سینئر ادیب اشوک واجپئی نے بتایا ہے کہ انہیں دہلی میں منعقد ’ارتھ–دی کلچر فیسٹ‘ کی کویتا سندھیا میں مدعو کیا گیا تھا، لیکن منتظمین نے انہیں سیاسی یا حکومت پر تنقید کرنے والی نظمیں پڑھنے سے منع کیا۔ انہوں نے کہا، ہم اختلاف کرنے والے لو گ ہیں، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ ہمیں جگہ دیتے ہیں یا نہیں۔
ارتھ فیسٹ کے انسٹاگرام پیج پر اشوک واجپئی کے پروگرام سے متعلق ویڈیو پوسٹ۔
نئی دہلی: 24 فروری کی صبح تقریباً 10 بجے ‘
کبھی کبھار‘ نام کے فیس بک پیج سے ہندی کے سینئر ادیب اشوک واجپئی سے منسوب ایک پوسٹ میں کہا گیا، ‘میں آج آرتھ اور ریختہ کے زیر اہتمام کلچر فیسٹ (ثقافتی میلے) میں شرکت نہیں کروں گا۔ کیونکہ مجھے صرف ایسی نظمیں پڑھنے کو کہا گیا،جس میں سیاست یا حکومت پر براہ راست تنقید نہ ہو۔ اس طرح کا سینسر ناقابل قبول ہے۔
واضح ہو کہ ‘کبھی کبھار’ اشوک واجپئی کا کالم ہے، جسے وہ گزشتہ کئی سالوں سے مختلف پبلی کیشن کے لیے ہفتہ وار لکھتے رہے ہیں اور اس وقت یہ کالم
دی وائر ہندی پر شائع ہو رہا ہے۔
کیا ہے ‘ارتھ لائیو’
ارتھ لائیو زی گروپ کا ایک انٹرپرائز ہے، جو 2019 سے ہر سال کولکاتہ اور دہلی میں ‘ارتھ – دی کلچر فیسٹ’ کے نام سے ثقافتی تقریبات کا اہتمام کرواتا رہا ہے، جس میں ملک اور بیرون ملک سے ادب، آرٹ اور کلچر سے وابستہ افراد شرکت کرتے رہے ہیں۔
ارتھ کی ویب سائٹ پر اس کے
مقررین میں سیاسی شخصیات کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے، جن میں ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ، مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی، انوراگ ٹھاکر، گورنر عارف محمد خان، ایم پی اسد الدین اویسی، عآپ ایم ایل اے آتشی، سابق مرکزی وزیریشونت سنہا، کانگریس لیڈرششی تھرور اور سلمان خورشید سے لے کر اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے نام شامل ہیں۔
اس سال 24 سے 26 فروری تک دہلی کی سندر نرسری میں منعقد ہونے والے اس
پروگرام میں اردو کی معروف ویب سائٹ ریختہ اور اس کی دوسری اکائی
ہندوی بھی شامل ہوئی ہیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے پروگرام کے
شیڈول سے پتہ چلتا ہے کہ 24 فروری کو رات 8.30 بجے ‘ہندوی کویتا سندھیا’ کا سیشن ہونا تھا، جس میں اشوک واجپئی کے ساتھ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ کہانی کار اور شاعرہ انامیکا، شاعر اور ادیب بدری نارائن ، شاعر دنیش کشواہا اور اداکار مانو کول کو حصہ لینا تھا۔
اشوک واجپئی نے اس میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا،میں گزشتہ چند ہفتوں سے ملک سے باہر تھا۔ پرسوں ہی واپس آیا ہوں۔ آنے کے بعد وہاں سے تقریب میں آنے جانے کے بارے میں بات ہوئی۔ پھر کچھ دیر بعد کال آئی اور پوچھا کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کی شاعری کا موضوع کیا ہوگا۔ میں نے ان سے کہا کہ یونانی کورس تھیم ہو گا۔ یہ کورس یونانی ڈراموں کے بیچ میں بار بار آتے ہیں، کبھی نتیجہ خیز معنی پر کچھ کہتے ہیں، تبصرے کرتے ہیں اور رنگ کاروبار کو آگے بڑھاتے ہیں۔ میں نے ان پر چھ سات نظمیں کہی ہیں انہی میں سے دو تین سناؤں گا۔ اس پر انہوں نے کہا ٹھیک ہے اورسوال کیا کہ ان میں سیاست یا حکومت پر براہ راست تنقید تو نہیں ہو گی۔ اس پر میں نے کہا کہ میں تو اپنی نظموں میں صرف تنقیدہی کرتا ہوں۔ براہ راست توکچھ نہیں ہوتا، لیکن جو حالات ہیں اس کے بارے میں تو نظمیں ہوں گی ہی۔ انہوں نے ٹھیک ہے کہہ کر فون رکھ دیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ، اس کے بعد میں نے ریختہ کی ایک خاتون عہدیدار جو مجھ سے ملنے اور دعوت دینے آئی تھیں، ان سے بات کی۔ میں نے کہا کہ اگر آپ مجھے پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے ایسی شاعری کا انتخاب کرنا چاہیے، احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ ان میں کوئی سیاسی تبصرہ نہ ہو، حکومت پر تنقید نہ ہو، تو میں یہ قبول نہیں کرتا۔ میں پروگرام میں نہیں آؤں گا۔ پھر میں نے سوشل میڈیا پر اس پروگرام کا پوسٹر دیکھا تو لگا کہ مجھے واضح کرنا چاہیے کہ میں وہاں کیوں نہیں جا رہا ہوں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پینل میں شامل دوسروں لوگوں سے بھی ایسا کچھ کہا گیا ہے، واجپئی نے اس بابت کوئی جانکاری ہونے سے انکار کیا۔
واجپئی نے کہا کہ اس مہینے کے شروع میں اس پروگرام کے حوالے سے ان سے رابطہ کیا گیا تھا۔ ارتھ کے بارے میں بتا یا بھی گیا تھا، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ کیا ہے۔ ‘مجھے لگا کہ کوئی ادارہ ہوگا۔’
اشوک واجپئی نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت کے سخت ناقد رہے ہیں۔ 2015 میں نوئیڈا کے اخلاق لنچنگ کیس کے بعد انہوں نے اپنا ساہتیہ اکادمی ایوارڈ واپس کر دیا تھا۔ پچھلے کئی سالوں میں وہ مختلف فورمز پر حکومت پر تنقید کرتے رہے ہیں، مختلف
مضامین بھی لکھ چکے ہیں۔
وہ گزشتہ سال شروع ہوکر اس سال جنوری میں پوری ہوئی کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی کی ‘بھارت جوڑو یاترا’ میں کچھ دوسرے ادیبوں کے ساتھ
شامل ہوئے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کو سیاسی تبصرہ کرنے سے منع کرنے کی کیاوجہ ہو سکتی ہے تو انہوں نے کہا، ‘نہیں، میں اسے اس سے جوڑ کر نہیں دیکھتا۔ لیکن موٹے پر کہوں تو جو لوگ ہندی ادب کو پڑھتے اور جانتے ہیں،انہیں معلوم ہے کہ میں گزشتہ سات آٹھ سالوں سے بھارتیہ جنتا پارٹی، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور حکومت پر تنقید کرتا آ رہا ہوں۔ تحریری طور پر، ہر پلیٹ فارم سے ایسا کیا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو ان کو پتہ نہ ہو۔ اس کے باوجود انہوں نے مجھے مدعو تو کیا ہی تھا۔
پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ واجپئی کہتے ہیں،’یہ بھی ممکن ہے کہ وہ احتیاط برت رہے ہوں کہ کہیں کوئی ہنگامہ نہ ہو جائے۔ ممکن ہے کہ احتیاط کے طور پرانہوں نے مجھے خبردار کیا ہو۔انہوں نے مزید کہا، اس وقت مرکزی دھارے کی جو حالت ہے اس میں اندھی عقیدت کا احساس گامزن ہے۔ اگر اس میں اختلاف رائے کی جگہ نہیں ہے، تو ہم لوگوں کےلیے بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم اختلاف رائے رکھتے ہیں، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ ہمیں جگہ دیتے ہیں یا نہیں دیتے ہیں۔
