
فوٹو بہ شکریہ: بی جے پی /فیس بک
نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو 2024-25 میں مختلف الیکٹورل ٹرسٹوں سے 959 کروڑ روپے کا سیاسی چندہ ملا، جن میں سے تقریباً 757 کروڑ روپے، جو پارٹی کو ملنے والے کل چندے کا 83 فیصد ہے، ٹاٹا گروپ کے زیر کنٹرول پروگریسو الیکٹورل ٹرسٹ (پی ای ٹی) سے آیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکرول کی ایک حالیہ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹاٹا گروپ کو یہ چندہ نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت کی جانب سے گروپ کے دو سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ یونٹوں – ایک آسام اور دوسرا گجرات میں- کے لیے 44,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی سبسڈی دینے کے اعلان کے چند ہفتوں بعد ملا تھا ۔ دونوں ہی بی جے پی مقتدرہ ریاستیں ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن نے 2024-25 میں الیکٹورل ٹرسٹ کے ذریعے دیے گئے تمام چندے سے متعلق دستاویزاپلوڈ کر دیے ہیں۔
ان دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ پی ای ٹی کی طرف سے بی جے پی کو دیا گیا چندہ اپریل 2024 میں عام انتخابات سے چند دن پہلے اور مرکزی حکومت کی جانب سے ہندوستان کو ڈیجیٹل مینوفیکچرنگ ہب بنانے کے لیے تین سیمی کنڈکٹر یونٹس قائم کرنے کے اعلان کے چند ہفتوں بعد دیا گیا تھا۔
معلوم ہو کہ فروری 2024 میں سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں سے چندہ قبول کرنے کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے متعارف کرائے گئے الیکٹورل بانڈ کے نئے نظام کو غیر آئینی اور غیرشفاف قرار دیتے ہوئےردکر دیا تھا۔
تاہم، ایسا لگتا ہے کہ اس کا بی جے پی پر کوئی اثر نہیں پڑا، کیونکہ وہ الیکٹورل ٹرسٹ کے موجودہ نظام – جو سیاسی چندہ قبول کرنے کے لیے بانڈ سے کہیں زیادہ شفاف نظام ہے- سے بھی مستفید ہونے والی سب سے بڑی پارٹی ہے ۔
الیکشن کمیشن کے دستاویزوں سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کے نظام کو ختم کرنے سے پہلے بی جے پی کو 2023-24 میں بانڈ سے 1,685 کروڑ روپے ملے تھے ۔ اس وقت بھی، بی جے پی سیاسی چندے کی سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی پارٹی بن کر ابھری تھی جو تعداد کے لحاظ سے اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس سے بہت آگے تھی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے اپلوڈ کیے گئے دستاویزوں کے مطابق، بی جے پی کو 2024-25 میں مختلف الیکٹورل ٹرسٹوں سے کل 959 کروڑ روپے ملے۔ اس میں ٹاٹا گروپ کی ملکیت والی پی ای ٹی نے 757.6 کروڑ کا چندہ دیا۔
ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہندرا گروپ کی حمایت یافتہ نیو ڈیموکریٹک ای ٹی نے بی جے پی کو 150 کروڑ روپے دیے، جبکہ ہارمنی ای ٹی سے حکمراں جماعت کو 30.1 کروڑ روپے، ٹرائمف ای ٹی سے 21 کروڑ، جن کلیان سے 9.5 لاکھ روپے اور آئنزیگارٹک ای ٹی سے 7.75 لاکھ روپے ملے۔
غور طلب ہے کہ پی ای ٹی ٹاٹا گروپ کی مختلف کمپنیوں سے چندہ وصول کرتی ہے اور انہیں لوک سبھا انتخابات کے سالوں میں تقسیم کرتی ہے۔ 2018-19 میں بھی بی جے پی کو اس کا چندہ سے سب سے زیادہ ملا تھا۔
ٹرسٹ اس سے پہلےبھی بی جے پی کو چندے کی صورت میں غیرمعمولی تعاون کرتا رہا ہے
ٹرسٹ نے 2018-19 میں اپنے کل 454 کروڑ فنڈ کا تقریباً 75فیصد بی جے پی کو دیا تھا، جو کل356 کروڑ روپے تھا۔ اس کے مقابلے کانگریس کو پی ای ٹی سے صرف 55.6کروڑ روپے اور ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کو محض 43 کروڑ روپے کا چندہ ملا۔
قابل ذکر ہے کہ پروڈنٹ ای ٹی گزشتہ کئی سالوں سے سیاسی جماعتوں کو سب سے بڑے عطیہ دہندگان میں سے ایک رہا ہے، لیکن الیکشن کمیشن نے ابھی تک سال 2024-25 کے لیے اس کے عطیات کی تفصیلات اپلوڈ نہیں کی ہیں، اس لیے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
تاہم، اس سے پہلے کے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ پروڈنٹ ای ٹی نے 2023-24 میں بی جے پی کو 724 کروڑ روپے کا چندہ دیا تھا، جو کہ 2023-24 میں ٹرسٹوں کے ذریعے بی جے پی کو موصول ہونے والے 856.4 کروڑ روپے کا ایک بڑا حصہ ہے۔
اسی طرح، بی جے پی کو 2018-19 اور 2024-25 دونوں میں ٹاٹا کے زیر کنٹرول پی ای ٹی سے سب سے زیادہ چندہ ملا۔
اس کے مقابلے میں کانگریس کو 2024-24 میں پی ای ٹی سے 77.3 کروڑ روپے، نیو ڈیموکریٹک ای ٹی سے 5 کروڑ روپے اور جن کلیان ای ٹی سے 9.5 لاکھ روپے ملے۔
