وزیر داخلہ امت شاہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں وزیر اعظم نریندر مودی پر‘تاناشاہ’ہونے کے الزامات پر صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں ان سے زیادہ جمہوریت پسند رہنماہوا ہی نہیں ہے، جس پر امریکہ کی لیجنڈ ٹینس کھلاڑی مارٹینا نورا ٹیلووا نے فقرہ کسا تھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ(فوٹو : رائٹرس)
وزیر داخلہ امت شاہ نےسنسد ٹی وی پر اپنے چہیتےصحافی کو
انٹرویو دیتے ہوئےوزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف عام ہو چکےآمرانہ سلوک کےالزامات کی صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں ان سے زیادہ جمہوریت پسند رہنماتو کوئی ہوا ہی نہیں اور تین دہائی تک ٹینس کی دنیا پر راج کر چکی
امریکی اسٹار مارٹینا نورا ٹیلووا کو ان کی باتیں اپنے اگلے لطیفے کا مسالہ لگنے لگیں تو اس بابت کسی سوال کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ ہندوستان کے ان دونوں‘ہیروز’نے دنیا میں کتنی اور کیسی‘عزت’حاصل کر رکھی ہے اور اس سے ملک کی جمہوریت کی، جس کو ہم اب تک سب سے بڑا کہتے آئے ہیں، دنیا کی نظروں میں کیسی امیج بن رہی ہے؟
ابھی لوگ شاید ہی بھولے ہوں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی گزشتہ امریکہ دورے کے دوران وہاں کی ہندی نژادنائب صدر کملا ہیرس نے انہیں جمہوری سلوک کے سلسلے میں کتنی تلخ نصیحت کی تھی۔ مارٹینا کے
فقرہ کسنے کواس نصیحت کے ساتھ جوڑ دیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کچھ لوگ ابھی بھی دعویٰ کرنے کی جرأت کر رہے ہیں کہ مودی نے اپنے دور حکومت میں بین الاقوامی برادری میں ہندوستان کے وقار کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔
ہاں ان کے اس رویے میں اتنی اچھی بات بھی ہے کہ وہ ملک کی شبیہ خراب کرنے کاٹھیکرااپوزیشن کےرہنماؤں کے بیانات پر پھوڑ کر دوسرے لفظوں میں ہی سہی قبول کر لے رہے ہیں کہ اب دوسرے ملکوں میں ان کے رہنماؤں کے مقابلے اپوزیشن کےرہنماؤں کو زیادہ سناا ورسمجھا جا رہا ہے۔
بہرحال غورطلب ہے کہ مارٹینا نے یہ فقرہ ایسےوقت میں کسا ہے، جب بھارتیہ جنتا پارٹی گجرات سے لےکرمرکز تک نریندرمودی کےاقتدارمیں دودہائی مکمل ہونے کا جشن منا رہی اور ان کی ‘حصولیابیوں’کی تعریف میں کوششیں کر رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ وزیر داخلہ کا
مذکورہ انٹرویو بھی اسی سلسلے میں تھا، جس میں وہ اس دعوے تک چلے گئے کہ سابقہ منموہن سرکار کے دوران ملک ہر شعبے میں پستی کی طرف جا رہا تھا اور عالمی فورمز پر اس کا کوئی وقارہی نہیں رہ گیا تھا۔
جیسے کہا جاتا ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، وزیر داخلہ کی اس بات کے بھی پاؤں نہیں ہی ہیں، کیونکہ وہ نہیں بتا سکتے کہ اگر واقعی ایسا تھا تو منموہن کےکس غیرملکی دورے کے دوران کس سربراہ مملکت یا ان کے ڈپٹی نے انہیں جمہوریت کا ویساسبق پڑھانے کی کوشش کی، جیسا مودی کو کملا ہیرس نے پڑھایا؟
یا کہ کب جمہوریت کے گلوبل انڈیکس میں ہندوستان اس قدر نچلےپائیدان پر آیا اورانڈیکس جاری کرنے والی ایجنسیوں نے اس کی جمہوریت کومعذور اور اس کے شہریوں کی آزادی کوجزوی بتایا؟
منموہن کے وقت ان پر اور ان کی سرکار پر جیسے بھی الزامات لگتے رہے ہوں، دوسرے ممالک تو کیاملک میں بھی کسی نے ان پر تاناشاہ ہونے، ‘ہم دو ہمارے دو’کی سرکار چلانے، اپوزیشن کی توہین کرنے، کرونی کیپیٹل ازم کی حوصلہ افزائی کرنے اور اختلافات کو کچلنے کے الزامات نہیں لگائے۔اس بی جے پی نے بھی نہیں، جس کی جانب سے اب مودی اور شاہ اقتدارمیں سربراہ ہیں۔
منموہن کے بعد وزیر اعظم بنے نریندر مودی نے بھی اب تک ان پرپارلیامنٹ کے اندر ‘ڈاکٹر منموہن سنگھ کے رین کوٹ پہن کر نہانے میں کشل ہونے’سے بڑا الزام نہیں لگایا ہے۔ اس کے برعکس مودی کے آمرانہ رویےکی شکایت تو ان کی پارٹی کے وہ رہنما بھی کیا کرتے ہیں،البتہ غیررسمی بات چیت میں، جو بہرحال عوامی فورمز پر ان کی قصیدہ خوانی کو مجبور ہیں۔
