ٹرائل میں تاخیر کی وجہ سے ہینی بابو کو ان کی زندگی کی مختلف سرگرمیوں سے محروم ہونا پڑرہا ہے۔
ہینی بابو کے اہل خانہ نے ان کی رہائی کے لیے دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے ایک بے گناہ شخص کو گرفتار کیاہے۔ یہاں تک فارنسک جانچ میں بھی انکشاف ہوا ہے کہ ایلگار پریشد معاملے میں ملزمین کے خلاف شواہد پلانٹ کیے گئے تھے۔ہینی بابو کے گھر والوں کا مزید کہنا ہے کہ اس کے باوجود عدالتیں اور تفتیشی ایجنسیاں اصلاحی اقدامات نہیں کر رہی ہیں۔
ہینی بابو کے اہل خانہ نے اس اپیل میں کہا ہے کہ ؛’اب تک بےگناہ ہینی بابوممبئی کی ایک بھیڑ والی جیل میں نو مہینے گزار چکے ہیں۔ جو انہی کی طرح انڈر ٹرائل افراد سے پُرہے۔ گرفتاری سے قبل پانچ روزہ تفتیش کے دوران انہوں نے ہمیں خبر دی کہ این آئی اے کے افسران انہیں گواہ بننے کو مجبور کر رہے ہیں اور گرفتار شدہ لوگوں کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کے لیےکہہ رہے ہیں۔ گرفتاری سے قبل ان کے موباہل سے آئی ہوئی آخری کال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ این آئی اے کے افسران ان سے ناخوش تھے کیونکہ انہوں نے دوسروں کے خلاف جھوٹی گواہی دینے سے انکار کر دیا تھا۔’
ہینی بابو کے اہل خانہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ؛وہ کووڈ کی وجہ سے جیل کے حالات کو لے کر فکرمند ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ، یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ کووڈ کی آڑمیں ہینی بابوکو اہل خانہ سےذاتی ملاقات کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ہمیں اس بات سے مایوسی ہےکہ وقتاًفوقتاً انہیں کتابوں کے پارسلوں کی حصولیابی اور خط و کتابت اور فو ن کالز سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔
ہینی بابو کے اہل خانہ کی مکمل اپیل یہاں ملاحظہ کیجیے؛
بھیماکورےگاؤں-ایلگارپریشد معاملہ، جس میں اب تک 16افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ یہ شروع ہوا تھا قتل کی مبینہ سازش کے ساتھ لیکن جلد ہی معاملے کی نوعیت بدل دی گئی، اورغیر دستخط شدہ اور غیر مصدقہ خط و کتابت ذاتی کمپیوٹر میں غیر قانونی طریقہ سے نصب کردی گئی ۔ اور اب تک حکومت انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی آ رہی ہے۔
ہینی بابو ایم ٹی جو دہلی یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، بی کے-16معاملے میں گرفتار بارہویں شخص ہیں۔ جو نہیں جانتے ان کے لیے بتادیں کہ ہینی بابولسانیات کے اسکالر ہیں(ای ایف ایل یو حیدر آباد اورکونسٹنذ یونیورسٹی جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے)۔
وہ ایک مخلص معلم اور سماجی کارکن ہیں اورخود کو امبیڈکرکے اصولوں کا پیروکار مانتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی اور کام کوذات پات کے خلاف جد و جہد کے لیے وقف کردیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے طلبہ اور دوسرے اسکالر ان سے بےحد محبت کرتے ہیں اور ان کی نظر میں ہینی بابو ایک ذی وقارشخصیت ہیں۔ مزید یہ کہ دانشور اور طلبہ ہینی بابو کو جمہوری مزاج روشن خیال دانش ور کی نظر سے دیکھتے ہیں جو ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لیےتیار رہتے ہیں۔
لہذا جو نا انصافی اس پورے 2018بھیماکورےگاؤں-ایلگارپریشد معاملے میں ہوئی اور جو ہینی بابوکے ساتھ ایک مشتبہ شخص کے طور پر ہوئی وہ باعث تشویش ہے۔ این آئی اے نے ہینی بابو کو ممبئی طلب کر کے پانچ دنوں کی بے جا پوچھ تاچھ کے بعد 28 جولائی 2020 کو بھیماکورےگاؤں معاملےمیں غیرمنصفانہ طور پر گرفتار کیا۔
اس گرفتاری سے قبل ان کے گھر پر پولیس کی پہلی ریڈ ستمبر2019 کو ہوئی(دوسری ریڈ اگست 2020 کو ہوئی،دونوں ہی خوفناک اور طویل تھیں)اور ان کی کتابیں، دستاویزات اور الکٹرانک آلات کسی مناسب وارنٹ کے بغیر اور قانونی طریقہ کارپرعمل کیے بغیر ضبط کرلیے گئے۔ انہیں فوری طور پر ضبط شدہ اسباب اور ہیش ویلیو کی فہرست فراہم نہیں کی گئی۔
