آر پی ایف کے اعدادوشمار کے مطابق شرمک اسپیشل ٹرینوں میں تقریباً 80 لوگوں کی موت 9 مئی سے 27 مئی کے بیچ ہوئی ہے۔ ان میں چارسال سے لےکر 85 سال تک کے مسافر شامل تھے۔
نئی دہلی: لاک ڈاؤن کے دوران مہاجر مزدوروں کو ان کے گھروں تک پہنچانے کے لیےملک بھر میں چلائی گئیں شرمک اسپیشل ٹرینوں میں اب تک کم سے کم 80 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔
ہندستان ٹائمس کے مطابق، ریلوے پروٹیکشن فورس(آر پی ایف)کے اعدادوشمار کے مطابق شرمک اسپیشل ٹرینوں میں تقریباً 80 لوگوں کی موت 9 مئی سے 27 مئی کے بیچ ہوئی ہے۔
آر پی ایف کے اعدادوشمارکے مطابق، 1 مئی (جب ٹرین سروس پہلی بار شروع کی گئی تھی)سے 27 مئی کے بیچ مختلف ریاستوں میں کم سے کم 3840 ٹرینیں چلائی گئیں۔ مختلف شہروں میں پھنسے 50 لاکھ سے زیادہ مزدوروں کو ان ٹرینوں سے لے جایا گیا۔رپورٹ کے مطابق، 9 مئی سے 27 مئی کے بیچ یہ اموات درج کی گئیں۔ ان ٹرینوں میں چار سال سے لےکر 85 سال تک کے مسافروں کی موت ہوئی۔ اس میں کچھ معاملوں میں مریضوں اورحادثات سے ہونے والی اموات کو بھی شامل کیا گیا۔ حالانکہ، آر پی ایف نے 1 مئی سے 8 مئی تک کے اعدادوشماردستیاب نہیں کرائے۔
اعدادوشمار کے مطابق، کم سے کم 18 لوگوں کی موت نارتھ یسٹرن ریلوے زون، 19 موتیں نارتھ سینٹرل ریلوے زون اور 13 موتیں ایسٹ کوسٹ ریلوے زون میں ہوئیں۔ تقریباً 80 فیصدی شرمک اسپیشل ٹرینیں اتر پردیش اور بہار کے لیے چلیں۔
جانکاری کے مطابق، 23 مئی کو 10 موت، 24 مئی کو نو موت، 25 مئی کو نو موت، 26 مئی کو 13 موت، 27 مئی کو آٹھ موت ہوئی۔ ان میں سے 11 موت کی وجہ پرانی بیماری یا پھر اچانک بیمار پڑنا بتایا گیا ہے۔ اس میں ایک اس شخص کی بھی موت ہوئی ہے جس کو کورونا وائرس سے متاثر بتایا گیا ہے۔
اکثر لوگوں کی موت کی وجہ پرانی بیماریوں کو بتانے کے ریلوے کے بیان کے برعکس ایک زونل ریلوے افسر نے کہا کہ ان ٹرینوں میں سوار مسافروں کوبنیادی طور پر گرمی، تمازت اور پیاس کا سامنا کرنا پڑا۔اس سے
پہلے مختلف میڈیا رپورٹس کے حوالے سے پتہ چلا تھا کہ شرمک اسپیشل ٹرینوں میں کم سے کم نومسافروں کی موت ہوئی ہے۔ وہیں، ان رپورٹس میں کم سے کم 40 شرمک ٹرینوں کے راستہ بھٹکنے یا ان کا روٹ بدلے کی بھی بات سامنے آئی تھی۔
کئی ٹرینوں کے راستہ بھٹکنے کے الزامات پر ریلوے بورڈ کے چیئرمین ونود کمار یادو نے دعویٰ کیا تھا کہ کوئی بھی ٹرین بھٹکی نہیں ہے اور 1 مئی سے ریلوےکے ذریعے چلائی گئی 3840 ٹرینوں میں سے صرف چار ٹرینوں کو اپنی منزل تک پہنچنے میں 72 گھنٹے سے زیادہ لگے۔ریلوے کے اعدادوشمار کے حساب سے 36.5 فیصد ٹرینوں کی منزل بہار میں تھی جبکہ 42.2 فیصدی ٹرینیں اتر پردیش گئیں، اس کے نتیجے میں ان روٹس پرغیر معمولی دباؤ پڑا۔
یادو نے باربار کہا کہ یہ غیر معمولی وقت تھا۔ انہوں نے دیری کی شکار ہوئیں ٹرینوں کو لےکر کی جا رہی تنقید کے تناظر میں ریلوے کا بچاؤ کیا اور کہا کہ مسافروں کو کھانا کے 85 لاکھ پیکیٹ اور پانی کی سوا کروڑ بوتلیں دی گئیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریلوے ان لوگوں کی فہرست تیار کر رہا ہے جنہوں نے شرمک اسپیشل ٹرینوں میں جان گنوائی۔ انہوں نے ساتھ ہی پہلے سے بیماریوں سے جوجھ رہے لوگوں، حاملہ خواتین اور بزرگوں سے غیر ضروری سفر سے بچنے کی اپیل کی۔
یادو نے کہا، ‘یہ فرضی خبر ہے کہ ایک ٹرین سورت سے نو دنوں میں سیوان پہنچی۔ ہم نے بس 1.8 فیصدی ٹرینوں کاروٹ بدلا۔ 20-24 مئی کے دوران اتر پردیش اور بہار سے زیادہ مانگ ہونے کی وجہ سے71 ٹرینوں کے روٹ بدلے گئے، کیونکہ ملک بھر سے 90 فیصدی ٹرینیں اتر پردیش اور بہار ہی جا رہی تھیں۔’
انہوں نے کہا کہ ایک معاملے میں ایک ٹرین لکھنؤ بھیجی گئی جسے الہ آباد جانا تھا اور اس ٹرین کے لیے کہا گیا کہ ٹرین ‘گم’ ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ جب یہ محسوس کیا گیا کہ ٹرین میں الہ آباد کے کم اور لکھنؤ کے زیادہ لوگ ہیں تب اس کا روٹ بدلا گیا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)