوام اس راستے پر نہیں چل سکتے جس پر معزز اراکین پارلیامنٹ گزرتے ہیں۔ یاد آیا کہ اس سال ‘اینیمل فارم’ کی اشاعت کی 80 ویں سالگرہ ہے۔ کون کہتا ہے کہ جارج آرویل نے یہ کتاب صرف سوویت یونین پر لکھی تھی!
بہرحال! اپنی اوقات جان کر عام لوگوں کے لیے کھلی راہداری سے پیچھے کے دروازے سے اندر گیا۔
ریپبلک ٹی وی اور ٹائمز ناؤ کے مائیک سے لیس لڑکیاں نظر آئیں۔ میں چونک گیا۔ عام طور پر، ہندوستان کے بڑے میڈیا کو ہندوستانی عوام کے کسی حصے کے درد اور تکلیف سے شاید ہی کوئی لینا دینا ہو۔ ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ ہم نے منی پور میں جاری تشدد پر آزاد ٹریبونل کی رپورٹ جاری کی تھی۔ وہاں تو ان میں سے کوئی نہیں تھا۔
انڈمان نکوبار میں ماحولیاتی تباہی پر رپورٹ جاری ہوئی، کوئی نظر نہیں آیا۔ دہلی میں کچی بستیوں کے انہدام پر جب بھی پریس کانفرنس ہوئی، ان میں سے کوئی بھی وہاں نہیں تھا۔ انہیں معاشرے کے کمزور طبقات کے دکھوں کی داستانیں سننے یا سنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر انہیں آسام میں مسلمانوں کے مکانات کے انہدام کی کہانیاں سننے میں دلچسپی کیوں پیدا ہوئی؟
مجھے سمجھ لینا چاہیے تھا کہ یہ شکار پر نکلے ہیں۔
کچھ اندیشہ اس وقت پیدا ہوا تھا، جب میں نے اخبارات میں چیختی ہوئی سرخیاں دیکھی تھیں؛’بنگلہ دیشی ہندوستان میں رہ سکتے ہیں’، منصوبہ بندی کمیشن (پلاننگ کمیشن) کی سابق رکن سیدہ حمید نے کہا۔’ میں نے یہ تقریباً ہر اخبار میں دیکھا۔ پھر دوستوں نے سوشل میڈیا پر آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما کا ان کے خلاف بیان دیکھا؛ ‘سیدہ حمید جیسے لوگ گھس پیٹھیوں کو جائز ٹھہرانےکا کام کر رہے ہیں۔ وہ آسام کو پاکستان کا حصہ بنانے کا خواب پورا کرنا چاہتے ہیں۔’
ایک اور بیان میں شرما نے کہا کہ وہ خود ان کے خلاف ایف آئی آر نہیں کریں گے کیونکہ وہ اس کے نام پر مقدمہ لڑنے کے لیے پیسے جمع کرکے امیر بن جائیں گی۔ لیکن اگر وہ آسام واپس آتی ہیں تو ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ بیان میں انہوں نے اشارہ کیا کہ اگر حکومت ایسا نہیں کرتی ہے تو بھی دوسرے اس کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتے ہیں۔
شرما نے سیدہ کو فوراً کانگریس پارٹی سے جوڑ دیا۔ سیدہ سے پیچھاچھڑانے کے لیے آسام کانگریس کے رہنماؤں نے ان پر تنقید کرتے ہوئے بیانات جاری کیے۔ پھر دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی سیدہ کے خلاف بیانات جاری کیے؛ وہ آخرکیسے کہہ سکتی ہیں کہ بنگلہ دیشی ہندوستان میں رہ سکتے ہیں!
