گجرات فسادات کی متاثرہ اور انصاف کے لیے آواز اٹھانے والی ذکیہ جعفری کا انتقال

ذکیہ جعفری سنیچر کو 86 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ انہوں نے گجرات فسادات کے متاثرین کے لیے انصاف اور فسادات کے لیے جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے مختلف عدالتوں میں قانونی جدوجہد کا طویل سفر طے کیا تھا۔ ان کے شوہر اور کانگریس ایم پی احسان جعفری بھی فسادات میں مارے گئے تھے۔

ذکیہ جعفری سنیچر کو  86  سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ انہوں نے گجرات فسادات کے متاثرین کے لیے انصاف اور فسادات کے لیے جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے مختلف عدالتوں میں قانونی جدوجہد کا طویل سفر طے کیا تھا۔ ان کے شوہر اور کانگریس ایم پی احسان جعفری بھی فسادات میں مارے گئے تھے۔

ذکیہ جعفری۔ (فائل فوٹو)

ذکیہ جعفری۔ (فائل فوٹو)

نئی دہلی: 2002 گجرات فسادات کی متاثرہ اور انصاف کے لیے آواز اٹھانے والی  ذکیہ جعفری سنیچر (1 فروری) کو 86 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ انہوں نے احمد آباد میں صبح تقریباً 11:30 بجے آخری سانس لی ۔

ذکیہ جعفری نے فساد متاثرین کے لیے انصاف اور فسادات کے لیے جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے مختلف عدالتوں میں قانونی جدوجہد کا طویل سفر طےکیا تھا۔

ان کے انتقال کی جانکاری سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ کے ذریعے شیئر کی۔ تیستا سپریم کورٹ میں ذکیہ جعفری کی اس عرضی میں شریک شکایت کنندہ تھیں، جس میں گجرات فسادات میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی اور دیگرسرکاری نمائندوں کے کردار کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

معلوم ہو کہ ذکیہ جعفری سابق ایم پی احسان جعفری کی اہلیہ تھیں، جو احمد آباد کے مسلم علاقے گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی میں 68 دیگر افراد کے ساتھ فسادات میں مارے گئے تھے۔ اس سے ایک دن پہلے گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے میں آگ لگادی گئی تھی، جس میں 59 لوگ مارے گئے تھے۔ ان واقعات کے بعد ہی گجرات میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ ایس آئی ٹی نے 2012 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی، نوکرشاہوں اور پولس اہلکاروں سمیت 63 دیگر کے خلاف ذکیہ  کی طرف سے دائر شکایت میں شروعاتی جانچ کے بعد انہیں کلین چٹ دیتے ہوئے ایک کلوزر رپورٹ داخل کی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔

میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت، جہاں شکایت درج کی گئی تھی،اس  نے کلین چٹ کو برقرار رکھا تھا۔

ذکیہ نے ایس آئی ٹی رپورٹ کے خلاف گجرات ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی، جسے ہائی کورٹ نے 2017 میں مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو قبول کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں فسادات کے پیچھے ایک بڑی سازش کا الزام لگاتے ہوئے احتجاجی عرضی داخل کی تھی، جسے سپریم کورٹ نے بھی خارج  کر دیا تھا ۔

ان کی عرضی کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کچھ تبصرے بھی کیے تھے جن پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔ اس فیصلے کی تنقید کرنے والوں میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن لوکر بھی شامل تھے۔