یوپی میں درج معاملے میں آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو پانچ دن کی عبوری ضمانت

آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے مبینہ طور پرکٹر ہندوتوا رہنماؤں یتی نرسنہانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو 'نفرت پھیلانے والا' کہا تھا۔ اس سلسلے میں یکم جون کو اتر پردیش کے سیتا پور ضلع کے خیرآباد پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ایک اور معاملے میں زبیر کو دہلی پولیس نے 27 جون کو گرفتار کیاہے۔

آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے مبینہ طور پرکٹر ہندوتوا رہنماؤں یتی نرسنہانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو ‘نفرت پھیلانے والا’ کہا تھا۔ اس سلسلے میں یکم جون کو اتر پردیش کے سیتا پور ضلع کے خیرآباد پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ایک اور معاملے میں زبیر کو دہلی پولیس نے 27 جون کو گرفتار کیاہے۔

محمد زبیر۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

محمد زبیر۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیرکو اتر پردیش کے سیتا پور ضلع میں کٹر ہندوتوا لیڈروں کے خلاف مبینہ طور پر قابل اعتراض تبصرہ کرنے اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے الزام میں  ان کے خلاف درج ایف آئی آر کے سلسلے میں  جمعہ کو پانچ دن کی عبوری  ضمانت دی ہے۔

انہوں نے مبینہ طور پر کٹر ہندوتوا لیڈروں یتی نرسنہانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو’نفرت پھیلانے والا’ کہا تھا۔

بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق،  سپریم کورٹ نے کہاکہ معاملے کو ریگولربنچ کے سامنے رکھنے دیں۔ ہم اس شرط پر کچھ دنوں کے لیے تحفظ فراہم کریں گے کہ آپ (زبیر) اس عدالت کے دائرہ اختیارسے باہر نہیں جائیں گے اور آپ زیادہ ٹوئٹ نہیں کریں گے۔ ہم آپ کو چند دنوں کے لیے عبوری ضمانت دیں گے۔

جسٹس اندرا بنرجی اور جے کے ماہیشوری کی تعطیلاتی بنچ نے زبیر کی عرضی پر نوٹس جاری کیا اور معاملے کو آگے کی شنوائی کے لیےریگولر  بنچ کے سامنے لسٹ کردیا۔

بنچ نے واضح کیا کہ عبوری ضمانت سے متعلق فیصلہ  سیتا پور میں درج ایف آئی آر کے سلسلے میں ہے اور اس کا دہلی میں زبیر کے خلاف درج مقدمے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

بنچ نے زبیرپر اس معاملے سے متعلق کوئی بھی ٹوئٹ پوسٹ کرنے سے روک لگا دی ہے اور ان سے کہا کہ وہ دہلی سے باہر نہ جائیں۔

اس سے قبل 7 جولائی کو اتر پردیش میں سیتا پور کی جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے محمد زبیر کو 14 جولائی تک یوپی پولیس کی حراست  میں بھیج دیا تھا۔

زبیر کو جمعرات کی دوپہر سخت سیکورٹی کے درمیان دہلی کی تہاڑ جیل سے یہاں لایا گیا تھا۔ ٹوئٹ کے ذریعے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں خیرآباد پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر کے سلسلے میں انہیں   سیتا پور لایا گیا تھا۔

جمعرات (7 جولائی) کو ہی سیتا پور ضلع میں درج کیس کے سلسلے میں ان کی ضمانت کی عرضی پر جمعہ کو شنوائی  کرنے کے لیے سپریم کورٹ راضی ہوگیا تھا۔

جمعرات کوسینئر وکیل کولن گونجالوس زبیر کی طرف سے پیش ہوئے،انہوں  نے سماعت کے دوران کہا تھا کہ ان کی پیشگی ضمانت کی درخواست الہ آباد ہائی کورٹ نے خارج کر دی اور اس کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ زبیر آلٹ نیوز کے شریک بانی ہیں اور ان کا کام خبروں سے متعلق حقائق کو  چیک کرنا ہے اور وہ ہیٹ اسپیچ  کی پہچان کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔

اس سے قبل 4 جولائی کو دہلی پولیس نے محمد زبیر کو سیتا پور کے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا تھا، جہاں سے انہیں 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا تھا۔ دہلی پولیس بعد میں زبیر کو واپس دہلی لے گئی تھی۔

سیتا پور کی عدالت میں زبیر کے وکیل مکل مشرا نے میڈیا کو بتایا کہ اب تک آلٹ نیوز کے شریک بانی کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 295 اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی حرکت کرنے) اور  انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67 لگی ہوئی تھی اور پولیس نے جمعرات کو اس میں آئی پی سی کی دفعہ 153 اے کا اضافہ کیا۔ اس کے بعد زبیر کی ضمانت کے معاملے کی سماعت ہوئی۔

مشرا نے بتایاکہ بعد میں پولیس نے میں ریمانڈ کی مانگ  کرتے ہوئے ایک اور عرضی دی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ زبیر نے مبینہ ٹوئٹ کرنے کے لیے جو موبائل فون استعمال کیا تھا وہ اب بھی بنگلورو میں ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مبینہ نفرت انگیز ٹوئٹ پوسٹ کرنے کے لیے استعمال کیے گئے موبائل اور ہارڈ ڈسک کی بازیابی کے لیے زبیر کو بنگلورو لے جایا جا سکتا ہے۔

محمد زبیر پر مذہب، ذات پات، جائے پیدائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام ہے۔

محمد  زبیر کو آئی پی سی کی دفعہ 295 اے (کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقیدے کی توہین کرنے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے جان بوجھ کر اور بدنیتی سے کیا گیا کام) اور 153 (مذہب، ذات پات، جائے پیدائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت دہلی پولیس نے معاملہ درج کرکے گرفتار کیا تھا۔

