سرجیکل دستانے کی خریداری میں دھاندلی: وزارت صحت سے آ رہے نوٹس پر ایمس کی خاموشی

12:41 PM Mar 01, 2025 | انکت راج

ملک کا سب سے اہم طبی ادارہ ایمس کئی الزامات کا سامنا کر رہا ہے۔ مرکزی وزارت صحت ایمس کے ڈائریکٹر کو خط لکھ کر تحقیقاتی رپورٹ مانگ رہی ہے، لیکن انتظامیہ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ نئی دہلی میں واقع اس ادارے پر دی وائر کی سیریز کی یہ پہلی قسط ہے، جو سرجیکل دستانے کی خریداری میں ہونے والی بے ضابطگیوں پرمرکوز ہے۔

(تصویر: انکت راج/ دی وائر )

نئی دہلی: نئی دہلی میں  واقع آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) کئی طرح کی بے ضابطگیوں میں گھرا ہوا ہے — بدعنوانی کے الزامات سے لے کر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے ملزم  افسر کی ترقی تک ۔ صورتحال اس قدر بگڑ گئی ہے کہ مرکزی وزارت صحت نے ایمس کے ڈائریکٹر کو خط لکھ کر  رپورٹ طلب کی ہے، لیکن ملک کا سب سے بڑا طبی ادارہ خاموش ہے۔

ایمس پر دی وائر  کی اس سیریز کی پہلی قسط سرجیکل دستانے کی خریداری میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر مرکوز ہے۔ الزام ہے کہ ایمس انتظامیہ نے سستے داموں پر دستیاب دستانے کو نظر انداز کیا اور کہیں زیادہ قیمت پران کی سپلائی کی اجازت دی، جس سے سرکاری خزانے کو شدید نقصان ہوا۔

وزارت صحت نے گزشتہ پندرہ مہینوں میں دو بار ایمس کو دستانوں کی خریداری کے سلسلے میں خط لکھا ہے، لیکن ڈائریکٹر نے اب تک کوئی جواب تک نہیں دیا ہے۔

دستانے کی خریداری

واقعہ مئی 2023 میں اس وقت شروع ہوا، جب ایمس  نے انڈین اسٹینڈرڈ (آئی ایس  4148) کے مطابق تصدیق شدہ ہائی کوالٹی (کیو 3 گریڈ) والے 58 لاکھ پاؤڈ-فری سرجیکل دستانے کی خریداری کے لیے ٹینڈرز طلب کیے تھے۔

مجموعی طور پر 33 کمپنیوں نے ٹینڈر بھیجے لیکن دو کے علاوہ کوئی بھی کمپنی تکنیکی بولی کا پہلا مرحلہ پار  نہیں کر پائی ، یعنی وہ تکنیکی طور پر موزوں نہیں پائی گئیں۔

وہ دو کمپنیاں جو مالیاتی بولی کے لیے اہل پائی گئیں ، وہ تھیں —اے ایس ہیلتھ کیئر اور براؤن بایوٹیک لمیٹڈ۔ اے ایس ہیلتھ کیئر نے 21.50 روپے فی جوڑی دستانے کے حساب سے 12 کروڑ 47 لاکھ روپے کی بولی لگائی۔ جبکہ براؤن بایوٹیک لمیٹڈ نے 16 کروڑ 24 لاکھ روپے کی بولی لگائی۔

بارہ  کروڑ 47 لاکھ روپے میں 58 لاکھ دستانے کی فراہمی کا ٹینڈر۔

اس طرح اے ایس ہیلتھ کیئر کو 16 اکتوبر 2023 کو ٹھیکہ مل گیا۔

(تصویر: انکت راج/ دی وائر)

‘کرپشن’ کہاں ہوا؟

دی وائر کے حاصل کردہ دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ فروری 2023 میں ڈاکٹر امت لٹھوال کی سربراہی میں ایمس کے ایک شعبہ سی این سی ( کارڈیوتھوراسک اینڈ نیورو سائنس سینٹر ) نے ایک اور کمپنی سے 13.56 روپے فی جوڑی کی شرح سے پاؤڈر-فری دستانے خریدے تھے۔

مئی 2023 میں مدعو کیے گئے ہائی ریٹ ٹینڈر کے بعد  قیمتوں کے تفاوت کے بارے میں ایمس  کے حکام کے درمیان ایک طویل بات چیت  ہوئی جو اکتوبر 2023 تک جاری رہی۔ ان کے درمیان یہ سوال پیدا ہوا کہ جب سی این سی نے دو ماہ قبل دستانے کم قیمت پر خریدے تھے تو اس بار ایمس انہیں زیادہ قیمت پر کیوں خرید رہا ہے؟

