اٹھارہ میڈیا آرگنائزیشن  نے سی جے آئی کو خط لکھ کر پریس کی آزادی پر حملے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا

نیوز کلک کے صحافیوں اور اس سے وابستہ افراد کے یہاں چھاپے ماری، پوچھ گچھ اور گرفتاری کے بعد ملک بھر میں صحافیوں اور میڈیا آرگنائزیشن کی اٹھارہ تنظیموں نے ملک کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کو ایک خط لکھ کر صحافیوں سے پوچھ گچھ اور فون وغیرہ ضبط کرنے کے لیے رہنما اصول تیار کرنے کی گزارش کی ہے۔

نیوز کلک کے صحافیوں اور اس سے وابستہ افراد کے یہاں چھاپے ماری، پوچھ گچھ اور گرفتاری کے بعد ملک بھر میں صحافیوں اور میڈیا آرگنائزیشن کی اٹھارہ تنظیموں نے ملک کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کو ایک خط لکھ کر صحافیوں سے پوچھ گچھ اور فون وغیرہ ضبط کرنے کے لیے رہنما اصول تیار کرنے کی گزارش کی ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: ملک بھر کے صحافیوں اور میڈیا آرگنائزیشن کی اٹھارہ تنظیموں نے مشترکہ طور پرچیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کو ایک خط لکھا ہے، جس میں ملک میں پریس کی آزادی پر جاری حملوں کی جانب عدلیہ کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔

یہ عرضی دہلی پولیس کی جانب سے نیوز پورٹل نیوز کلک سے کسی نہ کسی طور پر وابستہ 46 صحافیوں، مدیران، قلمکار وغیرہ کے یہاں چھاپے ماری اور پوچھ گچھ کی کارروائی کے فوراً بعد ساممنے آئی ہے۔ مذکورہ کارروائی میں کئی صحافیوں کے الکٹرانک آلات ضبط کیے گئے اور پورٹل کے ڈائریکٹر اور ایڈیٹر پربیر پرکایستھ اور ایچ آر ہیڈ امت چکرورتی کو گرفتار کیا گیا ہے۔

خط میں صحافیوں کے فون اور لیپ ٹاپ کی من مانی ضبطی کے خلاف رہنما اصول وضع کرنے، صحافیوں سے پوچھ گچھ اور ان سے ضبطی کے لیے ہدایات تیار کرنے اور ان سرکاری ایجنسیوں اور افراد، جو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں، کی جوابدہی کو یقینی بنانے کے طریقے تلاش کرنے میں عدالتوں سے مدد مانگی گئی ہے۔

مختلف شہروں کے پریس کلب سمیت ان آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ صحافی قانون سے بالاتر ہوں، بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔

مکمل خط درج ذیل ہے؛,

§

ڈیئر سی جے آئی چندر چوڑ،

ہم یہ خط ان تنظیموں، جو آزاد پریس کی نمائندگی کرتی ہیں اور ہمارے آئین میں مضمر بولنے کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں، کے رضاکارانہ اور آزاد اتحاد کے طور پر لکھ رہے ہیں۔

یہ خط ان تنظیموں، جو ملک میں آزادی اور جمہوریت کے لیے ضروری ہیں، کی طرف سے ایک ایسے ادارے کو، کی گئی اپیل ہے، جو سپریم ہے اور جس نے ان آزادیوں کو قائم کرنے والے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے۔

ہم یہ خط اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے لکھ رہے ہیں کہ یہ نہ صرف چیف جسٹس آف انڈیا کے لیے ہے، بلکہ اس عہدے پر فائز اس شخص کے لیے ہے جنہوں نے عدالت کے اندر اور باہر کہا ہے کہ ‘یہ پریس کا فرض ہے کہ وہ اقتدار کے سامنے سچ بولے اور شہریوں کے سامنے سخت حقائق پیش کرے، جو انہیں جمہوریت کو صحیح سمت میں لے جانے والی راہ کے انتخاب کا اہل بنائے، اور یہ کہ ہندوستان کی آزادی تب تک محفوظ رہے گی جب تک صحافی ‘انتقام کے خطرے کے بغیر’ اپنا کردار ادا کر سکتے ہوں۔

سچ تو یہ ہے کہ آج ہندوستان میں صحافیوں کا ایک بڑا طبقہ انتقامی کارروائی کے خوف کے سایے میں کام کر رہا ہے۔ اور یہ ضروری ہے کہ عدلیہ اقتدار کا سامنا ایک بنیادی سچائی سے کروائے— کہ ملک آئین سے چلتا ہے، جس کے سامنے ہم سب جوابدہ ہیں۔