کانگریس نے اپنے دستاویزوں میں کہا ہے کہ اسے 2024-25 میں پروڈنٹ ای ٹی سے 216.33 کروڑ روپے اور اے بی جنرل ای ٹی سے 15 کروڑ روپے ملے ۔
کانگریس نے اپنے دستاویزوں میں یہ بھی کہا ہے کہ اسے ای ٹی کے ذریعے موصول ہونے والے 517 کروڑ روپے کی کل شراکت میں سے 313 کروڑ روپے ملے ہیں۔
اسی طرح 2024-25 میں اس سب سے پرانی پارٹی کی شراکت 2023-24 میں الیکٹورل بانڈ کے ذریعے موصول ہونے والے 828 کروڑ روپے سے نمایاں طور پر کم تھی، لیکن 2022-23 میں 171 کروڑ روپے سے زیادہ تھی، جو کہ ایک غیر عام انتخابی سال تھا۔
غورطلب ہے کہ ٹی ایم سی، وائی ایس آر کانگریس، شیو سینا، بیجو جنتا دل، بھارت راشٹرسمیتی، جنتا دل (یونائٹیڈ)، دراوڑ منیتر کجھگم اور لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کو بھی پی ای ٹی سے 10-10 کروڑ روپے ملے ہیں۔

آسام تحریک میں ایک ریلی۔ تصویر: وکی پیڈیا/CC BY-SA 4.0
سال 1983 کا موسم گرما تھا۔ جموں و کشمیر میں ا سمبلی انتخابات کا بگل بج چکا تھا۔ میں اپنے آبائی قصبہ سوپور میں اسکول سے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا کہ قصبہ کے مرکز یعنی مین چوک کے نزدیک اقبال پارک میں ایک جلسے سے ایک حضر ت کوخطاب کرتے ہوئے دیکھا۔
ویسے تو سوپور کے باسیو ں کو جوشیلی تقریریں سننے کی عادت ہی تھی، مگر یہ مقرر کچھ مختلف نظر آرہا تھا۔ یہ ایک نوجوان وکیل، مظفر حسین بیگ تھے۔
گو کہ بعد میں دو دہائی بعد وہ نائب وزیر اعلیٰ بھی رہے مگر تب تک وہ معروف سیاسی چہرہ نہیں تھے۔ وہ وکیلوں کے انداز میں دلائل دیتے ہوئے ایک رسالے کے مرکزی صفحات لہرا کر سامعین کو دکھا رہے تھے۔
اس میں آسام کے دھان کے کھیتوں میں بکھری لاشوں کی تصویریں چھپی تھیں۔ رسالے شاید ہفتہ روزہ سنڈے اور انڈیا ٹوڈے تھے۔
معصوم بچوں کی لاشیں، جن کی قمیضوں کے بٹن ابھی تک لگے تھے، خواتین کی تصاویر، جن کے مردہ برہنہ اجسام پر چاول کے پودے پردہ کیے ہوئے تھے۔
یہ آسام کا نیلی کا قتل عام تھا، جس کو ابھی صرف تین ماہ ہوئے تھے۔ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے یہ بطور استعارہ کشمیر کے ان انتخابا ت کا مرکزی موضوع بننے والا تھا۔
پہلے مجمع پر خاموشی چھا گئی، پھر ایک انجانی گھبراہٹ کے ساتھ بے چین ہونے لگا، جیسے کسی نے ذہن کے اندر ایک دراڑ ڈال دی ہو۔بیگ کا یہ سوال پہلے سوپور تک تھا، پھر وادی بھر کی آواز بن گیا۔
جماعت اسلامی کے رہنما سید علی شاہ گیلانی نے نیلی کی ان تصویروں کو فوراً سیاسی علامت بنا لیا۔ ایک ایسا نعرہ ابھرا جو جلسوں کی زمین ہلا دیتا تھا۔
کشمیری میں’یَینا یَتے بَناونی آسام؟’ (کہیں یہاں آسام نہ بن جائے) ایک انتخابی نعرہ بن گیا۔ چند ہی ہفتوں میں اس نعرہ کو نیشنل کانفرنس نے بھی اپنا لیا۔
وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اس نعرے کو براہ راست وزیر اعظم اندرا گاندھی کی طرف موڑا اور کانگریس کے خلاف ایک ہتھیار بنا لیا۔ انہوں نے اندرا گاندھی پر الزام لگایا کہ ان کو مسلمانوں کی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں، چاہے وہ برہم پتر کے میدان ہوں یا کشمیر کی وادیاں۔ یوں نیلی کشمیر میں بطور خبر نہیں، بلکہ انتخابی ہتھیار کے استعارے کے بطور داخل ہوا۔
حال ہی میں جب آسام حکومت نے 1983 کے قتل عام سے متعلق دو تحقیقی رپورٹوں کو اسمبلی کے سامنے پیش کیا، تو چالیس سال قبل کے واقعات جیسے ایک فلم کی طرح میری نظروں کے سامنے سے گزررہے تھے۔
اسمبلی میں پیش کی گئی ایک رپورٹ ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ٹی پی تیواری نے مئی 1984 میں تیار کی تھی۔اس کے زرد صفحات، کناروں سے بھربھرے، نرم کاغذ پر ٹائپ شدہ، متن آج بھی زخموں کی طرح چبھ رہا ہے۔اس کے صفحہ 312 میں بتایا گیا ہے کہ 18 فروری 1983 کی صبح سے دوپہر تک صرف چار گھنٹوں میں ہی 2,072 افراد قتل ہوئے۔
یہ سبھی بنگالی بولنے والے مسلمان تھے۔ لیکن بچ جانے والوں نے ہمیشہ کہا کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔
رپورٹ کے مطابق نوگاوں ضلع کے 14 مقامات متاثر ہوئے تھے۔ ان میں الیسنگا، کھولا پتھر، بسندھری، بگڈوبا بیل، بگڈوبا ہابی، بور جولا، بٹونی، دونگابوری، انڈرماری، مٹی پربت، مولادھاری، سل بھیٹا، بربوری اور خود نیلی شامل تھے۔
کئی برسوں بعد جب میں صحافت کے میدان میں آیا اور کئی بار آسام کا دورہ کرنا پڑا، تو مقامی افراد نے مجھے بتایا کہ مہلوکین کی تعداد دس ہزارسے اوپر تھی۔
