کانگریس کے سابق رہنما سجن کمار کو 1984 کے سکھ مخالف فسادات سے متعلق ایک کیس میں عمر قید کی سزا

دہلی کی ایک عدالت نے 1 نومبر کو کانگریس کے سابق رکن پارلیامنٹ سجن کمار کو 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے دوران ہوئے دو قتل کے ایک معاملے میں عمر قید کی سزا سنائی۔ وہ فی الحال فسادات سے متعلق ایک اور کیس میں تہاڑ جیل میں بند ہیں۔

دہلی کی ایک عدالت نے 1 نومبر کو کانگریس کے سابق رکن پارلیامنٹ سجن کمار کو 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے دوران ہوئے دو قتل کے ایک معاملے میں عمر قید کی سزا سنائی۔ وہ فی الحال فسادات سے متعلق ایک اور کیس میں تہاڑ جیل میں بند ہیں۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: ایلن ایلن/فلکر سی سی BY 2.0)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: ایلن ایلن/فلکر سی سی BY 2.0)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے منگل (25 فروری) کو کانگریس کے سابق رکن پارلیامنٹ سجن کمار کو 1984 کے سکھ مخالف فسادات سے متعلق قتل کے ایک مقدمے میں عمر قید کی سزا سنائی۔

یہ فیصلہ فسادات کے 40 سال بعد آیا ہے۔ سجن کمار اس وقت تہاڑ جیل میں بند ہیں، جہاں وہ پہلے ہی 1984 کے سکھ مخالف فسادات سے متعلق ایک اور کیس میں سزا کاٹ رہے ہیں۔

بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق،  خصوصی جج کاویری باویجا نے1 نومبر 1984 کو جسونت سنگھ اور ان کے بیٹے ترون دیپ سنگھ کے قتل کیس میں فیصلہ سنایا۔

عدالت نے استغاثہ اور شکایت کنندہ کی جانب سے کمار کو سزائے موت دینے کی درخواست مسترد کر دی۔ جج نے تسلیم کیا کہ کمار کے ذریعے کئے گئے جرائم وحشیانہ اور قابل مذمت تھے۔

انہوں نے کہا، ‘اس کے ساتھ ہی، کچھ ایسے عوامل ہیں جو، میری رائے میں، سزائے موت کے بجائے کم سزا کے حق میں ہیں۔ جیل حکام کی رپورٹ کے مطابق مجرم کا ‘تسلی بخش’ طرز عمل، وہ جن بیماریوں سے دوچار ہیں، یہ حقیقت کہ مجرم کی جڑیں معاشرے میں پیوست ہیں اور اس کی اصلاح اور بحالی کے امکانات مادی تحفظات ہیں جو میری رائے میں سزائے موت کے بجائے عمر قید کی سزا کے حق میں ہیں۔’

عدالت نے 12 فروری کو کمار کو جرم کے لیے مجرم قرار دیا تھا اور تہاڑ سینٹرل جیل سے ان کی ذہنی اور نفسیاتی تشخیص پر رپورٹ طلب کی تھی، جیسا کہ سزائے موت کے مقدمات میں سپریم کورٹ یہ رپور ٹ طلب کرتی  ہے۔

عدالت نے پہلے پایا تھا کہ کمار نے 1984 میں ایک ہجوم کو اکسایا تھا، جو لاٹھیوں اور لوہے کی سلاخوں جیسے مہلک ہتھیاروں سے لیس تھا۔ اپنے 12 فروری کے فیصلے میں، عدالت نے کہا تھا،’ملزم سجن کمار اس طرح کی غیر قانونی اسمبلی کا رکن ہونے کے ناطے، 1 نومبر 1984 کو ہونے والے فسادات کے دوران شکایت کنندہ پی ڈبلیو-13 کے شوہر اور بیٹے جسونت سنگھ اور ترون دیپ سنگھکے قتل کے مجرم ہیں۔’

استغاثہ کے مطابق ،1 نومبر 1984 کو مغربی دہلی کے راج نگر کے رہنے والے ایس جسونت سنگھ اور ان کے بیٹے ایس ترون دیپ سنگھ کو کمار کی قیادت میں ہزاروں لوگوں کے ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔

کیس میں ایف آئی آر شکایت کنندہ کے 9 ستمبر 1985 کے حلف نامے کی بنیاد پر درج کی گئی تھی، جس کی شناخت خفیہ رکھی گئی تھی۔

سال 2015 میں وزارت داخلہ (ایم ایچ اے) نے 1984 کے فسادات کے معاملے کی دوبارہ تفتیش کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی، جس کے بعد کیس میں شکایت کنندہ نے 23 نومبر 2016 کو اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ کمار کو اس معاملے میں 6 اپریل 2021 کو گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ وہ 1984 کے فسادات سے متعلق ایک اور کیس میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

استغاثہ نے الزام لگایا کہ کمار ایک ہجوم کی قیادت کر رہے  تھے اور انہوں نے غیر قانونی اسمبلی کو’بڑے پیمانے پر فسادات، آتش زنی اور لوٹ مار’ کے لیے اکسایا تھا۔

