اتر پردیش بی جے پی کے مصدقہ ٹوئٹر ہینڈل نے 29 جولائی کو ایک کارٹون پوسٹ کیا تھا۔ اس کارٹون میں ایک طاقتور شخص کے ذریعے احتجاج کرنے والے ایک کسان کو مظاہرہ کے لیےلکھنؤ جانے کے خلاف صلاح دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے کیونکہ وہاں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت ہے۔ کارٹون میں طاقتورشخص(باہوبلی) کی بات سن کر کسان کو یہ تصور کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے کہ اسے بال پکڑکر کھینچا جائےگا۔ بال کھینچنے والے کا ہاتھ دکھایا گیا ہے، جس نے بھگوا کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔
اتر پردیش بی جے پی کے ٹوئٹر ہینڈل پر پوسٹ کیا گیا کارٹون۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@BJP4UP)
بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی )کی اتر پردیش اکائی کے ٹوئٹر ہینڈل سے پوسٹ کیے گئے ایک کارٹون کو کئی لوگوں کی طرف سے کسانوں کو کھلی دھمکی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جنہوں نے ستمبر میں اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں
تحریک کااعلان کیا ہے۔
حالانکہ کسان رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ ڈرے نہیں ہیں اور دباؤ میں اپنا دھرنا واپس نہیں لیں گے۔
بی جے پی اتر پردیش کے مصدقہ ٹوئٹر ہینڈل نے 29 جولائی کو ایک کارٹون پوسٹ کیا تھا اور پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے، ‘او بھائی ذرا سنبھل کر جئیو لکھنؤ میں۔’
کارٹون میں ایک طاقتورشخص (باہوبلی)کو ایک کسان کومظاہرہ کے لیے لکھنؤ جانے کے خلاف صلاح دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے، کیونکہ وہاں یوگی بیٹھے ہیں اور وہ کارروائی کریں گے۔
کارٹون میں باہوبلی کہتا ہے، ‘سنا لکھنؤ جا رہے تم… کمیں پنگا نہ لیے بھائی… یوگی بیٹھیا ہے بکل تار دیا کرے… اور پوسٹر بھی لگوا دیا کرے۔’
کارٹون میں باہوبلی کی بات سن کر کسان کو یہ تصور کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے کہ اسے بال پکڑکر کھینچا جائےگا۔ کھینچنے والے کا ہاتھ دکھایا گیا ہے، جس نے بھگوا کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔
کارٹون نے سیاسی گلیاروں کے ساتھ ساتھ کسانوں کی تحریک کے حامیوں میں بھی تشویش پیدا کر دی ہے۔
بتا دیں کہ پچھلے آٹھ مہینے سے بھی زیادہ سے کسان دہلی کی سرحدوں پرمرکز کی نریندر مودی سرکار کی جانب سے لائے گئے تین نئے اورمتنازعہ زرعی قوانین کے خلاف مسلسل احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔
گزشتہ26 جولائی کو
کسان رہنما لکھنؤ گئے تھے اور اتر پردیش و اتراکھنڈ تک تحریک کی توسیع کااعلان کیا تھا۔ بھارتیہ کسان یونین کے سربراہ راکیش ٹکیت اور سوراج انڈیا کے صدریوگیندر یادو نے ہی اتر پردیش کےتمام75اضلاع میں مہاپنچایتوں، ریلیوں اور بیٹھکوں کااعلان کیا تھا۔
ٹکیت نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر سرکار انہیں روکنے کی کوشش کرتی ہے تو کسان لکھنؤ کی سرحدوں کو بھی دہلی کی طرح احتجاج گاہ میں تبدیل کر دیں گے۔
یوگیندریادو نے کہا تھا کہ سنیکت کسان مورچہ کے تحت اتر پردیش میں کسان فصلوں کے لیےایم ایس پی، گنا کے لیے ایس اے پی، آوار ہ مویشیوں کی پریشانیوں وغیرہ مقامی مدعوں پرمظاہرہ کریں گے۔
کارٹون کو لےکر یادو نے دی وائر کو بتایا کہ اتر پردیش میں آدتیہ ناتھ عوامی تحریکوں کو کچل رہے ہیں، کیونکہ ان کی پارٹی جمہوری نظام میں یقین نہیں کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘ایک کارٹون پوسٹ کرکے بی جے پی نے عوام کو اپنا اصلی چہرہ دکھایا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسان کسی بھی ڈر یا دباؤ میں اپنا مظاہرہ ختم نہیں کریں گے۔’
اس کے ساتھ ہی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی احتجاج سے پہلے ڈرانے دھمکانے والے کارٹون کے لیے بی جے پی کی نکتہ چینی کی ہے۔ انہوں نے اسے غیرجمہوری اور ان کسانوں کے لیے کھلا خطرہ بتایا جو قانونی طور پر احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔
اپوزیشن پارٹی سماجوادی پارٹی(ایس پی )نے کہا کہ کارٹون میں بی جے پی نے غریبوں اور کسانوں کے تئیں اپنےخیالات اورنظریات کو پیش کیا ہے۔
کانگریس نے بھی کارٹون کی مذمت کی ہے۔ پارٹی کے ریاستی صدراجے کمار للو نے دی وائر سے کہا، ‘کانگریس ہر محاذپر کسانوں کے ساتھ ہے اور ہم گھمنڈی حکومت کو کسانوں کے احتجاج کو دبانے کی اجازت نہیں دیں گے۔’
للو نے مزیدکہا کہ کارٹون کے ساتھ سرکار نے ایک زوردار اور واضح پیغام دیا ہے کہ وہ غنڈہ گردی کے استعمال سے احتجاج کومعذور بنانا چاہتی ہے۔
رابطہ کرنے پر بی جے پی کی اتر پردیش اکائی نے ڈرانے دھمکانے کے الزامات کو خارج کر دیا۔ پارٹی کے ریاستی سکریٹری چندر موہن نے کہا کہ سوشل میڈیا ہینڈل پر پوسٹ کیے گئے کارٹون کا زرعی بحران سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ نظم ونسق بنائے رکھنا ہماری ترجیحات میں ہے اور ہم اس معاملے پر کسی سے بھی سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔
معلوم ہو کہ معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف کسان آٹھ مہینے سےمظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں کے رحم پر جینا پڑےگا۔
دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام بنا رہے ہیں۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں