افغانستان میں امن کی کوششوں سے مسئلہ کشمیرکا کیا رشتہ ہے؟

مسئلہ کشمیر اور اس کے انسانی عوامل کو نظر انداز کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ جتنی جلدی یہ عالمی برادی کی سمجھ میں آجائے، بہتر ہے۔ مانا کہ ہندوستان ایک بڑی تجارتی منڈی ہے، مگر تجارت کے لیے بھی تو امن لازمی ہے۔

 مسئلہ کشمیر اور اس کے انسانی عوامل کو نظر انداز کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ جتنی جلدی یہ عالمی برادی کی سمجھ میں آجائے، بہتر ہے۔ مانا کہ ہندوستان  ایک بڑی تجارتی منڈی ہے، مگر تجارت کے لیے بھی تو امن لازمی ہے۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان، مذاکرات کے از سر نو آغاز کے ساتھ اب یہ یقینی لگ رہا ہے کہ فریقین سنجیدگی کے ساتھ کسی معاہدے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد اور پاکستان کے  زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹدیز کی طرف سے منعقد ایک سمینار میں افغانستان میں حزب اسلامی کے ایک اہم رہنما اور ملکی انتخابات میں نائب صدر کے لیے امیدوار پروفیسر فضل ہادی وزین سے ملاقات ہوئی۔ مظفر آباد سے گڑھی حبیب اللہ، مانسرہ اور ایبٹ آباد کے راستے اسلام آباد واپسی کے دوران کوچ میں پروفیسر وزین نے افغانستان کی سیاست، امن مساعی کے حوالے سے کئی دریچے کھول دئے۔ میں ان سے سوالات کر رہا تھا، وہ انتہائی دھیمے لہجے میں ایک استاد کی طرح  خاصے منفرد اور دل کو چھو لینے والا انداز میں دلائل سے مجھے قائل کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ سوالات و جوابات کا سلسلہ اتنا طویل ہوگیا کہ اسلام آباد کب آن پہنچا، پتہ ہی نہیں چل پایا۔ میرے ساتھ کوچ میں بیٹھتے ہی، میں نے ان سے سوال کیا کہ افغانستان میں امن کے حوالے سے کیا پیش رفت ہو رہی ہے اور امریکہ-طالبان مذاکرات کا کیا مستقبل ہے؟

کابل کی سلام یونیورسٹی میں اسلامیات کے استاد پروفیسر وزین نے کہا کہ دوحہ میں مذاکرات کے احیاء سے سبھی نے چین کی سانس لی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مثبت پہلو یہ ہے کہ فی الوقت سبھی فریقین اور اسٹیک ہولڈرز افغانستان میں امن و استحکام کے متمنی ہیں۔ افغانستان نہ صرف جنوبی ایشاء اور وسط ایشاء بلکہ مغربی ایشاء یعنی ایران کے لیے بھی ایک پل کا کام کرتا ہے۔ اس لیے افغانستان میں عدم استحکام کا براہ راست اثر پورے خطے پر پڑتا ہے۔  ”افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء صرف طالبان کا ہی پروجیکٹ نہیں ہے، بلکہ افغان عوام میں اب غیر ملکی مداخلت کے خلاف ایک ماحول سا بن گیا ہے۔ وہ  اپنے اندرونی معاملات میں اب بیرونی مداخلت کے قائل نہیں ہیں۔امریکیوں کو معلوم ہے کہ وہ 18سالہ جنگ ہار چکے ہیں۔ وہ ہار کا لفظ استعمال کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ وہ بس ایک باعزت واپسی کا  بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ مغربی ممالک کی پالیسی کہ بہانہ ایران، ٹھکانہ افغانستان اور نشانہ پاکستان، اب زا ئدالمیعاد ہو چکی ہے۔“