Next Article

کیا ذات پر مبنی مردم شماری پہلگام اور قومی سلامتی سے توجہ ہٹانے کا بہانہ ہے؟

ویڈیو: پہلگام دہشت گردانہ حملے کو لے کر قومی سلامتی سے متعلق سوالات کے درمیان مرکزی حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کی بات کہی ہے۔ کیا یہ بڑے سوالات سے توجہ ہٹانے کا طریقہ ہے؟ دی وائر کی مدیر سیما چشتی اور سینئر صحافی اوماکانت لکھیڑا کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔

Next Article

منی پور تشدد کے دو سال: ’حکومت واقعی امن چاہتی ہے تو ہمیں کتابیں دے، بندوق نہیں‘

تشدد سے متاثرہ منی پور میں ریلیف کیمپوں کی صورتحال اس قدر دلدوز ہے کہ کئی لوگ خودکشی کر چکے ہیں یا میڈیکل ایمرجنسی میں اپنی جان گنوا چکے ہیں ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف دو وقت کا کھانا فراہم کرنا کافی نہیں ہے، انہیں تشدد سے پہلے جیسی معمول کی زندگی واپس چاہیے۔

منی پور میں ریلیف کیمپ میں رہنے والے لوگ معمول کی زندگی کے منتظر ہیں۔ (تصویر: یاقوت علی)

منی پور میں ریلیف کیمپ میں رہنے والے لوگ معمول کی زندگی کے منتظر ہیں۔ (تصویر: یاقوت علی)

بشنو پور (منی پور): ایک بڑے ہال کو پتلے، بوسیدہ پردوں سے کئی چھوٹے کمروں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ہوا میں بدبو پھیلی ہوئی ہے۔ بہت بھیڑ ہے، اگر کہیں کہ سانس لینے کی بھی جگہ نہیں ہے، تو غلط نہ ہوگا ۔ اپنے گھروں سے نکالے گئےمیتیئی خاندان اب بشنو پور کے موئرانگ شہر کے موئرانگ کالج کے اس ہال میں رہنے کو مجبور ہیں، جہاں بڑی گہما گہمی ہے۔

اس کالج میں527 بے گھر لوگ تنگ حالات میں رہ رہے ہیں – جہاں صرف 15 بیت الخلاء ہیں۔ بنیادی سہولیات کی کمی نے صحت کے مسائل پیدا کر دیے ہیں اور آمدنی کا کوئی مستحکم ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ  پوری طرح سے سرکاری  امداد پر منحصر ہیں۔ ریلیف کیمپوں کی صورتحال اس قدر دلدوز ہے کہ کئی لوگ خودکشی یا میڈیکل ایمرجنسی میں اپنی جان گنوا چکے ہیں –  حالانکہ حکومت نے ابھی تک ان پر کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں۔

دی وائر نے ایسے ہی ایک سروائیور، 29 سالہ لوئیٹونگ بام ناناؤ سے بات کی، جو موئرانگ کے علاقے میں ایک ریلیف کیمپ میں رہتے ہیں۔ ناناؤ نے گزشتہ سال اپنے خاندان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کے بعد خودکشی کی کوشش کی تھی۔

انہوں نے دی وائر کو بتایا،’میرے بچوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ میں کما نہیں سکتا تھا اور میں اس بات  سے صدمے میں  تھا کہ ہماری زندگی پوری طرح سے کیسے بدل گئی ہے۔ مجھے لگا کہ میرے پاس اپنی جان لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔’

لوئیٹونگ بام ناناؤ منی پور کے ایک ریلیف کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ (تصویر: یاقوت علی)

لوئیٹونگ بام ناناؤ منی پور کے ایک ریلیف کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ (تصویر: یاقوت علی)

ناناؤ کو کیمپ کے نگراں نے بچایا، جس نے بعد میں اس طرح کی مزید کوششوں کو روکنے کے لیے اس کے کمرے سے پنکھا ہٹوا دیا۔ آج، ناناؤ اپنے خاندان کو زندہ رہنے میں مدد کرنے کے لیے اندرونی طور پر بے گھر افراد کے ساتھ کام کرنے والی این جی اوز کو کریڈٹ دیتے ہیں۔

موئرانگ شہر میں کئی امدادی کیمپ ہیں کیونکہ یہ کُکی اکثریتی چوڑا چاند پور کے قریب ترین علاقوں میں سے ایک ہے جہاں یہ میتیئی خاندان کبھی رہتے تھے اور تشدد کے بعد انہیں وہاں سےبھاگنا پڑا تھا۔

اعلیٰ قیادت کی یقین دہانیوں کے باوجود تشدد سے تباہ حال ریاست میں کوئی تبدیلی نہیں آئی

جب یہ رپورٹر 27 مارچ کی شام کو موئرانگ کالج پہنچا تو ریلیف کیمپ میں موجود ہر شخص اپنے اہل خانہ کے لیے رات کا کھانا لینےموئرانگ کالج کے مین گیٹ کی طرف دوڑ رہا تھا۔ کیمپ میں دال اور چاول ہی روزانہ کی خوراک ہیں۔ ہال میں داخل ہوتے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ کسی کو بھی کسی قسم کی سہولت نہیں مل رہی۔

