این سی ای یو ایس کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی 84 فیصد آبادی کی روزانہ آمدنی اوسطاً 50 روپے سے بھی کم ہے۔وہیں شادیوں پر مسلمان اتنا خرچ کرنے لگے ہیں کہ اس کی مجموعی رقم عمرہ پر سالانہ خرچ کی جانے والی رقم سے زیادہ ہو جاتی ہے۔
مسلمانوں کا ایک بیدار طبقہ شادی بیاہ میں فضول خرچی کے خلاف مہم چلانے کے ساتھ ہی بار بارعمرہ کرنے والوں کو بھی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس طبقے کی دلیل ہے کہ ان کاموں میں خرچ کی جانے والی رقم کو ملت کی تعلیم و فلاح کے کاموں میں لگانا چاہیے، جس کی اس بدحال قوم کو سخت ضرورت ہے۔
چنئی کے اردو زبان جاننے والے نوجوان فیض الرحمان، ملک میں سیکولرزم اور قومی ایکتا کے لیے کام کرنے والی تنظیم’ہارمونی انڈیا’ کی مجلس عاملہ کے ممبر ہیں۔ مؤقر صحافی اور انگریزی اخبار’دی ہندو’کے ایڈیٹر ان چیف این رام اس کے سربراہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی فیض الرحمان اسلام میں جدید افکار و خیالات کو فروغ دینے کی کوشش کرنے والی فورم کے بنیاد گزار سکریٹری بھی ہیں۔
معروف ادیب و محقق، دانشور ڈاکٹر اسلم پرویز مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کے وائس چانسلر ہیں۔ فیض الرحمان و ڈاکٹر اسلم پرویز مل کر اپنے مشن کے لیے ملک بھر کا دورہ کر آسودہ حال لوگوں سے گزارش کرتے ہیں کہ شادیوں کا بھاری بھرکم بجٹ کم کریں و بچنےوالی رقم کا استعمال قوم کے لیے تعمیری علی الخصوص تعلیمی کاموں میں کیا جائے۔
اس کے ساتھ ہی وہ عمرہ کے لیے بار بار کیے جانے والے اسفار کم کرنے کی بھی گزارش کرتے ہیں۔ یہ رضاکار مذہب بیزار نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول پر عقیدہ رکھنے والے مسلمان ہیں۔ وہ اس بابت بیداری لانا چاہتے ہیں کہ عمرہ کرنا فرائض میں شامل نہیں ہے اور اسے ہر سال کیا جانا ضروری نہیں ہے۔ اس سے بچنے والی رقم غریب قوم کی سماجی و معاشی پسماندگی دور کرنے میں لگائی جا سکتی ہے، جس کی مسلمانوں کو اشد ضروت ہے۔
غیر منظم کام کاجی حلقے کے قومی صنعتی کمیشن (این سی ای یو ایس) کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی 84 فیصد آبادی کی روزانہ آمدنی اوسطاً 50 روپے سے بھی کم ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ 150 ملین (15 کروڑ) مسلمان روزانہ 50 روپے بھی نہیں کما پاتے ہیں۔ یہ رضاکار پوچھتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں کیا مالدار مسلمانوں کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ اس زبوں حالی کو دور کرنے کی کوشش کریں؟
اسے یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں ‘حقوق اللہ’ پر ‘حقوق العباد’ کو ترجیح دی گئی ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس کا خیال نہیں رکھتا۔ کسی بھی مسلم سے پوچھیے کہ عمرہ کرنے کیوں جا رہے ہیں، تو جواب ملے گا ‘ثواب کے لیے۔’ لیکن ہم میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ یہ ثواب یہیں ملک میں غریب مسلمانوں کی مدد کر کے بھی کمایا جا سکتا ہے، وہ بھی ایک عمرے کے لیے کیے جانے والے خرچ میں سے آدھا خرچ کر کے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نفلی عبادتوں کی کوئی خاص ضرورت ہے نہیں اور وہ بھی 15 کروڑ لوگوں کو غربت اور کس مپرسی کے دلدل میں دھنسا ہوا چھوڑ دینے کی قیمت پر۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق کوئی ڈھائی لاکھ مسلمان ہر سال عمرہ کرتے ہیں اور اس کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق پیکج لیتے ہیں۔ جس پر تقریباً 4 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے جانے کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک سال پہلے تک مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کا سالانہ بجٹ محض 2832 کروڑ روپے ہی تھا۔ سنہ 2017-18 میں اسے بڑھا کر 4535 کروڑ روپے کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں صرف مسلمان ہی اقلیت نہیں ہیں بلکہ دیگر طبقات بھی اقلیتی زمرے میں شامل ہیں۔ اس طرح یہ بجٹ بھی صرف مسلمانوں کے لیے ہو، ایسا نہیں ہے۔ اس میں سے وہ 80 فیصد ہی حاصل کر پاتے ہوں گے، جبکہ وہ صرف عمرہ کے لیے اس سے کہیں زیادہ رقم خرچ کر دیتے ہیں۔ اس میں بار بار کیے جانے والے حج کا خرچ نہیں جوڑا گیا ہے۔
