میڈیا اداروں اور صحافیوں کی کچھ ذمہ داری بنتی تھی لیکن عوام کو وہاں بھی مایوسی حاصل ہوئی۔ میڈیا فیک نیوز عام کرنے والے افراد، اداروں اور پورٹلوں کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔
گزشتہ مہینے
بی بی سی نے ایک رپورٹ کی تھی جو ہندوستان میں فیک نیوز کی اشاعت سے متعلق تھی۔ رپورٹ میں اس پہلو کو مرکزمیں رکھا گیا تھا جو عالمی سطح پر ابھی تک محققین، صحافیوں اور تکنیک دانوں کی نظر سے اوجھل تھا؛ وہ یہ کہ :سوشل میڈیا کے صارفین بنا تحقیق کیے فیک نیوز کیوں عام کرتے ہیں؟ ملک کے مختلف حصوں سے تقریباً 40 صارفین پر مطالعہ کیا گیا اور انٹرنیٹ پر ہزاروں مضامین کو پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا کہ صارفین اپنی مذہبی و قومی شناخت اور حب الوطنی کے جذبے کے اظہر کے لئے فیک نیوز کو بنا تحقیق کیے ہی اپنے حلقوں میں عام کرتے ہیں۔
حالانکہ بی بی سی کی تحقیقی رپورٹ کافی حد تک قارئین کو فیک نیوز کے ماحول کی باریکیوں سے روبرو کراتی ہے لیکن اس تحقیق کو اگلے درجے پر اس سمت میں لے جایا جا سکتا ہے کہ جن جھوٹی خبروں کو صارفین وہاٹس ایپ، فیس بک اور ٹوئٹر پرشئیر کرتے ہیں، ان خبروں کی جڑ کہاں ہے، وو کہاں سے وجود میں آتی ہیں اور ان کو پیدا کرنے والے کون لوگ ہیں۔ مزید اس پہلو پر بھی تحقیق کی جا سکتی ہے کہ ان جھوٹی خبروں کو شروع کرنے کے پیچھے کیا اغراض و مقاصد ہوتے ہیں؟
دی وائر اردو پر ہم نے
پورے سال ان فیک نیوز کے بارے میں بتایا جو سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی اہمیت کی حامل ہیں۔ ہم نے پایا کہ اس سال کئی صوبوں میں اسمبلی انتخابات کی بنا پر سوشل میڈیا میں سیاسی نوعیت کی جھوٹی خبروں کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ پروپیگنڈا بھی خوب ہوا۔ ایک طرف انتخابی ریلیوں میں ملک کے لیڈران نے جھوٹے دعوے کئے تو دوسری سمت پاکستان اور پاکستانی پرچم کو بے وجہ نشانہ بنایا گیا۔ اور گزشتہ سال کی طرح اس برس بھی مسلم اور عیسائی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ دلتوں کے خلاف سوشل میڈیا میں فرقہ وارانہ آندھیاں چلیں ! انٹرنیٹ پر مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کے خلاف کام کرنے والے سیکڑوں فیس بک پیج، ٹوئٹر ہینڈل، اور وہاٹس ایپ گروپ وجود میں ہیں جو سال کے بارہ مہینے زہر اگلتے رہے۔
جہاں تک سرکاری اداروں اور حکومت کے منسٹروں کی بات ہے، PMO سے لیکر وزارت خارجہ تک اور پرائم منسٹر سے لیکر وزیر قانون و آئی ٹی تک اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف غیر سنجیدہ معلوم ہوئے۔ ملک کے ایسے گھٹا ٹوپ ماحول میں میڈیا اداروں اور صحافیوں کی کچھ ذمہ داری بنتی تھی لیکن عوام کو وہاں بھی مایوسی حاصل ہوئی۔ میڈیا فیک نیوز عام کرنے والے افراد، اداروں اور پورٹلوں کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔ حالات یہ بنے رہے کہ میڈیا کے سامنے نہ آنے والے پرائم منسٹر سے میڈیا میں سے ہی کسی نے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ رافیل معاملے میں آپ نے، آپ کی حکومت اور آپ کے وزراء نے ملک کی عوام کو کیوں گمراہ کیوں کیا ؟ اس کے برعکس کچھ مخصوص اداروں نے جب پرائم منسٹر کا انٹرویو لیا تو ان کی فقیری اور انکساری کے ترانے گائے!
