سپریم کورٹ میں الیکٹورل بانڈ کے خلاف عرضی کی سماعت پوری، آج آئےگا فیصلہ۔ شنوائی میں مرکزی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے کہا کہ الیکٹورل بانڈ بلیک منی پر روک لگانے کے لئے ایک تجربہ ہے اور لوک سبھا انتخاب تک عدالت کو اس میں دخل نہیں دینا چاہیے۔
الیکشن کمیشن(فوٹو : رائٹرس)
نئی دہلی: چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی بنچ نے کہا کہ ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارم (اے ڈی آر) کی عرضی پر جمعہ کو فیصلہ سنایا جائےگا۔اے ڈی آر نے اس اسکیم کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئے اس پر عبوری روک لگانے کا حکم دینے کی مانگ کرتے ہوئے کہا یا تو الیکٹورل بانڈس جاری کرنے پر روک لگے یا چندہ دینے والوں کے نام بپلک کیے جائیں تاکہ انتخابی عمل میں شفافیت بنی رہے۔
عدالت میں مرکز ی حکومت کی بات رکھتے ہوئے اٹارنی جنرل کےکے وینو گوپال نے اسکیم کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد انتخابات میں بلیک منی کے استعمال پر روک لگانا ہے۔وینو گوپال نے کہا، ‘ جہاں تک الیکٹورل بانڈس اسکیم کا تعلق ہے، یہ حکومت کا پالیسی کے تحت کیا گیا فیصلہ ہے اور کسی حکومت کو پالیسی کے تحت فیصلہ لینے کے لئے مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ‘
اس سے پہلے بدھ کو سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ وہ الیکٹورل بانڈ کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ اس سے جڑی رازداری کے خلاف ہیں۔ شفافیت کے لئے چندہ دینے والوں کے نام پبلک کئے جانے چاہیے۔جمعرات کو درخواست گزاروں کا بھی یہی کہنا تھا کہ رائےدہندگان کو سیاسی جماعتوں کے چندے کے ذرائع جاننے کا حق ہے۔
بار اینڈ بنچکے مطابق ؛اس پر اٹارنی جنرل کےکے وینو گوپال نے کہا، ‘ ان کی دلیل ہے کہ رائےدہندگان کو جاننے کا حق ہے۔ کیا جاننے کا حق ہے؟ رائےدہندگان کو یہ جاننے کا حق نہیں ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس کہاں سے پیسہ آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ پٹّاسوامی فیصلے کے بعد سے رازداری کا حق بھی ہے۔ ‘اس کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ اسکیم بلیک منی پر روک لگانے کے لئے ایک تجربہ ہے اور لوک سبھا انتخاب ختم ہونے تک عدالت کو اس میں دخل نہیں دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا، ‘ اگر حکومت بلیک منی پر روک لگانا چاہتی ہے، تو کیا عدالت کو اس میں مداخلت کرنا چاہیے؟ یہ ایک تجربہ ہے اور اس کو عدالت کی حمایت ملنی چاہیے۔اٹارنی جنرل نے یہ درخواست بھی کی کہ لوک سبھا انتخاب ختم ہونے تک اس کو چلنے دیں۔ انہوں نے کہا، ‘ میں عدالت سے درخواست کرتا ہوں کہ کچھ وقت کے لئے اس میں دخل نہ دیں۔ انتخاب ختم ہونے تک اس کو جاری رہنے دیں۔ جب نئی حکومت اقتدار میں آئےگی، وہ اس کا تجزیہ کرےگی۔ ‘
اس پر بنچ نے ان سے پوچھا کہ الیکٹورل بانڈ سے بلیک منی پر کس طرح روک لگائی جا سکتی ہے۔ سی جے آئی رنجن گگوئی نے سوال کیا، ‘ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ جب کوئی بینک کسی ایکس [x] یا وائی [y] کی درخواست پر الیکٹورل بانڈ جاری کرتا ہے، تب کیا اس کو یہ جانکاری ہوگی کہ کون-سا بانڈ x کو ملا اور کون-سا y کو؟ ‘اس پر اٹارنی جنرل نے انکار کیا، جس پر سی جے آئی نے کہا، ‘ اگر ایسا ہے، تو آپ کی بلیک منی سے لڑنے کی یہ پوری قواعد بےکار جائےگی۔ ‘
اس کے بعد جسٹس سنجیو کھنہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کئے۔ انہوں نے پوچھا، ‘ آپ جس طرح کی کے وائی سی [KYC] کی بات کر رہے ہیں، یہ صرف خریدار کی پہچان کے بارے میں ہے۔ اس سے یہ نہیں پتا چلتا کہ وہ پیسہ بلیک ہے یا وائٹ۔ ‘اس کے بعد جسٹس کھنہ نے یہ بتایا کہ کس طرح بلیک منی کو کئی طرح کی شیل کمپنیوں کے ذریعے وائٹ کیا جا سکتا ہے اور ایسے معاملوں میں کوئی کے وائی سی کام نہیں آئےگی۔
اس پر وینو گوپال نے کہا کہ یہ حکومت کا ایک تجربہ ہے اور جو ابھی چل رہا ہے، اس کے مقابلے میں برا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ اگر الیکٹورل بانڈ نہیں ہوتے، تب بھی شیل کمپنی وغیرہ کام کرتیں۔ حالانکہ جو ابھی چل رہا ہے، یہ اس سے برا نہیں ہے، اس لئے اس کو ایک تجربہ کے طور پر جاری رکھا جانا چاہیے۔ ‘اس کے بعد عدالت نے درخواست گزاروں کی دلیل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔ یہ فیصلہ جمعہ کوسنایا جائےگا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)