سال 2016 میں مودی حکومت نےنوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس کا ایک مقصد جعلی کرنسی پر روک لگانا ہے۔ تاہم، جعلی کرنسی آج بھی ایک چیلنج ہے۔ وزارت خزانہ نے حال ہی میں بتایا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں 500 روپے کے جعلی نوٹوں میں 317 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: کندن کمار/Creative Commons)
وزارت خزانہ نے حال ہی میں اطلاع دی ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں 500 روپے کے جعلی نوٹوں میں 317 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، احمد آباد، سورت، مالدہ، گوہاٹی، بنگلورو اور دیگر شہروں میں جعلی کرنسی نیٹ ورک کے حیران کن واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
سال 2016 میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کی نوٹ بندی (ڈیمونیٹائزیشن) کا ایک اہم مقصد جعلی نوٹوں کے چلن پر روک لگاناتھا، لیکن ملک میں ‘فیک انڈین کرنسی نوٹ’ (ایف آئی سی این) کاچلن نوٹ بندی کے بعد بھی ایک چیلنج بنا ہوا ہے ، نیشنل کرائم کنٹرول بیورو (این سی آر بی) نے اپنی 2023 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2016 سے اب تک ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 245.33 کروڑ روپے کے ‘فیک انڈین کرنسی نوٹ’ ضبط کیے ہیں۔’
بتادیں کہ 31 مارچ 2024 تک مقدار کے لحاظ سے
500 روپے کے جعلی نوٹوں کی تعداد سب سے زیادہ 5.16 لاکھ تھی، جبکہ 10 روپے کے جعلی نوٹوں کی تعداد 2.49 لاکھ سے کم تھی۔ یہ غالباً مئی 2023 میں 2000 روپے کے نوٹوں کو بند کیے جانے کی وجہ سے ہوا، جس کے بعد کل کرنسی میں 500 روپے کے نوٹوں کی حصہ داری 77.1 فیصد سے بڑھ کر 86.5 فیصد ہو گئی۔’
جعلساز عام طور پر زیادہ قیمت کی کرنسی کو نشانہ بناتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ 500، 200 اور 100 روپے کے جعلی نوٹ چھوٹی قیمت کے نوٹوں کے مقابلے زیادہ چلن میں ہیں۔’
اس اضافے کے باوجود، اس سال اگست میں راجیہ سبھا میں ملک میں جعلی کرنسی کے بارے میں اٹھائے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے خزانہ پنکج چودھری نے بتایا کہ تمام قیمتوں میں جعلی کرنسی میں مجموعی طور پر 30 فیصد کی کمی آئی ہے، جو مالی سال 19 میں 317384 ملین نوٹوں سے بڑھ کر مالی سال 24 میں 222639 ملین نوٹ ہو گئی۔’
(ماخذ: راجیہ سبھا | 6 اگست 2024)
تاہم، اگر ہم مالیت کے حساب سے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں، تو 500 روپے کے نوٹ (نئی سیریز) کی تعداد 2018-19 میں 21865 نوٹوں سے بڑھ کر 2023-24 کی موجودہ مدت میں 85711 نوٹ ہو گئی ہے۔ درحقیقت، 500 روپے کے جعلی نوٹوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور 2020-21 میں 39453 تک پہنچ گئی، 2021-22 میں دوگنی ہو کر 79669 اور پھر 2022-23 میں 91910 تک پہنچ گئی۔
اعداد و شمار کی جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ کل جعلی نوٹوں کی تعداد میں کمی، جو کل تعداد کو ظاہر کرتی ہے، دراصل 100 روپے کے جعلی نوٹوں میں چار گنا کمی کی وجہ سے ہے – 2018-19 میں 221201 کی بلند ترین سطح سے سے 2023-24 میں صرف 66130 تک۔ یہ کمی، جو کل تعداد کو متاثر کرتی ہے، زیادہ قیمت کے 500 روپے کے جعلی نوٹوں کی تعداد میں اضافے کی نشاندہی کرنے والے نمبروں سے توجہ ہٹاتی ہے ۔
اس کے علاوہ ، وزیر مملکت برائے خزانہ کی طرف سے پیش کردہ اعداد و شمار میں ان جعلی نوٹوں کی گنتی شامل نہیں ہے جو پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ضبط کیے ہیں، بلکہ صرف وہ نوٹ شامل ہیں جن کی اطلاع بینکنگ سسٹم کو دی گئی ہے۔
آٹھ سال قبل 500 روپے اور 1000 روپے کے نوٹوں کو چلن سے واپس لیتے ہوئے بیان کردہ مقاصد میں سے ایک جعلی کرنسی کو روکنا تھا۔ کچھ بے بنیاد دعوے کیے گئے تھے کہ ‘اعلیٰ مالیت کے نوٹوں کی بندی کی وجہ سے ٹیرر فنڈنگ صفر ہو گئی ہے، سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ نہیں ہوا، اور شمال مشرق میں نکسلائیٹ سرگرمیوں اور عسکریت پسندی کو دھچکا لگا ہے’ کیونکہ جعلی کرنسی کی اب ان سرگرمیوں کی مالی اعانت نہیں کر سکتی۔
