سبھی مزدورکو چین کی سرحد سے متصل اروناچل پردیش کے کرونگ کومے ضلع میں ‘بارڈر روڈ آرگنائزیشن’ کی ایک سڑک کے تعمیراتی منصوبے میں بھی کام کر رہے تھے۔ انہیں آسام کے مقامی ٹھیکیدار کام کا وعدہ کرکے اروناچل پردیش کے دامن کے ایک کیمپ میں لے گئے تھے۔ 3 جولائی کے بعد سے گھر والوں کا ان سے رابطہ نہیں ہو پایاہے ۔ 13 جولائی کو جب مقامی انتظامیہ کو اس بات کا علم ہوا تو سرچ آپریشن شروع کیا گیا ہے۔
(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: اروناچل پردیش میں چین کی سرحد سے متصل کرونگ کومے ضلع میں ایک سڑک کے تعمیراتی منصوبے میں کام کررہے آسام کے 19 مزدور پچھلے 15 دنوں سے لاپتہ ہیں۔
آسام کے واجد علی (25 سال) اور عبدالعمیم (24 سال) اور 30 دیگر مزدور کرونگ کومے ضلع کے دامن میں کیمپ لگا کر سڑک کے منصوبے میں کام کر رہے تھے۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، آسام کے بوگئیگاؤں ضلع کے ایک گاؤں کے رہنے والے علی اور عمیم 30 مئی کو اپنے خاندان کو پیچھے چھوڑ کرایک ٹھیکیدار کے ساتھ کام کے لیے نکلے تھے، جس نے انھیں بنگال میں نوکری دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ انھیں تین دن بعد پڑوسی ریاست اروناچل پردیش کے ایٹہ نگر لے گیا۔
رپورٹ کے مطابق، وہاں سے انہیں 400 کیلومیٹر شمال میں کرونگ کومے ضلع کے دامن لے جایا گیا۔ چین کی سرحد سے متصل کرونگ کومے ضلع کے دامن میں ان افراد نے آسام کے 30 دیگر مردوں کے ساتھ سڑک کے تعمیراتی منصوبے پر کام کرنے کے لیے ایک کیمپ لگایا۔
علی کے والد بکر علی بتاتے ہیں کہ گھر سے نکلنے کے بعد انہوں نے اپنے بیٹے سے تین بار بات کی، پہلی بار جب وہ ایٹہ نگر پہنچا، پھر 15 دن بعد دامن سے اور پھر 3 جولائی کو جب اس نے بتایا کہ وہ 10 جولائی کو عید منانے کے لیے 5 جولائی کو گھر واپس آئے گا۔
بکر کا کہنا ہے کہ 5 جولائی کو وہ اپنے بیٹے کے آنے کا انتظار کرتے رہے لیکن انہیں ٹھیکیدار کا فون آیا، جس نے بتایا کہ ان کا بیٹا اور دیگر لوگ کیمپ سے فرار ہو گئے ہیں۔
علی اور عمیم کے علاوہ ہندوستان-چین سرحد سے تقریباً 90 کیلومیٹر دور، بارڈر روڈ آرگنائزیشن (بی آر او) کی سرلی-ہوری سڑک کے تعمیراتی منصوبے میں کام کرنے والے 17 دیگر مزدور بھی لاپتہ ہیں۔
ہوری یا دامن میں کوئی موبائل رابطہ نہیں ہے جس کی وجہ سے مزدوروں کے اہل خانہ اس بات کو لے کر تشویش میں مبتلا ہے کہ 19 مزدوروں کے ساتھ آخر ہواکیا۔اہل خانہ کے مطابق، لاپتہ مزدوروں میں سب سے چھوٹا تقریباً 16 سال کاہے۔
کرونگ کومے ضلع انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مزدوروں کے فرار ہونے کا علم انہیں پہلی بار 13 جولائی کو ہوا اور ہم نے فوری طور پر سرچ آپریشن شروع کیا۔
ضلع کے ڈپٹی کمشنر نیگھی بنگیا نے
انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ بچاؤ ٹیمیں پہلے سے ہی سرچ آپریشن میں لگی ہیں،ایک ایس ڈی آر ایف کی ٹیم بھی دامن پہنچ رہی ہے اور ایک ہندوستانی فضائیہ کے ہیلی کاپٹر کی بھی مانگ کی گئی ہے۔
بنگیا نے کہا، ‘وہ جس راستے گئے وہ جنگل سے ہو کرگزرتا ہے، وہاں کوئی سڑک نہیں ہے۔ یہ ایک دشوار علاقہ ہے، جو گہری وادیوں، کھڑی پہاڑیوں، زہریلے سانپوں اور ندیوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریسکیو آپریشن میں مشکلیں پیش آرہی ہیں۔
ڈپٹی کمشنر نے مزید کہا کہ اروناچل میں بڑے تعمیراتی منصوبوں کے لیے آسام اور دیگر ریاستوں سے مزدوروں کو لایا جانا معمول کی بات ہے۔ مزدوروں نے بھاگنے کا فیصلہ کیوں کیا،اس سوال پر بنگیا نے کہا کہ یہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے۔
انہوں نے کہا،پچھلے چند ہفتوں میں، دو ذیلی ٹھیکیدار (جو آسام سے مزدور لائے تھے) مزدوروں کو کیمپ میں چھوڑ کر گھر چلے گئے۔ ہو سکتا ہے کہ راشن کا مسئلہ رہا ہو ہو یا کوئی مالی مسئلہ ہو۔ پیسے دینے والا ٹھیکیدار کئی دنوں سے وہاں نہیں تھا۔ اس کے علاوہ عید بھی قریب آ رہی تھی۔
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کیوں چلے گئے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ابتدائی رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ وہ عید پر چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے وہاں سے چلے گئے۔ کچھ خاندانوں کا دعویٰ ہے کہ مزدوروں کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں کہ وہ یہیں رہیں۔
دریں اثنا، ضلع انتظامیہ نے کہا کہ منگل کو ایک مزدور کی لاش دریا میں ملنے کی خبر جھوٹی پائی گئی ہے۔
بی آر او کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ اگرچہ بی آر او خود ہی مزدوروں کو کام پررکھتا ہے اور زیادہ تر کام خود ہی کرتا ہے، لیکن کام میں کچھ تیزی لانے کے لیےکچھ باہر کے ٹھیکیداروں کو بھی باقاعدگی سے آؤٹ سورس کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس معاملے میں کام ٹھیکیدار کو آؤٹ سورس کیا گیا تھا، جو مزدور لاپتہ ہیں وہ بی آر او کو رپورٹ نہیں کرتے تھے۔ سڑک کے اس حصّے کا پورا آپریشن – جس میں افرادی قوت، وسائل، مشینیں شامل ہیں– اروناچل پردیش کے ایک مقامی ٹھیکیدار کو آؤٹ سورس کیا گیا تھا۔ بی آر او کا اس میں کوئی رول نہیں ہے۔ سب کچھ ٹھیکیدار اور مزدوروں کے درمیان ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ ٹھیکیدار اور مزدوروں کے درمیان کیا ہوا۔
تعمیراتی منصوبے کے مذکورہ حصے کا کام مقامی ٹھیکیدار بنگیا باڈو کو دیا گیا تھا، جو بی بی انٹرپرائز نامی کمپنی چلاتا ہے۔ ان کے ماتحت آسام کے کئی ذیلی ٹھیکیدار کام کرتے ہیں، جو وہاں سے مزدور لاتے ہیں۔ انڈین ایکسپریس نے باڈو سے رابطہ کیا، لیکن کوئی ردعمل نہیں ملا۔
لاپتہ مزدور واجد علی کے والد بکر علی کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اپنے بیٹے سے آخری باربات کی تو وہ بہت پریشان لگ رہا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اسے لگ رہا ہے کہ وہ خطرے میں ہے اس لیے وہ بھاگنا چاہتا تھا اور وہ لوگ اسے گھر آنے نہیں دے رہے ہیں۔
کوکراجھار کے مالگاؤں سے بھی سات لوگ واپس نہیں آئے ہیں۔ ایک مقامی رہنما ظہور الاسلام کا کہنا ہے کہ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیا ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا،ٹھیکیدار رضا الکریم نے کام کے لیے 700-1000 روپے یومیہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ جو لڑکے گئے وہ سب نوجوان ہیں، ان میں سے اکثر طالبعلم ہیں اور انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے لیے وہاں جانا مجبوری تھی۔
گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ ٹھیکیدار کریم کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسلام نے بتایا کہ ایک لڑکے نے اسے ایٹہ نگر سے مدد کے لیے فون کیا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ انہیں چین کی سرحد پر لے جایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘اس نے مجھے کہا کہ ہمیں واپس لے جاؤ، لیکن یہ آخری بار تھا جب ہم نے اسے سنا۔’
کامروپ ضلع کے زین العابدین ایک مسجد کے امام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی اپنے بیٹے انعام الحسن سے آخری بات 3 جولائی کو ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں،’اس نے مجھے بتایا کہ اس نے 10 منٹ کے لیے کسی سے فون ادھار لیا ہے۔ اس نے بتایا کہ کیمپ کے لوگ اسے دھمکیاں دے رہے ہیں اور گھر جانے سے روک رہے ہیں۔