یہ سب پڑھتے ہوئے مجھے بھی جھنجھلاہٹ ہوئی تھی۔سوچا،سیدہ اور دوسرے لوگ ایک خاص کام سے آسام گئے تھے۔ انہوں نے وہاں کھلے عام کچھ کیوں کہا! لیکن پھر میں نے وہ ویڈیو دیکھا جس میں وہ بنگلہ دیشیوں کے بارے میں کچھ کہہ رہی ہیں۔ دیکھا کہ وہ کیمرہ والوں سے گھری ہوئی ہیں۔
بظاہر ان سے بنگلہ دیشیوں کے بارے میں کچھ پوچھا جا رہا ہے۔ سوالات کی بوچھاڑ سے عاجز آکر سیدہ کہتی ہیں؛ ‘آخر بنگلہ دیشی ہونا جرم تو نہیں ہے۔ دنیا اتنی بڑی ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی زمین پر وہ بھی رہ سکتے ہیں۔ وہ کسی کے حقوق غصب نہیں کر رہے ۔’
کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ سیدہ کے بیان کا کیا مطلب ہے۔ بنگلہ دیشیوں کو ہندوستان میں مجرم بنا دیا گیا ہے۔ گویا اس لفظ کا مطلب مجرم یا غیر قانونی ہو۔ ان کے ساتھ کسی نسانی سلوک کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پھر اس کے نام پر ان تمام لوگوں پر حملہ کیا جا سکتا ہے جو بنگالی بولنے والے ہوں اور مسلمان ہوں۔ یہ سارے ہندوستان میں ہو رہا ہے۔ بعض اوقات بنگالی بولنے والے ہندو بھی اس کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ کسی کے ماتھے پر یہ نہیں لکھا ہوتا کہ وہ ہندو ہے یا مسلمان۔
اس تناظر میں سیدہ صرف یہ کہہ رہی تھیں کہ بنگلہ دیشیوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کو بھی جینے کا حق ہے۔ ان کے کسی لفظ کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ وہ ہندوستان میں بنگلہ دیشیوں کے غیر قانونی قیام کی وکالت کر رہی ہیں۔
سیدہ اپنی معصومیت میں یہ بھول گئیں کہ آج کے ہندوستان اور آسام میں ان کے اس انسانیت کے مطالبے کا واحد جواب تشدد ہی ہو سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے وہ حملہ شروع کیا۔ باقی سب اس حملے میں شامل ہو گئے۔ لیکن اس حملے کے لیے ان کے بیان کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ سیدہ اور اس کے ساتھیوں کے آسام جانے کی خبر عام ہوتے ہی شرما نے سب پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ یہ تمام لوگ دراندازوں کی حمایت کے لیے آسام آ رہے ہیں۔یہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے ساتھ مل کر دراندازوں کے خلاف آسام کی جنگ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ پھر معلوم ہوا کہ آسام پولیس اس ٹیم کی مسلسل نگرانی کر رہی تھی۔ خوف کا ایسا ماحول بنا دیا گیا تھاکہ لوگ اس ٹیم کے ارکان کی میزبانی کرنے سے بھی گھبرا رہے تھے۔
اس سے پہلے شرما ہرش مندر کے خلاف مسلسل بیانات دیتے رہے ہیں۔ اسمبلی تک میں انہیں گرفتار کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہرش نے آسام میں ‘حراستی مراکز ‘میں بند لوگوں کے ساتھ انسانی سلوک کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ وہ آسام میں این آر سی کے نام پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھی بولتے رہے ہیں اور قانونی کارروائیوں میں بھی شامل رہے ہیں۔ اس لیے انہیں آسام کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔
گزشتہ 11 سالوں سے بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندوستان کا مین اسٹریم میڈیا ‘دراندازوں’ کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ میں سیدہ، ہرش اور پرشانت جیسے ہندوستانیوں کو غدار قرار دیا جا رہا ہے جو دشمن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔
کانسٹی ٹیوشن کلب میں داخل ہوتے وقت یہ پس منظر ہمارے ذہن کے عقب میں کہیں تھا۔ پہلے تو ہم نے سوچا کہ سیدہ نہ آئیں۔ ہمیں ڈر تھا کہ میڈیا انہیں یہاں گھیر لے گا۔ لیکن وہ کیسے نہیں آ سکتی تھیں! وہ نازک نظر آتی ہیں، لیکن ہیں اپنے ارادے میں سخت۔
‘راشٹر وادی’ میڈیا سورماؤں کی بے چینی دیکھتے ہی بنتی تھی۔ جیسا کہ میں نے لکھا، وہ یہ جاننے میں بالکل بھی دلچسپی نہیں رکھتے تھے کہ سیدہ اور ٹیم نے آسام میں کیا دیکھا۔ اس میٹنگ میں آسام کے لوگ بھی موجود تھے۔ میڈیا ان کی بات بھی نہیں سننا چاہتا تھا۔ وہ اپنے سوال کے ساتھ حملہ کرنے کے لیے تیار تھے؛ آپ گھس پیٹھیوں کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں؟ ٹیم کا جو بھی رکن اندر آتا اس پر یہ سوال داغا جا رہا تھا۔

کانسٹی ٹیوشن کلب میں مقررین۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