یہ صرف ایک ریلیف کیمپ یا ایک شخص کی کہانی نہیں ہے۔ منی پور میں بے گھر ہونے والے ہر شخص کے پاس کچھ کھونے کی ایک کہانی اور ایک موہوم سی امید ہے  –  زندہ رہنے کی، اپنے گاؤں واپس لوٹنے کی اور حالات کے معمول پر آنے کی۔ پھر بھی،یہ امیدیں آنسوؤں میں بدل رہی ہیں کیونکہ اعلیٰ قیادت کی یقین دہانیوں کے باوجود تشدد سے تباہ حال ریاست میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ لوگ صرف سانس لے رہے ہیں، اصل میں جی  نہیں رہے ہیں۔

منی پور کے ایک ریلیف کیمپ میں بے گھر خاندانوں کو روزگار شروع کرنے میں مدد کرنے کے لیےایک این جی او کی طرف سے فراہم کردہ ہتھ کرگھا۔ (تصویر: یاقوت علی)

منی پور کے ایک ریلیف کیمپ میں بے گھر خاندانوں کو روزگار شروع کرنے میں مدد کرنے کے لیےایک این جی او کی طرف سے فراہم کردہ ہتھ کرگھا۔ (تصویر: یاقوت علی)

کاجل اور ان  کی فیملی کھانا کھا رہے ہیں۔ کاجل اپنے خاندان کے حالات کے بارے میں غصے اور اداسی کے ساتھ بولتی ہیں۔ ایک ہی جدوجہد کو بار بار دہرانے سے اس کے دکھ میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہیں اب یقین نہیں ہے کہ مدد کبھی ان  تک پہنچ پائے گی۔

کاجل کہتی ہیں،’میں نے ملک کے سب سے طاقتور لیڈروں میں سے ایک راہل گاندھی سے ملاقات کی، انہوں نے مجھے بتایا کہ حالات جلد بہتر ہو جائیں گے۔ میرے خاندان کے لیے کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔’

غور طلب ہے کہ 3 مئی 2023 سے پہلے کاجل کُکی اکثریتی چوڑا چاند پور میں رہتی تھیں۔ کُکی اب وادی امپھال تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے اور میتیئی پہاڑیوں پر نہیں جا سکتے، جس کی وجہ سے کاجل اپنے گھر سے پوری طرح سے کٹ گئی ہے۔

کاجل کہتی ہیں،’میری ملاقات راہل گاندھی سے 2023 میں ہوئی، جب میں بی اے کے پہلے سمسٹر میں تھی۔ میں نے انہیں اپنی جدوجہد کے بارے میں بتایا – اور صرف اپنی جدوجہد کے بارے میں نہیں، میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ چوڑا چاند پور کے حالات پر بھی توجہ دیں، کیونکہ میں جانتی تھی کہ وہاں بھی لوگوں کی تکالیف اتنی ہی شدید ہیں۔’

کاجل 2023 میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کے ساتھ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

کاجل 2023 میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کے ساتھ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

کاجل نے جس درد کا اظہار کیا ہے وہ صرف ان کاذاتی  دردنہیں ہے، یہ منی پور میں ہونے والے بڑے سانحے کی عکاسی کرتا ہے۔ آج ریاست نہ صرف جغرافیہ کے لحاظ سے بلکہ شدید طورپر فرقہ وارانہ خطوط پر بھی منقسم ہے۔ اب غیر مرئی سرحدیں میتیئی کےاکثریتی وادی کوکُکی آباد پہاڑیوں سے الگ کرتی ہیں۔ جبکہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے عوامی طور پر ریاست بھر میں آزادانہ نقل و حرکت کی اپیل کی ہے، لیکن زمینی حقیقت اب بھی سنگین ہے۔ ایک دوسرے کے علاقے میں داخل ہونا اب بھی خطرناک ہے، یہاں تک کہ جان لیوا بھی ہے۔

کاجل منی پور کے ایک ریلیف کیمپ میں رہ رہی ہیں۔ (تصویر: یاقوت علی)

کاجل منی پور کے ایک ریلیف کیمپ میں رہ رہی ہیں۔ (تصویر: یاقوت علی)

تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور انتظامیہ جیسی ضروری خدمات امپھال میں مرکوز ہیں، جو اب کُکی آبادی سے خالی شہر ہے۔ جس کی وجہ سے پہاڑی اضلاع کے ہزاروں لوگوں کا رابطہ منقطع ہے۔ طلبہ  پڑھائی چھوڑ چکے ہیں، وہ اپنے اداروں تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ مناسب طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے کئی لوگ ریلیف کیمپوں میں اپنی جان گنوا چکے ہیں۔

یہ وہ درد ہے جس کے بارے میں کاجل بات بتاتی ہیں – ایک ایسا درد جو منی پور کی پہاڑیوں میں گونج رہا ہے۔

انہوں نے دی وائر کو بتایا کہ راہل گاندھی نے انہیں پرسکون رہنے کو کہا اور انہیں یقین دلایا کہ منی پور میں حالات معمول پر آجائیں گے، جیسا کہ تشدد سے پہلے تھا۔ انھوں نے کہا، ‘ہمارے لیے کچھ بھی نہیں بدلا ہے اور ہم اب بھی ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔’

وزیر اعظم نریندر مودی کے برعکس، گاندھی – جو کہ رائے بریلی سے رکن پارلیامنٹ اور لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر ہیں، کئی بار متاثرہ ریاست کا دورہ کر چکے ہیں۔ کاجل اور ریلیف کیمپوں کے دیگر لوگ  جانتے ہیں کہ کانگریس کے پاس اقتدار نہیں ہے – نہ مرکز میں اور نہ ہی ریاست میں۔