تین اکتوبر 2023 کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے نیوز پورٹل ‘نیوزکلک’ کے 46 صحافیوں، مدیران، قلمکار اور اس سے  کسی نہ کسی طور پر وابستہ افراد کے گھروں پر چھاپہ مارا۔ چھاپے  ماری میں، دو افراد کو یواے پی اے کی مختلف دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا اور ان کے ڈیٹا کی سلامتی کو یقینی بنائے بغیر- ایک بنیادی پروٹوکول ہے جو مناسب عمل کے لیے ضروری ہے، ان کے موبائل فون اور کمپیوٹر وغیرہ کو ضبط کر لیا گیا۔ یواے پی اے کا نفاذ خصوصی طور پر ڈرانے والی بات ہے۔ صحافت پر ‘دہشت گردی’ کا مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ راستہ کس جانب جاتا ہے۔

سپریم کورٹ میں اپنے دور میں آپ نے دیکھا ہے کہ کسیے کئی مواقع پر ملک کی جانچ ایجنسیوں کا غلط استعمال کیا گیا اور پریس کے خلاف انہیں ہتھیار بنایا گیا۔ مدیران اور صحافیوں کے خلاف سیڈیشن اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور کئی سلسلہ وار اور/یا بے معنی ایف آئی آر کا استعمال صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے کیا گیا۔

اس خط کے ذریعے آپ کو مخاطب کرنے کا مقصد قانون کے ذریعے قائم کردہ ضابطے کو نظر انداز کرنا یا اس میں رکاوٹ ڈالنا نہیں ہے۔ لیکن جب تفتیش کے نام پر صحافیوں کو بلایا جاتا ہے اور ان کے آلات ضبط کر لیے جاتے ہیں، تو اس عمل کے پیچھے بدنیتی کارفرما ہوتی ہے جو توجہ طلب ہے۔

جس طرح پولیس آئین کے تحت گرفتاری کی وجوہات کی وضاحت کرنے کی پابند ہے، اسی طرح پوچھ گچھ کے لیے یہ ایک پیشگی شرط بھی ہونی چاہیے۔ اس کی غیر موجودگی میں، جیسا کہ ہم نے نیوز کلک کے معاملے میں دیکھا ہے، ایک بے نامعلوم جرم کی تحقیقات کے بارے میں کیے گئے مبہم دعوے، صحافیوں سے دوسری باتوں کے ساتھ، کسانوں کی تحریک، حکومت کے کووِڈ وبائی مرض سے نمٹنے اور شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف مظاہروں کی کوریج کے بارے میں سوال کرنے کی بنیاد بن گئے ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ صحافی قانون سے اوپر ہیں۔ ہم نہیں ہیں اور نہ ہی بننا چاہتے ہیں۔ تاہم، میڈیا کو دھمکی دینا معاشرے کے جمہوری تانے بانے کو متاثر کرتا ہے۔ اور صحافیوں کو کسی مجرمانہ عمل کا حصہ بنانا کیونکہ حکومت ان کے قومی اور بین الاقوامی امور کی کوریج سے متفق نہیں ہے، پریس کو انتقامی کارروائی کی دھمکی سے ڈرانے کی کوشش ہے – یہ ٹھیک وہی بات ہے، جسے آپ نے آزادی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

حکومت کو اس کی ایجنسیوں کے حوالے سے تحقیقات کے وسیع اختیارات دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح، زیادتی سے چھوٹ کو اظہار رائے کی آزادی کے آئینی اہتماموں میں شامل کیا جانا چاہیے، اور پولیس کی زیادتیوں کے خلاف کچھ طریقے تلاش کیے جانے چاہیے – خاص طور پر ان اختیارات کے بار بار غلط استعمال کے پیش نظر۔ کسی بھی مقدمے میں بہت کچھ داؤ پر لگتا ہے اور یہ کیس برسوں تک چل سکتا ہے۔

یو اے پی اے کے تحت گرفتار ہونے والے صحافیوں کو ضمانت ملنے سے پہلے سالوں یا مہینوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑ سکتا ہے۔ صدیق کپن کا کیس ہمارے سامنے موجود ہے۔ بالآخر ضمانت ملنے سے پہلے انہیں دو سال اور چار ماہ تک جیل میں رکھا گیا۔ حراست میں فادر اسٹین سوامی کی المناک موت اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ‘دہشت گردی’ سے نمٹنے کی آڑ میں حکومت اور انتظامیہ انسانی جانوں کے تئیں کتنی بے حس ہوگئی ہے۔

ہمیں ڈر اس بات کا ہے کہ میڈیا کے خلاف سرکاری کارروائیاں حد سے تجاوز کر چکی ہیں اور اگر یہ سب جس سمت میں جا رہا ہے، اسے وہاں جانے دیا گیا، تو کسی بھی اصلاحی قدم کے لیے بہت دیر ہو جائے گی۔ اس لیے ہم سب محسوس کرتے ہیں کہ اب سپریم کورٹ کو میڈیا کے خلاف جانچ ایجنسیوں کے بڑھتے ہوئے جابرانہ استعمال کو ختم کرنے کے لیے مداخلت کرنی چاہیے۔