جس سے ان کے شواہد کی اہمیت زائل ہوجاتی ہے اور اس طرح سے پورے معاملے میں ہیرا پھیری کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔کورونا کے پہلے مرحلے میں پروفیسر ہینی بابو کے گھر کی غیر قانونی تلاشی، اسباب کا ضبط ہونا اور پھر ان کی غیر قانونی گرفتاری ایک انتہائی سنگین اور افسوسناک حادثہ ہے۔ خاص طور پر اس فرد کے خلاف جو ہمیشہ جمہوری طرز عمل کا پابند ہو اور قانون کی حکمرانی کا بھی قائل ہو۔
اب تک بےگناہ ہینی بابوممبئی کی ایک بھیڑ والی جیل میں نو مہینے گزار چکے ہیں۔ جو انہی کی طرح انڈر ٹرائل افراد سے پُرہے۔ گرفتاری سے قبل پانچ روزہ تفتیش کے دوران انہوں نے ہمیں خبر دی کہ این آئی اے کے افسران انہیں گواہ بننے کو مجبور کر رہے ہیں اور گرفتار شدہ لوگوں کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کے لیےکہہ رہے ہیں۔
گرفتاری سے قبل ان کے موباہل سے آئی ہوئی آخری کال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ این آئی اے کے افسران ان سے ناخوش تھے کیونکہ انہوں نے دوسروں کے خلاف جھوٹی گواہی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ہینی بابو کی مثالی ایمانداری کو دیکھتے ہوۓ لگتا ہے کہ این آئی اے نے انہیں سبق سکھانے اور ان پر ماؤنواز ہونے کا الزام لگا کر ان کو غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
مزید یہ کہ تمام 16 افراد کی گرفتاری کا منصوبہ اس طرح بنایا گیا تھا کہ چارج شیٹ داخل کرنے میں تاخیر ہو اس جواز پر کہ نئے گرفتار شدہ لوگوں کی جانچ پڑتال کرنی ہے اور نئےشواہد مہیا کرنا ہے۔ این آئی اے ابھی بھی یہ ثابت کرنے پر آمادہ ہے کہ پورا معاملہ غلط نہیں بلکہ صحیح ہے جبکہ تمام گرفتار شدہ ملزمین ملک کے الگ الگ صوبے سے تعلق رکھتے ہیں اور اکثر ایک دوسرے کے شناسائی نہیں ہے۔
لہذا ہم ہینی بابو کے اہل خانہ اس اپیل کے ذریعہ اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں اور عوام کو حکومت کے اس غیر منصفانہ اور ظالمانہ اقدام کے متعلق مطلع کرنا چاہتے ہیں۔ ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ بمبئی ہائی کورٹ نے مہاراشٹرا کے جیل میں کووڈ سے متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے ایک سواوموٹو پی آئی ایل درج کر لیا ہے۔
ہم کسی شک و شبہ کے بغیر کہہ سکتے ہیں کہ امبیڈکر کی طرح ذات پات کے خلاف جدوجہد اورسماجی انصاف کے لیے لڑنا ہی ہینی بابوکا واحد جرم ہے۔ کیونکہ وہ ان چند اولین لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے دہلی یونیورسٹی میں او بی سی ریزرویشن کے تحفظ کو عملی جامہ پہنانے اور ایس ٹی/ایس سی کے ساتھ امتیاز کو ختم کرنے کے لیے مسلسل جد و جہد کی۔ ساتھ ہی وہ جی این سائیں بابا کی دفاع اور رہائی کی قائم شدہ کمیٹی میں سرگرم عمل تھے۔
ہینی بابو سائیں بابا کے ہم جماعت بھی رہے اور رفیق کار بھی ہیں اور اب تک سائیں بابا جیل میں سڑ رہے ہیں جبکہ وہ90 فیصدی جسمانی طور پر معذور ہیں۔بےشک یہ حیران کن بات ہے کہ ریزرویشن کے عمل کی کوشش یا شہری حقوق کے انصاف کے لیےلڑنے کو بھی مجرمانہ فعل قرار دیا گیا ہے اور یہ عمل ماؤنواز ہونے کا ثبوت ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ معاملات میں ہینی بابو کی شمولیت ہی تھی جس کی وجہ سے وہ انصاف کو نہیں بلکہ انصاف کی جزوی فراہمی کو سمجھ سکے۔ اسی وجہ سے انہوں نے 2015 میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور دوسرےاقدامات کے ذریعہ مساوات کی جد و جہد کرتے رہے جو اس الزام کو غلط ثابت کرتا ہے کہ وہ ماؤنواز کے ہمدرد تھے۔
جیسا کہ ہم جان سکے ہیں کہ جیل میں رہ کر بھی، دوسروں میں بہتری لانے کی ان کی لگن جاری ہے اور دوسروں کو زبان کی مہارت سکھا کر، دوسروں کی زبان سیکھ کر اور ساتھی قیدیوں کو قانونی مشورے دے کر وہ خود کومصروف رکھتے ہیں۔
