دہلی کے ایک وکیل نے بتایا کہ اتر پردیش کے ایٹہ ضلع واقع جلیسر کی خاتون کو ان کی مرضی سے مذہب تبدیل کرواکر شادی کروانے میں مدد کی تھی۔ ڈر کی وجہ سےجوڑا لاپتہ ہو گیاہے۔الزام ہے کہ ان کی تلاش میں اتر پردیش پولیس نے وکیل کی فیملی کے لگ بھگ دس لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
نئی دہلی:دہلی کے ایک وکیل محمد ہاشم انصاری کا کہنا ہے کہ انہیں ایک خاتون کی مدد کرنے کے لیےیوپی پولیس کے ذریعےہراساں کیا جا رہا ہے۔ یہ خاتون نومبر میں ان کے پاس آئی تھیں، جو مرضی سے اپنا مذہب بدل کر اسلام قبول کرنا چاہتی تھیں۔
خاتون نے بعد میں یوپی کے ایٹہ کے جلیسر کے جاوید انصاری نام کے مسلم نوجوان کے ساتھ شادی کی۔ہاشم کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو دنوں میں ان کےوالد، بڑے بھائی، چچازاد بھائی، بھائی کے دوست، تین بہنوئی، سسر، سسر کے بھائی اور ان کے بیٹوں سمیت ان کی فیملی کے لگ بھگ دس لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور نامعلوم مقام پر لے جایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘پولیس کو لگتا ہے کہ میں نے خاتون کو چھپا رکھا ہے اور اس لیےپولیس مجھ سے کہہ رہی ہے کہ میں اس کو پیش کروں۔’اس سلسلے میں 22 دسمبر کو پولیس نے ہاشم کے والد اور بڑے بھائی کو گرفتار کیا۔ان آٹھ لوگوں میں سے وہ اپنے بہنوئی سے ہی بات کر پائے ہیں، جنہوں نے انہیں بتایا کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ہاشم انصاری کو جانتے ہیں اور جب انہوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں تو پولیس انہیں اپنے ساتھ لے گئی۔
اس کے بعد اسے اپنے بہنوئی سے پیغام ملا، جس میں کہا گیا تھا، ‘ہمیں جیل بھیجا گیا ہے۔ آپ ہندو لڑکی کو پولیس کو سونپ دیں ورنہ اس شام تک ہمیں بھی جیل بھیجا جائےگا۔’ہاشم کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ پولیس نے یہ پیغام ان کے بہنوئی کے فون سے بھیجا ہو۔
پولیس جوڑے کو تلاش کر رہی ہے، جو اپنی زندگی بچانے کے ڈر سے چھپے ہوئے ہیں۔
اب تک کا معاملہ
گزشتہ 18 نومبر کو آئشی پچوری نام کی ہندو خاتون دہلی میں ہاشم انصاری کے چیمبر میں پہنچی تھیں اور انہوں نے قانونی طور پر مذہب بدل کر اسلام اپنانے کے لیے مدد مانگی تھی۔اس کے بعد انصاری نے ایک حلف نامہ تیار کیا، جس پر خاتون نے دستخط کیے اور قبول کیا کہ وہ اپنی مرضی سے اور ہوش وحواس میں بنا کسی دباؤ کے اسلام اپنا رہی ہیں۔ انہوں نے مذہب تبدیل کرنے کے بعد عائشہ نام اپنایا۔
ہاشم نے بتایا،‘خاتون کی اسلام میں دلچسپی تھی،قاضی کے سامنے رسم کرتے وقت انہوں نے بنا کسی کی مدد کے کلمہ بھی پڑھا۔ جب وہ اپنی مرضی سے مذہب بدل رہی تھیں تو سوال اٹھانے والا میں کون ہوں۔ وہ اکیلی آئی تھیں اور لگ رہا تھا کہ وہ بہت حوصلہ مند بھی ہیں۔ دس دن بعد انہوں نے جاوید نام کے ایک مسلم نوجوان سے شادی کر لی۔’
ہاشم نے جوڑے کی شادی کے دوران عدالتی کاغذات میں بھی مدد کی۔دی وائر کے پاس موجودہ شادی کے حلف نامے میں عائشہ نے لکھا ہے، ‘میں محمد جاوید انصاری نام کے نوجوان سے پیار کرتی ہوں۔’انہوں نے یہ بھی لکھا کہ وہ بنا کسی دباؤ یااثر کے ان سے شادی کر رہی ہوں۔
