آزاد امیدوار اور خالصتان حامی کارکن امرت پال سنگھ نے کھڈور صاحب پارلیامانی حلقہ سے اور سربجیت سنگھ خالصہ نے فرید کوٹ (ریزرو) لوک سبھا سیٹ سے جیت درج کرکے پنجاب کی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔
امرت پال سنگھ، فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ
جالندھر: پنجاب لوک سبھا انتخابات میں جیل میں بند خالصتان حامی کارکن امرت پال سنگھ اور سربجیت سنگھ خالصہ کی جیت میں ایک بات مشترک ہے – یہ ریاست میں ‘پنتھک’ یعنی سکھ سیاست کے ابھار کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
امرت پال سنگھ ‘وارث پنجاب دے’ تنظیم کے سربراہ ہیں اور سربجیت سنگھ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قاتل بےانت سنگھ کے بیٹے ہیں۔ ان دونوں کی جیت کی بڑی وجہ پنجاب کے وہ سلگتے مسائل ہیں جو کئی دہائیوں سے چلے آ رہے ہیں، جس کی وجہ سے سکھ برادری کا ایک طبقہ کانگریس، شرومنی اکالی دل (ایس اے ڈی) اور عام آدمی پارٹی (عآپ) جیسی روایتی سیاسی جماعتوں پر بھروسہ نہیں کر پاتے۔ امرت پال سنگھ قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت آسام کے ڈبرو گڑھ کی جیل میں بند ہیں۔ انہوں نے کھڈور صاحب سیٹ سے 1.9 لاکھ سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی ہے۔ سربجیت نے فرید کوٹ کے ریزرو لوک سبھا حلقہ سے 70000 سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی ہے۔
سربجیت سنگھ خالصہ چنڈی گڑھ کے قریب موہالی ضلع کے رہنے والے ہیں۔ امرت پال کا یہ پہلا الیکشن تھا، جبکہ سربجیت سنگھ 2004 سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور ایک سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی والدہ بمل کور خالصہ نے 1989 میں روپڑ پارلیامانی سیٹ سے لوک سبھا کا الیکشن لڑا تھا، جب شرومنی اکالی دل (امرتسر) کے رہنما سمرن جیت سنگھ مان نے ترن تارن لوک سبھا سیٹ سے جیت حاصل کی تھی۔ سربجیت کے دادا سچا سنگھ نے بھی 1989 میں شرومنی اکالی دل (امرتسر) کے ٹکٹ پر بھٹنڈہ پارلیامانی سیٹ سے جیت حاصل کی تھی۔
سال 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے سربجیت کی انتخابی مہم فرید کوٹ سے آخری ایک ہفتے میں شروع ہوئی تھی۔ فرید کوٹ سے ان کی جیت کو سکھ برادری کی دیرینہ ناراضگی کا نتیجہ مانا جا رہا ہے کہ انہیں 2015 میں سری گرو گرنتھ صاحب کی بے حرمتی کے معاملے میں انصاف نہیں مل پایا، جب پنجاب میں اکالی- بی جے پی اتحاد کی حکومت تھی۔
دوسری جانب، کھڈور صاحب ایک پنتھک سیٹ (سکھ مذہبی امور سے متعلق) ہے اور 1990 کی دہائی میں پنجاب میں شورش اور عسکریت پسندی کا مرکز رہی ہے۔
سال 1989 کے لوک سبھا انتخابات کی یادیں اور پنتھک سیاست کا ابھار
امرت پال سنگھ اور سربجیت سنگھ خالصہ دونوں کی جیت نے پنجاب میں 1989 کے لوک سبھا انتخابات کی یادیں تازہ کر دی ہیں، جب سمرن جیت سنگھ مان کی قیادت والی شرومنی اکالی دل (امرتسر) نے پنجاب کی کل 13 پارلیامانی نشستوں میں سے چھ پر کامیابی حاصل کی تھی۔
فرق صرف یہ تھا کہ اس وقت ریاست میں عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی اپنے عروج پر تھی۔ پینتیس سال بعد جب امرت پال اور سربجیت سنگھ جیتے ہیں، تو شورش ہے اور نہ ہی کوئی بنیاد پرست نظریہ۔ ان دونوں کی جیت سے پنتھک سیاست نے ایک ایسے وقت میں خود کو از سر نو قائم کیا ہے، جب پنجاب میں دہشت گردی نہیں ہے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ امرت پال اور سربجیت کی جیت کی وجہ پنجاب کے وہ سلگتے ہوئے مسائل ہیں جن پر شہری خود کو ٹھگا ہوا سا محسوس کرتے ہیں – زرعی بحران، ایس وائی ایل نہر تنازعہ، شورش کے دوران نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل کے معاملے میں انصاف، یو اے پی اے اور این ایس اے کے معاملات نوجوانوں پر اور روایتی سیاست پر عدم اعتماد۔
