گزشتہ دس سالوں میں ملک نے ایسے وحشیانہ عمل، غیر انسانی فعل اور سفاکانہ جرائم کا مشاہدہ کیا، جو ایک شخص کے ذریعے انجام دیا گیا۔ دراصل نریندر مودی نے اس مدت میں ایک ایسا ملک بنایا جہاں محض ایک ٹوئٹ کے باعث جیل ہو سکتی ہے، کسی کامیڈین کو ‘مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے’ کے لیے زدوکوب کیا جا سکتا ہے اور جیل رسید کیا جاسکتا ہے۔ ایسا ملک جہاں لنچنگ عام سی بات ہو گئی۔
آج ملک کی سیاسی سچائی یہ ہے کہ آمریت کا دور ختم تو نہیں ہوا، لیکن اس کا اثر کچھ حد تک کم ضرورہوا ہے۔ پچھلے دس سالوں میں وہ ایک دیو قامت شخص کے طور پر نمودار ہوئے اور نہ صرف اس ملک کو بلکہ پوری دنیا کو اپنے ہاتھوں سے سنوارنے لگے اور ہم معمولی لوگ ان کے پیروں کے نیچے ڈال دیے گئے۔ لیکن لوک سبھا انتخابات میں منقسم مینڈیٹ نے، جس میں کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملی، اچانک اس خود ساختہ دیو قامت شخص کو ایک معمولی اور ادنیٰ انسان بنا دیا ہے۔ وہ مسلسل تیسری بار ملک کے وزیر اعظم بن گئے ہیں، لیکن ان جماعتوں کے اتحاد کے رہنما کے طور پر جو کسی بھی وقت پالا بدلنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ شیر کبھی اپنے جسم کی دھاریاں تبدیل نہیں کرتا۔ وہ جو کبھی خدا بنے تھے، اب ایسے حالات میں کام کرنے کو مجبور ہیں، جہاں سب برابر ہیں اور جہاں نئے اصولوں پر عمل کیا جانا ہے۔
یہ درست ہے کہ ان کے پرکتر دیے گئے ہیں،لیکن کیا اس سے ہماری جمہوریت کا تحفظ یقینی ہو پائے گا؟ کیاپھولے ہوئے 56 انچ کے سینے کے سائز کو کم کرنے سے ہمارے جمہوری ملک میں انصاف، مساوات، اخوت اور ہر فرد کے لیے احترام کا مقدس آئینی عہداز سر نو بحال ہو پائے گا؟
اکثر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہ دے کر اور ایک مضبوط اور سرگرم اپوزیشن کو منتخب کر کے ہندوستانیوں نے معمول کی سیاست کی واپسی کے عمل کو یقینی بنایا ہے۔ عوام نے پچھلے کچھ سالوں کی آمرانہ حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے، جو قانون کی بے توقیری اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے والے اداروں کے ساتھ بڑے پیمانے پر زیادتی کے لیے معروف رہی ہے۔ لیکن کیا مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی سیاست کا خطرناک تجربہ اور کرونی کیپٹلزم کی پیروی کا رجحان ختم ہو گیا ہے؟
میں ایک ایسے نجومی کی طرح ہوں جس پر شاید ہی کوئی یقین کرے۔ میری یہ جھوٹی امیدیں شاید ہی کبھی سچ ہوں، لیکن ان کا تصور مجھے بہت خوشگوار اور دلکش لگتا ہے۔ مجھے احساس ہے کہ اس طرح کی بنیادی تبدیلی کے لیے مودی جی کو اپنی فطرت اور رویے میں ہر طرح سےتبدیلی کرنی ہوگی۔ قدامت پسندانہ تصورات — انانیت اور نرگسیت یعنی خود کو تیسرے شخص کے طور پرمخاطب کرکے مبالغہ آمیزحصولیابیوں پر فخر کرنے کے بجائے انہیں اپنے آپ کوسخاوت، انسانیت اور عاجزی سے بھرپور سیاستدان کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ ایک تاناشاہ کے بجائے انہیں ایک ٹیم کا رکن بننا پڑے گا۔ لیکن یہ سب محض جھوٹی اور خیالی امیدیں ہی تو ہیں۔
مسلسل تیسری بار وزیر اعظم کے طور پر ملک کی قیادت سنبھالنے والے نریندر مودی کی اصل فطرت کو سمجھنے کے لیے 1992 میں آشیش نندی کےاس تجزیے کی یاد دہانی ضروری ہے، جس میں انہوں نے ان کی شخصیت کاجائزہ لیا ہے، اس وقت مودی آر ایس ایس کے ایک عام پرچارک ہوا کرتے تھے۔ نندی نے لکھاتھا؛
‘یہ ایک فاشسٹ شخصیت کی بہترین مثال تھی…مودی نے دراصل ان تمام معیارات کوپورا کیا، جو ماہرین نفسیات وغیرہ نے برسوں کے تجربے کے بعد کسی آمرکی شخصیت کے لیے طے کیے ہیں۔ ان کے پاس یہ سب کچھ تھا – انتہائی سخت ہونا، جذبات سے عاری ہونا، انا اور ڈر…’