دریں اثنا، ریختہ فاؤنڈیشن نے واجپئی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔ انورادھا شرما ہندوی کی ایڈیٹر ہیں اور انہوں نے ہی اشوک واجپئی سے اس تقریب کے دعوت نامے کے سلسلے میں رابطہ کیا تھا۔
انہوں نے دی وائر کو بتایا،جب ہم ان سے ملے تھے،تب انہیں بتایا گیا تھا کہ یہ پروگرام ارتھ، جوزی سے وابستہ ہے، ہم اس کے ساتھ مل کر کر رہے ہیں۔ ان سے سیاسی تبصرہ نہ کرنے کے بارے میں نہیں کہا گیا۔ ان سے ارتھ کے ایک صاحب ہیمنت نے بات کی تھی اور ان کی شاعری کی تھیم پوچھی گئی تھی، جو انہوں کچھ یونان سے متعلق بتایاتھا۔ بس یہی بات ہوئی تھی۔
وہ واضح طور پر کہتی ہیں کہ ریختہ یا ہندوی کی ٹیم کی طرف سے انہیں (واجپئی کو) سیاسی تبصرہ یا حکومت پر تنقید کرنے والی شاعری نہ سنانے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ واجپئی جی کی طرف سے تقریب سے چند گھنٹے قبل ایسی بات کہنا مناسب نہیں تھا۔ ان کاکہنا تھا، ‘انہوں نے مجھے کل (جمعرات) ہی منع کر دیا تھا۔ پرسوں انہوں نے بتایا تھا کہ اسی دن ان کا ایک اور پروگرام بھی تھا، شاید اس سے ٹائم کلیش ہو تو وہ نہ آ پائیں۔ کل ان کی ہیمنت سے بات ہوئی ، اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ وہ نہیں آ سکیں گے۔ ہم نے اسے نارمل ہی لیا اور ٹیم کو بتا دیا۔
انورادھا کہتی ہیں،’ سیاسی تبصرےوالی بات تو سوشل میڈیا سے پتہ چلی، لیکن ٹھیک ہے، جیسی جس کی رائے ہو۔ ضروری نہیں کہ ہر بات کا جواب دیا جائے۔ لیکن ہم کبھی ان سے یا کسی دوسرے شاعر سے سیاسی تبصرے نہ کرنے کو نہیں کہہ سکتے۔
‘کویتا سندھیا’ کے ساتھی ادیبوں نے کہا – کوئی ہدایت نہیں ملی
اشوک واجپئی کے ساتھ ‘کویتا سندھیا’ کے سیشن میں سینئر کہانی کاراور شاعرہ انامیکا بھی شامل تھیں۔ جب ان سے اس پیش رفت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، ‘سینسر شپ کے خلاف توکوئی بھی ہوگا۔ یہ تو اتنا بڑا مسئلہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم اس سے لڑتے۔ہم پھر بھی نظمیں سنا کر آتے۔ پیچھے ہٹ جانا لڑنے کاطریقہ نہیں ہو سکتا۔ لڑنے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ جائیں اور نظمیں سناکر آ جائیں۔
انہوں نے مزید کہا، ‘میں چھواچھوت پر یقین نہیں رکھتی، میں گیت کاروں اور انجان گیت کاروں کے ساتھ بھی پڑھ لیتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھے اپنی بات کہنے کا موقع مل رہا ہے۔ کسی جمہوریت میں لوگوں سے ڈائیلاگ ہونا ہی حل ہے۔ مجھ سے ایسا کہا جاتا تو میں نہیں مانتی ،زور دینے پر بھی اگر وہ راضی نہ ہوتے تو شاید میں نہ جاتی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس تقریب کا حصہ بنیں گی تو انہوں نے کہا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتی کیونکہ وہ نجی وجوہات سے شہر سے باہر ہیں۔