کئی مبصرین کے مطابق، وزیر داخلہ امت شاہ کے پاس بھی وزیر اعظم کی صفائی دینے اور تعریف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیونکہ وہ ان پر لگائے جا رہے تاناشاہ ہونے کےالزامات پر مہر لگاکر پارٹی میں یا اپنےعہدے پر کیسے بنے رہ سکتے تھے؟ گجرات میں ان کے چہیتےوجے روپانی کو تو مودی کے بھکٹیاں ٹیڑھی کر لینے کے بعد وزیر اعلیٰ کے عہدےپر ایک دن رہنا بھی میسر نہیں ہوا۔
امت شاہ کی مجبوری کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اب جب نوٹ بندی اور آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے وقت جموں وکشمیر میں سرحدپار سے اسپانسرڈدہشت گردی کے خاتمے کے بڑھ چڑھ کر کیے گئے دعوے ہوا میں اڑ گئے ہیں۔
ملک کی حساس ترین سرحدی ریاست ایک بار پھر سے نوے کی دہائی کی خون ریزی کی طرف بڑھ چلی ہے، سرکار کو اس مسئلےکی فرقہ بندی کےاندھیرےغار میں ہی‘روشنی’ دکھ رہی ہے،مشرقی لداخ میں گھسا بیٹھا چین وہاں پرانی صورتحال کی بحالی کو تیار نہیں ہے، انہیں وزیر اعظم کے ذریعےملک کی چاک چوبند حفاظتی نظام کے نام پر کی گئی سرجیکل و ایئراسٹرائیکوں کے گن گانے پڑ رہے ہیں۔
کیونکہ صاف صاف کہہ نہیں سکتے کہ دشمن کو گھر میں گھس کر مارنے کا دعویٰ کرتے کرتے انہوں نے چین کو گھر میں گھسا لیا ہے، ‘موندہو آنکھی کتہں کچھو ناہیں’ کی طرز پر اس کی طرف پیٹھ کر لی ہے اور اپوزیشن پر برسے جا رہے ہیں کہ وہ حالات کو ڈھکےتوپے رکھنے میں ان کی مدد نہیں کر رہا۔
لیکن جو بھی ہو، اب وہ اور ان کے حامی، اپنا جو ایک کام انتہائی سہولت سے مکمل ہونے کی امید کر سکتے ہیں، وہ مارٹینا نورا ٹیلووا کی مذمت کی مہم چلانے کی ہے کیونکہ انہیں ایسےمہمات کا پرانا تجربہ ہے۔ اسی تجربے سے انہوں نے مشہور گلوکارہ ریحانہ کو ولن بنانے میں تب کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی، جب انہوں نے راجدھانی دہلی کی سرحدوں پر چل رہے کسانوں کے مظاہروں کی حمایت کر دی تھی۔
تب انہوں نے دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کی حمایت کی ہندوستان کی پالیسی کو منھ چڑھاتے ہوئے ریحانہ کے فعل کو ہندوستان کے اندرونی معاملے میں دخل اندازی قرار دیا تھا اور سوشل میڈیا پر ان کی لعنت ملامت کی باڑھ سی لا دی تھی۔ اب مارٹینا پر داخلی معاملوں میں ویسے دخل کا نہیں تو ‘تیزی سے بڑھتے’ہندوستان کی‘حصولیابیوں’ سے ناراضگی کاالزام تو چسپاں کیا ہی جا سکتا ہے۔
البتہ اس راہ میں بھی ایک دقت ہے۔ یہ کہ مارٹینا مودی کی ہی نہیں ان کے دوست اور امریکہ کےسابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی بھی ناقد ہیں اور جمہوریت کےلحاظ سےدونوں کو، ٹرمپ دور سے ہی، ترازو کے ایک ہی پلڑے پر رکھتی آئی ہیں۔ گزشتہ سال اپریل میں انہوں نے دونوں کی ایک سُر سے تنقیدکرتے ہوئے ٹوئٹ کیا تھا،‘سچائی یہ ہے کہ اگر سچ سیاسی مفادکے حساب سے فٹ نہیں بیٹھتا تو ٹرمپ اور مودی جیسےحکمراں سچ کو زیادہ سے زیادہ دبانے لگ جاتے ہیں۔’
بلاشبہ ان کے اس ٹوئٹ کے تناظر میں شاہ کےانٹرویو کو لطیفے کا مسالہ بتانے کے پیچھے ان کی‘ہندوستان سے ناراضگی’ ثابت نہیں کی جا سکےگی۔اس پر جو لوگ ایسا ثابت کرنے کے پھیر میں پڑیں گے، مارٹینا کو ہی صحیح ثابت کرنے لگ جائیں گے۔یہ جتا کر کہ وہ جمہوریت توجمہوریت، اپنی تنقید برداشت کرنے سے بھی محروم ہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ یہ مان کر چپ بیٹھ جائیں کہ جب اپنا ہی سونا کھوٹا ہے تو پرکھنے والے کا بھلا کیا قصور؟
کسی شاعر نے ٹھیک ہی کہا ہے:شکل تو جیسی ہے ویسی ہی نظر آئےگی، آپ آئینہ بدلتے ہیں، بدلتے رہیے۔ جیسا کہ وزیر اعظم خود بھی ایک موقع پر کہہ چکے ہیں:دھول چہرے پر پڑی ہو تو آئینہ صاف کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)