سپریم کورٹ کے ججوں کے دورے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا

حال کے مہینوں میں سپریم کورٹ کے ججوں کے دورے کے بعد مدد نہ ملنے کا احساس اور شدید ہوگیا ہے۔ 22 مارچ، 2025 کو جسٹس بی آر گوئی کی قیادت میں سپریم کورٹ کے چھ ججوں کے وفد نے تشدد سے متاثرہ منی پور میں ریلیف کیمپوں کا دورہ کیا،جہاں ریاست میں طویل عرصے سے جاری نسلی تنازعے سے بے گھر ہونے والی کمیونٹی کے لیے قانونی اور انسانی امداد کی منصوبہ بندی کی گئی۔

کاجل کہتی ہیں،’عدلیہ بھی آئی اور چلی گئی، اور ہم ابھی تک یہیں ہیں اور ہمارے لیے کچھ بھی نہیں بدلا۔’

جون 2023 میں منی پور کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے بے گھر ہونے والوں کے لیے عارضی مکانات کی تعمیر کا وعدہ کیا تھااور امن بحال ہونے پر انہیں ان کے آبائی گاؤں میں دوبارہ آباد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تقریباً دو سال گزرنے کے بعد بھی یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ ہزاروں لوگ اب بھی عارضی ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں – تنگ، غلیظ اور معمول  کی زندگی سے کٹے ہوئے ۔


کاجل نے التجا کی،’براہ کرم ہمیں اپنے گھر واپس جانے دیں۔ یہ وہ زندگی نہیں ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ اگر حکومت واقعی منی پور میں امن چاہتی ہے تو ہمیں اپنے ہاتھوں میں کتابیں لینی چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کو مارنے کے لیے بندوق۔ یہاں سب کچھ خون، گولیوں  اور بموں کے بارے میں  ہو گیا ہے۔’


وہ مزید کہتی ہیں،’ہم بہتر مستقبل کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے، ہر روز کچھ نہ کچھ خوفناک ہوتا ہے۔ حکومت فوری ایکشن لے۔ مائیں سکون سے سونا چاہتی ہیں۔ ہم سڑکوں پر سونا نہیں چاہتے۔ ہمیں آرام کے لیے، کم از کم ایک سال تک کا آرام، کرنے کے لیے ہم ایک محفوظ جگہ چاہتے ہیں۔’

وہ مایوسی کے ساتھ کہتی ہیں،’ہم ہندوستان کے وزیر اعظم سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ منی پور آئیں تاکہ وہ خود زمینی صورتحال کو دیکھ سکیں۔ یہاں صرف ایک منٹ گزاریں، آپ ہمارے درد کو سمجھ جائیں گے۔ ان کے غیر ملکی دوروں کے بارے میں پورا ملک جانتا ہے – براہ کرم ہمیں بھی ہندوستانی ہونے کا احساس کرائیے۔’

ریلیف کیمپ۔ (تصویر: یاقوت علی)

ریلیف کیمپ۔ (تصویر: یاقوت علی)

نقل مکانی سے شدید معاشی نقصان بھی ہوا

کاجل کنڈرگارٹن کے طالبعلموں کو پڑھا کر تقریباً 2000 روپے ماہانہ کماتی ہیں۔ یہ ان کے چار افراد کے خاندان کی کفالت کے لیے کافی نہیں ہے۔ ان  کا ایک چھوٹا بھائی ہے جو اسکول جاتا ہے۔ منی پور حکومت ریلیف کیمپوں میں رہنے والوں کے لیے مفت کلاسز کی پیشکش کر رہی ہے، لیکن کاجل تعلیم کے معیار سے مطمئن نہیں ہیں۔


انہوں نے کہا، ‘میں کالج کی طالبہ ہوں، میں اپنا بجٹ اکٹھا کر رہی ہوں، میرا بھائی 9ویں کلاس میں پڑھ رہا ہے۔ حکومت کو واقعی ہمارے لیے کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔ صرف دو وقت کا کھانا فراہم کرنا کافی نہیں ہے۔’


طویل مدتی نقل مکانی نے بھی شدیدمعاشی نقصان پہنچایا ہے۔ کاجل کا کہنا ہے کہ تشدد سے پہلے وہ پڑھائی سے تقریباً 8500 روپے ماہانہ کماتی تھیں۔ ان جیسے بہت سے لوگوں کے لیے، آمدنی میں کمی نہ صرف ذاتی جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے، بلکہ تنازعات سے متاثرہ منی پور میں روزی روٹی کے وسیع تر اختیارات کے خاتمے کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، وہ خواتین جو کبھی کسانوں کے طور پر کام کرتی تھیں، اب سڑک کے کنارے موم بتیاں بیچ رہی ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ منی پور میں زندگی بڑی حد تک بدستور برقرار ہے، یہاں تک کہ صدر راج کے تحت بھی۔ فروری میں اس اقدام کے اعلان کے بعد سے اموات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