تاہم، حقیقت یہ ہے کہ جعلی کرنسی نئی کرنسی کی طرح رائج ہے اور یہ ایسا اسٹاک نہیں ہے جسے ایک ہی جھٹکے میں ختم کیا جاسکے۔
گزشتہ 23 جون، 2024 کو، حفاظتی دستوں نے چھتیس گڑھ کے سکما ضلع میں نکسلیوں سے نقلی نوٹوں کا ایک بڑا ذخیرہ اور انہیں چھاپنے کے لیے استعمال ہونے والا سامان برآمد کیا تھا۔ نکسلی مبینہ طور پر بستر خطہ کے اندرونی علاقوں کے ہفتہ وار بازاروں میں جعلی نوٹوں کا استعمال کر رہے تھے اور معصوم قبائلیوں کو دھوکہ دے رہے تھے۔ پہلی بار، ریاست میں
نکسلیوں کے جعلی نوٹ برآمدکیے گئے ہیں ، جو تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اس مسئلے سے جوجھ رہا ہے۔
طویل عرصے سے جعلی ہندوستانی کرنسی کا اصل ذریعہ پاکستان میں آئی ایس آئی ایجنسی رہی ہے۔ دوسرا ذریعہ ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد کے اس پار سے ہے، جہاں مالدہ جعلی کرنسی کی تقسیم کا مرکز ہے۔ 29 مئی 2023 کو، جنوبی بنگال فرنٹیئر میں سرحدی چوکی-نوادہ پر بی ایس ایف کے دستوں نے جعلی ہندوستانی کرنسی کی اسمگلنگ کی کوشش کو ناکام بنایا اور ایک پیکٹ برآمد کیا جس میں 500 روپے کے 200 نوٹ تھے، جن کی مالیت ایک لاکھ روپے تھی۔ انہیں سرحدی باڑ کے اوپر پھینک کر ہندوستان میں اسمگل کیا جا رہا تھا۔ قومی سلامتی کے مضمرات اور بین الاقوامی تعلقات کو دیکھتے ہوئے جعلی کرنسی سے متعلق معاملات کو عام طور پر این آئی اے کے حوالے کیا جاتا ہے۔
تاہم، جعلی کرنسی کے دیگر چلن بھی سامنے آئے ہیں، جہاں ان کے بنانے والے بھی ملک کے اندر ہی پائے گئے ہیں۔ اس سال مارچ میں مدھیہ پردیش میں ایک کیس سامنے آیا تھا، جہاں ایک شخص نے جیل میں رہتے ہوئے پیشہ ورانہ مہارت کے طور پر پرنٹنگ کی تکنیک سیکھی تھی، اور رہائی کے بعد باقاعدگی سے کرنسی نوٹوں کی جعلسازی کر رہا تھا۔ جب پولیس نے اسے بازار میں جعلی نوٹ سپلائی کرتے ہوئے پکڑا تو اس کے گھر سے
200 روپے کے 95 جعلی نوٹ برآمد ہوئے۔
اسی طرح، حال ہی میں ایک دھوکہ دہی کی پیچیدہ پرتیں بے نقاب ہوئیں، جس میں احمد آباد کے ایک صرافہ ڈیلر کو
2.1 کلو سونے کے بدلے انوپم کھیر کے چہرے والے جعلی نوٹ دیے گئے ۔’
حکومت نے بتایا ہے کہ نوٹ بندی کے بعد ضبط کیے گئے ایف آئی سی این کم معیار کے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرنسی نوٹوں کی حفاظتی خصوصیات نفیس ہیں اور نئے نوٹوں کی نقل کرنا کافی مشکل ہے۔’
لیکن پھر سوال یہ ہے کہ کیا ایف آئی سی این کا حجم اتنا خطرناک تھا کہ نوٹ بندی کی ضرورت تھی؟ جعلی نوٹوں کا کوئی بھی اندازہ محض ایک اندازہ ہے اور اس طرح اس اقدام کی کامیابی کے بارے میں کوئی بھی واضح پیمانہ نہیں ہے۔
لاگت اورمنافع کا تجزیہ ایف آئی سی این کے طول و عرض پر نوٹ بندی کے خلاف ہے کیونکہ نئے نوٹوں کی چھپائی، اے ٹی ایم مشینوں کے ماڈریشن، پرانے نوٹوں کے تبادلے میں ضائع ہونے والے پیداواری گھنٹوں کی لاگت وغیرہ کے لحاظ سے نوٹ بندی کی اقتصادی لاگت ہزاروں کروڑ روپے ہے۔’
‘ایف آئی سی این کا ایک بڑے حصہ پڑوسی ممالک سے چھاپا اور اسمگل کیا جاتا ہے’ سیکورٹی جائزہ اجلاس (21 نومبر) کے دوران
مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے مختلف راستوں سے ریاست میں داخل ہونے والے ایف آئی سی این پر تشویش کا اظہار کیا اور ریاستی پولیس سے ریاستاور ضلعی سرحدوں پرجانچ بڑھانے کو کہا- ‘ہماری بین الاقوامی سرحدیں (بنگلہ دیش کے ساتھ) مرکزی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہیں’ ایف آئی سی این کی اسمگلنگ کیسے کی جا رہی ہے؟ وہ ایکشن کیوں نہیں لے رہے؟’
جب تک جعلی کرنسی کے اصل ذریعہ یا بڑے پیمانے پر سپلائی کرنے والے پر قابو نہیں پایا جاتا، جعلی کرنسی کا مسئلہ جاری رہے گا۔’
(ویشالی اسٹریٹجک اور اقتصادی امور کی تجزیہ کار ہیں۔)