ہینی بابوکے شہری اور قانونی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بدستورجاری ہے کیونکہ این آئی اے نے ابھی تک کوئی حقیقی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ضبط شدہ الکٹرانک سامان کی کلون کاپیوں کے لیے ہینی بابو کی عرضی کو غیرمعنیہ مدت کے لیے مؤخر کیاجارہاہے۔ اس طرح ان کی بے گناہی کے دفاع کو مفلوج کیا جا رہا ہے۔
اس طرح کی تاخیر، انکار کے مترادف ہے، اور اس طرح اور بھی زیادہ معنی خیز ہو جاتی ہے- مسیاچوسٹس پر مبنی ڈیجیٹل فارنسک آرسینل کسنلٹنگ نے حالیہ نتائج کے ساتھ نشان دہی کی ہے کہ رونا ولسن(بی کے-16 میں سے ایک)کےکمپیوٹر میں ایک ہیکر نےبدنیتی پر مبنی ایک سافٹ ویئر کا استعمال کر کے فائلوں کا ایک سیٹ لگایا تھا جو ان کے دوستوں کے لیپ ٹاپ میں پھیل گیا، یہ فطری ماؤ نواز خط و کتابت پر سو الیہ نشان اٹھاتا ہے۔ جو پورے معاملے میں این آئی اے کا واحد ثبوت ہے۔
ہمیں تعجب ہے کہ عدالتوں نے ایک سال گزر جانے کے باوجود نہ ہی متعدد شائع شدہ نتائج کی سواوموٹو جانکاری دی اور نہ ہی فوری طور پر آزدانہ تحقیقات اور ان تمام اعداد و شمار کے فارنسک تجزیے کا حکم دیا جو اس معاملے میں بطور ‘ثبوت’ پیش کیا گیا تھا۔ ایسا عمل جو کسی بھی جمہوری ملک میں فوری طور پر دستیاب ہوتا ہے، اسے مؤخر کرنے والے حربوں کے ساتھ بدل دیا گیا ہے جن کا کام انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔
مزید برآں،ایک ایسے وقت میں جب کئی سارے ممالک اپنے سیاسی قیدیوں کوکووڈ کی وجہ سے رہائی دے رہے ہیں، وہیں بی کے-16 کے عمردراز اور مریض ملزمین کی بار ہا دائر کی ہوئی ضمانت کی عرضیوں کو مکمل طور پر مسترد کیا جا رہا ہے۔ لہذا ہم جیل خانوں کی صورتحال سے نہایت پریشان ہیں، جب روزانہ کووڈمعاملے اور یہاں تک کہ اموات کی خبریں جیلوں سے آ رہی ہیں۔
یہ بنیادی حقوق کی حق تلفی ہے۔ دراصل، یہ اس حقیقت سے واضح ہوتی ہے کہ کووڈ کی آڑمیں ہینی بابوکو اہل خانہ سےذاتی ملاقات کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ہمیں اس بات سے مایوسی ہےکہ وقتاًفوقتاً انہیں کتابوں کے پارسلوں کی حصولیابی اور خط و کتابت اور فو ن کالز سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔
شاید ہی کوئی شخص یا گھر یا ادارہ(عدالت سمیت)ہے جو اس موجودہ وبا سے متاثر نہ ہوا ہو۔انڈر ٹرائل افراد کے لواحقین کے غم کو لفظوں میں بیاں نہیں کیا جا سکتا، جنہیں بےتحاشہ تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے صرف اس لیےکے وہ جمہوری حقوق پر یقین رکھتے ہیں اور ان کو برقرار رکھتے ہیں، جیساکہ ہینی بابو کے معاملے میں ہوا ہے۔
ہینی بابو کے خط سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جیل میں ایسی چیزیں (جیسے ڈاک ٹکٹ)بھی اتنی قیمتی ہیں جو جیل کے باہر آسانی سے دستیاب ہیں۔لیکن ان شکستہ حالات کے باوجود ہینی بابو کا ہندوستانی عدالت پر سے اعتماد نہیں اٹھا ہے۔ گرچہ یہ صحیح ہے کہ غیر معینہ تاخیر کی وجہ سے ہینی بابو کو زندگی کی مختلف سرگرمیوں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔
حال میں ہی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ اسپیڈی ٹرائل ہر شہری کا بنیادی حق ہے چاہے کوئی یو اے پی اے کے تحت کیوں نہ گرفتار ہو۔ لہذا امید ہے کہ ہینی بابو کے ٹرائل کی شروعات میں اور تاخیر نہیں ہو گی۔
ہم ہینی بابو کے اہل خانہ یہ درخواست کرتے ہیں کہ(1) کلون کاپی سمیت سارے ثبوت فوری طور پر ملزم کو مہیا کرائیں جائیں تاکہ دفاع بھی آزادانہ تحقیق کروا کر جلد از جلدٹرائل کا آغاز کروا سکے۔(2) قانون کے مطابق تمام ملزمین کو ٹرائل شروع ہونے سے پہلے ضمانت دی جاۓ تا کہ عدالتی نظام خود ہی ناقص و نااہل ثابت نہ ہو۔
منجانب ۔جینی(اہلیہ)، فرزانہ(دختر)، فاطمہ(والدہ)، ہریش اور انصاری(بھائی)