گزشتہ 2 جولائی کو دہلی پولیس نے زبیر کے خلاف ایف آئی آر میں مجرمانہ سازش اورثبوت کوضائع کرنے اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ کی دفعہ 35 کے تحت نئے الزامات شامل کیے ہیں۔ یہ الزامات انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے لیے تحقیقات میں مداخلت کا دروازہ کھولتے ہیں۔

زبیر کی  گرفتاری 2018 کے  اس ٹوئٹ کے سلسلے میں ہوئی تھی ، جس میں 1983 کی فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کا اسکرین شاٹ شیئر کیا گیا تھا۔

زبیر کے خلاف پولیس میں درج ایف آئی آر میں کہا گیاتھا کہ، ہنومان بھکت نامی  ٹوئٹر ہینڈل سے محمد زبیر کے ٹوئٹر ہینڈل سے کیے گئےایک ٹوئٹ کو شیئر کیا گیا تھا ۔ اس ٹوئٹ میں زبیر نے ایک تصویرپوسٹ کی تھی۔ جس میں سائن بورڈ پر ہوٹل کا نام ‘ہنی مون ہوٹل’ سے بدل کر ‘ہنومان ہوٹل’ دکھایا گیا تھا۔ تصویر کے ساتھ زبیر نے  ‘2014 سے پہلے ہنی مون ہوٹل… 2014 کے بعد ہنومان ہوٹل…’ لکھا تھا۔

 اس سلسلے میں دہلی پولیس کی ایف آئی آر کے مطابق، ٹوئٹر صارف ہنومان بھٹ نے سال 2018 میں زبیر کی جانب سے شیئر کیے گئے ایک فلم کے اسکرین شاٹ والے ٹوئٹ کے بارے میں لکھا تھا کہ ، ہمارے بھگوان ہنومان جی کو ہنی مون سے جوڑا جا رہا ہے جو کہ ہندوؤں کی براہ راست توہین ہے کیونکہ وہ (بھگوان ہنومان) برہمچاری ہیں۔ پلیز اس شخص کے خلاف کارروائی کریں۔

بعد میں اس ٹوئٹر ہینڈل کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔

اب یہ ہینڈل دوبارہ ایکٹیویٹ کر دیا گیا ہے ،تاہم زبیر سے متعلق ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔

گزشتہ 2 جولائی کو ایک ہندو دیوتا کے بارے میں مبینہ طور پر ‘قابل اعتراض ٹوئٹ’ کرنے کے الزام میں محمد زبیر کوعدالت نے 14 دنوں کی عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔

دریں اثنا، دی وائر کی ایک تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس ٹوئٹر اکاؤنٹ نے زبیر کے خلاف شکایت درج کروائی ہے وہ ٹیک فاگ ایپ اور گجرات کے بی جے وائی ایم لیڈر سے منسلک ہے۔

زبیر کی گرفتاری گجرات میں ہندو یووا واہنی کے ریاستی صدر اور بھارتیہ جنتا یوا مورچہ (بی جے وائی ایم) کے کنوینر وکاس اہیر سے جڑے گمنام اور غیرمصدقہ اکاؤنٹ کے ایک نیٹ ورک کی برسوں سے جاری مہم کا نتیجہ ہے۔

اس سے قبل یکم جون کو محمد زبیر کے خلاف  سیتا پور کے خیر آباد پولیس اسٹیشن میں مبینہ طور پر کٹر ہندوتوا لیڈروں کو نفرت پھیلانے والا بتانےپر ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

ایف آئی آر ان کے اس ٹوئٹ کے بعد درج کی گئی ہے،جس میں انہوں نے یتی نرسنہانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو ‘نفرت پھیلانے والا’ کہا تھا۔

رپورٹ کے مطابق،  خود کو راشٹریہ ہندو شیر سینا کا ضلعی سربراہ بتانے والے بھگوان شرن کی طرف سے سیتا پور کے خیرآباد پولیس اسٹیشن میں دی گئی شکایت کی بنیاد پر پولیس نے زبیر پر تعزیرات ہند کی دفعہ 295 اے (کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقیدے کی توہین کرنے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے جان بوجھ کر اور بدنیتی سے کیا گیا کام)اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67 (الکٹرانک شکل میں فحش مواد کی اشاعت یا ترسیل) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

واضح ہو کہ کٹر ہندوتوا رہنما اور جونا اکھاڑے کے مہامنڈلیشور یتی نرسنہانند گری  نفرت انگیز تقریر اور تشدد کی اپیل کے لیے معروف ہیں، جس میں سب سے قابل ذکر  2020 کےدہلی فسادات سے قبل بھیڑ کو جمع کرنے اور بھڑکانے میں ان کی شمولیت ہے، جس کی دی وائرنےتحقیقات کی  تھی۔

وہ نفرت انگیز جرائم اور مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر میں ملوث دائیں بازو سے وابستہ افراد کے نیٹ ورک کا حصہ رہے ہیں، نیز بی جے پی لیڈر کپل مشرا اور اشونی اپادھیائے (جو ہری دوار  دھرم سنسد میں موجود تھے) کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ نرسنہانند فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔

اس کےساتھ ہی بتادیں کہ اتر پردیش کے ضلع  سیتا پور کے بڑی سنگت آشرم کے پجاری مہنت بجرنگ منی نے 2 اپریل کو ہندو نئے سال کے موقع پر پولیس کی موجودگی میں مسلم خواتین کے ساتھ ریپ  کی دھمکی دی تھی، جس کے بعدانہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں انہیں ضمانت مل گئی تھی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)