دی وائر کے پاس اس مسئلہ پر ہونے والی بات چیت کی فائل نوٹنگز ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ایمس کے سینئر ڈاکٹر اور انتظامی عہدیدار اس بڑھتی ہوئی شرح سے پوری طرح واقف تھے۔ کچھ اہلکار اس قیمت کا دفاع کر رہے تھے تو کچھ اس کے خلاف تھے۔

اسٹور کیپر رویندرا نے یہ کہتے ہوئے بلند شرح کا دفاع کیا تھا،سی این سی میں خریدے گئے دستانے کو ہسپتال کے مرکزی اسٹور کی تکنیکی تفصیلات اور تشخیص کمیٹی نے تکنیکی طور پر غیر موزوں قرار دیا تھا۔ اس لیے کسی ایسی پراڈکٹ کا موازنہ کرنا جس کو تکنیکی طور پر غلط قرار دیا گیا ہو، مناسب نہیں ہے۔’اس دستانے کو اگست 2023 میں غیر موزوں قرار دیا گیا تھا۔

نوٹ 42 میں اسٹور کیپر رویندر نے قیمت کا دفاع کرتے ہوئے یہ دلائل دیے تھے۔

سی این سی  نے یہ خریداری اے ایس ایم اے  نامی کمپنی سے کی تھی۔ لیکن غور کریں، جس اے ایس ایم اے کمپنی کے دستانے رویندر کے مطابق اگست 2023 میں تکنیکی طور پر کمتر پائے گئے تھے، اسی کمپنی کے اسی قسم کے دستانے (پاؤڈر فری) ایمس نے اس کے نو ماہ بعد خریدے اور وہ بھی اے ایس ہلیتھ کیئر  سے خریدے گئے دستانے سے 6.19 روپے کم قیمت پر۔

مئی 2024 میں ایمس  نے اے ایس ایم اے کے ساتھ ایک سال کے لیے 9 کروڑ 18 لاکھ 60 ہزار روپے یعنی 15.31 روپے فی جوڑا کی شرح سے 60 لاکھ دستانے کا معاہدہ کیا۔

مئی 2024 میں ہوا معاہدہ۔

رویندرا نے اپنے نوٹ میں کئی کمپنیوں کی مثالیں بھی دیں جو کئی ہسپتالوں کو اے ایس ہیلتھ کیئر کی طرف سے ادا کی گئی قیمت سے زیادہ قیمت پر سپلائی کر رہی تھیں۔ لیکن انہوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ اسی عرصے کے دوران، بہت سے دوسرے ہسپتال بھی کم قیمت پر اسی طرح کے دستانے خرید رہے تھے۔

ایمس نے جس اے ایس ہیلتھ کیئر سے ‘ٹرسکن’ برانڈ کے پاؤڈر فری دستانے 21.50 روپے فی جوڑا خریدا، اسی مدت کے دوران ملک کے مختلف ہسپتال 14.00 روپے سے 18.55 روپے فی جوڑا کے حساب سے خرید رہے تھے۔

ٹرسکن برانڈ کے دستانے ملک بھر کے دیگر ہسپتال ₹ 14.00 سے ₹ 18.55 میں خریدے ہیں۔

جب ہم نے ایمس کے ڈائریکٹر سے پوچھا کہ اتنی زیادہ قیمت پر خریداری کیوں کی گئی، سرکاری خزانے کو کیوں نقصان پہنچا گیا، جبکہ  بہتر آپشن دستیاب تھے، تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کردیا۔

فائل نوٹنگ کے مطابق، پروکیورمنٹ کے انچارج اور ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر لٹھوال ان عہدیداروں میں شامل تھے، جنہوں نے زیادہ قیمت پر تشویش کا اظہار کیا تھا او ٹینڈر کو منسوخ کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا، ‘اس ٹینڈر میں قیمت سی این سی کی قیمت سے بہت زیادہ ہے۔ …لہذا، یہ تجویز ہے کہ اس ٹینڈر کو منسوخ کر کے فوری طور پر نیا ٹینڈر جاری کیا جائے۔’

لٹھوال نےسی این سی کی طرف سے خریدے گئے دستانے کومسترد کرنے پر بھی احتجاج کیا تھا،’ سی این سی کی طرف سے غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنیاد پر دو کمپنیوں کو نااہل قرار دیا گیا، لیکن سی این سی  سے اس سلسلے میں کوئی آفیشیل فیڈ بیک  نہیں لیا گیا۔’