جمہوری کام کاج کے طے شدہ اصولوں کے مطابق ان کے کام کرنے کا کوئی امکان نظرنہیں آتا۔ انتخابی نتائج کے بعد مودی جی کی پہلی دو تقریریں (پہلے اپنی پارٹی کے ممبران کے لیے اور پھر 7 تاریخ کو پارلیامنٹ میں این ڈی اے کی میٹنگ میں) خود ستائی، مخالفین کو حقارت سے دیکھنا، وہی پرانی ، بوسیدہ اورمبالغہ آمیز ترقی کی کہانی اور ترقی یافتہ ملک کے خوابوں کی آمیزش تھیں۔ وہ خود کو اپوزیشن کے خلاف اس نازیبا طنز کرنے سے نہیں روک سکے کہ؛’ای وی ایم زندہ ہے!’ پچھلے بیانات سے قطع نظر ایک تبدیلی یقیناًنظر آ ئی؛ ان تقاریر میں وہ خود کو تھرڈ پرسن کے طور پر مخاطب کرنے سے گریز کرتے ہوئے نظر آئے۔ شاید یہ مجبوری میں ہی ہو، لیکن عاجزی اور انکساری کی یہ تصویر صاف نظر آ رہی تھی۔
میٹنگ میں اپنے این ڈی اے کے ساتھیوں کی خوشامد اور چاپلوسی کو دیکھنے اور سننے کے بعد، یہ واضح تھا کہ یہ لوگ عہدے اور جاہ طلبی کے بدلے ان کی خواہش کے مطابق ہی کام کریں گے۔ بی جے پی کو واضح اکثریت نہ ملنے کی خوشی کے درمیان، ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جب تک مودی اقتدار میں ہیں، ہماری جمہوریت کے لیے ایک بڑا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی اور ان کے اتحادیوں نے اس الیکشن سے پہلے ہی ‘اچھے پرانے دنوں’ کو واپس لانے کا منصوبہ بنالیا ہو گا، جب ان کے پاس واضح اکثریت تھی اور انہوں نے جیساچاہا ویسا کیا۔ وہ ہر طرح کی لالچ کے ساتھ آج کے ہندوستانی سیاسی منظرنامے میں آزاد اور کمزور جماعتوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی پوری کوشش کریں گے، حالانکہ بلیک میلنگ کی کوششوں کو کچھ وقت کے لیے ملتوی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ نئے اتحادی بنانے میں کامیاب ہوں گے کیونکہ ان کے پاس بے انتہا پیسے کی طاقت اور وسائل ہیں، اور انہیں بڑے کارپوریٹس کی حمایت حاصل ہے، جن کے کاروبار میں پچھلے دس سالوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
اقلیتی حکومت کے باوجود مودی کے پاس بے پناہ اختیارات ہوں گے۔ ریاستہائے متحدہ کے صدر کے برعکس، جن کے اختیارات سینیٹ، کانگریس اور 50 ریاستی حکومتوں کے ذریعے محدود ہیں، ہندوستان کے وزیر اعظم کے پاس قانونی اور صوابدیدی دونوں اختیارات ہیں، جو ماہرین کے مطابق انہیں ایک بادشاہ کی طرح طاقتور بنا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم بننے والا شخص جمہوری سیاستدان کے طور پر کام کرتا ہے یا ڈکٹیٹرکے طور پر،یہ اس کی صوابدید پر منحصر ہے۔ اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ جمہوریت پسند تھے اور اچھے ارادوں کے ساتھ حکومت کرتے تھے، اور ایک ایسا وصف جو مودی کے ساتھ کبھی وابستہ نہیں ہوا وہ ہےخود غرضی سے اوپر اٹھ کر کام کرنا۔
جمہوریت کی ایک مہلک شکل میں لیکن مؤثر ڈھنگ سے، مودی حکومت نے آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیے بغیر انتظامی اداروں کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ فرانس کے مشہور سیاسی مفکر اور فقیہہ مونٹیسکوئیو نے بجا طور پر خبردار کیا تھا کہ قانون کی آڑ میں اور انصاف کے نام پر کیے جانے والے مظالم سے بڑا کوئی سفاکانہ جرم نہیں ہے۔ مودی نے ریاستوں کو وقت پر واجب الادا رقم نہ دے کر وفاقیت پر حملہ کیا۔ اپوزیشن کے جائز مطالبات کو پارلیامنٹ میں نظر انداز کیا گیا اور ان کی آواز کو دبایا گیا۔ انہوں نے سرکاری خزانے سے اپنی مرضی کےمطابق مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی ترجیحات پر یکطرفہ فیصلے لیے۔ ہر وزارت میں باہر کے لوگ اندر بیٹھ کر نگرانی کر رہے تھے۔ کیا اس بار حکومت چلانے کا یہ طریقہ بدلے گا؟
اپنے وسیع اختیارات کے تحت وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ارکان کی تقرری کرتے ہیں اور مسلح افواج، سول سروسز، عوامی قانونی اداروں، حتیٰ کہ گورنرز اور الیکشن کمیشن وغیرہ کے آئینی عہدوں پر اعلیٰ سطحی عہدوں پر تقرریوں کی منظوری دیتے ہیں۔پچھلے دس سالوں میں مودی جی نے ہر ادارے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت کو ایک طرف رکھتے ہوئے، انہوں نے یو پی ایس سی اوریو جی سی جیسے اہم اداروں میں بھگوااور داغدارگھس پیٹھیوں کی تقرری کی ہے۔