ریلیف کیمپ کے رہائشیوں کے لیے افسوسناک بات یہ ہے کہ 3 مئی 2023 کو نسلی تشدد شروع ہونے کے بعد سے مودی نے ایک بار بھی ریاست کا دورہ نہیں کیا۔ 60000 سے زیادہ لوگ ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں، جن کے بہت سے گاؤں راکھ ہو چکے ہیں یا ان کے اصل گھروں پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ حکام امن و امان کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

جب ریاست میں این  بیرین سنگھ کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی تو مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے بار بار اس بات پر زور دیا تھا کہ ‘ڈبل انجن والی حکومت’ کامیاب رہی ہے۔

اس کے باوجود، زمینی سطح پر، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی طرف سے کئے گئے اہم وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے۔ واحد وعدہ جو پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے وہ ہے ریلیف کیمپوں میں چاول کی باقاعدہ فراہمی۔

گزشتہ 9 فروری تک وزیر اعلیٰ رہنے والے بیرین سنگھ نے بھی لوگوں کو ان کے گاؤں میں آباد کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ اس کے بجائے، پورے گاؤں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔

صدر راج میں خوف

منی پور میں صدر راج کے تحت زمینی سطح پر ایک نمایاں تبدیلی یہ ہے کہ لوگ میڈیا کے سامنے کھل کر بات کرنے سے ڈر رہے ہیں۔ عوام خاموش ہیں – یا تو وہ اپنی طرف سے بولنے کے لیے خصوصی نمائندے مقرر کرتے ہیں یا پھر وہ بولنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہے تو وہ عموماً دو وجوہات بتاتے ہیں؛

میڈیا سے بات کرنے سے کچھ نہیں بدلے گا کیونکہ حکومت کو منی پور کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

ہم حکومت سے ڈرتے ہیں۔ کھل کر بات کرنا ہمیں مشکل میں ڈال سکتا ہے۔

منی پور میں جاری تشدد میں اب تک 250 سے زیادہ لوگوں کی جان جا چکی ہے اور 60000 سے زیادہ لوگ ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ تنازعات کے علاوہ، ناقص طبی سہولیات بھی لوگوں کی جانیں لے رہی ہیں – اور  بحران کے اس وقت میں میں خاموشی میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایسی موتیں  ہو رہی ہیں جنہیں روکا جا سکتا تھا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

(پلتجر سینٹر آن کرائسس رپورٹنگ کے ساتھ شراکت میں)

Next Article

مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستانی میڈیا کی حالت تشویشناک: رپورٹ

ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2025 میں ہندوستان کو 151 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کی رپورٹ میں میڈیا پرحکومت اور کارپوریٹ دباؤ، گودی میڈیا میں اضافہ، صحافیوں کے قتل اور کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے جیسے مسائل پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

 (علامتی تصویر: دی وائر)

(علامتی تصویر: دی وائر)

نئی دہلی: ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس-2025 میں 180 ممالک کی فہرست میں ہندوستان کو 151 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ 2024 میں ہندوستان  159 ویں نمبر پر تھا۔

یہ رپورٹ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم آر ایس ایف- رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز تیار کرتی ہے۔

ہندوستان کی رینکنگ میں پچھلے سال کے مقابلے قدرے بہتری آئی ہے۔ لیکن اس معمولی پیش رفت کی کوئی خاص وجہ نہیں بتائی گئی۔ نیپال اور مالدیپ اس سے بہتر زمرے میں ہیں۔

وہیں، ہندوستان جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک کے ساتھ، ‘انتہائی سنگین’ زمرے میں سب سے نچلے پائیدان پر ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اڈانی گروپ کے ذریعے این ڈی ٹی وی  کا حصول ‘مین اسٹریم میڈیا میں تنوع کے خاتمے کا اشارہ ہے۔’

رپورٹ میں ہندوستان کے بارے میں کیا لکھا ہے؟

ہندوستان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے  رپورٹ میں کہا گیاہے،’ہندوستان کا میڈیا 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ‘اَن آفیشیل ایمرجنسی’ کی حالت میں ہے۔ مودی نے اپنی پارٹی بی جے پی اور میڈیا پر راج کرنے والے بڑے خاندانوں کے بیچ ایک قابل ذکر قربت بنالی ہے۔

ریلائنس انڈسٹریزگروپ  کے مالک مکیش امبانی، جو وزیر اعظم کے قریبی دوست ہیں، 70 سے زیادہ میڈیا ہاؤسز کے مالک ہیں، جنہیں کم از کم 80 کروڑ ہندوستانی دیکھتے ہیں۔ 2022 کے اواخر میں گوتم اڈانی کےذریعے این ڈی ٹی وی  کا حصول مین اسٹریم میڈیا میں تنوع کے خاتمے کا اشارہ تھا۔ اڈانی کو بھی مودی کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔’

اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘حالیہ برسوں میں ‘گودی میڈیا’ میں اضافے کا مشاہدہ بھی کیا گیا ہے – یعنی وہ میڈیا ادارے جو بی جے پی کے حامی پروپیگنڈے کو خبروں کے ساتھ ملا کر دکھاتے ہیں۔ہندوستان میں ایک متنوع پریس ماڈل کو دباؤ اور اثر و رسوخ کے ذریعے چیلنج کیا جا رہا ہے۔

