یہ واقعی شرم کی بات ہے کہ ہندوستان کے مسلم لیڈران نے جموں وکشمیر میں ہورہی زیادتیوں کے متعلق اپنے منہ ایسے بند کئے ہیں جیسے ان کی چابیاں ہندو انتہا پسندوں کے پاس ہوں۔ جمیعۃ کے لیڈران آئین کی اس شق کی ترمیم و تحلیل کی حمایت کرتے ہیں تو پھر یونیفار م سول کوڈ اور تین طلاق قانون کے اطلاق پر کیوں شور مچا رہے ہیں؟
بند کے دوران سرینگر کا لال چوک (فوٹو : رائٹرس)
ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل و تقسیم کرنے جیسے غیر آئینی اوریکطرفہ اقدامات کے بعد مواصلاتی ناکا بندی اور ملٹری آپریشنز کے ذریعے مقامی آبادی کو ہراساں کرنے پر دنیا بھر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) حکومت پر لعن و طعن ہو رہی تھی، کہ ہندوستانی مسلمانوں کی قدیمی تنظیم جمیعۃ علماء ہند کے دونوں دھڑوں نے سادگی میں یا دانستہ ایسے قدم اٹھائے اور بیانات دیے کہ حکومت کی باچھیں کھل گئیں۔ غالباً پہلی بار یورپ و امریکہ میں سول سوسائٹی و میڈیاکو ہندوستان میں ابھرتے ہوئے فاشزم کا ادراک ہوا اور ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آرایس ایس کی مقامی شاکھاؤں کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی مانگ زور پکڑتی جا رہی تھی۔ چاہے بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ہو یا گھر واپسی یا ہندو فرقہ پرستوں کی دیگر مہمات، اس کے لیے خاصی رقوم بیرون ملک ہندوستانیوں کی طرف سے ہی آتی رہی ہیں۔
پہلے جمیعۃ کے ایک دھڑے کے رہنما اور بزرگ لیڈر مولانا ارشد مدنی نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کر کے ا س کی خوب تشہیر کی۔ مسلم اور یورپی ممالک میں جہاں ہندوستانی سفراء کوکشمیر اور فاشزم کے خلاف مہم کی وجہ سے کوئی جواب نہیں بن پا ررہا تھا، مولانا مدنی اور موہن بھاگوت کی ملاقات ان کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگئی۔ گو کہ مدنی صاحب کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے اور مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد کو قابو کرنے کے لیے رکھی گئی تھی، مگر اس کی ٹائمنگ ایسی تھی کہ یورپ و امریکہ میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں نے راحت کی سانس لی۔ فاشزم کے حوالے سے جو کیمپین بنی تھی، اس پر کاری ضرب لگ گئی۔ ہندوستانی سفار ت کارں نے اس میٹنگ کی رپورٹ میڈیا کے حوالے کرکے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ آر ایس ایس تو ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم ہے، جو مسلمانوں کی بہبودی کے لیے بھی کوشاں ہے، اس لئے اس کو فاشزم کے ساتھ نتھی کرنا ایک پروپیگنڈہ ہے۔
مولانا محمود مدنی
مولانا ارشد مدنی کی قیادت والی جمیعۃ گروپ کی طرف سے حال ہی میں آسام میں شہریت کے معاملے میں مسلمانوں کی رہنمائی اور جیلوں میں بند معصوم مسلم نوجوانوں کو مفت قانونی امداد فراہم کروانے پر میں نے اپنے کالمز میں اکثر ان کی ستائش کی ہے۔ ان کے ایک معتقد کے طور پر بس یہی گزارش ہے کہ جہاں دشمنوں کے ساتھ بھی ملاقاتوں کا سلسلہ بند نہیں ہونا چاہئے، وہیں وقت کی نزاکت کو بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ملاقات ناگزیر ہی تھی، تو اس کو میڈیا کی رسائی سے دور یا فی الحال ا لتوا میں رکھنا چاہئے تھا۔ مگر کیا کریں؛
