اس سے قبل 18 اکتوبر 2022 کو دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس رجنیش بھٹناگر کی بنچ نے عمر کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ عمر ستمبر 2020 سے دہلی فسادات سے متعلق ایک کیس میں جیل میں ہے۔ اس معاملے میں اب تک نہ تو شنوائی شروع ہوئی ہے اور نہ ہی الزامات طے کیے گئے ہیں۔
نئی دہلی: دہلی کی ایک نچلی عدالت نے منگل (28 مئی) کو اسٹودنٹ لیدر عمر خالد کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، کڑکڑڈوما کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج سمیر باجپائی نے فریقین کو سننے کے بعد 13 مئی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
جے این یو (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) کے سابق طالبعلم عمر خالد دہلی فسادات سے متعلق ایک معاملے میں ستمبر 2020 سے جیل میں ہیں۔ خالد پر یو اے پی اے (انسداد دہشت گردی قانون ‘غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ) کے تحت الزام عائد کیے گئے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، خالد کے خلاف درج مقدمے میں نہ تو سماعت شروع ہوئی ہے اور نہ ہی الزامات طے کیے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ سے ضمانت کی عرضی لی تھی واپس
اس سال 14 فروری کو خالد نے حالات میں تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے اپنی ضمانت کی درخواست واپس لے لی تھی۔ ان کی درخواست پر 14 بار شنوائی ملتوی ہو چکی تھی۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے خالد کے والد نے ضمانت کی درخواست واپس لینے کی وجہ لمبی شنوائی کو بتایا تھا۔
ہائی کورٹ سے بھی خارج ہو چکی ہے ضمانت کی عرضی
اس سے قبل آٹھ ماہ کی سماعت کے بعد مارچ 2022 میں دہلی کی ایک سیشن عدالت نے خالد کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ خالد نے اس فیصلے کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی۔ اکتوبر 2022 میں دہلی ہائی کورٹ نے بھی خالد کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
دسمبر 2022 میں کڑکڑڈوما عدالت نے دہلی فسادات سے متعلق ‘پتھراؤ’ کیس میں خالد کو بری کر دیا تھا، لیکن فسادات سے متعلق ‘بڑی سازش’ کے سلسلے میں انہیں حراست میں رکھا گیا تھا۔
عمر خالد کی گرفتاری پر ہوتی رہی ہےتنقید
عمر خالد کی طویل قید کو عالمی اداروں، حقوق کی تنظیموں اور دنیا بھر کے مفکرین نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ دہلی فسادات کے حوالے سے خالد کے ساتھ ہی طالبعلم رہنما شرجیل امام اور کئی دوسرے لوگوں کے خلاف یو اے پی اے اور تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان سبھی پر فروری 2020 کے فسادات میں مبینہ طور پر ‘سازش’ کرنے کا الزام ہے۔
یہ فسادات شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کی حمایت اور خلاف مظاہروں کے دوران ہوئے تھے۔ ان میں 53 افراد ہلاک جبکہ 700 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
خالد کے علاوہ کارکن خالد سیفی، جے این یو کی طالبات نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا، جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی رکن صفورہ زرگر، عام آدمی پارٹی (عآپ) کے سابق کونسلر طاہر حسین اور کئی دیگر کے خلاف فسادات کے سلسلے میں سخت قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