وزیراعظم پریس کانفرنس نہیں کرتے، وہ صرف ان صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہیں جو ان کے موافق  ہوتے ہیں، اور جو تنقیدی رویہ رکھتے ہوں، ان  کے ساتھ وہ انتہائی تنقیدی رویہ اپناتے ہیں۔ حکومت پر کڑی تنقید کرنے والے صحافیوں کو بی جے پی کے حمایت یافتہ ٹرولوں کی سوشل میڈیا ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’

رپورٹ میں کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتوں کی طرف سے صحافیوں کو ہراساں کیے جانے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے؛ ‘کانگریس اور دیگر علاقائی پارٹیاں بھی صحافیوں کو ڈرانے اور انتقامی کارروائیوں کے لیے قانونی دفعات کا  استعمال کرتی رہی ہیں۔

مودی حکومت نے کئی نئے قوانین متعارف کروائے ہیں جو حکومت کو میڈیا کو کنٹرول کرنے، خبروں کو سینسر کرنے اور ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے غیرمعمولی اختیارات دیتے ہیں-جیسے ٹیلی کمیونی کیشن ایکٹ-2023، ڈرافٹ براڈکاسٹنگ سروسز (ریگولیشن) بل، 2023، اور ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2023۔’

ہندوستان سے نیچےآنے والےممالک جو ون پارٹی رول یاتاناشاہی والے ممالک ہیں، ان میں شمالی کوریا (179)، چین (178)، ویتنام (173)، اور میانمار (169) شامل ہیں۔

ہندوستان میں صحافیوں کی حالت

صحافیوں کے تحفظ کے بارے میں بات کرتے ہوئےآر ایس ایف نے کہا ، ‘ہر سال اوسطاً دو سے تین صحافی اپنے کام کی وجہ سے مارے جاتے ہیں، جس کے باعث ہندوستان دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں میڈیا کے لیے کام کرنا انتہائی خطرناک ہے۔’

اس میں مزید لکھا گیا،’حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو باقاعدگی سےآن لائن ہراسانی، دھمکی، جسمانی حملے، مجرمانہ قانونی کارروائیوں اور من مانی گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’

کشمیر کے صحافیوں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے،’یہ صورتحال ان صحافیوں کے لیے اور بھی تشویشناک ہے جو ماحولیاتی مسائل یا کشمیر پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں کی طرف سے انہیں ہراساں کیا جاتا ہے، اور کچھ کو نام نہاد ‘عارضی’ حراست میں سالوں رکھا جاتا ہے۔’

ہندوستان میں خبریں نشر کرنے والوں کی تعداد

ہندوستان کی 1.4ارب آبادی میں سے 21 کروڑ گھروں میں ٹیلی ویژن سیٹ اور 900 نجی ٹی وی چینل ہیں، جن میں سے نصف خبروں کی نشریات کے لیے ہیں ۔

آرایس ایف کے مطابق، ہندوستان میں 20 سے زیادہ زبانوں میں تقریباً 140000 پبلشرز ہیں، جن میں تقریباً 20000 روزنامے شامل ہیں۔ ان سب کی مجموعی نشریاتی تعداد39 کروڑ سے زیادہ ہے۔

نئی نسل اب سوشل میڈیا کے ذریعے آن لائن خبریں دیکھنے کو ترجیح دیتی ہے اور یہ میڈیم اب پرنٹ میڈیا کو پیچھے چھوڑ کر خبروں کا بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔

Next Article

پہلگام حملے میں  ہلاک ہونے والے بحریہ کے افسر کی بیوہ نے کہا – مسلمانوں یا کشمیریوں کو نشانہ نہ بنائیں

پہلگام دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کی اہلیہ ہمانشی نے نروال کی سالگرہ کے موقع پر منعقدہ ایک پروگرام میں کہا کہ کسی سے نفرت نہیں ہونی چاہیے۔ ہم نہیں چاہتے کہ لوگ مسلمانوں اور کشمیریوں کے پیچھے پڑیں۔ ہم صرف امن چاہتے ہیں۔

پہلگام دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کی اہلیہ ہمانشی نروال۔ (تصویر بہ شکریہ: اے این آئی ویڈیو اسکرین گریب)

پہلگام دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کی اہلیہ ہمانشی نروال۔ (تصویر بہ شکریہ: اے این آئی ویڈیو اسکرین گریب)

نئی دہلی: پہلگام دہشت گردانہ حملے میں اپنی جان گنوانے والے ہندوستانی بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کی 27ویں سالگرہ کے موقع پر ان کی اہلیہ ہمانشی نروال نے جمعرات کو امن اور اتحاد کی اپیل کی۔ ونے نروال ان 26 افراد میں شامل تھے ،جنہیں 22 اپریل کو جموں و کشمیر کے پہلگام کے قریب بائی سرن میں دہشت گردوں نے مارڈالاتھا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ہمانشی نروال نے لوگوں سے مسلمانوں اور کشمیریوں کو ہراساں نہ کرنے کی اپیل کی اور اپنے شوہر لیفٹیننٹ ونے نروال کے لیے انصاف پر زور دیتے ہوئے امن  وامان کی دعا کی۔

ہمانشی نے کہا ، ‘ہم نہیں چاہتے کہ لوگ مسلمانوں اور کشمیریوں کے پیچھے پڑیں۔ ہم امن اور صرف امن چاہتے ہیں۔ یقیناً ہم انصاف چاہتے ہیں۔ جن لوگوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا ہے انہیں سزا ملنی چاہیے۔’

