اکیانوے سالہ امین سایانی نے ریڈیو کی دنیا میں اپنے کیریئر کا آغاز 1952 میں ‘ریڈیو سیلون’ سے کیا تھا۔ سایانی کے بیٹے راجل سایانی نے بتایا کہ ان کے والد کو منگل کی رات دل کا دورہ پڑا، جس کے بعد وہ انہیں ممبئی کے ایچ این ریلائنس اسپتال لے گئے، جہاں انہوں نے آخری سانس لی۔
امین سایانی۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)
نئی دہلی: مقبول شو ‘بناکا گیت مالا’ کے مشہور ومعروف ریڈیو اناؤنسر امین سایانی کا منگل (20 فروری) کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔ وہ 91 سال کے تھے۔
سایانی کو پورے برصغیر میں ریڈیو سیلون پر ‘بناکا گیت مالا’ شو کی میزبانی کرنے والی آواز کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔
لمکا بک آف ریکارڈز 2005 کے مطابق، سایانی نے 1951 سے 54000 سے زیادہ ریڈیو پروگراموں اور 19000 اسپاٹ یا جِنگلز تیار اور مرتب کیے ہیں۔ 2009 میں انہیں پدم شری سے نوازا گیا تھا۔
سایانی کے بیٹے راجل سایانی نے اپنے والد کے انتقال کی خبر کی تصدیق کی ہے۔
انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ منگل کی رات ان کے والد کو دل کا دورہ پڑا، جس کے بعد وہ انہیں ممبئی کے ایچ این ریلائنس اسپتال لے گئے، جہاں انہوں نے آخری سانس لی۔ راجل نے بتایا، ‘ہسپتال میں ڈاکٹروں نے ان کا علاج کیا لیکن انہیں بچا نہیں سکے۔’
سایانی کی آخری رسومات جمعرات (22 فروری) کو ادا کی جائیں گی کیونکہ خاندان بدھ کو کچھ رشتہ داروں کے ممبئی پہنچنے کا انتظار کر رہا ہے۔
امین سایانی ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئےتھے، جہاں ادب کو حد درجہ اہمیت حاصل تھی۔ ان کی والدہ ‘رہبر’ کے نام سے ایک اخبار چلاتی تھیں اور ان کے بھائی مشہور انگریزی براڈکاسٹر حامد سایانی تھے۔ انہوں نے 1952 میں ریڈیو پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔
بناکا گیت مالا، جو 30 منٹ کے پروگرام کے طور پر شروع ہوا، 1952 میں مقبول ہوا اور نصف دہائی تک جاری رہا۔ اس عرصے میں اس کے ناموں میں تبدیلیاں بھی کی گئیں، جیسے کہ – بناکا گیت مالا، ہٹ پریڈ اور سباکا گیت مالا۔
اس زمانے میں ملک کے دیوان خانوں میں لکڑی کے بڑے بکسے نما ریڈیو سیٹوں سے ان کی آواز گونجتی تھی، ‘نمسکار بھائیواور بہنو، میں آپ کا دوست امین سایانی بول رہا ہوں۔’
ان کا پروگرام اس وقت مقبول ہوا، جب آل انڈیا ریڈیو نے بالی ووڈ کے کسی بھی نمبر کی نشریات پر پابندی لگا دی۔ یہ آسان ہندوستانی زبان کو فروغ دینے کا بھی ایک ذریعہ تھا، جو ملک بھر کے لوگوں سے جڑا ہوا تھا۔
جہاں
ریڈیو سیلون کے براڈکاسٹر ہندوستان سے تھے اور وہ جو زبان ایئر ویوز پر بولتے تھے وہ زیادہ تر ہندوستانی تھی۔ انہوں نے مذہبی وابستگی سے پاک زبان بولنے کی کوشش کی جو علاقائی شناخت کو خطرے میں ڈالے بغیر دوسری علاقائی زبانوں کے بولنے والوں کو جوڑ سکے۔
سایانی آل انڈیا ریڈیو کے وودھ بھارتی نشریات کے تجربہ کار بھی تھے۔ ان کے انداز ‘بہنوں اور بھائیوں’ کو سوشل میڈیا پر ان گنت خراج تحسین میں یاد کیا گیا ہے۔