کئی ہزار افراد لاپتہ ہو گئے تھے۔ زندہ بچے لوگوں نے بتایا 18 فروری 1983 کی صبح، نیلی میں زندگی عام دنوں کی طرح رواں تھی۔ دھان کے کھیتوں میں مویشی چر رہے تھے، گھروں میں چولہے سلگ رہے تھے، بچے مرغیاں دوڑا رہے تھے۔ چند گھنٹوں بعد یہی کھیت لاشوں سے بھرے پڑے تھے۔ مائیں بچوں کو پشت پر باندھ کر بھاگ رہی تھیں۔ گاؤں کے گاؤں جلائے گئے۔
رپورٹ اسی کی تصدیق کرتی ہے کہ حملہ آور کئی سمتوں سے داؤں، نیزوں، بندوقوں اور آتش گیر مادوں سے لیس ہو کر آئے۔ فرار کے راستے بند کر دیے گئے تھے اور یہ حملہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تھا۔ الیسنگا کی ایک بوڑھی عورت نے کہا؛
پہلے سیٹیوں کی آواز آئی،پھر دریا کی طرف سے ٹارچ کی جھلک نمودار ہوئی اور پھر وہ آ گئے۔
اس دن نیلی کی سانسیں رک گئیں۔طلوع آفتاب سے کچھ پہلے، جب دھان کے کھیتوں پر ابھی کہر بکھری تھی، منظم گروہوں نے مسلمان آبادیوں کو گھیر لیا۔کچھ دریا کی طرف سے آئے، کچھ برہمپور روڈ سے، کچھ کیلے کے جھاڑی دار قطاروں کے اندر سے، کچھ پشتوں کے ساتھ ساتھ۔
رپورٹ میں درج ہے کہ حملہ آوروں کے درمیان سیٹیوں کے ذریعے اشاروں کا نظام تھا۔ کب بڑھنا ہے، کب رکنا ہے۔
رپورٹ کے صفحہ 157 میں بتایا گیا ہے کہ کئی گھروں پر پہلے ہی نشانات لگا دیے گئے تھے۔ عورتیں گھسیٹ کر باہر نکالی گئیں۔ شیر خوار بچوں کو کاٹ دیا گیا۔ جھونپڑیوں کو اندر سے بند کر کے آگ لگا دی گئی۔
رپورٹ میں شامل بیانات بتاتے ہیں کہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے گئے، بھاگتے ہوئے بچوں کو دھان کے کھیتوں میں گولیوں سے بھون ڈالا گیا، اور کئی نوزائیدہ بچوں کو تالابوں میں پھینک دیا گیا۔
کئی دیہاتوں میں دس برس سے زیادہ عمر کا کوئی بچہ زندہ نہیں بچا۔ لاشیں ایسے بچھی تھیں جیسے کٹائی کے بعد کھلیان میں پڑا اناج ہو۔ دریا کا پانی سرخ ہو گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق پولیس کی تعیناتی ناکافی تھی، حالانکہ پہلے سے خفیہ رپورٹیں موجود تھیں کہ حالات بگڑ سکتے ہیں۔جب پولیس نیلی پہنچی تو گاؤں راکھ ہو چکے تھے۔
لاشیں دریاکے کناروں پر ڈھیر تھیں اور جو بچے تھے، وہ سہمے ہوئے تھے۔بچنے والے زیادہ تر نوعمر بچے تھے جنہیں خود بھی کچھ سمجھ نہ تھی کہ انہوں نے کیا دیکھا۔
سرکاری قافلے لاشیں ٹریکٹروں پر، بانس کی چارپائیوں پر ڈھوتے رہے۔ زندہ اور لاپتہ افراد کی فہرستیں مرتب ہوئیں۔ امداد کے اعلان ہوئے۔ ریلیف کیمپ قائم ہوئے۔
The Commission of Enquiry by The Wire
تیواری کمیشن نے براہ راست سیاسی عہدیداروں پر انگلی نہیں اٹھائی، مگر ابہام کی کوئی جگہ بھی نہیں چھوڑی۔ رپورٹ کے مطابق آسام اسٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو)اور آسام گنا پریشد(اے اے جی پی) کی ایجی ٹیشن اور انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل سے یہ قتل عام پیش آیا۔
ریاست نے 688 ایف آئی آر درج کیں۔ سینکڑوں نام شامل ہوئے۔ 2,091 گواہوں نے بیان دیا، جن میں وہ خواتین بھی تھیں جن کے خاندان کا ایک بھی فرد زندہ نہیں بچا تھا۔ لیکن ایک شخص بھی سزا نہیں پایا۔1985 میں وزیر اعظم راجیو گاندھی اور آسام گنا پریشد کے درمیان طے پائے گئے آسام معاہدے کے بعد، تقریباً تمام مقدمے ‘امن مفاہمت’کے نام پر خاموشی سے واپس لے لیے گئے۔
رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ سیاسی ضرورت کے تحت مقدمات کی واپسی نے قانونی انصاف کا امکان ختم کر دیا۔کوئی عدالتی رپورٹ سامنے نہ آئی۔ کوئی سزا نہ ہوئی۔ سینکڑوں ایف آئی آر درج ہوئیں مگر کوئی مقدمہ آخری مرحلے تک نہ پہنچا۔ آسام ایکارڈ کے بعد تقریباً تمام کیس واپس لے لیے گئے اور ملزم آزاد گھومتے رہے۔
قومی سطح پر مذمت ہوئی مگر حکومت اور دہلی میں کوئی عدالتی کمیشن قائم نہ ہوا۔ ایک بیوروکریٹ پر تحقیق کی ذمہ داری چھوڑ دی گئی، جس کی رپورٹ عوام تک اب چالیس سال بعد پہنچی ہے۔ ساتھ ہی ایک غیر سرکاری تحقیقاتی کمیشن آسام راجیک فریڈم فائیٹرز ایسو سی ایشن نے قائم کیا، جس کی سربراہی جسٹس ٹی یو مہتا، سابق چیف جسٹس ہماچل پردیش ہائی کورٹ نے کی۔
اس کمیشن میں ان کے ساتھ جی سی پھوکان،ریٹائرڈ آئی اے ایس اور پروفیسر ریحان شاہ شامل تھے۔مہتا کمیشن نے آتش زدہ گاؤں دیکھے، اجتماعی قبروں کے نشانات دیکھے، ریلیف کیمپوں کی فہرستیں جمع کیں، 600 سے زائد زبانی گواہیاں قلمبند کیں اور چھ ہزار سے زائد میمورنڈم حاصل کیے۔
گاؤں کے لوگوں نے کمیشن کو بتایا کہ آسامیہ اور بنگالی بولنے والے برسوں ساتھ رہے۔ کھیتی باڑی مشترک، تہوار جدا مگر احترام باہم۔ نہ دشمنی نہ نفرت۔دراڑ تب پڑھی جب 1983 کے انتخابات کا اعلان ہوا۔