انہوں نے کہا، ‘میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ پورا ملک ان (ونے) کے لیے دعا کرے کہ وہ جہاں بھی ہوں، سکون سے رہیں۔ میں صرف یہی چاہتی ہوں۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘میں ایک اور بات کہنا چاہتی ہوں۔ کسی سے نفرت نہیں ہونی چاہیے۔ میں لوگوں کو مسلمانوں یا کشمیریوں کے خلاف نفرت پھیلاتے دیکھ رہی ہوں۔ ہم یہ نہیں چاہتے۔ ہم امن اور صرف امن چاہتے ہیں۔’

بتا دیں کہ 22 اپریل کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل ہمانشی کی شادی لیفٹیننٹ نروال سے ہوئی تھی۔ ہمانشی اور نروال پہلگام میں اپنے ہنی مون پر تھے،  جب دہشت گردوں نے بحریہ کے افسر کو بہت نزدیک  سے گولی مار دی۔

ہمانشی ونے نروال کی 27 ویں یوم پیدائش کے موقع پر ہریانہ کے کرنال میں خون کے عطیہ کیمپ سے پہلے خطاب کر رہی تھیں۔

اس کیمپ کا اہتمام کرنال کی این جی او نیشنل انٹیگریٹڈ فورم آف آرٹسٹ اینڈ ایکٹوسٹس نے کیا تھا۔ اس موقع پر مختلف مقررین نے کہا کہ مرحوم افسر نے اپنی خدمات کے دوران انتہائی لگن سے ملک کی خدمت کی اور وہ ہمیشہ سب کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

نروال کی بہن سرشٹی نے خون کے عطیہ کیمپ میں حصہ لینے والے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ سرشٹی نے کہا، ‘میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جو دور دور سے یہاں خون کا عطیہ دینے آئے ہیں۔ ہمیں پیغامات بھی مل رہے ہیں۔ لوگوں نے (خون کے عطیہ کیمپ میں) جوش و خروش سے شرکت کی۔ حکومت نے بھی بہت کچھ کیا ہے۔’

معلوم ہوکہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔

کچھ جگہوں پر کشمیری طلبہ پر حملے کیے گئے اور ان کے مکان مالکوں نے انہیں رہائش خالی کرنے کو بھی کہا۔ پنجاب میں بہت سے کشمیری طلبہ کو پڑھائی  درمیان میں چھوڑ کر اپنی ریاست واپس جانے کے لیے مجبور ہونا پڑا ۔

Next Article

سورت: گاندھی کے قتل پر لکھی گئی کتاب کے حوالے سے ہونے والے پروگرام کو آخری وقت میں رد کیا گیا

گاندھی کے قتل کے موضوع پرلکھی گئی کتاب کے حوالے سے تیار کی گئی واچیکم کی پیشکش کو سورت پولیس نے امن و امان کے مسئلے کےخدشے کے مدنظر رد کر وا دیا ہے۔ کتاب کے مصنف نے اس خدشے کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons)

(تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons)

نئی دہلی: گجرات کے سورت میں مہاتما گاندھی کے قتل پر لکھی گئی کتاب پرہونے والی بحث کو آخری وقت میں رد کر دیا گیا۔ پولیس کو خدشہ ہے کہ اس سے ‘امن و امان کا مسئلہ’ پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ پروگرام مشترکہ طور پر دو مقامی تنظیموں –  پرارتھنا سنگھ اور میتری ٹرسٹ نے منعقد کیا تھا۔

پروگرام کا عنوان تھا ‘گوڈسے نے گاندھی کو کیوں مارا’ تھا، جو معروف مصنف اشوک کمار پانڈے کی کتاب ‘اس  نے گاندھی کو کیوں  مارا’ پر مبنی تھا۔ یہ پروگرام جمعرات (1 مئی 2025) کو سورت کے نان پورہ علاقے میں واقع جیون بھارتی ٹرسٹ کے روٹری ہال میں منعقد ہونا تھا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، اٹھوالائنس پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر ایچ کے سولنکی نے کہا ہےکہ، ‘قواعد کے مطابق، ہم نے ہال انتظامیہ سے کہا  کہ وہ منتظمین سے پولیس کی اجازت لینے کو کہیں۔ ابھی تک ہمیں اس کے لیے باضابطہ اجازت کے لیے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔ پولیس کو یہ جانکاری ہونی چاہیے کہ مقرر کون ہے، موضوع کیا ہے اور اس کا کیا اثر ہو سکتا ہے۔ اگر یہ تقریر ریکارڈ ہوجائے اور سوشل میڈیا پر وائرل ہو جائے تو اس سے امن و امان کامسئلہ  پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہم نے منتظمین سے اجازت لینے کو کہا تھا۔ اب چونکہ ان کے پاس وقت نہیں بچا تھا اس لیے انہوں نے پروگرام کو رد کر دیا۔’

دی وائر نے اس تنازعہ پر اشوک کمار پانڈے سے بات چیت کی ہے؛

آپ سورت میں تقریب کی منسوخی کو کس طرح  دیکھتے ہیں —  ایک انتظامی فیصلہ، سینسرشپ یا نظریاتی عدم رواداری؟

