کورٹ نے مانا کی ریاستی حکومت کے ذریعے اس طرح کی ہورڈنگس لگانالوگوں کی پرائیوسی میں دخل اور آئین کے آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی ہے۔
نئی دہلی: اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ نے سوموار کو حکم دیا کہ لکھنؤ میں اینٹی-سی اے اےمظاہرین کے نام، فوٹو اور ان کے پتے کے ساتھ لگائی گئی تمام ہورڈنگس فوراً ہٹائی جائیں۔کورٹ نے مانا کی ریاستی حکومت کے ذریعے اس طرح کی ہورڈنگس لگانالوگوں کی پرائیویسی میں دخل اور آئین کے آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی ہے۔
ہائی کورٹ نےضلع مجسٹریٹ اور پولیس کمشنر کو ہدایت دی کہ 16 مارچ تک ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل کے پاس اس حکم کی تعمیل کی رپورٹ جمع کی جائے۔قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ کے اہم مقامات پر شہریت ترمیم قانون مخالف مظاہرہ کے دوران مبینہ طورپر تشدد کرنے کے ملزمین کے نام اور پتے کے ساتھ ہورڈنگس لگانےکی خبروں کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ اتوار کو اپنےعلم میں لیا تھا اورچیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس رمیش سنہا کی بنچ نے سماعت کےبعد حکم محفوظ رکھ لیا تھا۔
Allahabad High Court has ordered to remove the hoardings put up by Uttar Pradesh government, with names, addresses and photos of those who were accused of violence during protests against #CitizenshipAmendmentAct
— ANI UP (@ANINewsUP) March 9, 2020
اتوار کو ہی سماعت کے دوران کورٹ نے زبانی طور پر کہا تھا کہ اسٹیٹ کا جذبہ اچھا ہونا چاہیے اور دوپہر تین بجے سے پہلے ساری ہورڈنگس ہٹائی جائیں اور کورٹ کو اس کے بارے میں بتایا جائے۔ کورٹ نے کہا تھا کہ ریاست کی یہ کارروائی انتہائی غیر مناسب ہے۔پہلے اتوار کو معاملے کی سماعت صبح 10 بجے ہونی تھی۔ حالانکہ ایڈووکیٹ جنرل کے ذریعے سماعت کے لئے اس وقت تک پہنچنے میں قاصر رہنے پر کورٹ نےدوپہر تین بجے اس کی سماعت کی۔
ایڈووکیٹ جنرل نے سماعت کے دوران ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار پر ہی سوال اٹھا دیا اور کہا کہ چونکہ لکھنؤ میں یہ ہورڈنگس لگائی گئی ہیں اس لئے الٰہ آباد واقع بنچ اس کو اپنے علم میں نہیں لے سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کابچاؤ کرنے کے لئے پی آئی ایل نہیں دائر کیا جانا چاہیے جو قانون توڑتے ہیں۔حالانکہ کورٹ نے ان دلیلوں کو خارج کر دیا اور کہا کہ ریاست کےذریعے اٹھایا گیا قدم لوگوں کی پرائیویسی میں دخل دینا ہے اور اس طرح یہ آئین کےآرٹیکل 21 کی خلاف ورزی ہے۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ، ایسے معاملوں میں کورٹ کو انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی شخص آئے اور انصاف کی گھنٹی بجائے ، تب اس کو علم میں لیا جائے ۔ عدالتیں انصاف دینے کے لیے ہوتی ہیں اور اگر عوام کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے تو عدالت اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔
کورٹ نے کہا کہ ایسا کوئی قانون یا اصول نہیں جو ملزمین کے نام،پتہ اور فوٹو کے ساتھ ہورڈنگس لگانے کو صحیح ٹھہرا سکے۔واضح ہو کہ لکھنؤ انتظامیہ نے شہر کے اہم اور بھیڑ-بھاڑ والےمقامات پر متنازعہ شہریت ترمیم قانون کےخلاف مظاہرہ کرنے والے تقریباً60 لوگوں کےنام اور پتے کے ساتھ ہورڈنگس لگا رکھی ہے۔ان پر الزام ہے کہ گزشتہ سال 19 دسمبر کو ہوئے مظاہرےکے دوران انہوں نے تشدد برپاکیا اور عوامی جائیداد کو نقصان پہنچایا ہے۔
اس میں مشہورکارکن اور رہنما صدف جعفر، وکیل محمد شعیب، سابق آئی پی ایس افسر ایس آر داراپوری جیسے لوگوں کے بھی نام شامل ہیں۔