دوحہ میں طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات کے حوالے سے افغان سیاست دان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیاسی جماعتیں خاصی پر امید ہیں۔ گو کہ امریکہ کے سیماب صفت صدر ٹرمپ نے پچھلے ستمبر میں ان مذاکرات کو منسوخ کر دیا تھا، مگر بقول ان کے، پس پردہ دونوں فریقین روابط بنائے ہوئے تھے۔ ابھی تک اب امریکہ اور طالبان کے درمیان دس دور کے مذاکرات ہو چکے ہیں۔ پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق غیر ملکی افواج کے انخلاء پر ایک کیلنڈر تیار ہو رہا ہے۔ مگر طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کروانا اور انخلاء کے ساتھ ساتھ کابل میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر پیچ ابھی تک پوری طرح کسے نہیں گئے ہیں۔ ”مجموعی طور پر مذاکرات میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ سمجھوتہ میں اب زیادہ وقت درکار نہیں ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکہ، طالبان یا افغان عوام کو کوئی رعایت دے رہا ہے، وہ خو د ہی افغانستان سے جلد از جلد چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔“ پروفیسر وزین، جو خود کئی بار افغانستان کے اندر امن مساعی کے حوالے سے کردار ادا کر چکے ہیں، نے خبردار کیا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ یا ڈیل امن مساعی کے  زینہ  کا  بس ایک پایہ ہے، اس کو کئی اور عوامل سے گذرنا ہے۔ اس ڈیل کے فوراً بعد اگر افغانستان کے اند ر فریقین کے درمیان مذاکرات کا  سلسلہ شروع نہیں ہوا، تو ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کی آگ میں جھلس  جائے گا۔ ”اس لیے تمام اسٹیک ہولڈز کے لیے لازم ہے کہ ایک حتمی اور پائیدار امن کی خاطر افغانستان کی سبھی سیاسی جماعتوں، طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات کے سلسلے اور روابط پر دھیان مرکوز رکھیں۔ ورنہ اس امن مساعی کا بھی وہی حشر ہوگا، جو ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ دوسرے مرحلے کے یہ مذاکرات امریکہ-طالبان مذاکرات سے زیادہ پیچیدہ ہوں گے۔ ان مذاکرات میں ملک کے آئین، نظام حکومت اور دیگر اہم امور کا تعین کیا جائےگا۔

پروفیسر فضل ہادی وزین

میں نے سوال داغا کہ سویت جنگ کے دوران تو حزب اسلامی اور اس کے قائد گلبدن حکمت یار کا طوطی بولتا تھا۔ حکمت یار اس کے بعد تو دو بار وزیر اعظم کے عہدے پر بھی براجمان رہے۔ مگر طالبان کے وجود میں آنے کے بعد تو وہ اچانک منظر نامہ سے غائب ہو گئے اور پھر 2016 میں پھر کابل میں وارد ہوگئے۔ اس وقت ان کی کیا حثیت ہے؟ پروفیسر صاحب نے استادو ں کے انداز میں سمجھانے کی کوشش کی کہ حکمت یار منظر نامہ سے غائب نہیں تھے۔ وہ بس بیک گراؤنڈ میں تھے۔ ”امریکی افواج کی مداخلت اور طالبان حکومت کے خاتمہ کے بعد حزب اسلامی ہی حکمت یار کے حکم کے مطابق امریکی افواج سے برسرپیکار تھی، جب تک طالبان نے مجتمع ہوکر دوبارہ طاقت حاصل کی۔ دوسال قبل ہم نے محسوس کیاکہ ملک اب مزید جنگ و جدل کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے، نیز افغانستان کے حالات کا براہ راست اثر ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان پر پڑتا ہے۔ اس لیے حکمت یار نے کابل آکر پس پردہ امن کے لیے کوششیں شروع کردی۔ انہوں نے کافی کام کیا، جن کے نتائج اب آپ کے سامنے ہیں۔“ ان کا مزید کہنا تھا کہ حال میں ہوئے صدارتی انتخابات سے قبل حکمت یار نے پیس اینڈ اسلامک جسٹس پارٹی لانچ کی اور نوزائیدہ پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں قسمت آزمائی کی۔ ”افغانستان میں ہر کوئی آپ کو بتائے گا کہ انتخابی مہم کے دوران، افغانستان کے طول و عرض میں سب سے بڑے اور پر ہجوم جلسے اور جلوس، اسی پارٹی کے تھے۔ہم نے ثابت کر دیا کہ ہماری پارٹی کسی خاص نسل اور علاقہ کی نمائندگی نہیں کرتی ہے، بلکہ پورے ملک کی نمائندہ تنظیم ہے۔“انتخابی نتائج کا ابھی اعلان تو نہیں ہوا ہے۔ مگر پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ ان کے اعلان کے بعد کسی بحران سے نمٹنے کے لیے ان کی پارٹی کے ذمہ داران دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط بنائے ہوئے ہے۔“