اس وقت جب آسام میں غیر آسامیوں کے خلاف تحریک زوروں پر تھی اور بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا تھا، تو حکومت نے بنگالی آبادی کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی۔ یہ بارود کو چنگاری دکھانے کے مترادف تھا۔ حکومت نے ان کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب تو دی، مگر ان کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔
رپورٹ 13 اور 15 فروری 1983 کے دو حملوں کا اندراج کرتی ہے جن میں مسلمان اور آسامیہ بستیوں میں گھروں کو آگ لگی، مال مویشی لوٹے گئے، خوف سے عورتیں اور بچے میکر بھٹا منتقل کیے گئے۔
مگر پولیس کی نفری نہ بڑھی، نہ سرکار نے خطرہ محسوس کیا۔مہتا کمیشن کے مطابق صبح سویرے مسلح جتھوں نے مسلمان اکثریتی گاؤں گھیر لیے۔حملہ آور نیزوں، داؤں، بندوقوں، کیروسین اور بانس کے تیز ڈنڈوں سے لیس تھے۔ پہلے گھروں میں آگ لگائی گئی تاکہ عورتیں اور بچے باہر آئیں، پھر انہیں راستوں ہی میں کاٹ ڈالا گیا۔ بھاگنے والے تالابوں اور دھان کے پانی بھرے کھیتوں میں گرتے۔
کئی بچوں کو اونچے بانسوں پر اچھال کر پھینک دیا گیا۔کمیشن ایک جگہ پہنچا جہاں 585 افراد کی اجتماعی قبر کی نشاندہی ہوئی۔ کپڑوں، چوڑیوں، دانتوں سے شناخت ہوئی۔ مگر کئی نام ہمیشہ کے لیے گم ہو گئے۔
گواہوں میں ایک نام ریحانہ خاتون کا ہے۔ قتلِ عام کے وقت اس کی عمر صرف تیرہ برس تھی۔ اُس نے بتایا کہ وہ گھنٹوں تک دھان کے پانی بھرے کھیت میں مردہ جسموں کے درمیان پڑی رہی۔ جب وہ نکلی تو اپنی ماں کو پاس میں مردہ پایا، ایک بازو کٹا ہوا، اور اپنے بھائی کہیں دکھائی نہ دیے۔ ریحانہ نے کبھی شادی نہیں کی۔ایک اور گواہی عبدالغفور کی ہے، جس نے اپنی بیوی، والد اور تین بیٹیوں کو کھو دیا۔ اُس نے کہا؛
پہلے آگ لگی، پھر چیخیں، پھر صرف خاموشی باقی رہ گئی۔
وہ آج بھی اسی جگہ بانس کی جھونپڑی میں رہتا ہے جہاں کبھی اس کا گھر تھا۔
مہتا رپورٹ میں آسامیہ گواہوں کے بیانات بھی شامل ہیں۔ گواہ 254، جوگیسور ناتھ نے کہا کہ اس نے پورے محلے جلتے دیکھے۔ نہ اسکول بچا، نہ مسجد۔ انتقام نے انسانیت کا چہرہ پہچاننا چھوڑ دیا تھا۔ قتل، مذہب یا قومیت کے نام پر نہیں۔ ایک اجتماعی جنون کے طور پر ہوا۔
کئی ملزمان وہیں رہتے رہے۔ کچھ نے الیکشن بھی لڑے۔ ٹی پی تیواری رپورٹ اور مہتا کمیشن، دونوں ایک ہی نتیجے پر پہنچے کہ 1983 کا انتخاب کسی سیاسی عمل کے بغیر ایسی فضا میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔انتباہ کو نظر انداز کیا گیا۔ انتخابی عمل نے فسادات کو بھڑکایا۔
چالیس برس بعد، نیلی اب بے نام نہیں۔دونوں کمیشنوں کی رپورٹ اب عوام کے سامنے ہیں۔گواہیاں محفوظ ہیں۔لیکن انصاف اب بھی غائب ہے۔زندہ بچ جانے والوں نے صرف اپنے عزیز نہیں کھوئے، انہیں خاموشی کا بوجھ بھی دیا گیا۔مقدمات واپس ہو گئے،فائلیں غائب ہوئیں۔ثبوت موجود ہے، جرم موجود ہے، مگر انصاف غائب ہے۔
جب بیگ نے سوپور میں نیلی کی تصویریں لہرا کر دکھائیں اور جب فاروق عبداللہ نے اسے کانگریس کے خلاف ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، تو نیلی خبر نہیں رہی تھی۔
وہ وادی کے لیے وارننگ بن چکی تھی۔ ایک آئینہ، جس میں کشمیر نے اپنا ممکنہ مستقبل دیکھا۔آسام کوئی دور دراز سرزمین نہیں تھی۔ وہ ایک امکان تھی۔ ایک اندیشہ، جو کل کو حقیقت بن سکتا تھا۔
نیلی کے قتل عام کی پردہ پوشی اور نیشنل کانفرنس سے دو ہاتھ کرنے کے لیے 1983 کے اسمبلی انتخابات میں اندرا گاندھی نے جموں خطے میں بھرپور انتخابی مہم چلائی اور بار بار یہ تاثر دیا کہ ‘مسلمانوں کی آمد’ آبادی کا تناسب بدل سکتی ہے۔
انہوں نے نیشنل کانفرنس کے منظور کردہ ری سیٹلمنٹ بل کو مثال بنا کر پیش کیا، جس کے مطابق 1954 سے پہلے پاکستان منتقل ہونے والے لوگ واپس آکر اپنی جائیداد کا حق لے سکتے تھے۔یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی۔
کانگریس نے ہندو اکثریتی حلقوں میں بڑا فائدہ اٹھایا اور 26 نشستیں جیتیں، جبکہ نیشنل کانفرنس 46 نشستوں کے ساتھ مسلم اکثریتی علاقوں میں غالب رہی۔ 1983 کا انتخاب یوں آنے والی دہائیوں کے لیے کشمیر اور جموں کے لیے سیاسی صف بندی کا سانچہ بن گیا۔
نیلی نے انتخابی مہم بدلی۔ یادداشتیں بدلی۔ بے اعتباری کی چھاپ چھوڑ دی۔چالیس سال بعد سوال اب یہ نہیں کہ نیلی میں کیا ہوا؟بلکہ یہ کہ ہندوستان اب اس کھلے سچ کے ساتھ کیا کرےگا؟
اگر نیلی کے قاتل سزا پاتے، تو 1984 کا سکھ مخالف قتل عام شاید نہ ہوتا۔ اور اگر سکھوں کے قاتلوں کو فوری سزا ملتی، تو 2002 کے گجرات کے مسلم کش فسادات شاید نہ ہوتے۔ یہ صرف تاریخ نہیں، بلکہ سبق ہے۔

