آدتیہ ناتھ کی غیرمہذب زبان پر صحافیوں-افسران کے جھوٹ اور دھمکیوں کا پردہ

یوگی حکومت  کی ایک اہم نشانی یہ ہے کہ اس نے میڈیا کو چپ کرانے کے لیے ایف آئی آر اور دھمکیوں کا سہارا لیا ہے۔ ان کے غیر مہذب تبصرے کا ویڈیو شیئر کرنے کے بعد دی گئی ایف آئی آر کی دھمکیاں  اسی بات کی تصدیق […]

یوگی حکومت  کی ایک اہم نشانی یہ ہے کہ اس نے میڈیا کو چپ کرانے کے لیے ایف آئی آر اور دھمکیوں کا سہارا لیا ہے۔ ان کے غیر مہذب تبصرے کا ویڈیو شیئر کرنے کے بعد دی گئی ایف آئی آر کی دھمکیاں  اسی بات کی تصدیق کرتی ہیں۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ  منگل کو کورونا ویکسین لگوانے بعد نیوز ایجنسی اے این آئی کو جو روٹین بیان دیا تھا، اب وہ ریاستی حکومت  کی تشہیر  کے لیےشدید جھٹکا بن چکا ہے۔اس ویڈیو میں وزیر اعلیٰ غیرمہذب زبان کا استعمال کرتے سنے گئے۔ حالانکہ ابھی تک یہ صاف نہیں ہو پایا کہ انہوں نے یہ تبصرہ  اے این آئی کے رپورٹر پر کیا تھا یا کسی اور پر۔

اس لائیو ویڈیو کے ایک چھوٹے سے کلپ کو سابق آئی اے ایس افسر سوریہ پرتاپ سنگھ نے اپنے سوشل میڈیا پر ٹوئٹ کیا تھا، جوبعد میں  کافی تیزی سے وائرل ہو گیا۔اس کے جواب میں آدتیہ ناتھ کے میڈیا صلاح کار شلبھ منی ترپاٹھی نے دعویٰ کیا کہ یہ ویڈیو فیک ہے اور جو بھی اس کو ٹوئٹ کرےگا، اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائےگی۔

اس کے لیے ایک گمنام ویب سائٹ ‘بریکنگ ٹیوب’ کی اسٹوری کا سہارا لیا گیا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی ویڈیو سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں سیدھے یہ بات لکھ دی گئی تھی کہ ویڈیو فیک ہے، لیکن اس کی تفصیلات نہیں تھی کہ آخر کس بنیاد پر وہ  اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔

حالانکہ سرکار کی دلیلوں کے کچھ ہی دیر بعد نیوز 18 اور اےبی پی گنگا کی بھی لائیوفیڈ سامنے آئی، جس میں آدتیہ ناتھ واضح طور پر قابل اعتراض لفظ  کا استعمال کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔اس کے بعد بوم لائیو اور آلٹ نیوز نے بھی فیکٹ چیک کرکے بتایا کہ‘یوگی آدتیہ ناتھ نے غیر مہذب زبان کا استعمال کیا تھا اور اس ویڈیو کے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑ نہیں کی گئی تھی۔ ’

چونکانے والی بات یہ نہیں ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے عام لوگوں کی طرح غیر مہذب زبان  کا استعمال کیا۔ دقت یہ ہے کہ اس پر سوال اٹھانے والے لوگوں، معترضین،صحافی وغیرہ کو سرکار جبراً چپ کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔

سرکار کے حق میں بولنے والی ویب سائٹ آپ انڈیا نے لکھا، ‘ریاستی حکومت نے اس معاملے میں فارینسک جانچ کے حکم  دے دیے ہیں۔ یوپی سی ایم کے صلاح کار شلبھ منی ترپاٹھی نے کہا ہے کہ جو بھی سی ایم یوگی کا ترمیم شدہ ویڈیو ٹوئٹ کر رہا ہے، اس کے خلاف کیس درج کیا جائےگا۔’

خود ترپاٹھی نے بھی ایسے کئی ٹوئٹس کو ری ٹوئٹ کیا جو آدتیہ ناتھ کے ویڈیو کو فیک بتا رہے تھے۔

yogi-video-tweet

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب یوگی سرکار نے اپنے معترضین  کو خاموش کرنے کے لیے مجرمانہ  معاملے دائر کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ریاستی حکومت  نے اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر اپنے اختیارات کا غلط استعمال  کیا ہے۔مرزاپور کے ایک اسکول میں مڈ ڈے میل کے تحت بچوں کو روٹی اور نمک دینے کی خبر نشر کرنے کی وجہ سے صحافی  پون جیسوال کے خلاف مجرمانہ  کیس درج کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ سیتاپور کے کورنٹائن سینٹر میں بے ضابطگیوں کی خبر لکھنےکی وجہ سے ایک اور صحافی  رویندر سکسینہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی  تھی۔

اس کے ساتھ ہی اسکرال ڈاٹ ان کی صحافی سپریہ شرما اور دی  وائر کے سدھارتھ وردراجن اور عصمت آرا کے خلاف بھی کیس درج کیا گیا ہے۔ ہاتھرس ریپ معاملے کو اٹھانے کے لیے اس صحافی  کو بھی ایف آئی آر کی دھمکی دی گئی تھی۔

یوگی انتظامیہ کی ایک اہم  نشانی یہ ہے کہ اس نے میڈیا کوخاموش  کرنے کے لیے ایف آئی آر اور دھمکیوں کا سہارا لیا ہے۔ نیا معاملہ صرف اسی بات کی تصدیق ہے کہ ان کے چیف صلاح کار لگاتار غیر جوابدہ رہے ہیں۔ اسی لیے وہ  کھلے عام لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

کیا وزیر اعلیٰ  ایسے افسران  کے خلاف کارروائی کریں گے جنہوں نے ایک سچ کو چھپانے کے لیے ان کی امیج  کو خراب  کیا ہے؟ المیہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ دعویٰ کرکے کہ ‘یوگی آدتیہ ناتھ جیسارہنما اس طرح کاتبصرہ  نہیں کر سکتا ہے’، خود ہی اس جرم  کو اور ہائپ دے دیا ہے۔

ذرا سوچیے کہ اس جگہ پر آدتیہ ناتھ نہیں، بلکہ اشوک گہلوت یا ہیمنت سورین ہوتے اور اس طرح کا غیر مہذب تبصرہ  کرتے ہوئے کیمرے میں قید کر لیے جاتے تو کیا تب بھی میڈیا اسی طرح کا ڈرا ہوا رویہ دکھا رہا ہوتا؟ کیا بڑے میڈیا نے ایسے فسطائی طریقوں کو برداشت کیا ہوتا؟

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)