سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں علی گڑھ کے ورشنی ڈگری کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ایس آر خالد کالج کیمپس کے باغیچے میں نماز ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کالج ترجمان نے بتایاکہ بی جے وائی ایم کی جانب سے پروفیسر کے خلاف نظم و ضبط اور امن وامان کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کرنے کے بعد اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔
نئی دہلی: علی گڑھ کے ایک کالج کے باغیچے میں ایک پروفیسر کے نماز پڑھنے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے اور ہندوتوا تنظیم سے وابستہ طلباء کی کارروائی کے مطالبہ کے بعد کالج انتظامیہ نے پروفیسر کو لازمی چھٹی پر بھیج دیا ہے۔
یہ معاملہ شری ورشنی ڈگری کالج کا ہے، جہاں پروفیسر ایس آر خالد کو گزشتہ منگل کو ایک ماہ کی چھٹی پر بھیج دیا گیا۔گزشتہ اتوار کو وائرل ویڈیو میں خالد کالج کے باغیچے میں نماز پڑھتے نظر آ رہے ہیں۔
کالج کے ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ بھارتیہ جنتا یووا مورچہ (بی جے وائی ایم) سے وابستہ کچھ لیڈروں کی جانب سے پروفیسر پر بد نظمی اور امن وامان کی خلاف ورزی کا الزام لگائے جانے کے بعد اس معاملے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔
اس سلسلے میں تھانے میں ایک شکایت بھی درج کرائی گئی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کالج انتظامیہ سے رپورٹ ملنے کے بعد اس معاملے میں کارروائی کی جائے گی۔ ابھی تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔
اسٹوڈنٹ لیڈر دیپک شرما آزاد نے الزام لگایا کہ پروفیسر کالج کیمپس کے اندر نماز پڑھ کر کالج کیمپس میں امن وا مان کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس معاملے میں جانچ جاری ہے۔
بتادیں کہ اس سے قبل کالج نے
حجاب پر بھی پابندی عائد کی تھی۔
کالج کے پرنسپل انل کمار گپتا نے
انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ خالد نے انہیں بتایا کہ ‘وہ جلد بازی میں تھے اور انہوں نے پارک میں نماز پڑھ لی’۔
کالج کے ایک ترجمان نے بتایا کہ بی جے وائی ایم سے وابستہ کچھ نوجوان لیڈروں کی جانب سے پروفیسر کے خلاف ‘بد نظمی’ کے الزام اور یہ کہنے کے بعد کہ انہوں نے عوامی طور پر نماز پڑھ کر امن وا مان کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے، اس معاملے میں انکوائری کے احکامات دیے گئے ہیں۔
بی جے پی کے اس یوتھ ونگ کے ضلع نائب صدر امت گوسوامی نے
دی کوئنٹ کو بتایا کہ یہ ‘منصوبہ بند سازش’ کا حصہ تھا۔
گوسوامی نے مزید کہا، پڑھانے کے بجائے اسسٹنٹ پروفیسر کالج کیمپس میں اپنے مذہبی لباس میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ ایک پروفیسرکا ایسا طرز عمل طلبہ میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ یہ کوئی چھٹ پٹ واقعہ نہیں ہے بلکہ ریاست کی موجودہ بی جے پی حکومت کو بدنام کرنے کی سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اب تک کسی بھی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ خالد نے باغیچے کے ایک کونے میں پرامن طریقے سے نماز ادا کرنے کے علاوہ ایسی کسی سرگرمی میں حصہ لیا ہوجس کا الزام دائیں بازو کے گروپ ان پر لگار ہے ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)