سیشن میں شامل ایک اور شاعر اور ادیب بدری نارائن نے واجپئی کے الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، حالانکہ انہوں نے یہ بتایا کہ ان سے ان کی نظموں کی تھیم کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔
اس پروگرام میں مؤرخ وکرم سمپت کا بھی ایک سیشن ہونا تھا۔ اس واقعہ کے حوالے سے رابطہ کرنے پر انہوں نے کال اور میسج کا جواب نہیں دیا۔
‘اظہار رائے کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہو رہی ہے’
اوم تھانوی سینئر صحافی ہیں اور ہری دیو جوشی جرنلزم یونیورسٹی، راجستھان کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں، وہ کہتے ہیں، ‘اشوک جی ہمارے دور کے سب سے بڑے شاعروں میں سے ایک ہیں اور ایک بڑے کلچرل ایکٹوسٹ ہیں۔ ملک کی ثقافت میں ان کا جتنا حصہ ہوگا، اتنا کم ہی لوگوں کا ہوگا۔ انہیں شاعری سنانے کے لیے بلایا جائے اور کہا جائے کہ یہ پڑھنا ہےیہ نہیں، توظاہر ہے کہ ان پر کوئی نادیدہ دباؤ کام کر رہا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بولنا، لکھنا، گانا، کارٹون بنانا،اسٹیج سے کامیڈی کرنا– یعنی اظہار کے تمام ممکنہ طریقوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر منتظمین اس کی زد میں آگئے ہیں تو یہ انتہائی افسوس ناک ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘اشوک جی نے بجا طور پر منع کر دیا ہے۔ ان کے فیصلے پر فخر ہے۔ لیکن یہ کتنا مشکل وقت ہے۔ بول نہیں سکتے، لکھ نہیں سکتے، گا نہیں سکتے، یہاں تک کہ طنزیہ اظہار بھی خطرے میں ہے۔ امرت کال ہے تو سب ممکن ہے!
جے این یو کے سابق پروفیسر اور ہندی کے ممتاز نقاد پرشوتم اگروال نے بھی اشوک واجپئی کے فیصلے کی تعریف کی ہے۔
انہوں نے ایک
سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ‘ایمرجنسی زیادہ سے زیادہ ایک شخصی آمریت تھی، اب ہمیں نظریاتی آمریت میں دھکیلا جا رہا ہے۔ ایسے آمرانہ سینسر کے خلاف مزاحمت ایک لازمی فریضہ ہے۔ واجپئی جی کو بہت بہت مبارکباد۔
نوجوان شاعر ویرو سونکر نے بھی اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے اشوک واجپئی کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے
فیس بک پر لکھا، “… ایک شاعر کیا پڑھے گا اور کیا نہیں پڑھے گا اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ کسی بھی شاعر کو یہ کہنا اس کے شاعر کی ہتک کرنا ہے، مجھے بھی ساہتیہ اکادمی کی طرف سے ایک کویتا پاٹھ کے لیے ایسا ہی پیغام دیا گیا تھا کہ حکومت مخالف نظمیں نہیں پڑھنی ہیں،اس کے بعد میں نے بھی اس کوتیا پاٹھ کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ایک شاعر کی حیثیت سے اگر ہمیں زندہ رہنا ہے تو فیصلے لینے کا حوصلہ رکھنا ہی ہوگا۔
دہلی یونیورسٹی میں ہندی کے پروفیسر اپوروانند نے کہا، ‘بریخت نے کہا ہے کہ ادب وہی ہے جو حقیقت کے اہم پہلوؤں کو ظاہر کر سکے۔ اس کے بغیر لکھنا ادب نہیں ہے۔ غیر سیاسی شاعری آج شاعری ہی نہیں ہے۔