ان تمام مسائل نے ایک سیاسی خلا پیدا کیا، جس کی وجہ سے سکھ ووٹروں کے ایک طبقے میں روایتی سیاست پر عدم اعتماد پیدا ہوا۔ اس نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں دو آزاد امیدواروں کو بڑی جیت دلائی ہے۔
فتح کے بعد امرت پال کے اہل خانہ نے آپریشن بلیو اسٹار کی 40 ویں برسی پر گردوارے میں مذہبی تقریب میں حصہ لیا
نتیجے کے بعد جب دی وائر نے امرت پال کے والد ترسیم سنگھ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک مذہبی تقریب میں شرکت کے لیے گردوارے آئے ہیں۔ بعد میں امرت پال کے میڈیا رابطہ کار سریندرپال سنگھ تالاب پورہ نے ان کی جیت کو ‘عوام کی جیت’ قرار دیا۔
تالاب پورہ نے کہا، ‘امرت پال کا خاندان گردوارے میں مصروف ہے کیونکہ انہوں نے آپریشن بلیو اسٹار کی 40 ویں برسی پر ‘اکھنڈ پاٹھ’ کا اہتمام کیا ہے۔ ان کے خاندان نے جیت کا جشن نہیں منایا، بلکہ اسے نجی طور پر منایا۔ چونکہ وہ جیل میں ان سے فون پر بات بھی نہیں کر سکتے، اس لیے ان کا خاندان جلد ہی ڈبرو گڑھ میں ان سے ملنے جائے گا۔ امرت پال کی جیت عوام کی جیت ہے۔’
ایک ہفتہ قبل جب اس نامہ نگار نے کھڈور صاحب حلقہ کا دورہ کیا تھا تو بزرگوں سے لے کر نوجوانوں، خواتین اور یہاں تک کہ بچوں نے بھی امرت پال کی ان کے آبائی حلقے سے ممکنہ جیت کے بارے میں اشارہ دیا تھا۔
اس وقت ووٹروں نے کہا تھا، ‘ہم نے انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ جیل سے باہر آئیں۔ انہیں غلط طریقے سے پھنسایا گیا کیونکہ وہ منشیات پر لگام لگا رہے تھے اور یہ وہ چیز ہے جو پنجاب میں روایتی جماعتیں کبھی نہیں ہونے دینا چاہتی ہیں۔ ہم کانگریس، اکالی دل، عآپ یا بی جے پی کو ووٹ نہیں دینے جا رہے ہیں۔’
جب دی وائر امرت پال کے گھر گیا تھا تو نہ صرف کھڈور صاحب بلکہ امرتسر، بھٹنڈہ، آنند پور صاحب، سری مکتسر صاحب، مانسا اور دیگر اضلاع سے بھی ووٹر امرت پال کے والد سے ملنے آئے ہوئےتھے، جو اس بات کا اشارہ تھا کہ کئی ووٹر خود کو روایتی پارٹیوں سے الگ کر رہے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ سری مکتسر صاحب سے مردوں کا ایک گروپ امرت پال کے اہل خانہ سے ملنے کیوں آیا ہے تو انہوں نے کہا، ‘ہم امرت پال کی حمایت کرنے آئے ہیں۔ اب وہی ایک واحدامید ہیں۔’
ایک اور اہم حقیقت جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہے کہ ہوشیار پور، جالندھر اور کپورتھلا جیسے دیگر انتخابی حلقوں میں بھی کئی نوجوان اور بزرگ تھے جنہوں نے کہا کہ وہ امرت پال سنگھ کے لیے انتخابی مہم میں بھی شامل ہوئے۔
جالندھر کے کنگنیوال گاؤں کے ٹیکسی ڈرائیور جسپال سنگھ نے بتایا تھا، ‘میں امرت پال سنگھ کے لیے انتخابی مہم چلانے گیا تھا اور ووٹنگ کے دن بھی ووٹروں کو ان کے حق میں ووٹ دینے کی ترغیب دوں گا۔ میری بات پر غور کریں، اس بار صرف امرت پال ہی نہیں، سربجیت سنگھ خالصہ اور سمرن جیت سنگھ مان بھی جیتیں گے۔ روایتی سیاست پنجاب کے مسائل حل نہیں کر سکتی۔’