نئی دہلی: تمام نئے موبائل فون میں سرکاری سائبر سکیورٹی ایپ ‘سنچار ساتھی’ کو پہلے سے انسٹال کرنے اور اسے ہٹانے کی اجازت نہ دینے کی وزارت مواصلات کی ہدایات کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج کے درمیان ، مرکزی وزیر مواصلات جیوترادتیہ سندھیا نے کہا ہے کہ یہ ایپ اختیاری ہوگا۔
پارلیامنٹ کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سندھیا نے کہا،’یہ ایپ جاسوسی یا کال مانیٹرنگ نہیں کرتا۔ آپ اسے اپنی مرضی سے چالو یا بند کر سکتے ہیں۔’
انہوں نے مزید کہا،’اگر آپ سنچار ساتھی نہیں چاہتے، تو آپ اسے ڈیلیٹ کر سکتے ہیں۔ یہ اختیاری ہے… یہ صارفین کی سکیورٹی کے بارے میں ہے۔ میں تمام خدشات کو دور کرنا چاہتا ہوں… یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس ایپ کو ہر کسی کے لیے قابل رسائی بنائیں۔ اسے اپنے فون میں رکھنا ہے یا نہیں یہ صارف پر منحصر ہے… اسے کسی بھی دوسری ایپ کی طرح ہٹایا جا سکتا ہے۔’
#WATCH | Delhi | “… If you don’t want Sanchar Sathi, you can delete it. It is optional… It is our duty to introduce this app to everyone. Keeping it in their devices or not, is upto the user…,” says Union Minister for Communications Jyotiraditya Scindia. pic.twitter.com/iXzxzfrQxt
— ANI (@ANI) December 2, 2025
سندھیا نے اپنے سوشل میڈیا ہینڈل پر اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے، ‘ملک کے ہر شہری کی ڈیجیٹل سیکورٹی ہماری اولین ترجیح ہے۔ ‘سنچار ساتھی’ ایپ کا مقصد ہر کسی کو اپنی پرائیویسی کو محفوظ رکھنے اور آن لائن فراڈ سے محفوظ رہنے کے قابل بنانا ہے۔ یہ مکمل طور پر رضاکارانہ اور جمہوری نظام ہے- صارفین ایپ کو چالو کر سکتے ہیں، اور اگر وہ چاہیں تو اپنے فون سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اگر وہ چاہیں تو اسے ڈیلیٹ کر سکتے ہیں یا آسانی سے اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ کسی بھی وقت … یہ اقدام تحفظ، شفافیت، اور کسٹمر فرسٹ کے نقطہ نظر کو مضبوط بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔’
देश के हर नागरिक की डिजिटल सुरक्षा हमारी सर्वोच्च प्राथमिकता है। ‘संचार साथी’ ऐप का उद्देश्य है कि प्रत्येक व्यक्ति अपनी निजता की रक्षा कर सके और ऑनलाइन ठगी से सुरक्षित रह सके।
यह एक पूरी तरह स्वैच्छिक और लोकतांत्रिक व्यवस्था है-यूज़र चाहें तो ऐप को सक्रिय कर इसके लाभ ले सकते…
— Jyotiraditya M. Scindia (@JM_Scindia) December 2, 2025
لیکن جب سندھیا نے کہا کہ ایپ اختیاری ہوگا، سوموار کو جاری پی آئی بی کی ریلیز نے 28.11.2025 کو محکمہ ٹیلی کمیونی کیشن کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں استعمال ہونے والے موبائل ہینڈ سیٹ بنانے اور درآمد کرنے والی کمپنیوں کے لیے ایپ کو پری-انسٹال رکھنا اور اسے غیر فعال ہونے کی اجازت نہیں دینا لازمی ہے۔
پی آئی بی کی ریلیز میں کہا گیا ہے، ‘اس بات کو یقینی بنائیں کہ پہلے سے انسٹال کیا گیا سنچار ساتھ ایپ فون کے پہلے یا ڈیوائس سیٹ-اپ کے وقت صارف کے کو واضح طور پر نظر آئے اور آسانی سے کھولا جا سکے، اور اس کی کسی بھی سہولت کو بند یا محدود نہ کیا جائے۔’

یعنی وزیر جیوترادتیہ سندھیا کا یہ دعویٰ کہ ایپ اختیاری ہے، اس کی صداقت پر شبہ ہے، کیونکہ سرکاری ہدایات کے مطابق ہی صارفین کو سنچار سارتھی ایپ کو ڈیلیٹ نہیں کر سکتا۔ ان کا کہنا کہ ‘اگر آپ اسے نہیں چاہتے تو اسے حذف کر سکتے ہیں یا’یہ اختیاری ہے’ یا تو غلط معلومات ہیں یا پبلک کوری-ٹریکٹ کی کوشش۔ حقیقت میں، یہ حکم کے تحت لازمی ہے۔
صحافی نکھل پاہوا نے لکھا ہے ،’یہ وہی نہیں (وزیر کا بیان) ہے جو ہدایت میں کہا گیا ہے۔ پوائنٹ 7 (بی) (ہدایت کے) کو دیکھیں۔ لہذا، وہ یا تو جھوٹ بول رہے ہیں یا پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ٹیلی کمیونی کیشن کے محکمے کو اس حکم کو رد کردینا چاہیے۔’

میرٹھ سٹی جنکشن ریلوے اسٹیشن کا سائن بورڈ۔(تصویر بہ شکریہ: روی دویدی/وکی میڈیا کامنز)
نئی دہلی: اترپردیش کے شہر میرٹھ میں ایک مسلمان کے ہندو خاندان سے گھر خریدنے کے سودے نے نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ مقامی ہندو گروپوں نے اس کو لے کرپولیس تھانے اور بعد میں تھاپر نگر میں واقع گھر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کیا۔
اس دوران، ہندو تنظیموں نے ‘ہندوؤں کی نقل مکانی’کو روکنے کا عہد کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جائیداد کی رجسٹریشن رد کی جائے اور اگر اس کو فروخت ہی کیاجائے تو صرف غیر مسلم کو فروخت کیاجائے۔
