الزام ہے کہ بنگال کے مالدہ کے رہنے والے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تین طالبعلم جب اپنے جاننے والوں کو ریلوے اسٹیشن پر چھوڑ کر جا رہے تھے تو ریلوے پولیس نے انہیں روک کر پوچھ گچھ کی۔ طلباء کے پاس پلیٹ فارم ٹکٹ نہیں تھے، جس پر پولیس والوں نے انہیں یہ کہتے ہوئے ان کے ساتھ مارپیٹ شروع کر دی کہ یہاں ‘بابا’ کا راج چلتاہے، ‘ممتا دیدی’ کا نہیں کہ تم جو چاہے وہ کرو۔
نئی دہلی: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دو طالبعلموں اور ایک سابق طالبعلم نے الزام لگایا ہے کہ 22 جون کو جب وہ علی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر اپنے جاننے والوں کو چھوڑنے گئے تو پلیٹ فارم ٹکٹ نہ ہونے کی وجہ سےانہیں بے دردی سے مارا گیا۔ ان الزامات کے بعد ریلوے کے دو پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔
مبینہ مارپیٹ میں تینوں طالبعلم زخمی ہو گئے ہیں۔ اے ایم یو پی ایچ ڈی اسکالر مومن علی کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں تینوں طالبعلموں کے بدن پر لال نشان دیکھے جاسکتے ہیں۔
ان تین طالبعلموں میں سے ایک شاہدل نے دی وائر کو بتایا کہ پولیس والوں نے جس طرح سے انہیں گالیاں دیں، اس سے صاف تھا کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک اس لیے کیا گیا کہ وہ مسلمان تھے۔ شاہدل اے ایم یو میں عربی زبان میں پوسٹ گریجویشن کے طالبعلم ہے۔
دیگر دو مبینہ متاثرین عبداللہ اور صادق ہیں۔ عبداللہ اے ایم یو سے گریجویشن کرنے کے بعد جے این یو سے ماسٹر ڈگری حاصل کر رہے ہیں، جبکہ صادق کے پاس عربی میں ماسٹر ڈگری ہے اور انہوں نے اے ایم یو سے پی ایچ ڈی کرنے کے لیےانٹرنس اگزام دیا ہے۔
تینوں بنگال کے مالدہ ضلع کے رہنے والے ہیں۔
تینوں (پانچ افراد کے گروپ کا حصہ تھے) اپنے چھ جاننے والوں کو چھوڑنے کے لیے ریلوے اسٹیشن گئے تھے۔ ان کے جاننے والےاے ایم یو کا انٹرنس اگزام دینے کے بعد فرکا ایکسپریس میں سوار ہونے والے تھے۔ طالبعلم نے کہا، وہ جلدی میں تھے اور ان کے پاس پلیٹ فارم ٹکٹ لینے کا وقت نہیں تھا۔
ایک بار جب ٹرین چل پڑی اور پانچوں اسٹیشن سے باہر آ رہے تھے تو پولیس والوں نے انہیں روک لیا۔ دو بھاگ گئے، لیکن تین پولیس والوں سے بات کرنے کے لیے پیچھے رہ گئے۔
طالبعلم نے دی وائر کو بتایا،جب ہم نے کہا کہ ہمارے پاس پلیٹ فارم ٹکٹ نہیں ہے، تو ایک (پولیس اہلکار) نے ہم سے پوچھا کہ ہم کہاں کے ہیں؟ جب ہم نے بتایا کہ ہم اے ایم یو کے طالبعلم ہیں تو اس نے ہمیں گالی دینا شروع کر دی۔ اس نے کہا، اے ایم یو ہو گا تمہارے باپ کا، تمہیں ایسا لگتا ہے کیاکہ یہ اسٹیشن بھی تمہارے باپ کا ہے؟
طالبعلم نے مزید بتایا کہ ،وہ ہماری ماں اور بہن کو بھی درمیان میں لایا اور ایسے الفاظ کہے جو ہم دہرا نہیں سکتے۔ پھر اس نے کہا- ‘آؤ ہم تمہیں دکھاتے ہیں’ اور ہمیں باہر لے گئے۔ ہم نے کہا کہ ‘باہر نہیں، جوآپ کو کرنا ہے یہاں کرو’ تو انہوں نے صادق بھائی کو دھکا دیا اور وہ گر پڑے۔ جب میں نے کہا کہ آپ یہ نہیں کر سکتے تو اس نے میری گردن پکڑلی اورمجھے گڑگڑانےکے لیے مجبور کر دیا۔ وہ عبداللہ بھائی کو بیت الخلا کے اندر لے گئے اور ان کی بری طرح پٹائی کی۔ مجھے اور صادق کو بھی مارا پیٹا گیا۔ لیکن عبداللہ کو سب سے زیادہ مارا گیا۔ ان کی داڑھی سب سے لمبی ہے۔