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا
خیر جب چچاارشد مدنی نے آرایس ایس کے سربراہ سے ملاقات کرکے میڈیا اور حکومت کی واہ واہی لوٹی، تو بھتیجہ کیسے پیچھا رہتے۔مولانا محمود مدنی کے سربراہی والی جمیعۃ کے دوسرے دھڑے نے کشمیر پر ایک قرارداد منظور کرکے اور بیانات دے کرزخم خوردہ کشمیریوں کے زخموں پر نمک اور مرچ چھڑنے کا کام کیا۔پھر مغل فرمانرا اورنگ زیب اور شیواجی مرہٹہ کا موازنہ کرکے شیواجی کو قابل تقلید بتا کر تاریخ کو ایسا مسخ کیاکہ اپنی علم و فراست پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کردئے۔ کاش وہ حال ہی میں شائع آڈری تروشکی کی کتاب Aurangzeb:The Man and the Myth یا جواہر لال نہرو کی ڈسکوری آف انڈیا میں شیوا جی پر کمنٹ یا امریکی اسکالر جیمس لاویا کی ہی نگارشات کا مطالعہ کرتے۔
بدقسمتی سے کشمیریوں کی جمہوری آواز کو دبانے کے لیے حکومت نے کئی بار جمیعۃ اور دیگر مسلم لیڈران کو استعمال کیا ہے۔ مولانا محمود مدنی کا کہنا ہے کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے۔ کشمیر میں بسنے والے سبھی لوگ ہمارے ہم وطن ہندستانی ہیں اور ملک کی سلامتی اور وحدت ان کے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے وہ کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کی ہرگز تائید نہیں کرسکتے ہیں، بلکہ اس طرح کی تحریکات کو نہ صرف ہندستان بلکہ خود کشمیریوں کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں اور ان کی نظر میں کشمیر ی عوام کی فلاح و بہبو د ہندستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ قرار داد میں پاکستان کا نام لئے بغیر اس کو تمام مسائل کی جڑ بتایا گیا۔ قرار داد کے مطابق ملک اور دشمن طاقتیں کشمیر کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔’دشمن نے ہندستان کے خلاف کشمیر کو محاذ بنار کھا ہے جو مظلوموں کی فریاد رسی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔’ؓ اگر ان سے اب کوئی پوچھے کہ کشمیر اٹوٹ انگ ہی سہی تو کون اپنے اٹوٹ انگ پر تیر و نشتر چلاتا ہے۔
کشمیری پنڈتوں کی طرح ہندوستانی مسلم لیڈروں نے بھی نئی دہلی اور کشمیر کے درمیان ایک پل بننے کے بجائے، جموں وکشمیر میں جمہوریت کے شب خون میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہاتھ کشمیریوں کے خون سے رنگے ہیں۔ 1947سے 1990تک اگر بار بار دغا بازیاں نہ کی گئی ہوتیں، مہاتما گاندھی،جواہر لال نہراور دیگر لیڈروں کے وعدوں کو نبھا کر آئین کے اندر بھی جمہوری حقوق ملے ہوتے، انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں نہ کی گئی ہوتی، تعصب نہ برتایا گیاہوتا، تو شاید کشمیر میں پاکستان یا علیحدگی پسندی کے تئیں جذبات اتنے شدید نہیں ہوتے۔یہ بھی شاید یا د دلانا پڑےگا کہ خاص طور پر 1971کے بعد اور پھر شیخ عبداللہ کے برسراقتدار آنے کے بعد تو تحریک آزادی کب کی ٹھنڈی پڑ چکی تھی۔ کشمیریوں نے بھی تو حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ چاہے 9اگست 1953میں وزیر اعظم شیخ محمدعبداللہ کی گرفتاری اور برخاستگی ہو یا جون1984میں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی معزولی یا 1987کے اسمبلی انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں ہوں، ہندوستانی مسلمان لیڈروں کو کشمیریوں کے سینوں میں خنجر گھونپنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
