گزشتہ 17 دسمبر کو راجیہ سبھا میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ‘اب ایک فیشن ہوگیا ہے – امبیڈکر، امبیڈکر، امبیڈکر، امبیڈکر، امبیڈکر، امبیڈکر۔ اتنا نام اگر بھگوان کا لیتے تو سات جنموں کے لیے جنت مل جاتی۔’
پارلیامنٹ میں احتجاج کی تصویر۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@priyankagandhi)
نئی دہلی: بدھ (18 دسمبر) کو پارلیامنٹ میں زبردست ہنگامہ کے درمیان آئین ساز ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا نام ایک بار پھر سرخیوں میں رہا۔ بابا صاحب امبیڈکر کے بارے میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے تبصرے کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کیا اور وزیر داخلہ سے معافی کا مطالبہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق، منگل (17 دسمبر) کو پارلیامنٹ کے ایوان بالا یعنی
راجیہ سبھا میں اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے امت شاہ نے کہا تھا کہ ‘ابھی ایک فیشن ہو گیا ہے… امبیڈکر، امبیڈکر، امبیڈکر، امبیڈکر ، امبیڈکر، امبیڈکر۔ اتنا نام اگر بھگوان کا لیا ہوتا تو سات جنموں کے لیے جنت مل جاتی۔’
کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے شاہ کے تبصرے پر اعتراض کرتے ہوئے بدھ کو پارلیامنٹ کے احاطے میں احتجاج کیا اور شاہ سے ان کے تبصرے پر عوامی طور پرمعافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق اپوزیشن نے ‘جئے بھیم’، ‘سنگھ کا ودھان نہیں چلے گا’ اور ‘امت شاہ معافی مانگو’ جیسے نعرے لگائے۔
پی ٹی آئی نے مزید بتایا کہ اس سلسلے میں کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے کہا کہ شاہ کے ذریعے امبیڈکر کی ‘توہین’ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس ترنگے کے خلاف تھے، ان کے آباؤ اجداد نے اشوک چکر کی مخالفت کی تھی اور سنگھ پریوار کے لوگ ہندوستان کے آئین کے بجائے منوسمرتی کو نافذ کرنا چاہتے تھے۔
دریں اثنا، وزیر اعظم نریندر مودی نے امت شاہ کا دفاع کرنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم
ایکس کا سہارا لیا ۔ ایکس پر پانچ پوسٹ کی ایک سیریز میں پی ایم مودی نے کہا کہ امت شاہ نے ڈاکٹر امبیڈکر کی توہین کرنے اور ایس سی/ایس ٹی کمیونٹی کو نظر انداز کرنے کی کانگریس کی سیاہ تاریخ کو اجاگر کیا ہے۔
پی ایم مودی نے مزید کہا، ‘شاہ کے پیش کردہ حقائق سے کانگریس واضح طور پر حیران ہے، اسی لیے وہ اب ڈرامہ کر رہے ہیں! لیکن ان کے لیے یہ افسوسناک ہے کہ لوگ حقیقت کو جانتے ہیں!’
انہوں نے مزید کہا، ‘ہم جو کچھ بھی ہیں وہ بابا صاحب امبیڈکر کی وجہ سے ہیں۔ ہماری حکومت نے ڈاکٹر امبیڈکر کے وژن کو پورا کرنے کے لیے پچھلی دہائی میں انتھک محنت کی ہے۔’