ریلوے پولیس نے تینوں سے ان کے شناختی کارڈ، آدھار کارڈ دکھانے کو کہا اور پوچھا کہ وہ کس ہاسٹل میں رہ رہے ہیں۔ شاہدل نے کہا، صادق کے پاس اپنا آدھار کارڈ تھا، ہمارے پاس نہیں تھا۔ اس پر انہوں نے کہا، ‘تم اپنا آدھار کارڈ بھی ساتھ نہیں لے کر نہیں چلتے۔’ ان کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ہم ہندوستانی نہیں ہیں۔
تینوں نے پولیس سے درخواست کی کہ ان پر عام جرمانہ عائد کیا جائے۔ ان کے مطابق، پولیس نے مبینہ طور پر یہ بھی پوچھا کہ ‘کتنے بنگالی’ ہاسٹل میں رہتے ہیں اور ایس پی کے ساتھ اگلی صبح وہاں چھاپے ماری کرنے کا بولا۔
طالبعلم نے کہا، ہمیں احساس ہوا کہ وہ ہمارے مذہب کی وجہ سے ہمیں نشانہ بنا رہے تھے کیونکہ انھوں نے براہ راست کہا تھا کہ یہاں ہمارے بابا (وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ) کا راج چلتا ہے، ممتا دیدی (مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی) کا نہیں کہ تم جو چاہے وہ کرو ‘۔ .
پولیس نے مبینہ طور پر کہا کہ وہ (طالبعلم) اے ایم یو میں پڑھنے نہیں،غنڈہ بننے جاتے ہیں۔ شاہدل نے بتایاکہ جب وہ ہمیں مار رہے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ ان کا ارادہ سہارنپور ویڈیو کو دہرانا تھا۔
بتا دیں کہ 11 جون کو سوشل میڈیا پر ایک
ویڈیو سامنے آیا تھا، جس میں کچھ نوجوانوں کو پولیس حراست میں بے دردی سے پیٹا گیا تھا۔ ایک
تحقیقات کے مطابق ویڈیو میں نظر آنے والے نوجوانوں کے گھروالوں کا کہنا ہے کہ ویڈیو سہارنپور کا ہے اور پولیس حراست میں ان کے رشتہ داروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم، یوپی پولیس مسلسل ان دعووں کی تردید کرتی رہی ہے۔
شاہدل نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس نے ان سے کیمرے پر ان کی مبینہ غلطی تسلیم کرنے کو کہا اور تینوں کی ویڈیو بنانے کی بھی کوشش کی۔ اسی دوران بھاگے ہوئے اے ایم یو کے دونوں طالبعلم کچھ سینئر طالبعلموں کے ساتھ اسٹیشن واپس آئے۔
انہوں نے بتایا، جب ہمارے سینئرز آئے ، تب تک ہم نے کیمرے پروہ سب کہنا شروع کر دیا تھا جو وہ ہم سےکہلواناچاہتے تھے۔
جب اے ایم یو پراکٹر تھانے پہنچے تو ریلوے پولیس نے انہیں جانے دیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کسی بھی ریلوے پولیس اہلکارکے پاس بیج(بلا) نہیں تھا۔
بعد میں تینوں طالبعلموں کو علاج کے لیے اے ایم یو کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج لے جایا گیا۔ طلباء نے انسٹی ٹیوٹ کے پراکٹر کے ذریعے ریلوے پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
علی گڑھ کی ریلوے پولیس میں اسسٹنٹ کمانڈنٹ دھیریندر کمار نے دی وائر کو بتایا کہ ریلوے پولیس نے تحقیقات شروع کر دی ہیں اور فی الحال ریلوے پولیس کے دو افسران ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) اور ایک کانسٹبل کو معطل کر دیا گیا ہے۔
دی کوئنٹ کی ایک رپورٹ میں معطل پولیس اہلکاروں کی شناخت اے ایس آئی پریم پال سنگھ اور کانسٹبل کلدیپ کے طور پر کی گئی ہے۔
اے ایم یو کے طلباء نے جمعرات 23 جون کو کیمپس میں
مظاہرہ کرتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)