ہم اس کے لیے کسی حد تک تیار تھے، لیکن آگےجو ہوا ہم نے اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ پروگرام کے آدھا گھنٹے گزرتے نہ گزرتے باہر شور سنائی دینے لگا۔ وہ قریب آتا جا رہا تھا۔ پھر ایک ہجوم اندر داخل ہوا۔ ملک کےغداروں کو’جوتے مارو، گولی مارو’ جیسے نعرے لگاتے ہوئے وہ اسٹیج کے سامنے جمع ہو گئے اور نعرے لگاتے رہے۔ ان میں سے کچھ نے ٹوپی پہن رکھی تھی تاکہ یہ ظاہر ہو کہ وہ مسلمان ہیں۔
کیمرے بھیڑ کی قیادت کرتے ہوئے پہلے اندر داخل ہوئے تھے۔ ہجوم کے سامنے تمام مائیک والے چیخ رہے تھے۔ دراندازوں کی حمایت کرنے والے غداروں کے خلاف قوم پرستوں کے احتجاج کی قومی نشریات جاری تھی۔ ہجوم میں موجود لوگ گالی گلوچ کرتے ہوئےہنس بھی رہے تھے، مائیک والے لوگوں کا جوش و خروش قابل دید تھا۔ گویا انہیں اپنا شکار مل گیا تھا۔ جلسہ کے منتظمین نے اسٹیج کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا تاکہ سیدہ یا ہرش یا پرشانت پر حملہ ہو تو انہیں بچایا جا سکے۔
عجیب منظر تھا۔ اجتماع کو پرتشدد ہجوم نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ کلب کے سیکورٹی گارڈز کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ ہم سب خاموش بیٹھے تھے۔ ہم ہجوم کے رحم و کرم پر تھے۔ وہ ہمیں مارنا نہیں چاہتے تھے اس لیے ہم بچے ہوئے تھے۔ لیکن اس ہجوم میں سے کوئی کچھ بھی کر سکتا تھا۔ جاتے وقت انہوں نے اپنے پلے کارڈز اسٹیج پر پھینکے۔ ان سے کوئی زخمی ہو سکتا تھا۔
تقریباً 20 منٹ تک راشٹروادی گالی گلوچ کرتے ہوئے بعد ہجوم اور ٹی وی کا عملہ وہاں سے چلا گیا۔ واضح ہو گیا کہ یہ ٹی وی کے عملے اور اس ‘احتجاجی مظاہرہ’ کے منتظمین کی مشترکہ کوشش تھی۔
ہجوم کے جانے کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا۔ بعد میں میں نے سوچا کہ ہم نے اسے اتنا نارمل کیوں سمجھا۔ کوئی پریشان کیوں نہیں ہوا؟ کچھ دوستوں نے پوچھا، کوئی تشدد تو نہیں ہوا؟ لیکن جوہو رہا تھا، یہ تشدد نہیں تھا تو کیا تھا؟
میٹنگ میں آسام کی مسلم تنظیموں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ میڈیا ان کی بات کیوں نہیں سننا چاہتا تھا؟ ان میں سے ایک نے کہا، ‘ہمیں رات میں نیند نہیں آتی ہے۔’کیوں یہ سوال کسی اخبار کی سرخی نہ بن سکا؟
پرشانت بھوشن نے کہا کہ جب وہ اندر آ رہے تھے تو ٹی وی والے ان کے منہ میں اپنا مائیک ٹھونس رہے تھے اور چیخ رہے تھے کہ آپ گھس پیٹھیوں کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں۔ یہ صحافت نہیں غنڈہ گردی تھی۔
سیدہ اس ہنگامہ کے درمیان خاموش تھیں۔ جب ان کی باری آئی تو انہوں نے کہا کہ جب یہ بلوائی بھیڑ اندر داخل ہوئی تو ہندوستان کی آزادی یا تقسیم کے وقت کا ماجرا ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ تب وہ بچی تھیں۔ جب یہ بلوائی کانسٹی ٹیوشن کلب میں داخل ہوئے تو انہیں خیال آیا کہ ان کی اماں -ابا نے کیا کیا دیکھا اور جھیلا تھا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بنگلہ دیشی لفظ ہندوستان میں گالی بن گیا ہے۔ انہوں آسام کے ساتھ اپنے رشتے کو یاد کیا۔ ان کے ذہن میں آسام کی بے حد خوبصورت یادیں ہیں۔ لیکن آج اچانک انہیں یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ وہ عورت ہیں اور مسلمان ہیں اور ان کا نام اب ہر جگہ ہے۔
سیدہ حمید کی تکلیف کو کون محسوس کرنا چاہتا ہے؟ کیا آج ہندوستان میں یہ خواہش اور قوت ہے کہ سیدہ حمید کو سناجا سکے ؟
جب میں یہ سب لکھ رہا ہوں، خبر آئی ہے کہ سیدہ حمید کے خلاف آسام میں تقریباً 16 جگہوں پر پولیس میں شکایت درج کرائی گئی ہے ۔
سیدہ حمید جب ہال سے باہر نکل رہی تھیں تو ان کی تاک میں بیٹھے ٹی وی والے ایک بار پھر سے ان پر ٹوٹ پڑے۔ ‘140 کروڑ لوگ آپ سے جاننا چاہتے ہیں۔ مجھے غصہ آگیا۔ ‘آپ 140 کروڑ لوگ نہیں ہیں۔ آپ صرف ایک نیوز ایجنسی ہیں۔’ میں چلایا۔ سیدہ کی کارکا دروازہ بند کیا۔ انہوں نے اپنی جانی پہچانی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ہلایا۔
سیدہ آج اپنی ہی عمر کے آزاد ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں کیا سوچ رہی ہوں گی؟ انہوں نے توہندوستان کو اپنی محبت دی۔ زندگی کے اس مرحلے پر اس کا جواب ان کا وطن انہیں کس زبان میں دے رہا ہے؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)