آندھرا پردیش کے گونٹور ضلع کے معروف جناح ٹاور پر26 جنوری کو ترنگا لہرانے کی کوشش کے دوران دائیں بازو کے گروپ ‘ہندو واہنی’ کے تین ارکان کو حراست میں لیے جانے کے بعد تنازعہ کھڑا ہو گیاتھا۔ گزشتہ سال دسمبر میں بی جے پی نے مطالبہ کیا تھا کہ اس ٹاور کا نام سابق صدرعبدالکلام کےنام پررکھا جائے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر وائی ایس آر کانگریس حکومت نے ان کے مطالبات پر توجہ نہیں دی تو وہ اس یادگار کو مسمار کردیں گے۔
گونٹور میں جناح ٹاور (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/@SVishnuReddy)
نئی دہلی: آندھرا پردیش کے گونٹور میں واقع جناح ٹاور کو حکام نے ہندوستان کے قومی پرچم کے رنگوں سے پینٹ کردیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پہلے یہ سفید رنگ کاتھا، پہلی فروری کو ترنگے کے طرز پر تین رنگوں، گیروا، سفید اور ہرے رنگ سے اس کو پینٹ کر دیا گيا ہے۔
جناح ٹاور کا نام پاکستان کے بانی محمدعلی جناح کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہ گونٹور کی ایک معروف یادگار ہے۔
گزشتہ 26 جنوری کو ٹاور پر ترنگا لہرانے کی کوشش کے دوران دائیں بازو کے گروپ ہندو واہنی کے تین ارکان کو حراست میں لیے جانے کے بعد تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا، جس کو ختم کرنے کے ارادے سے حکام نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
غور طلب ہے کہ اس سلسلے میں بی جے پی کے قومی سکریٹری وائی ستیہ کمار نے گونٹور میں جناح ٹاورسینٹر کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ،ٹاور کا نام جناح اور علاقے کا نام جناح سینٹر رکھا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ پاکستان میں نہیں بلکہ آندھرا پردیش کے گنٹور میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ، ایک ایسے شخص کے نام پر سینٹر، جن کو آج بھی ہندوستان کا غدار کہا جاتا ہے۔ اس کا نام بدل کر ڈاکٹر ابوالکلام یا ہماری مٹی کے سپوت، دلت شاعر گرورام جاشوا کے نام پر کیوں نہ رکھا جائے؟
دریں اثناگونٹور کے میئر کوتی منوہر نائیڈو اور ایم ایل سی ایلاپی ریڈی کے مطابق، جمعرات کو ٹاور پر قومی پرچم بھی نصب کیا جائے گا۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ بی جے پی کے مطالبے پر جناح ٹاور کا نام تبدیل نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا، یہ ہم آہنگی کا ٹاور ہے اور اسے آزادی سے پہلے بنایا گیا تھا۔ یہ شہر میں ہندو مسلم اتحاد کی علامت رہا ہے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، میئر نے یادکیا کہ 1966 میں اس وقت کی گونٹور میونسپل کونسل نے جناح ٹاور کا نام تبدیل کرنے کی اسی طرح کی ایک درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
ریاستی بی جے پی لیڈران کچھ عرصے سے جناح ٹاور کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس میں ناکام ہونے پر انہوں نے مبینہ طور پر اسے ہٹانے کی دھمکی دی تھی۔
خبر رساں ایجنسی
پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال دسمبر میں بی جے پی کی ریاستی اکائی نے سابق صدر عبدالکلام کے اعزاز میں ٹاور کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر وائی ایس آر کانگریس حکومت نے ان کے مطالبات پر توجہ نہیں دی تو وہ یادگار کو مسمار کردیں گے۔
یوم جمہوریہ کے واقعہ کے بعد گونٹور میونسپل کارپوریشن نے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کو روکنے کے لیے ٹاور کے گرد لوہے کی باڑ لگائی ہے۔
منگل کو میونسپل کارپوریشن نے ٹاور کو قومی پرچم کے رنگوں میں رنگنے کا کام شروع کیا اور بدھ کو یہ کام مکمل ہوگیا۔
میونسپل نے مسلم قائدین کے ساتھ بھی میٹنگ کی اور انہیں ٹاور کو ترنگے میں رنگنے کی ضرورت پر قائل کیا۔ اس میٹنگ میں گونٹور ایسٹ کے ایم ایل اے محمد مصطفےٰ اور ایم گری دھر نے بھی شرکت کی۔
جناح ٹاور کے ارد گرد اس کی تعمیر کے بارے میں کچھ داستانیں ہیں، جن میں سے ایک کے مطابق، اسے اس وقت کے سٹی صدر تیلاکولا جلائیہ اور ندیم پلی نرسمہا راؤ نے اپنے متواتر ادوار میں امن اور ہم آہنگی کی علامت کے طور پراس کو بنوایا تھا۔
پی ٹی آئی کے مطابق، جناح نے کبھی شہر کا دورہ نہیں کیا، حالانکہ ان کے نمائندے گونٹور آئے تھے اور آزادی سے پہلے ان کی عزت افزائی کی گئی تھی۔
وہیں ڈی ڈبلیو کی ایک
رپورٹ کے مطابق، یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ تقسیم ہند کے بعد اب بھی ہندوستان میں ایک ایسا شہر موجود ہے جو بانی پاکستان محمد علی جناح کے نام سے منسوب ہے اور جس کا ایک ٹاور شہر کے مرکز میں موجود ہے۔ یہ ٹاور تقسیم ہند سے قبل سن 1942 سے 45 کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔
اس دور کے ایک مقامی مسلم رہنما لال جان باشا نے علاقے میں ہندو مسلم فسادات کے بعد مذہبی ہم آہنگی کے لیے ایک جلسہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس جلسے میں مجاہد آزادی اور اپنے وقت کے معروف وکیل محمد علی جناح کو بطور مہمان خصوصی مقرر کے دعوت دی گئی تھی۔ اسی مناسبت سے لال جان باشا نے اس جلسے کے مقام پر یادگار کے طور پر ٹاور بنانے کا فیصلہ کیا۔
گرچہ بعض مصروفیات کی بنا پر محمد علی جناح اس جلسے میں شریک نہ ہو سکے تھے اور انہوں نے اپنی جگہ اپنے معتمد خاص لیاقت علی خان کو اس میں شرکت کے لیے بھیجا تھا۔ تاہم جناح ٹاور کی تعمیر کا افتتاح کر دیا گیا جو سن 1945 میں مکمل ہوا۔ یہ تاریخی ٹاور آج بھی قائم ہے تاہم اب سخت گیر ہندوؤں کی نظروں میں کھٹک رہا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)