قابل ذکر ہے کہ یہ تنازعہ اتوار (30 نومبر) کو اس وقت مزید بڑھ گیا، جب پاس کے گرودوارہ کے باہر اسکوٹر پر سوار دو نامعلوم افراد نے گوشت کے ٹکڑے پھینک دیے۔
مقامی ہندوتوا رہنما سچن سروہی کے مطابق، یہ کام ودھرمیوں (غیر ہندوؤں کے لیے استعمال ہونے والی توہین آمیز اصطلاح) کا ہے۔
اس سلسلے میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، کرائم برانچ، میرٹھ پولیس، آیوش سنگھ نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ گرودوارہ کے قریب زیر تعمیر عمارت سے گوشت ملا ہے۔
ان کے مطابق، ‘ابتدائی تفتیش سے پتہ چلتا ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لیے نامعلوم افراد نے جان بوجھ کر گوشت پھینکا۔’
بڑھتی ہوئی کشیدگی اور انتظامیہ کی جانب سے امن و امان کی اپیل کے درمیان، گھر خریدنے والے مسلمان سعید احمد کو دل کا دورہ پڑا اور انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اس وقت وہ میرٹھ کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
‘ اپنی ساری جمع پونجی لگا دی ‘
دراصل 26 نومبر کو 40 سالہ سعید احمد نے میرٹھ کے تھاپر نگر میں وینا کالرا اور ان کے بیٹے انوبھو کالرا سے ایک مکان خریدا ۔
قابل ذکرہے کہ تھاپر نگر ایک پوش کالونی ہے، جہاں زیادہ تر سکھ اور ہندو آباد ہیں۔ سعید نے کالرا خاندان کو 1.46 کروڑ روپے ادا کیے اور مقامی ہندوتوا گروپوں کی مخالفت کے باوجود فوری طور پر اپنے خاندان کے ساتھ وہاں رہنے چلے گئے۔
سعید کے بھائی شاہ روز نے دی وائر کو بتایا،’اس پراپرٹی کو خریدنے کے لیے انہوں نے بھاری قرض لیا تھا۔ ہمارے محلے میں ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ یہ گھر ان کے پرانے کاروبار کےپاس تھا، اس لیے انہوں نے اپنی ساری بچت اس پراپرٹی کو خریدنے کے لیے خرچ کر دی ۔’
شاہ روز نے دی وائر کو بتایا کہ سعید اور انوبھو کے والد نریش (گھر کے سابق مالک) دونوں ایک ہی کاروبار کرتے تھے اور کبھی بی جے پی سے وابستہ تھے۔
یہ سعید کے لیے ایک منافع بخش سودا تھا، کیونکہ کالرا خاندان دودھ کا ہول سیل ڈیلر تھا۔ ان کے بھائی نے کہا،’انہوں نے سوچا تھاکہ چونکہ وہ باہر جا رہے ہیں، اس لیے انہیں کالرا کے پرانے گاہک مل جائیں گے۔’
یہ کالرا خاندان کے لیے بھی اتنا ہی منافع بخش تھا۔ انوبھو اور وینا کے ایک حلف نامے کے مطابق، کئی مہینوں تک اپنی جائیداد بیچنے کی کوشش کے بعد، آخر کار انہوں نے اسے سعید کو بیچنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہوں نے انہیں مکان کی اچھی قیمت کی پیشکش کی۔
اس میں کہا گیا ہے کہ کچھ لوگوں نے مسلمانوں کو جائیداد کی فروخت پر اعتراض کیا تھا، لیکن پراپرٹی کا مالک ہونے کے ناطے انہیں خریدار کی شناخت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
ان کے مطابق،’یہ ہماری ذاتی جائیداد ہے اور جو بھی مانگی ہوئی رقم ادا کرے گا ہم اسے فروخت کر دیں گے اور ہم فوری طور پر قبضہ خریدار کے حوالے کر دیں گے۔’
‘مسلمانوں کو انصاف نہیں’
تاہم، جائیداد کی یہ معمولی فروخت اب فرقہ وارانہ تنازعہ میں تبدیل ہو رہی ہے اور اس نے علاقے میں امن و امان کی سنگین صورتحال پیدا کر دی ہے۔
شاہ روز نے وضاحت کی کہ جائیداد کی چابیاں تین ماہ سے مقامی ایم ایل اے امت اگروال کے پاس تھیں، کیونکہ کالرا خاندان کو امید تھی کہ وہ ایک اچھا سودا حاصل کرنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ جب وہ سودا کروانے میں ناکام رہے تو سعید نے انوبھو کوپیسے دے کر گھر لے لیا۔
دی وائر نے اس معاملے کے تعلق سے مقامی ایم ایل اے امت اگروال سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ تبصرہ کے لیے دستیاب نہیں ہوئے۔
شاہ روز نے مزید کہا،’ہم نے ابھی تک کوئی شکایت درج نہیں کرائی ہے، لیکن اگر میرے بھائی کو کچھ ہوا تو سچن سروہی ذمہ دار ہوں گے۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیوں کہ مسلمانوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر
نئی دہلی: نریندر مودی حکومت کی جانب سے موبائل فون بنانے والی اور درآمد کرنے والی کمپنیوں کے لیے یہ لازمی کرنے کی خبر کہ وہ تمام نئے فون میں حکومت کا سائبر سکیورٹی ایپ ‘سنچار ساتھی’ پری-انسٹال کریں اور سب سے اہم، یہ یقینی بنائیں کہ صارفین اسے ڈیلیٹ نہ کر سکیں، فطری طور پر ہندوستانی شہریوں کی پرائیویسی کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دے رہی ہے۔
کئی لوگوں نے کہا کہ یہ ‘آرویلین سرولانس’ جیسا قدم ہے ، کیونکہ اس کے ذریعے حکومت آپ کی ہر سرگرمی پر نظر رکھ سکتی ہے۔