شیخ عبداللہ،مولانا ابولکلام آزاد اور رفیع احمد قدوائی
شیخ عبداللہ کی موت کے ایک سال بعد 1983کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی، نیشنل کانفرنس کے خلاف خم ٹھوک کر میدان میں اتری تھی۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا اپوزیشن لیڈروں این ٹی راما راؤ، جیوتی باسو، جارج فرنانڈیز کے ساتھ اتحاد و قربت سے وزیراعظم اندرا گاندھی سخت ناراض تھیں۔ جموں خطے میں وزیر اعظم گاندھی نے خود ہی نو دن قیام کرکے بی جے پی کے موجود ہ صدر امت شاہ کی طرز پر انتخابی مہم کو خوب فرقہ وارانہ رنگت دی۔ کشمیر میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور میرواعظ مولوی محمد فاروق کے اتحاد کا حوالہ دے کر ہندو ووٹروں کو خوب بھڑکایا۔ دوسری طرف کشمیر میں جمیعۃ کے لیڈروں نے آکر فاروق عبداللہ کے مذہبی رجحان وغیرہ کو ایشو بناکر عوام کو ان سے متنفر کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ مجھے یاد ہے کہ شمالی کشمیر میں انتخابی مہم کے لیے مولانا اسرارلحق قاسمی صاحب تشریف لائے تھے۔
گو کہ مفتی محمد سعید کی وجہ سے کانگریس کسی طرح جنوبی کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے مد مقابل کھڑی تھی، وسطی اور شمالی کشمیر میں اس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ شمالی کشمیر کے نشیبی علاقوں میں مقابلہ جماعت اسلامی بنام نیشنل کانفرنس اور بالائی علاقوں میں عبدالغنی لون کی پیپلز کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کے مابین تھا۔ مولانا کو جلد ہی اس کا ادراک ہوا۔وہ اب موقع کی نزاکت اور مجمع کی نبض دیکھ کر کبھی نیشنل کانفرنس تو کبھی جماعت اسلامی کو نشانہ بناتے تھے۔ کانگریس کی حمایت کرتے تو کیسے کرتے۔ ا ن کے امیدوار ں کا تو اتا پتہ ہی نہیں تھا۔ سوپور کے نواح میں ایک دیہات میں انہوں نے جماعت اسلامی کو نشانہ بناکر حاضرین سے سوال کیا کہ دنیا میں پہلے اسلام آیا ہے یا جماعت آئی ہے؟ ظاہر ہے کہ مجمع نے جواب دیا کہ اسلام آیا ہے۔ تو انہوں نے نشانہ پر تیر لگا کر پوچھا کہ پھر جماعت اسلامی اپنے نام کے آخر میں اسلام کیوں استعمال کرتی ہے۔ اب جب بھی جماعت کا کوئی کارکن دیہاتو ں میں ووٹ مانگے پہنچ جاتا، تو لوگ یہ سوال کرکے اس کو زچ کرتے۔خیر وادی کشمیر اور جموں کے مسلم علاقوں میں کانگریس کے اکثر امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوگئیں۔ مگر جموں کی سبھی ہندو سیٹوں پر اس نے قبضہ جمایا۔