مخلوط حکومت ہونے کے باوجود وزیر اعظم کے طور پر ان کے اختیارات کم نہیں ہوں گے۔ درحقیقت انہیں اہم عہدوں پر اپنے نظریے کے لوگوں کو تعینات کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، چاہے ان عہدوں کے لیے دیگر اہل لوگ موجود ہی کیوں نہ ہوں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد مودی ایک بار پھر ان اداروں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیں گے، جنہیں انہوں نے گزشتہ دس سالوں میں سیاسی مخالفین اور غیر مطمئن لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہتھیار کی طرح استعمال کیا ہے۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ساکھ اور وقار کو مجروح کیا ہے، جنہیں اب مودی کے شخصی کنٹرول میں سمجھا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایجنسیاں نئے نظام میں بھی اہم کردار ادا کریں گی۔
ہمیں مطلق العنان حکمرانی کو مضبوط کرنے میں عدلیہ اور بیوروکریسی کے مشکوک کردار کوبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ پچھلے دس سالوں میں انہوں نے عوامی مفادات اور قانون کا تحفظ کرنے کے بجائے درباریوں کا کردار ادا کیا اور ایک سیاسی حکمران کی وحشیانہ طاقت کےسامنے ہر ادارے کو اس کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لیے تیار کیا۔ ایسے خدشات ہیں کہ ہندوتوا نظریہ کے حامیوں کی ان اداروں میں بہت زیادہ گھس پیٹھ ہو چکی ہے۔ حال ہی میں، کلکتہ ہائی کورٹ سے ریٹائر ہونے والے ایک جج نے عوامی طور پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو اپنی شخصیت کی تشکیل کا سہرا دیا تھا ۔ کیا جمہوریت کی عارضی بحالی کوئی تبدیلی لائے گی اور انہیں آئین کے ساتھ ان کی مقدس وابستگی کے لیے بیدار کرے گی؟
پچھلے دس سالوں میں ہم نے اس حکومت کے ناقابل بیان غیر انسانی فعل اور سفاکانہ جرائم کا مشاہدہ کیا ہے، جسے فرد واحد نے انجام دیا تھا۔اس مدت میں مودی نے ایک ایسا ملک بنایا ہے جہاں صرف ایک ٹوئٹ کی وجہ سےجیل ہو سکتی ہے، جیسا کہ ماحولیاتی کارکن دشا کے معاملے میں ہوا ۔ ایک ایسا نظام جہاں کامیڈین کو ‘مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے’ کے لیے زدوکوب کیا جا سکتا ہے اور جیل رسید کیا جاسکتا ہے۔ ایسا ملک جہاں لنچنگ ایک عام سی بات ہو گئی۔ یہاں ہم میں سے سب سے اچھے لوگ- ایلگار پریشد کے کارکن- بے بس اور غریب سے غریب لوگوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی وجہ سے برسوں جیل میں گزار چکے ہیں۔ ایک آئیڈیلسٹ نوجوان عمر خالد تین سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہے اور گنتی جاری ہے۔ ہولناکیوں کی فہرست طویل ہے۔
اب جبکہ مودی جی دوبارہ اقتدار میں آ گئے ہیں، کیا انہیں ان سنگین ناانصافیوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے گاجو انہوں نے دس سالوں میں اپنے لوگوں کے ساتھ کیا ہے؟ جیسا کہ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خاتمے پر کہا تھا کہ مکمل انصاف کے مفاد میں ‘ آنکھ میں جانور کودیکھنا’ ضروری ہے تاکہ اس طرح کی ہولناکیوں کا اعادہ نہ ہو الیکزینڈر سلزینسٹائن نے یہ کہتے ہوئے ایک ابدی سچائی بیان کی کہ ‘جب ہم نہ تو برے لوگوں کو سزا دیتے ہیں اور نہ ہی ان کی مذمت کرتے ہیں، تو ہم آنے والی نسلوں کے لیے انصاف کی بنیاد کو تباہ کر رہے ہیں۔’ وقت بتائے گا کہ کیا ہم آخرکار مستقبل کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں یا نہیں۔ لیکن ابھی کے لیے، سیاسی جماعتوں کویو اے پی اے اورپی ایم ایل اے جیسے غیر انسانی قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جن کا غلط استعمال مودی جی نے اپنے مخالفین کو ستانے اور ہراساں کرنے کے لیے کیا ہے۔
(میتھیوجان سابق سول سرونٹ ہیں)
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