حکومت کے کچھ دیرینہ حامیوں نے سنچار ساتھی ایپ کو لازمی قرار دینے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ قانون کی پابندی کرنے والے ہندوستانیوں کے پاس اپنی حکومت سے چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن سپریم کورٹ کے پٹاسوامی فیصلے نے پرائیویسی کو ایک بنیادی حق تسلیم کیا ہے ، توسوال پیدا ہوتا ہے کہ جن معاملات میں حکومت ہمارا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے، کیا وہ احترام کے ساتھ اس کی حفاظت کرنے میں کامیاب رہی ہے؟
اس معاملے میں اوسط ہندوستانیوں کا اعتماد اس قدر ختم ہو چکاہے کہ اب ڈیٹا لیک ہونا ان کے لیے باعث تشویش بھی نہیں ہے۔ لوکل سرکلز کے سروے میں 375 اضلاع میں 36000 شہریوں میں سے 87فیصد نے کہا کہ ان کے ذاتی ڈیٹا کا کوئی نہ کوئی حصہ پہلے سے ہی پبلک ڈومین میں ہے یا کسی نہ کسی غیر محفوظ ڈیٹا بیس میں موجود ہے۔
ایک رپورٹ میں پایا گیا کہ ہندوستان 2025 کی پہلی سہ ماہی میں رینسم ویئر کے حملوں کا نشانہ بننے والے سرفہرست پانچ ممالک میں شامل تھا ، جہاں حملوں میں سال بہ سال 126 فیصد کااضافہ درج کیا گیا۔ ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان 2024 میں امریکہ کے بعد سائبر کرائم کے لیے دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ نشانہ بننے والا ملک رہا۔ مرکزی حکومت نے خود تسلیم کیا ہے کہ ہندوستان میں سائبر سیکورٹی کے واقعات 2022 میں 10.29 لاکھ سے بڑھ کر 2024 میں 22.68 لاکھ ہو گئے۔
حکومت سے توقعات ویسے بھی کم ہیں، لیکن یہاں کچھ اہم مثالیں پیش کی جا رہی ہیں، جہاں ہندوستانیوں کا حکومت کے پاس رکھا گیا ڈیٹابریچ یا لیک پایا گیا۔
سال 2018: ‘500 روپے میں آدھار کی تفصیلات‘
سال2018میں دی ٹریبیون نے رپورٹ کیا کہ اس کی ایک صحافی نے وہاٹس-ایپ کے ذریعے ایک ایجنٹ کو پیسے دے کر ایسا گیٹ وے ایکسس خریدا، جس کے ذریعےایک ارب سے زیادہ آدھار نمبروں سے متعلق ذاتی تفصیلات تک بنا کسی روک ٹوک کے رسائی ممکن تھی۔ یہ معلومات صرف 500 روپےمیں فروخت کی جا رہی تھیں۔
دی ٹریبیون کی صحافی آدھار ڈیٹا بیس تک رسائی دینے والی لاگ-ان معلومات خریدنے میں کامیاب رہی۔ جس کے بعد وہ زیادہ تر ہندوستانیوں کے نام، فون نمبر اور گھر کے پتے جیسی معلومات نکال سکتی تھی۔ صرف 300 روپے اور دینے پر ایسا ‘سافٹ ویئر’ بھی مل جاتا تھا، جس کی مدد سے کسی بھی آدھار نمبر والےشخص کا آدھار کارڈ پرنٹ کیا جا سکتاتھا۔
رپورٹ شائع ہونے کے دو دن بعد، 5 جنوری، 2018 کو، یو آئی ڈی اے آئی کے لاجسٹک اور شکایات کے ازالے کے محکمے کے ملازم بی ایم پٹنائک نے صحافی رچنا کھیرا اور رپورٹ میں مذکور دو دیگر افراد — انل کمار اور سنیل کمار کے خلاف شکایت درج کرائی۔ شکایت میں الزام لگایا گیا کہ صحافی نے دو نوں ‘ایجنٹوں’ سے خدمات خرید کر یو آئی ڈی اے آئی کے پاس موجودایک ارب سے زیادہ لوگوں کے کے ڈیٹا تک غیر محدود رسائی حاصل کی ۔
دہلی کرائم برانچ، جو اس کیس کی تحقیقات کر رہی تھی، نے 2021 میں دہلی کی ایک عدالت میں کلوزر رپورٹ داخل کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی مزید تفتیش کے لیے خاطر خواہ ثبوت نہیں ہیں۔
سال 2023: کو-ون ڈیٹا لیک
سال 2023کاکو-ون ڈیٹا لیک ہندوستان میں ہوئے سب سے بڑے ڈیٹا لیک میں سے ایک تھا۔ خبروں کے مطابق، کووڈ-19 کا ٹیکہ لگوانے والے ہندوستانیوں کا ڈیٹاکو-ون ایپ اور پورٹل سے لیک ہوکر ٹیلی گرام پر دستیاب ہو گیا تھا۔
کووڈ19 ٹیکہ کاری کا ریکارڈ رکھنے اور آس پاس کے انفیکشن کے معاملوں کا پتہ لگانے میں مدد کے لیے مودی حکومت نےکو-ون آن لائن پلیٹ فارم کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا تھا ۔
ٹیلی گرام باٹ پر دستیاب کرائی معلومات میں نام، جنس، تاریخ پیدائش، آدھار نمبر، پین نمبر، پاسپورٹ نمبر، ووٹر آئی ڈی نمبر اور جس ٹیکہ کاری مرکز پر شخص نے ٹیکہ لگوایا تھا، اس کی جانکاری شامل تھی۔
حکومت نے ان تمام رپورٹوں کو ‘بے بنیاد اور گمراہ کن’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ حکومت نے کہا کہ وزارت صحت کا پورٹل ‘مکمل طور پر محفوظ ہے اور ڈیٹا کی رازداری کو یقینی بنانے کے لیے اس میں تمام ضروری حفاظتی اقدامات موجود ہیں ۔’
حکومت نے کہا کہ انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سی ای آر ٹی-آئی این) کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹیلی گرام باٹ کا بیک اینڈ ڈیٹا بیس ‘سیدھےکو-ون ڈیٹا بیس کی اے پی آئی ایس تک ایکسس نہیں کر رہا تھا۔’