اگست 1953کو شیخ عبداللہ کی گرفتاری اور غیر آئینی معزولی میں بھی بدقسمتی سے مولانا ابولکلام آزاد اور رفیع احمد قدوائی نے رول ادا کیا۔ شیخ تو ہندوستان سے علیحدگی نہیں چاہتا تھا۔ اسی کی وجہ سے ہی تو 1947میں ہندوستانی فوج وارد کشمیر ہوسکی تھی، جس کے عوض نہرو نے ان کے ساتھ 1950میں دہلی ایگریمنٹ پر دستخط کرکے کشمیر کی اٹانومی پر مہر ثبت کی۔ شیخ کا یہی قصور تھا کہ وہ نہر و اور ان کے رفیقوں کو یاد دلا رہے تھے کہ دہلی ایگریمنٹ کی ہندوستانی پارلیامنٹ سے توثیق ہونی چاہئے، تاکہ آئندہ کوئی حکومت اس کو تحلیل نہ کرسکے۔ جموں کے مسلم کش فسادات، جہاں کی 60فیصد سے زائد مسلم آبادی کو راتوں رات اقلیت میں تبدیل کرکے 30فیصد کردیا گیا، اور کپور تھلہ، بھرت پور، اور آلوار جیسے صوبوں میں جہاں سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹایا گیا۔ شیخ کو خدشہ تھا کہ اسی طرح کی سازش کسی وقت کشمیر میں بھی دہرائی جاسکتی ہے، اس لئے کشمیری مسلمانوں کی شناخت و انفرادیت کو بچانے اور قائم رکھنے کے لیے کسی آئینی ضمانت کے وہ خواستگار تھے۔
ہندوستانی حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا حالیہ قدم، فلسطین میں اسرائیلی کارروائیوں سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہے۔ پوری دنیا میں یہودی 10ملین سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے کچھ آدھے ہی اسرائیل میں رہتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو بھی عرب ممالک یا پورے فلسطین کاآبادیاتی تناسب بگاڑنہیں سکتے۔ کشمیر میں تو مقابلہ 1.25بلین آبادی کے ساتھ ہے، جو چند ماہ میں ہی خطے کا آبادیاتی تناسب بگاڑ کر کشمیری عوام کو اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دیں گے۔
ہندوستانی انٹلی جنس بیورو کے سربراہ بی این ملک کے مطابق جولائی 1953میں مولانا آزاد کشمیر کا دورہ کرنے کے بعد جب دہلی واپس آئے، تو انہوں نے نہرو کو مشورہ دیاکہ شیخ کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے۔ اس سے قبل سرینگر میں جب شیخ نے ان سے کشمیریوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے مدد کی درخواست کی، تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں اپنے ہاتھوں میں قلم لے کر کہا کہ جس طرح مجھے اپنے ہاتھ میں اس قلم کے ہونے کا یقین ہے، اسی طرح مجھے یقین ہے کہ تمام معاملات بھی خوش اسلوبی کے ساتھ طے ہوجائیں گے۔ قدوائی تو 1953کے واقعہ کے مرکزی کردار تھے۔ انہوں نے آر ایس ایس کے لیڈروں کی ایما پر اجیت پرساد جین کو سرینگر بھیج کر آپریشن کی کمان ان کے ہاتھوں میں دی تھی۔ اسی طرح جب 1987کے انتخابات میں ہوئی بے پناہ دھاندلیوں، جس نے ہندوستان جمہوریت پر کشمیریوں کے اعتماد کو متزلزل کرکے ان کو عسکریت کی طرف دھکیلا، میں راجیش پائلٹ کے علاوہ نجمہ ہپت اللہ اور محسنہ قدوائی کا مرکزی کردار تھا۔ 1989سے لے کر آج تک کشمیر میں کم و بیش ایک لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔کیا نجمہ ہپت اللہ اور محسنہ قدوائی سے اس خون کا حساب لیا جائےگا؟
مسلم لیڈران اور بی جے پی
خیر 2014کے کشمیر کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی خم ٹھوک کر میدان میں تھی۔ وادی کشمیر کے بجائے اس کا پورا فوکس جموں اور لداخ پر تھا۔ امت شاہ نے اپنا آزمودہ فارمولہ اپنا کر جموں کی 13اور لداخ کی دو مسلم اکثریتی نشستوں پر مسلم ووٹ کو بے وقعت بنانے کے لیے زر کثیر خر چ کر کے مسلم امیدواروں کی فوج کھڑ ی کردی تھی۔ چونکہ ہندوستان کی قومی سیاست براہ راست جموں کے علاقوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور نیز اس خطے کے مسلم علاقوں کا ہندوستان کے مسلم اداروں خاص طور پر دیوبند وغیرہ کے ساتھ نسبت ورابطہ ہے، اس لئے کئی خیر خواہوں نے تجویز دی تھی، کہ اس علاقہ میں بی جے پی کا رتھ روکنے کے لیے ہندوستانی مسلم زعماء سے مدد اور رہنمائی لی جائے۔ تشویش کی بات یہ بھی تھی کہ جماعت علماء کے نام کی ایک تنظیم ان علاقوں میں بے جے پی کے لیے ووٹ مانگ رہی تھی اور عوام اس کوجمیعۃ علما ء سے کنفیوز کر رہے تھے۔
خیر خواہوں نے دہلی میں جمیعۃ کے دروازوں پر دستک دےکر ان سے صورت حال کو واضح کرنے کی گزارش کی۔ مگر کسی کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ مجھے یاد ہے کہ جمیعۃ نے بعد میں لاتعلقی کا ایک بیان جاری کیا، تب تک ان علاقوں میں انتخابی عمل ختم ہو چکا تھا۔ یہ دانستہ یا نادانستہ حرکت تھی۔ ہندوستانی مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم کے لیڈر نے بتایا، کہ مشورہ کرنے کے بعد وہ اطلاع دیں گے کہ آیا وہ جموں اور لداخ کے مسلم علاقوں میں رہنمائی کے لیے کوئی ٹیم بھیجیں گے یا نہیں۔ بعد میں ان کا پیغام آیا کہ مسلم لیڈران اپنے آپ کو کشمیر کی سیاست کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چاہتے ہیں، اس لئے وہ دعا کے سوا کچھ نہیں کر پائیں گے۔ اب اگر ہندوستانی مسلمان لیڈران ملک کے جمہوری نظام و آئین کے تحفظ کے لیے بھی کشمیریوں کی مدد کرنے سے قاصر ہیں، تو موجودہ حالات میں کس منہ سے کشمیری عوام سے اپیل کر رہے ہیں؟ دفعہ 370اوردفعہ 35(اے) تو آئین کی ہی شقیں تھیں۔ اس میں کہاں سے علیحدگی پسندی اور پاکستان کی بوآتی ہے؟ اب اگر جمیعۃ کے لیڈران آئین کی اس شق کی ترمیم و تحلیل کی حمایت کرتے ہیں تو پھر یونیفار م سول کورڈ اور تین طلاق قانون کے اطلاق پر کیوں شور مچا رہے ہیں؟
ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی،سماجی،تعلیمی اور اقتصادی حالت خواہ بہتر نہ ہو اور آزادی کے بعد سے اب تک کی تمام حکومتوں نے انہیں نظر انداز کیا ہولیکن حقیقت یہ ہے، کہ انتخابات کے دوران انہیں نظراندازکرنا کسی بھی سیاسی پارٹی کے لئے ممکن نہیں ہوتا تھا۔ہندو قوم پرستوں کو بھی اس مسلم ووٹ کو بے وزن کروانے میں دانتوں پسینہ آجا تا تھا۔ مسلمان بالعموم انتخابات میں اپنی قوت‘ پسندیدگی یا ناراضگی کا مظاہرہ بھی کرتے رہے ہیں۔ شمالی ہندوستان میں سیاسی لحاظ سے کانگریس کی کمزوری کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کی ناراضگی تھی۔1989 کے بھاگلپور فسادات کے بعد بہار میں اور 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں مسلم ووٹرجو کانگریس سے ناراض ہوگئے، اس کی مار سے وہ ابھی تک ابھر نہیں پائی ہے۔ اسی طرح 2002 کے گجرات فسادات کے بعد 2004کے عام انتخابات میں کانگریس کی قیادت والی سیکولرمخلوط حکومت مسلمانوں کے سہارے ہی اقتدار تک پہنچی۔
گو کہ 2014کے بعد ملک میں ہندو قوم پرستی کے احیاء، اور مودی اور امت شاہ کے فارمولہ نے ہندو ووٹوں کو یکجا کرکے کسی حد تک مسلم ووٹوں کو بے وقعت کر کے رکھ دیا، مگر اس سے قبل ہندوستانی مسلمان سیکولر اتحاد کو مستحکم کرنے میں کلیدی رول ادا کرتے تھے۔، فسادات میں ملوث افراد کو انتخابی میدان میں سزا دلوانے اور ان کو سیاسی طور پر بے وزن کروانے میں رول ادا کرتے تھے۔ مگر سوال ہے کہ جب وہ گجرات میں 2000 مسلمانوں کے قاتلوں کی نیندیں حرام کرواتے ہیں، تو آخر کشمیر کے ایک لاکھ مسلمانوں کے قتل سے کیوں چشم پوشی کرتے ہیں؟