خصوصی طور پر، اگر عدالتیں ہماری درج ذیل درخواستوں پر غور کریں تو ہم ان کے احسان مند رہیں گے؛

صحافیوں کے فون اور لیپ ٹاپ کی اچانک ضبطی کی حوصلہ شکنی کے لیے معیارات وضع کرنا۔ مشہور ماہرین تعلیم- رام رام سوامی اور دیگر بنام حکومت ہند، ڈبلیو پی (سی آر ایل) نمبر 138/2021- کی طرف سے دائر کی گئی رٹ پٹیشن کے سلسلے میں سپریم کورٹ اس معاملے پر غور کر رہی ہے اور معاملے میں حکومت ہند کی طرف سے دائرحلف ناموں سے مطمئن نہیں ہے۔ جہاں ایک طرف انصاف کی لڑائی جاری ہے، تو وہیں حکومت بے نیازی کے ساتھ اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ آلات کی ضبطی ہمارے پیشہ ورانہ کام کو متاثر کرتی ہے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ نے (پیگاسس کیس میں) خود کہا ہے کہ ذرائع کا تحفظ میڈیا کی آزادی کا ایک ‘اہم اور ضروری حصہ’ ہے۔ لیکن لیپ ٹاپ اور فون اب صرف آفیشیل کام کے لیے استعمال ہونے والے آلات نہیں رہ گئے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر کسی شخص کی توسیع بن چکے ہیں۔ یہ آلات ہماری پوری زندگی سے جڑے ہوئے ہیں اور ان میں اہم ذاتی معلومات شامل ہیں – بات چیت سے لے کر تصاویرتک، خاندان اور دوستوں کے ساتھ ہوئی باتیں بھی۔ ایسی کوئی وجہ یا جواز نہیں ہے کہ جانچ ایجنسیوں کو ایسے مواد تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔

صحافیوں سے پوچھ گچھ اور گرفتاری کے لیے رہنما خطوط تیار کرنا، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ انہیں محض کسی طرح کی جانکاری اکٹھا کرنے کی کسی مہم کے طورپر پراستعمال نہ کیا جائے، جن کا حقیقی جرم سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔

ان سرکاری اداروں اور انفرادی اہلکاروں کی جوابدہی کو یقینی بنانے کے طریقے تلاش کرنا جو قانون کی خلاف ورزی کرتے پائے جاتے ہیں یا صحافیوں کے خلاف ان کے صحافتی کاموں کے لیے مبہم اور بغیر کسی ڈیڈ لائن یا بے مقصد تحقیقات کے ذریعے جان بوجھ کرعدالتوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

ذیل میں دستخط کرنے والے ہم سب لوگوں نے بہت غور و فکر کے بعد آپ کو یہ خط لکھا ہے۔

پچھلے کچھ سالوں میں، ایسی کئی مثالیں سامنے آئی ہیں جہاں حکومتوں کی طرف سے آزاد پریس پر حملوں کے سلسلے میں عدالتی مداخلت کی ضرورت پڑی ہے، اور ہم ایسے معاملوں کو آگے بڑھانا جاری رکھیں گے۔ لیکن پچھلے دو دنوں کے واقعات کے بعد ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ آپ اس معاملے کا نوٹس لیں اور مداخلت کریں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور ایک آمرانہ پولیس اسٹیٹ کسی طرح کا قاعدہ بن کر سامنے آ جائے۔

صحافیوں اور اخبار نویسوں کی حیثیت سے ہم کسی بھی مستند تحقیقات میں تعاون کے لیے ہمیشہ تیار اور خواہشمند ہیں۔ تاہم، غیر رسمی طور پر بڑے پیمانے پر ضبطی اور پوچھ گچھ کو یقینی طور پر کسی بھی جمہوری ملک میں قابل قبول نہیں سمجھا جا سکتا، اس ملک میں بھی نہیں جو خود کے’مدر آف ڈیموکریسی’ ہونے کا دم بھر رہا ہے۔

ڈی جی پب نیوز انڈیا فاؤنڈیشن

انڈین ویمن پریس کور (آئی ڈبلیو پی سی)

پریس کلب آف انڈیا، نئی دہلی

فاؤنڈیشن فار میڈیا پروفیشنلز

نیٹ ورک آف ویمن ان انڈیا

چندی گڑھ پریس کلب

نیشنل الائنس آف جرنلسٹس

دہلی یونین آف جرنلسٹس

کیرل یونین آف ورکنگ جرنلسٹس

برہن ممبئی جرنلسٹس ایسوسی ایشن

فری اسپیچ کلیکٹو، ممبئی

ممبئی پریس کلب

اروناچل پردیش یونین آف ورکنگ جرنلسٹس

پریس ایسوسی ایشن

گوہاٹی پریس کلب

انڈین جرنلسٹس یونین

کولکاتہ پریس کلب

ورکنگ نیوز کیمرہ مین ایسوسی ایشن (ڈبلیو این سی اے)

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)