ہاشم نے کہا کہ وہ بنا کسی پریشانی کے دہلی میں رہ رہے تھے، لیکن 17 دسمبر کو دولہے کا بھائی ہاشم سے ملنے آیا تھا اور کہا تھا کہ اس کی بیوی کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ہاشم نے بتایا،‘ان کے (دولہے کے بھائی)دو بچے اور ان کی ماں کو پولیس لے گئی ہے، جبکہ ان کی ان سب میں کوئی شمولیت نہیں ہے۔’
اس کے علاوہ بجرنگ دل کے کچھ ممبروں نے جلیسر میں جاوید کے رشتہ داروں کو دکانیں بند کرنے کے لیے مجبور کیا۔ اس وجہ سے عائشہ نے جلیسر کو ایس ایس پی اور ایس ایچ او کے سامنےیہ بیان دیا کہ ان کی بیوی کی فیملی کے ممبروں کو ہراساں نہیں کیا جانا چاہیے، کیونکہ انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔
انہوں نےنیشنل وومین کمیشن کو بھی خط لکھ کر تحفظ دیے جانے کا مطالبہ کیا۔
شکایت
گزشتہ17دسمبر کو ہی خاتون کے والد پروین پچوری نے آئی پی سی کی دفعہ366 اور تبدیلی مذہب سے متعلق نئے قانون کی دفعہ تین اور پانچ کے ذیلی دفعہ ایک کے تحت جلیسر پولیس تھانے میں جاوید کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
اس کے بعد ہاشم نے عائشہ کی جانب سے جلیسر کے ایس ایس پی اور ایس ایچ او کے سامنےتحریری طور پر درخواست دی تھی کہ انہوں نے اپنی مرضی سے جاوید سے نکاح کیا ہے اور ان کی فیملی کے ممبروں کو اس کے لیے ہراساں نہیں کیا جانا چاہیے۔
‘لیگل انفارمیشن ری گارڈنگ میرج اینڈ ناٹ رجسٹر اینی کیس اگینسٹ دی ہسبنڈ آف مائی کلائنٹس’ کے عنوان کے تحت درخواست میں کہا گیا، ‘میری موکل ایک تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور انہیں کسی طرح کی بیماری نہیں ہے اور وہ اپنی مرضی کے بنا کسی رکاوٹ کے زندگی جینے میں اہل ہیں۔’
پولیس کا کہنا ہے کہ جانچ جاری رہےگی
جلیسر پولیس تھانے کے ایس ایچ او کرشن پال سنگھ نے تصدیق کی ہے، ‘خاتون کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے جاوید سے شادی کی ہے لیکن ہمارے یہاں درج معاملے کے تحت اس کی جانچ کرنی ہوگی۔ اب اسے صرف عدالت میں ہی سلجھایا جائےگا۔ خاتون کو عدالت آنا چاہیے اور اپنا بیان دینا چاہیے۔ وہ لاپتہ ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کا پتہ لگائیں۔’
انہوں نے کہا کہ یوپی پولیس ہاشم کے گھر پر خاتون سے ملنے گئی تھی، لیکن وہ نہیں آئیں۔ یہ بھی پوچھا گیا کہ ہاشم وکیل کے طور پر آخر کیوں اس معاملے میں اتنی دلچسپی لے رہے ہیں۔
جوڑا لاپتہ
گزشتہ 21 دسمبر کو ہاشم نے جوڑے سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں کر سکے۔انہوں نے کہا، ‘ان کی حفاظت کے لیےرٹ پٹیشن تیار تھی۔ انہیں صرف بیان درج کرانے آنا تھا لیکن وہ غائب ہو گئے۔وہ بہت ڈرے ہوئے ہیں اور خاتون باربار مجھ سے کہتی رہیں کہ انہیں یا تو گولی مار دی جائےگی یا پھر کسی اور طریقے سے مار دیا جائےگا۔’
جوڑے تک پہنچنے کی تمام کوشش ناکام رہی ہیں۔ دونوں کے موبائل فون سوئچ آف ہیں۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