دوسرے الفاظ میں کہیں تو مسلمان ایک نفلی عبادت کے لیے کئی سو کروڑ روپے اس سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں، جتنی رقم حکومت ہند اپنی سبھی اقلیتوں کے لیے بجٹ میں رکھ رہی ہے۔ صرف عمرہ کے لیے اس بھاری بھرکم خرچ کا آدھا حصہ بھی مسلم قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے خرچ کر دیا جائے تو قوم کی حالت میں انقلابی تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔ فیض الرحمان کہتے ہیں کہ اس بھاری بھرکم خرچ کا فائدہ فی الحال ٹور آپریٹرس، ہوائی کمپنیوں اور تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب کو پہنچ رہا ہے۔ وہ شکوہ کرتے ہیں کہ ایسے میں جبکہ سچر کمیٹی رپورٹ بھی ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی و معاشی زبوں حالی پیش کر چکی ہے، ایک خطیر رقم اس طرح خرچ کیا جانا سمجھ سے پرے ہے۔
وہ ایک آسان سا سوال پوچھتے ہیں کہ “اللہ نہ کرے کسی کے گھر میں اس کے والدین یا اولاد میں سے کوئی سخت بیمار ہو، تب کیا وہ بیرونی ممالک گھومنے یا عمرہ کرنے جائے گا؟” اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو ان کو جاننا چاہیے کہ سچر کمیٹی کے مطابق ہماری قوم کے کم و بیش 95 فیصدی لوگ بہت بری حالت میں ہیں۔ یہ وقت انہیں چھوڑ کر زندگی کے مزے لوٹنے کا نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم سب نے پیغمبر کی وہ حدیث ضرور سنی ہوگی جس میں انہوں نے پوری امت کو ایک جسم قرار دیتے ہوئےکہا ہے کہ امت کے چھوٹے سے طبقے کو بھی تکلیف پہنچتی ہے تو پوری امت کو اس کا درد محسوس کرنا چاہیے۔
اس بابت ایک طبقہ فکر کا ماننا ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد انہیں اپنا مال اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا۔ متواتر عمرہ کرنے والے اسی دلیل کا سہارا لیتے ہیں۔ جبکہ یہ منفی سوچ ہے۔ زکوٰۃ کا عمرہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ایسے میں قرآن جس فضول خرچی کی مذمت کر رہا ہو، اسے کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟ پھر قوم کی پست حالت دیکھتے ہوئے صرف ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کر دینا کافی نہیں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ کم از کم 10 فیصدی رقم اپنی قوم کے لیے لگاتے رہیں، جب تک کہ 125 ملین یعنی ساڑھے بارہ کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کی حالت ٹھیک نہ ہو جائے۔
ادھر شادیوں پر بھی مسلمان اتنا خرچ کرنے لگے ہیں کہ اس کی مجموعی رقم عمرہ پر سالانہ خرچ کی جانے والی رقم سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ ایک متوسط گھرانے کی شادی میں عموماً 8 لاکھ روپے خرچ کرنے کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ہندوستان کی 15 کروڑ مسلم آبادی میں سے متوسط طبقے کی کم از کم 15 لاکھ (15 کروڑ کا 0.001 فیصد) شادیاں ہر سال ہوتی ہیں۔ ان شادیوں پر کل خرچ کی جانے والی رقم کا جوڑ 12 ہزار کروڑ روپے ہوتا ہے۔ ان میں 4 ہزار کروڑ روپے عمرہ و 800 کروڑ روپے چھٹیاں منانے کے بھی جوڑ لیے جائیں تو یہ ساری رقم 17 ہزار کروڑ روپے ہر سال ہوتی ہے۔ گویا مختلف ناموں سے سیر و تفریح میں ایک ‘غریب قوم’ کا ‘پیسے والا’ طبقہ ہر سال 17 ہزار کروڑ روپے خرچ کر رہا ہے۔ یہ فضول خرچی ہی ہے، جس کی اسلام نے سختی سے ممانعت کی ہے۔
اب بچوں کی تعلیم کا تخمینہ لگائیں تو 10 ہزار روپے سال فی طالب علم 14 کلاسوں کی رقم 1 لاکھ 40 ہزار روپے ہوئی۔ کسی پروفیشنل کورس کے لیے 4 لاکھ روپے۔ اس طرح 5 لاکھ 40 ہزار روپے خرچ میں ایک طالب علم تیار ہو رہا ہے۔ سو 17 ہزار کروڑ روپے کو 5 لاکھ 40 ہزار روپے سے تقسیم کرنے پر 3 لاکھ 14 ہزار 814 روپے آ رہا ہے۔ گویا اصراف کو روک کر ہر سال 3 لاکھ سے زیادہ بچوں کی تعلیم و تربیت کا کام کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر اسلم پرویز نے اس بابت مہم چھیڑ رکھی ہے۔ وہ ہر موقعہ پر لوگوں سے گزارش کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو ‘حقوق العباد’ پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، کہ قوم کی حالت بے حد خراب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غریب مسلمانوں کی مدد کا کام دوسری بار حج یا عمرے کرنے سے کئی گنا زیادہ ثواب دلائے گا۔ اس ضمن میں وہ بخاری و مسلم شریف کی یہ حدیث یاد دلاتے ہیں کہ “کسی بیچاری یا غریب بیوہ عورت یا کسی غریب ضرورت مند کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا بندہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے بندے کی طرح ہے۔”
(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )