سال 2023 میں 80 فیصد مسلم مخالف ہیٹ اسپیچ بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں درج کی گئیں: رپورٹ

ہندوتوا واچ کی ایک تحقیق کے مطابق،ہیٹ اسپیچ والے پروگراموں میں سے ایک تہائی (33 فیصد) میں واضح طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد اور 12فیصد میں ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی گئی تھی۔ تقریباً 11 فیصد میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی۔

ہندوتوا واچ کی ایک تحقیق کے مطابق،ہیٹ اسپیچ والے پروگراموں میں سے ایک تہائی (33 فیصد) میں واضح طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد اور 12فیصد میں ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی گئی تھی۔ تقریباً 11 فیصد میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Facebook/@MYogiAdityanath)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Facebook/@MYogiAdityanath)

نئی دہلی: صرف سال 2023 کے پہلے چھ مہینوں میں ملک کے مختلف حصوں میں 250 سے زیادہ ایسے اجلاس ہوئے جن میں مسلم مخالف ہیٹ اسپیچ  کی گئیں۔

رپورٹ کے مطابق، ایک تحقیق میں پایا گیا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں درج کیے گئے اور ان میں سے تقریباً 70 فیصد ان ریاستوں میں دی گئیں، جہاں یا تو  2023 یا 2024 میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔

آن لائن ہیٹ ٹریکنگ پورٹل ‘ہندوتوا واچ’ کے لیے رقیب حمید نائیک، آروشی سریواستو اور ابھودے تیاگی کی’2023 ہاف ایئرلی رپورٹ: اینٹی مسلم ہیٹ اسپیچ ایونٹس ان انڈیا‘ کےعنوان سے رپورٹ میں پایا گیا  ہے کہ 2023 کی پہلی ششماہی میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے ہیٹ اسپیچ  کےکل 255 واقعات میں سے 205 یا 80 فیصد بی جے پی مقتدرہ  ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ہوئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مہاراشٹر، کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان اور گجرات میں نفرت انگیز تقاریر کی سب سے زیادہ تعداد دیکھی گئی۔ صرف مہاراشٹر میں اس طرح کے 29 فیصد واقعات پیش آئے۔ رپورٹ میں مہاراشٹرکو ایک مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ اس بات کی مثال ہے کہ ‘کس طرح کمزور انتخابی حمایت والے علاقوں میں بی جے پی مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر کو مشتہر کرنے کے لیےسرکاری  طاقتوں کا استعمال کرتی ہے۔

رپورٹ میں ریاست میں حکمراں مہاوکاس اگھاڑی اتحاد میں پھوٹ کے لیے بی جے پی کے کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘2024 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر جان بوجھ کر ریاست میں مسلم مخالف جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ‘

اس میں کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ ہیٹ اسپیچ جن آٹھ ریاستوں میں دی گئی، ان سرفہرست آٹھ ریاستوں میں سےسات بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔

بی جے پی مقتدرہ ریاستیں مثلاً– کرناٹک (سال کے چھ ماہ کی مدت میں زیادہ تر بی جے پی کی حکومت رہی)، مدھیہ پردیش اور گجرات نے 2023 کی پہلی ششماہی میں 20 یا اس سے ہیٹ اسپیچ سے متعلق اجلاس کا مشاہدہ کیا۔ اس فہرست میں واحد استثنیٰ  راجستھان تھا، جو کانگریس مقتدرہ  ریاست ہے، جہاں سال کے اواخر میں انتخابات ہونے والے ہیں۔

اتراکھنڈ کی صورتحال کو ‘خطرناک’ قرار دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 کی پہلی ششماہی میں ہندوستان میں نفرت انگیز واقعات میں سے 5 فیصد اتراکھنڈ میں ہوئے، حالانکہ اس ریاست میں ہندوستان کی کل آبادی کا 1 فیصد سے بھی کم ہے۔

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کی نفرت انگیز تقریروں میں سے ایک تہائی (33فیصد) میں واضح طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد اور 12فیصد میں  ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی گئی تھی۔ تقریباً 11 فیصد میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی  گئی تھیں۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ایسی 4 فیصد میٹنگوں میں مسلم خواتین کو نشانہ بناتے ہوئے نفرت انگیز اور صنفی امتیاز پر مبنی تقاریر کی گئیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جن پروگراموں میں یہ نفرت انگیز تقاریر کی گئیں ان کے منتظمین کون تھے۔ مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں تقریباً 52 فیصد میٹنگوں کا اہتمام وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی)، بجرنگ دل، سکل ہندو سماج اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بی جے پی سے وابستہ تنظیموں نے کیا تھا۔’

رپورٹ میں یہ بھی پایا گیا کہ 15 ریاستوں اور دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں نفرت انگیز تقاریر کے تمام واقعات میں سے 42 فیصد آر ایس ایس سے وابستہ گروپوں کے ذریعے منعقد کیے گئے تھے۔ مطالعہ کے مطابق، ان ہیٹ اسپیچ کا ایک بڑا حصہ ‘کنسپریسی تھیوری ‘ پر مبنی تھا، بالخصوص بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں۔

بی جے پی مقتدرہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقریباً دو تہائی (تقریباً 64فیصد) ہندوتوا سے متاثر مسلم مخالف کنسپریسی تھیوری کے حوالے شامل تھے۔ مجموعی طور پر 15 ریاستوں اور دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں نفرت انگیز تقاریر کے تمام واقعات میں سے 51 فیصد میں مسلم مخالف کانسپریسی تھیوری  سامنے آئیں۔

رپورٹ میں ہیٹ اسپیچ  کے اضافے میں انتخابات کے کردار پر بھی غور کیا  گیا  اور پایا گیا کہ نفرت انگیز تقاریر کے 33 فیصد واقعات ان ریاستوں میں ہوئے جہاں 2023 میں اسمبلی انتخابات ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ‘اس کے علاوہ، ان میں سے 36 فیصد سے زیادہ واقعات ان ریاستوں میں ہوئے جہاں 2024 میں اسمبلی انتخابات ہونے  والے  ہیں۔ مجموعی طور پر، ان میں سے تقریباً 70فیصد واقعات ان ریاستوں میں ریکارڈ کیے گئے جہاں یا تو  2023 یا 2024 میں اسمبلی انتخابات ہوں گے۔’

لیکن نفرت انگیز تقاریر کے لیے صرف انتخابات ہی واحدمحرک نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق ،اس کی ایک بڑی وجہ رام نومی جیسے ہندو تہوار بھی ہیں، جن کے دوران نفرت انگیز واقعات کے ساتھ ساتھ نفرت انگیز تقاریر میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