ڈاکٹر لٹھوال اس خریداری کے حق میں نہیں تھے۔

لیکن اس وقت کی ڈپٹی ڈائریکٹر (ایڈمن) منیشا سکسینہ نے لٹھوال کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا،’ہنگامی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے…تین ماہ کی سپلائی حاصل کی جا سکتی ہے…مزید خریداری کے لیے…فوری طور پر ایک نیا ٹینڈر جاری کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔‘

منیشا سکسینہ نے نوٹ 42 میں اسٹور کیپر کی طرف سے اٹھائے گئے نکتے کو ترجیح دی۔

منیشا سکسینہ کی تجویز کو ایمس کے ڈائریکٹر ایم سرینواس سے ہری جھنڈی مل گئی اور دو دن بعد اے ایس ہیلتھ کیئر کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔

ایمس  کے ڈائریکٹر ایم سرینواس نے 13 اکتوبر 2023 کو خریداری کے لیے ‘اوکے’ کیا اور 16 اکتوبر 2023 کو معاہدہ ہو گیا۔

بالآخر، ایمس نے 21.50 روپے فی جوڑے کی قیمت پر کل 15 لاکھ دستانے 3 کروڑ 22 لاکھ 50 ہزار کی پر خریدے۔

اگر ایمس نے یہ دستانے فروری 2023 کی شرح سے اپنے ہی ڈپارٹمنٹ سی این سی کے ذریعے خریدے ہوتے یعنی 13.55 روپے فی جوڑا، تو اسے اتنے دستانے کے لیے صرف 2 کروڑ 3 لاکھ 25 ہزار روپے ادا کرنے پڑتے۔ یعنی ایمس کو 1 کروڑ 19 لاکھ 25 ہزار روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔

اور اگر ایمس نے انہیں مئی 2024 کی شرح سے خریدا ہوتا یعنی 15.31 روپے فی جوڑا، تو اسے اتنے دستانے کے لیے 2 کروڑ 29 لاکھ 65 ہزار روپے ادا کرنے پڑتے، یعنی ایمس کی ادائیگی سے 92 لاکھ 85 ہزار روپے کم۔

معاہدے کی معلومات

وزارت کے پا س پہنچی شکایت

یہاں سوال صرف نقصان کا نہیں ہے بلکہ ایمس انتظامیہ کی خاموشی کا بھی ہے۔ اس موضوع پر ایک شکایت تمام دستاویزات کے ساتھ دسمبر 2023 میں وزارت تک پہنچی۔ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے وزارت نے پہلا خط ایمس کے ڈائریکٹر کو 28 دسمبر 2023 کو لکھا تھا۔ خط میں ایمس سے کہا گیا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کرے اور جلد از جلد رپورٹ وزارت کو بھیجے۔

ایک سال گزرنے کے بعد بھی کوئی جواب نہ ملنے کے بعد وزارت نے 12 دسمبر 2024 کو ایمس کو دوسرا خط لکھا، اور یاد دلایا کہ ایک سال قبل بھی انسٹی ٹیوٹ سے اس معاملے کی تحقیقات کرنے اور وزارت کو رپورٹ بھیجنے کی درخواست کی گئی تھی۔

وزارت نے لکھا، ‘اس معاملے کی مکمل چھان بین کریں اور جلد از جلد رپورٹ وزارت کو فراہم کریں۔’ لیکن آج تک ایمس نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

دسمبر 2023 کے بعدوزارت نے دسمبر 2024 میں دوبارہ خط بھیجا، لیکن ایمس کے ڈائریکٹر نے جواب تک نہیں دیا۔

جب پوچھا گیا کہ وزارت کو جواب کیوں نہیں بھیجا گیا، ایمس کی میڈیا انچارج ڈاکٹر ریما دادا نے دی وائر  کو بتایا،’ایمس اس معاملے کی اپنی سطح پر تحقیقات کر رہا ہے۔’

ہم نے اس سلسلے میں ایمس کے ڈائریکٹر کو بھی سوالات بھیجے ہیں لیکن ان کا جواب نہیں ملا ہے۔

جب ہم نے اس تاخیر کے بارے میں وزارت میں انڈر سکریٹری نیلم سے رابطہ کیا، جنہوں نے وزارت کی جانب سے ایمس کو آخری خط لکھا تھا۔ لیکن انہوں نے بھی  کچھ کہنے سے انکار کر دیا۔

(اگلی قسط: لانڈری بل کا تنازعہ، جس  میں  نہ صرف ایمس کا پیسہ برباد ہوا بلکہ اس کی شبیہ بھی خراب ہوئی۔)