وڈودرا کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر ہیں –  ہیمنت شاہ  (وہ اور ان کے بیٹے پروفیسرآتمن شاہ پروگرام کلیدی پریزنٹر تھے)۔ انہوں نے میری کتاب ‘اس نے گاندھی کو کیوں مارا’ کا گجراتی میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے واچیکا میں ایک اسٹائل ڈیولپ کی ہے، جس میں باپ بیٹے مل کر بات کرتے ہیں اور درمیان   میں موسیقی چلتی ہے۔ بہت خوبصورت پیشکش ہوتی ہے۔ یہی پروگرام سورت میں ہونے والا تھا

سورت سے پہلے یہ احمد آباد اور وڈودرا میں ہو چکا ہے، دو پروگرام احمد آباد میں اور ایک وڈودرا میں۔ لوگوں نے اسے بہت پسند بھی کیا۔ لیکن سورت کے شو سے ٹھیک پہلے اس ٹرسٹ کے لوگوں سے کہا گیا کہ اگر آپ یہ پروگرام منعقد کریں گے تو یہ ہوجائےگا، وہ ہو جائے گا۔ بعد میں پولیس نے کہا کہ اس کے لیے اجازت نہیں لی گئی تھی۔

اجازت کے سوال پر ٹرسٹ کے ذمہ داروں  کا کہنا ہے کہ وہاں برسوں سے پروگرام ہو رہے ہیں اور انہوں نے کبھی کسی طرح  کی اجازت نہیں لی اور نہ ہی کبھی کسی قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں جب منسوخی کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے تو یہ ایک انتظامی معاملہ بھی ہے اور نظریاتی معاملہ بھی۔

گاندھی کے صوبے میں گاندھی کے قاتلوں کے بارے میں بات کرنا اور ان قاتلوں کے بارے میں جن کو عدالت نے سزا دی ہے، ہندوستانی آئین کے مطابق سزا دی گئی ہے، ان کے بارے میں بات کرنا، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بات کرنا، گاندھی کے بارے میں بات کرنا، اگر یہ جرم ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ایک نظریاتی اور انتظامی، دونوں  معاملہ ہے۔

پولیس کہہ رہی ہے کہ تقریب میں کی جانے والی تقریر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد’امن و امان’ میں خلل ڈال سکتی ہے – کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ منطقی ہے یا خوف پھیلانے کی حکمت عملی؟

گاندھی جی کی باتوں سے کس قسم کی کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے؟ گاندھی کے قاتلوں کے بارے میں بات کرنے سے کیا تناؤ پیدا ہوسکتا ہے؟ پولیس جانتی ہے کہ کون لوگ یہ کشیدگی پھیلا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ گوڈسے کے حامی اس کشیدگی کو پھیلا سکتے ہیں اور پولیس کا بھی ماننا ہے کہ اگر گوڈسے کے حامی کشیدگی پھیلاتے ہیں تو وہ اسے روک نہیں پائیں گے۔ کہنے کا مطلب تو یہی ہوا نا۔

دوسری بات یہ کہ تین پروگرام پہلے ہی ہو چکے تھے۔ احمد آباد اور وڈودرا میں  ہوچکا تھااس کا ویڈیو بھی آن لائن دستیاب ہے۔ آپ بتائیےدونوں جگہ کیا کشیدگی پھیلی، کون  سا واقعہ رونما ہوا؟ یہ تو بیکار کی بات ہے بالکل۔

اس طرح کے تنازعات کو دیکھنے کے بعد، کیا آپ کو لگتا ہے کہ آج کے ہندوستان میں گاندھی کے خلاف بکواس کرنا قابل قبول ہے، لیکن گوڈسے کی تنقید قابل قبول نہیں ہے؟

دہشت گردی کے معاملے میں پرگیہ ٹھاکر کی جانچ چل رہی ہے۔ این آئی اے نے ان کے لیے پھانسی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ دہشت گردی کے معاملے میں ملوث تھیں۔ این آئی اے وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے۔ وہی پرگیہ ٹھاکر ایم پی بن کر گوڈسے کی تعریف کرتی ہیں، جس کے بعد وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ‘میں دل سے کبھی معاف نہیں کر پاؤں گا۔’اتنے لوگ گوڈسے کے بارے میں تمام بیان دیتے ہیں۔

میں ایک  سیدھا سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ جس کو عدالت سے سزا ملی ہو، کیا آپ اسے آپ  ہیرو بنا رہے ہیں؟ بابائے قوم کو قتل کرنے والے کو ہیرو بنا رہے ہو؟ اور کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہے؟

گاندھی کے قتل کے پیچھے کے نظریے کو آپ آج کے ہندوستان میں کیسے  دیکھ رہے ہیں؟ کیا اسے دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے؟

گاندھی جی کے یوم شہادت (30 جنوری) پر گوڈسے ٹرینڈ کرنے لگتا ہے، تو ایسےبہت سارے لوگ ہیں جو گوڈسے کو ہیرو بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ یا تو اقتدار میں ہیں یا اقتدار کے قریب ہیں۔ پرگیہ ٹھاکر توحکمراں جماعت کی رکن پارلیامنٹ تھیں۔ اور ایسی باتیں کہنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہو رہی۔ یہ بہت سیدھی سی بات ہے کہ کہیں نہ کہیں حمایت تو ہے۔