جب انتخابات کا ذکر آیا، تو میں نے پوچھا کہ  افغانستان میں انتخابات اکثر تنازعات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آخر شفاف انتخابات کو روبہ عمل میں لانے  میں کیا رکاوٹ ہے؟  پروفیسر وزین، جو خود نائب صدر کے امیدوار ہیں،نے کہا، کہ بیرونی مداخلت، ذاتی مفادات اور ایک ٹولہ کا رویہ، جو ہر حالت میں اقتدار کے ساتھ چمٹ کر رہنا چاہتا ہے، نے انتخابات کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگائے ہیں۔ افغانستان کی 35ملین کی آبادی میں صرف 1.5ملین افراد نے حالیہ ووٹنگ میں حصہ لیا۔ جبکہ 9.7ملین افراد نے اپنے آپ کو بطور ووٹر رجسٹر کرالیا تھا۔بیرون ملک مقیم 6ملین افغان رفیوجی بھی ووٹنگ کے حق سے محروم تھے۔ ان کے علاوہ ملک کے اندر بسے تین ملین مہاجر نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ علاوہ ازیں ووٹنگ کا عمل بھی خاصا پیچیدہ تھا۔ کافی ووٹرز حق رائے دہی سے محروم رہ گئے۔ علاو ہ ازیں کئی غیر ملکی سفارت خانوں نے کھلے عام اپنے چہیتے امیدواروں کے لیے کام کیا۔ اگر کسی اور ملک میں اس طرح کا کوئی واقعہ ہوجاتا تو ایک طوفان کھڑا ہو گیا ہوتا۔ امریکی صدر کو تو ابھی اسی طرح کی صورت حال کے حوالے سے مواخذہ کی تحریک کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ جبکہ وہاں کسی دوسرے ملک نے براہ راست مداخلت نہیں کی تھی۔ کسی بھی ملک کے جمہوری نظام میں غیر ملکی مداخلت کا مطلب اسکوسبوتاژ کرنا ہے، اس کے لیے بین الاقوامی سطح پر سخت قوانین بننے چاہئے۔ ”انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں۔ یہ تناؤ کو کم کرنے میں مدد نہیں کریں گے۔ بلکہ ان سے مزید بحران پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ لہذا انتخابات سے پرے، سبھی فریقین اور اسٹیک ہولڈرز کو انٹرا افغان ڈائیلاگ کی تیاری کرکے اس پر اپنا دھیان مرکوز رکھناچاہئے۔ یہ جتنی جلدی ہوگا، افغانستان کے حق میں اچھا ہوگا۔ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے اختتام پر طالبان کو اس میں شرکت کرنی چاہئے۔ تاکہ کابل میں حکومت سازی پر ایک اتفاق رائے پیدا ہو، اور یہ اتفاق رائے کسی بھی بیرونی مداخلت سے پاک ہو۔“