جیل میں بند امرت پال کی امیدواری کو لے کر اتنا جوش و خروش تھا کہ منگل کو نتائج کا اعلان ہونے سے پہلے ہی علاقے کے بہت سے ووٹروں نے انہیں فاتح قرار دے دیا تھا۔ کپورتھلا کے نوجوان کسان ارشدیپ سنگھ نے کہا، ‘امرت پال کھڈور صاحب سے جیت رہے ہیں۔ لگتا ہے آپ ابھی کھڈور صاحب نہیں گئے ہیں۔ امرت پال پہلے سے ہی ایک فاتح ہیں، ہم صرف یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ انہیں سب سے زیادہ برتری حاصل ہو۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ضلع کپورتھلا (کھڈور صاحب سیٹ کے تحت) کے ووٹر پہلے ہی ان کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں؟ امرت پال اکیلے ہی پنجاب کو بچا سکتے ہیں۔’
آل انڈیا سکھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق صدر اور سکھ سیاست ڈاٹ کام کے مدیر پرم جیت سنگھ غازی نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سنگرور لوک سبھا سیٹ سے امرت پال سنگھ، سربجیت سنگھ خالصہ کی جیت اور سمرن جیت سنگھ مان کی 187246 ووٹوں کی برتری نے ثابت کر دیا ہے کہ بادل کی قیادت والی شرومنی اکالی دل (ایس اے ڈی) کا صفایا ‘جاری’ ہے۔
انہوں نے کہا، ‘یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ اس سے مستقبل میں ایس اے ڈی کے اندر دھڑے بندی اور دراڑ پڑ سکتی ہے۔ امرت پال کی جیت یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ان کی آزاد تنظیم ایس اے ڈی، ایس اے ڈی کے مختلف دھڑوں اور ایس اے ڈی (امرتسر)کے علاوہ ایک چوتھا پلیٹ فارم بھی ممکن تھا۔ اب سکھ سیاست کی قیادت کے مزید دعویدار ہوں گے۔’
انہوں نے کہا، ‘جس طرح سے امرت پال آئے، لوگوں کی توجہ مبذول کروائی، اپنی امیدواری کا اعلان کیا اور اپنے پہلے ہی مقابلے میں جیت حاصل کی، اس نے سکھ سیاست میں ایک اور دھڑے کے لیے جگہ بنائی ہے۔’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سکھوں کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو مانتا تھا کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں انسانی حقوق کے کارکن جسونت سنگھ کھالرا کی اہلیہ پرم جیت کور کھالرا کی امیدواری کی حمایت نہ کرکے انہوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘زیادہ تر سکھ اس غلطی کو درست کرنا چاہتے تھے، اس لیے اتفاق رائے ہو گیا کہ امرت پال کو اس بار جیتنا چاہیے، تاہم اس پیش رفت سے پنجاب میں پولرائزیشن میں اضافہ ہوگا۔ اس کا اثر پنجاب کی دلت سیاست پر بھی پڑے گا۔’
انہوں نے کہا کہ جس طرح سے 2014 کے پارلیامانی انتخابات میں عآپ نے جیت حاصل کی تھی- پارٹی نے پنجاب میں لوک سبھا کی چار سیٹیں جیتی تھیں – اس نے پورے ملک کو چونکا دیا تھا، اسی طرح اب پنجاب میں بنیاد پرست سیاست بڑھ رہی ہے۔
سربجیت سنگھ خالصہ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مثالی طور پر چند دن پہلے تک ان کے حق میں کوئی لہر نہیں تھی۔ انھوں نے کہا، ‘سربجیت خالصہ مکمل طور پر جذباتی اپیل کی بنیاد پر جیت گیا اور یہ پنجاب کے سلگتے مسائل کو حل کرنے کے لیے روایتی سیاست سے دور رہنے کی خواہش کا اشارہ ہے۔ بے ادبی کے معاملے اور اس وقت کی اکالی-بی جے پی، کانگریس اور عآپ کی جانب سے انصاف میں تاخیر ان کی جیت کا باعث بنی۔’
غازی نے بھٹنڈہ لوک سبھا سیٹ سے ہرسمرت کور بادل کی جیت کو ایس اے ڈی کے لیے راحت کی بات بتایا، کیونکہ ایسا نہ ہونے پر سکھبیر بادل کے لیے ایس اے ڈی کی صدارت کا دعویٰ کرنا مشکل ہو جاتا۔ غازی نے کہا کہ مستقبل قریب میں پنجاب کی سیاست میں بہت سی تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