اسی سال بعد میں، ایم پی ڈین کوریاکوس کے سوال کے جواب میں، مرکزی وزیر مملکت برائے صحت ایس پی سنگھ بگھیل نے کہا کہ سی ای آر ٹی-آئی این نے بتایا ہے کہ ‘کو-ون مستفید ڈیٹا بیس سے کوئی بڑی مقدار میں ڈیٹا ڈاؤن لوڈ نہیں کیا گیا ۔’ بگھیل نے انہی تحفظات کا اعادہ کیا جو حکومت نے چھ ماہ قبل اپنے بیان میں بیان کیے تھے۔
جواب میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کیا واقعی کوئی ڈیٹا لیک ہوا تھا، بھلے ہی بڑے پیمانے پر ڈیٹا ڈاؤن لوڈ نہ کیا گیاہو۔
ایک ڈیجیٹل تھریٹ اینالسس کمپنی کے سی ای او نے اسکرول کو بتایا ، ‘کسی ترقی یافتہ ملک کی حکومت اس حد تک ڈیٹا لیک کے بعدٹک نہیں پاتی۔ ہندوستان میں لوگ اب بھی اسے ہلکے سے لے رہے ہیں۔’
سال2023: آئی سی ایم آر ڈیٹا لیک
سال 2023میں، انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کی ویب سائٹ سے 81 کروڑ سے زیادہ لوگوں کا ذاتی ڈیٹا لیک ہو گیا اور ڈارک-ویب پر 80,000 ڈالر میں فروخت کے لیے ڈال دیا گہا۔ یہ تفصیلات کووڈ19 ٹیسٹوں کے دوران جمع کیے گئے ڈیٹا سے تھیں، جنہیں نیشنل انفارمیٹکس سینٹر (این آئی سی)، آئی سی ایم آر اور مرکزی وزارت صحت کو بھیجی جاتی ہیں۔
اکنامک ٹائمز نے رپورٹ کیا تھا کہ ڈیٹا لیک ہونے کا پتہ امریکی سائبر سکیورٹی اور انٹلی جنس فرم ریسکیوریٹی نے لگایا۔ ان کے مطابق، ‘9 اکتوبر کو، ‘پی ڈبلیو این0001’نامی ایک ہیکر نے بریچ فورمز پر 81.5کروڑ ‘ہندوستانی شہریوں کے آدھار اور پاسپورٹ’ کے ریکارڈ فروخت کرنے کی پوسٹ ڈالی۔’
اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ تھی کہ نیوز 18 نے رپورٹ کیا تھاکہ اس سال فروری سے ہی آئی سی ایم آرپر کئی سائبر حملے کیے جا رہے تھے اور ‘مرکزی ایجنسیاں اور آئی سی ایم آردونوں ہی اس سے واقف تھے۔’
رپورٹ میں کہا گیا، ‘گزشتہ سال آئی سی ایم آر سرور کو ہیک کرنے کی 6000 سے زیادہ کوششیں کی گئیں۔’
اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ بروقت مناسب کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ اس وقت دی وائر میں سری نواس کوڈالی نے لکھا تھا؛
حقیقی سلامتی کے لیے ہندوستانیوں کو رازداری فراہم کی جانی چاہیے۔ اس کے بجائے ہمیں صرف ڈیٹا کے تحفظ کے نام پر سکیورٹی دی جا رہی ہے۔ لیکن ڈیٹا کی حفاظت کا یہ وعدہ بھی کھوکھلا ہے، کیونکہ سائبر سکیورٹی آپریشن کے لیے وسائل وقف نہیں کیے جا رہے ۔
سال 2024: ویب سائٹس پر حساس ذاتی معلومات کا انکشاف
گزشتہ سال ستمبر میں الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت نے اپنی پریس ریلیز میں کہا تھا کہ اسے پتہ چلا ہے کہ ‘کچھ ویب سائٹس ہندوستانی شہریوں کی حساس ذاتی طور پر قابل شناخت معلومات (پی آئی آئی)، جن میں آدھار اور پین کارڈ کی تفصیلات شامل ہیں ، کو اجاگر کر رہی تھیں۔’
وزارت نے یہ نہیں بتایا کہ کتنی جانکاری اجاگر ہوئی، کتنے لوگ متاثر ہوئے، یا یہ کتنا وسیع تھا۔
حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس نے اس معاملے کو ‘سنجیدگی سے’ لیا اور سائبر سکیورٹی اور ذاتی ڈیٹا کے تحفظ کو ‘سب سے زیادہ ترجیح’ قرار دیا۔ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ایسی ویب سائٹس کو بلاک کر دیا گیا ہے۔
حکومت نے بتایا کہ سی ای آر ٹی-آئ این کو ان ویب سائٹس میں ‘کچھ حفاظتی خامیاں’ ملی ہیں، اور انہیں اپنے نظام کو مضبوط کرنے اور کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے ‘رہنما خطوط’ دیے گئے ہیں۔ تاہم، اس نے یہ نہیں بتایا کہ کون سی ویب سائٹس اس میں شامل تھیں۔
ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سی ای آر ٹی -آئی این نے آئی ٹی ایپلی کیشن استعمال کرنے والی تمام تنظیموں کے لیے ‘سیکیور ایپلی کیشن ڈیزائن، ڈیولپمنٹ، امپلی مینٹیشن اور آپریشنز’کے لیے رہنما خطوط جاری کیے ہیں۔ اس کے علاوہ انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 2000 کے تحت معلومات کی حفاظت، روک تھام، ردعمل اور سائبر واقعات کی رپورٹنگ سے متعلق رہنما خطوط بھی جاری کیے گئے ہیں۔
حکومت نے متاثرہ افراد کو مشورہ دیا کہ وہ آئی ٹی ایکٹ کے تحت شکایات درج کرنے اور معاوضہ طلب کرنے کے لیے ریاستی آئی ٹی سکریٹریوں سے رابطہ کریں۔
تاہم، یہ بات قابل غور ہے کہ حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ یہ ڈیٹا کب تک عوامی طور پر دستیاب تھا اور کن ویب سائٹس پر تھا، جس کے باعث ان لوگوں کو کوئی معلومات یا مدد نہیں ملتی، جنہیں پتہ بھی نہیں تھا کہ ان کا ڈیٹا لیک ہو رہا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