میں نے پروفیسر وزین سے پوچھا کہ افغانستان تو فی الوقت ہندوستان  اور پاکستان اور پھر چین اور امریکہ کے درمیان ایک مسابقت کا میدان بنا ہوا ہے، وہ آخر کیوں کر اتنی جلدی افغانستان کو بخش دیں گے؟  ان کا کہنا تھا کہ ہم  بھی ان ممالک سے کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں مداخلت بند کردیں۔ ”جس طرح افغانستان کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ہے، آپ بھی افغانستان کی خود مختاری اور آزادی کا احترام کریں۔“ میں نے سوال کیا کہ ہندوستان  کو خدشہ ہے کہ کابل میں طالبان کی واپسی سے اس خطہ میں دوبارہ بد امنی پیدا ہوسکتی ہے، تو پروفیسر وزین نے سخت لہجہ میں کہا کہ طالبان کوئی آسمانی مخلوق تو نہیں ہیں، وہ افغانستان کے شہری اور بچے ہیں۔ اس ملک پر ان کا اتنا ہی حق ہے، جتنا کسی اور کا ہے۔ ”ہم سبھی ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ کابل میں اقتدار کے لیے اپنی پسند و ناپسند کا معیار نہ بنائیں، بلکہ یہ حق افغانی عوام کو دیں۔“  انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان  کے افغانستان کے ساتھ قدیمی تاریخی و تہذیبی روابط ہیں۔ ”پاکستان کے ساتھ ہمارے مشترکہ مفادات ہیں۔ ہاں، ہندوستان نے افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لیے جو سرمایہ کاری کی ہے، افغان عوام میں اس کی پذیرائی ہے، مگر جو کچھ آجکل کشمیر میں ہو رہا ہے، اور اس کی رپورٹنگ میڈیا کے ذریعے افغانستان پہنچ رہی ہے، اس سے افغانی عوام خاصے رنجیدہ ہیں۔ دنیا کے دیگر امن پسند عوام کی طرح ان کا بھی ہندوستان سے مطالبہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کشمیری عوام کی خواہشات کو مد نظر رکھ کر اس مسئلہ کا کوئی حل ڈھونڈ نکال لیں، ورنہ ایک طرف افغانستان میں امن قائم ہو رہا ہے، وہیں اسی خطہ کا دوسرا حصہ عدم استحکام کا باعث بنایا جا رہا ہے۔ اس کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑے گا۔ یہ صرف کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔اس خطے کے ممالک کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔“

Agganistan_Reuters

فوٹو : رائٹرس

افغانستان میں داعش کے حوالے سے خاصی خبریں آجکل آرہی ہیں۔ ہم اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔ میں نے پروفیسر وزین سے پوچھا کہ اس میں کتنی حقیقت ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ایک باضابطہ پلان کے ذریعے چند عناصر داعش کا ہوا کھڑا کرکے غیر ملکی افواج کے انخلاء کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ داعش کا افغانستان میں کبھی کوئی وجود نہیں رہا ہے۔ کئی بار ان کو لانچ کرنے کی سازشیں ہوئی، مگر وہ ناکام ہو گئیں۔ امریکی محکمہ سی آئی اے اور ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس خود متضاد بیانات دے رہے ہیں۔ آخر شام اور عراق میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد داعش مشرقی افغانستان میں کیسے نمودار ہوگئی؟ اور وہ بھی ایسے علاقہ میں جہاں امریکی اور افغان فوج خاصی سرگرم ہے۔ افغانستان، افغان عوام کا ہے اور وہ اس کا برا بھلا سمجھتے ہیں اور اس کی آزادی اور خود مختاری کو برقرار اور بحال رکھنا  بھی خوب جانتے ہیں۔  افغان باقی کوہسار باقی۔ اسی دوران  پروفیسر وزین کی منزل آگئی۔ ان کی بات رہ رہ کر کانوں میں گونج رہی تھی، کہ کشمیر کی صورت میں جنوبی ایشیا ء کے پچھواڑے میں ایک اور افغانستان بنایا جا رہا ہے۔ جہاں فی الوقت آٹھ ملین عوام اسیری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ایک لاوا جمع کیا جا رہا ہے، جو کسی بھی پھوٹ کر خطہ کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر اور اس کے انسانی عوامل کو نظر انداز کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ جتنی جلدی یہ عالمی برادی کی سمجھ میں آجائے، بہتر ہے۔ مانا کہ ہندوستان  ایک بڑی تجارتی منڈی ہے، مگر تجارت کے لیے بھی تو امن لازمی ہے۔