مولانا وحید الدین خان
چند برس قبل کشمیر اسمبلی کے ایک رکن انجینئر عبدالرشید اور کچھ صحافیوں کے ہمراہ ایک مدت کے بعدمولانا وحید الدین خان صاحب سے ملاقات کرنے کا موقع ملا- انجینئر صاحب رکن اسمبلی ہونے کے ناطے کشمیر میں ایک طرح سے ہندوستانی جمہوریت کا چہرہ تھے- وہ بضد تھے-کہ مولانا صاحب سے جموں کشمیر کی صورتحال کے بارے میں رائے معلوم کر کے ان کے وسیع تجربے سے کچھ مفید اور قابل عمل اقدامات اٹھانے کے لئے کچھ رہنمائی بھی حاصل کی جائے-خیر نمازِ ظہر تک مولانا کی تقریر اور سوال وجواب کا دلچسپ سلسلہ جاری رہا۔ رسمی علیک سلیک کے بعدممبر اسمبلی نے مولانا کی توجہ کشمیر کی صورتحال خاص طور سے انسانی حقوق کی ہورہی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کراکے مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حوالے سے مولانا کا نقطہ نظر جاننا چاہا۔ مولانا نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا کہ کشمیری ‘امن’ کا راستہ اپنائیں لیکن اس سے پہلے انہیں تسلیم کرناہوگاکہ ان کی گزشتہ کئی دہائیوں کی جدوجہد غلط تھی۔
رشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی لیکن انصاف کے بغیر امن کاقیام کیسے ممکن ہے،تو مولانا نے فرمایا کہ انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنے والے لوگوں کی یہ ذہنی اختراع ہے۔ ان کے بقول کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازعہ کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ جموں وکشمیر کے تنازعے کو تو خودہی ہندوستانی لیڈر اقوام متحدہ میں لے گئے تھے،اس میں کشمیریوں کا کیاقصور؟وہ بے چارے تو صر ف وعدہ کے ایفا ہونے کامطالبہ کرنے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ ہر وقت اپنی مرضی سے گول پوسٹ تبدیل تو نہیں ہوسکتے ہیں۔ اس پر مولانا غصّے سے لال پیلا ہوگئے اورہال چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ منٹ انتظار کے بعدہم بھی وہاں سے واپس چلے گیے۔اس سے قبل میز پر ان کا لکھا ہوا ایک پمفلٹ دیکھا، جس میں انہوں نے کشمیری مسلمانوں کو ہدایت دی تھی، کہ اپنے کردار اورتبلیغ سے وہاں موجودسات لاکھ فوجیوں اور نیم فوجی دستو ں تک اسلام کا پیغام پہنچایئں، اور ان کے ساتھ روا مخاصمانہ رویہ کو بند کریں۔کشمیریوں کو تبلیغ کا مشورہ دینے والے پھر ملک میں 125کروڑ ہندو کو مسلمان کیوں نہیں بناتے۔
ہندوستانی مسلم رہنما کشمیر معاملے پر چپ کیوں ہیں ؟
ہندوستانی مسلمان لیڈروں کو کشمیرکے مسئلے کے حل کے حوالے سے کئی تحفظات اور خدشات لاحق ہیں۔ ان کو سب سے پہلے یہ وہم لاحق ہے کہ اگر کشمیر کسی بھی طرح سے الگ ہواتو اس سے ان کے لئے ملکی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کے اس صورت میں بقول ملک کی اکثریتی آبادی پورے ملک کے مسلمانوں کو ملک دشمن، فرقہ پرست اورعلیحدگی پسندوں کے طور پر دیکھ لے گی۔ لہٰذا اگر یوں کہاجائے کہ ہندوستانی مسلمان لیڈران جموں وکشمیر کے مسلم اکثریتی کردارکواپنے دفاع اور ہندوانتہا پسندوں کے لئے توڑ مانتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ انہیں کہیں لگ رہا ہے کہ اگرکشمیرہندوستان سے الگ ہوا تو وہ غیر محفوظ ہوکر رہ جائیں گے۔ غرض مسلمان لیڈروں کی غالب اکثریت جموں و کشمیر کے سیاسی مسئلے کو عدل اورانصاف سے زیادہ اپنے اوپراس کے پڑنے والے اثرات کے نقطہ نگاہ سے دیکھتی ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ اس مخصوص سوچ سے باہر نہ وہ سوچنے کے لئے تیار نظر آرہے ہیں۔
اب جس طرح امت شاہ نے ان کو بے وقعت بنایا ہے، اس میں کشمیر یوں کا کیا قصور ہے؟ کوئی ہندوستانی مسلم دانشوراورحساس طبقے سے یہ پوچھے کہ اگرآپ ایک طرف خود کوکشمیری مسلمانوں سے کسی بھی قیمت پر جدا نہیں کرنا چاہتے ہیں تو پھر کم از کم جموں و کشمیر میں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کبھی اپنے لبوں کو معمولی سی جنبش دینے کی بھی زحمت گوارا کیوں نہیں کرتے؟ آپ جموں وکشمیر میں روز ہونے والی زیادتیوں کے خلاف صرف اس لئے آواز اٹھانے سے گھبرارہے ہیں کہ کہیں آپ پر ملک دشمنی کا لیبل لگنے نہ جائے۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ آپ کشمیریوں کے ہندوستان کے ساتھ’نکا ح’نامہ برقرار رکھنے کی بھی خواہش کریں اور پھر بے گناہ کشمیریوں پر ہونے والی زیادتیوں کے خلاف ایک بھی لفظ صرف اس لئے نہ بولیں کہ ہندوانتہاپسند آپ سے ناراض نہ ہوں؟ابھی حال ہی میں دہلی کے جنتر منتر چوراہے پر بائیں بازو کی طلبا تنظیموں نے کشمیر پر ہوئی یلغار پر مظاہرہ کا اہتمام کیا تھا۔ مگر کسی مسلم تنظیم کو وہاں آنا گوارا بھی نہیں ہوا۔ کشمیر نے بھی گجرات سے کچھ کم نہیں دیکھا۔
سکیورٹی اہلکار اور عورتوں کی عصمت
پچھلے 26برسوں کے دوران کشمیر میں سکیورٹی ایجنسیوں اور اس کے حاشیہ برداروں کے ہاتھوں معصوم بچیو ں‘ لڑکیوں اور عورتوں کی عصمتیں پامال کی گئی ہیں اس کا ہلکا سا اشارہ اینڈرن لیوی اور کیتھی اسکاٹ نے اپنی معرکتہ الآرا تصنیف The Meadows میں کیا ہے۔ ا ن برطانوی مصنفین نے لکھا ہے کہ کس طرح ایک سرکاری بندوق بردار نے ایک ماں کی گود سے اس کے شیرخوار بچے کو چھین کر اس کی آنکھوں کے سامنے ہی یخ بستہ پانی میں ڈبو دیا اور تڑپاتڑپا کر مارڈالا۔ اس خاتون کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے اپنی عصمت اس بندوق بردار سرکاری اہلکار کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔کتاب کے مصنفین نے ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ راشٹریہ رائفلز کے’چھتر چھایا‘ میں ایک اور سرکاری بندوق بردار نے ایک دیہاتی لڑکی نسیمہ کو اغوا کرکے اس وقت تک اس سے اپنی جنسی ہوس کی پیاس بجھاتا رہا جب تک کہ وہ لڑکی حاملہ نہ ہوگئی۔ا سی دوران اس سرکاری بندوق بردار کی نگاہ نسیمہ کے بہن پر بھی پڑ گئی اور اسے بھی اغوا کرلیا گیا۔ جب بدقسمت والدین نے پولیس میں شکایت کی تو دوسرے ہی دن بندوق بردار نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھرے بازار میں پہلے تو اپنی بندوق کی نوک پر ہجوم کو اکٹھا کیا اور پھر آٹھ ماہ کی حاملہ نسیمہ کا لباس تار تار کرکے سب کے سامنے گولیاں اس کے پیٹ میں اتار دیں۔نسیمہ نے وہیں دم توڑ دیا اور اس کے پیٹ میں پلنے والا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کے آغوش میں چلاگیا۔کشمیر کی موجودہ تاریخ ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔
سید احمد بخاری
چند روزقبل دہلی کی شاہی جامع مسجدکے امام سید احمد بخاری نے شکوہ کیا کہ کشمیر ی مسلمانوں نے کبھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے، کہ گزشتہ 60برس جب بھی ہندوستان کے کسی کونے میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہوئی تو کشمیریوں نے اپنے جلتے ہوئے گھروں کے شعلوں کوفوراًفراموش کرکے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کسی نہ کسی طرح سے اپنی آوازبلند کی۔مراد آباد کے فسادات کے وقت کئی روز تک کشمیر بند رہا۔ سوپور میں تو مظاہروں کے دوران ایک شخص ہلاک بھی ہوگیا۔ یہ واقعی شرم کی بات ہے کہ ہندوستان کے مسلم لیڈران و دانشورں نے جموں وکشمیر میں ہورہی زیادتیوں کے متعلق اپنے منہ ایسے بند کئے ہیں جیسے ان کی چابیاں ہندو انتہا پسندوں کے پاس ہوں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کم سے کم سیکولر پارٹیوں سے یہ ہی وعدہ کرایا جاتا کہ وہ اقتدار میں آکر کشمیر میں ظلم و زیادتی کو بند کرائیں۔.خوش آئند پہلو یہ ہے کہ مسلم لیڈروں کے برعکس، ہندوستان میں مسلمان عمومی طور پر کشمیر کے سلسلے میں خاصے اضطراب میں ہیں۔
پچھلے کئی انتخابات کے دوران جب بھی مجھے ملک کے اندرونی اور دوردراز علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا، تو مسلم بستیوں میں عوام کو کشمیر کے سلسلے میں خاصے فکرمند پایا۔ چند برس قبل جب خواجہ معین الدین چستی درگاہ کے دیوان زین العابدین اور خادم پیر نسیم میاں نے اعلان کیا کہ وہ اپنے حامیوں اور مریدوں کی فوج سرینگر لے جا کر ایک ہزار ہندوستانی پرچم لہرائیں گے۔ تو وہ خود اپنے ہی مریدوں کی ناراضگی کا شکار ہوگئے۔ بریلی میں امام رضا احمد خان کے خانوادہ کے ایک فرد اور لیڈر نے مجھے بتایا کہ ان کی گردن شرم سے جھک جاتی ہے کہ وہ کشمیری عوام کی کوئی مدد کرنے سے قاصر ہیں، اس لئے وہ خاموشی کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ ایک طرف وہ خانقاہوں سے نکل کر رسماً ہی رسم شبیری ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، وہیں دوسری طرف اسیران مالٹا اور کالا پانی کے جانشین، اپنے بیانات اور ا قدامات سے کشمیری عوام کے زخموں کو مزید کریدکر ناسور بنار ہے ہیں۔راجیہ سبھا کے سیٹوں کے حصول سے زیادہ توجہ اس بات پر مرکوز ہو کہ کل تاریخ آپ کو کیسے یاد کریگی۔ تاریخ خاصی بے رحم ہوتی ہے۔آئین کی دفعات اور ملک تحلیل ہو سکتے ہیں، مگر قانون قدرت تحلیل نہیں ہوسکتا۔
تاریخ کا پہیہ ساکت نہیں رہتا، یہ گھومتا رہتا ہے اور اس قوم کے لیے خاصا بے رحم ثابت ہوتا ہے، جو اکثریت اور طاقت کے بل بوتے پر کمزور اور ناتواں کی زندگیاں اجیرن بنادے۔ میری بے بسی پر ہنسنے والو، تاریخ سے سبق لے کر مستقبل کے آئینے میں اپنی بربادی کا منظر دیکھو۔ بعض دفعہ خاموشی کے بھی بڑے فائدے ہوتے ہیں۔درد کا علاج نہیں کر سکتے ہو تو درد کی لاج ہی رکھو۔ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات۔