اکیسویں صدی کے اس دور میں جہاں صحیح انفارمیشن کے حصول کے لئے شہریوں کو RTI جیسا مضبوط قانون دیا گیا ہے، اسی دور میں سرکاری ادارے، لیڈر اور میڈیا جھوٹی خبروں کو عام کرےگا تو یہ بہت افسوس کی بات ہوگی۔ اور یہ جھوٹی خبریں اگر مذہبی تشدد اور فرقہ وارانہ فکر کو فروغ دیں گی تو مستقبل میں ہندوستان کی سماجی قدروں کے پامال ہونےکا خطرہ بنا رہیگا۔2018 میں مسلمانوں کے خلاف ایسی بہت سی خبریں شائع ہوئیں جو مبنی بر جھوٹ تھیں۔ منسٹر گریراج سنگھ نے دعویٰ کیا کہ مسلمانوں کی آبادی ہندوستان میں بڑھ رہی ہے، مدھو کشور نے پانچ مسلم نوجوانوں کے نام اس معاملے میں ٹوئٹ کئے جس میں دہلی کی ایک اسکول بس پر غنڈوں نے پتھر مارے تھے، آج تک چینل سے ہی کاس گنج فساد پر دو طرح کی رپورٹ ہم نے دیکھیں جن میں آشوتوش مشرا کی گراؤنڈ رپورٹ روہت سردانہ کی رپورٹ کی اصلیت سے واقف کراتی تھی۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح رام مادھو نے JNU کے گمشدہ طالب علم نجیب احمد کے بارے میں یہ ٹوئٹ کیا کہ نجیب احمد دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہو گئے ہیں!
ایک طرف انجنا اوم کشیپ نے ایک ایک فرضی ٹوئٹر ہینڈل کے جھوٹے ٹوئٹ کی بنا پر مولانا قادری کو نشانہ بنایا تو دوسری طرف انڈیا ٹی وی نے یہ جھوٹ عام کیا کہ کرنی سینا کے احتجاج اور دلتوں کے بھارت بند میں شامل ہونے والا شخص ایک ہی ہے جو کچھ قیمت لیکر یہ کام کرتا ہے اور یہ مسلمان ہے ! میڈیا اداروں نے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو نشانہ بنایا ۔ ری پبلک ٹی وی نے کہا کہ یونیورسٹی میں آزادی کے نعرے لگے ہیں اور ملک کو توڑنے کی بات کی گئی ہے۔ منان وانی کے غائب ہو جانے کے بعد یہ عام کیا گیا کہ منان کا روم پارٹنر مزمل بھی فرار ہے جب کہ علی گڑھ کی مقامی پولیس نے اس کو جھوٹ قرار دیا !
کرناٹک انتخابات کے دوران عیسائیوں کی مذہبی شناخت پر حملے کیے گئے۔ ان کے بارے میں جھوٹ پھیلایا گیا کہ عیسائی قوم کے ساتھ ملکر کانگریس پارٹی ہندو سماج کو توڑ رہی ہے اور لنگایت لوگوں کو عیسائی بنانا چاہتی ہے!اس کے علاوہ مہاراشٹر کے ایک گرجے کی تصویر کو فوٹو شاپ سے بدل دیا گیا اور اس پر ‘لنگایت چرچ لکھ دیا گیا ! ایک ویڈیو میں یہ عام کیا گیا کہ عیسائی لڑکے ہندوستان کے قومی پرچم کو آگ لگا رہے ہیں اور ہندو دیوتاؤں کی تصویروں کو جلا رہے ہیں۔!
سیاسی حلقوں میں کانگریس اور بی جے پی کے بیچ لڑائی جاری رہی اور فیک نیوز کی شکل میں ہمارے سامنے رونما ہوئی ! کانگریس کے علاوہ دوسرے افراد نے بھی بی جے پی کو نشانہ بنایا۔ پرشانت بھوشن کا الزام تھا کہ جسٹس لویا کے بیٹے انج لویا کی پریس کانفرنس امت شاہ نے کرائی تھی، RPG کے چیئرمین ہرش گوینکا نے اسمرتی ایرانی کے رقص گددھا پر چٹکی لی، نریندر مودی کو دنیا کا دوسرا بدعنوان شخص بتایا گیا ! کانگریس پارٹی میں راہل گاندھی نے کئی بار BJP اور مودی حکومت کو نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ راہل کا اس وقت بہت مذاق بنا جب انہوں نے کہا کہ کوکا کولا کمپنی کو ایک شکنجی بیچنے والے شخص نے شروع کیا تھا !
ان سب کے درمیان سب سےسنجیدہ بات یہ ہے کہ سرکاری ادارے اور حکومت میں اقتدار پر فائز ذمہ دار لوگ بھی خوب گمراہی عام کر رہے ہیں۔ تلنگانہ کی الیکشن ریلی میں امت شاہ نے کانگریس کے منشور کے بارے میں غلط دعوے کئے، رافیل معاملے میں عوام کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کو بھی گمراہ کیا گیا اور سرکاری اسکیموں کا بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ مودی اور امت شاہ دونوں نے یہ دعوے کے کہ DBT اسکیم سے 57000 کروڑ روپے کا فائدہ ہوا ہے !مودی نے بہارکی ایک ریلی میں کہا کہ بہار میں ایک ہفتے میں 5سے 7 لاکھ ٹوائلیٹ بنوائےگئے !
انٹرنیٹ پر کچھ افراد اور پلیٹ فارم ایسے بھی موجود ہیں جو بھگوا فکر کو فروغ دیتے ہیں اور سب سے افسوس ناک معاملہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو مرکزی حکومت کے کئی لوگ فالو کرتے ہیں۔ مہیش ہیگڈے، مدھو کشور، اوپ انڈیا پورٹل، پوسٹ کارڈ نیوز، دینک بھارت، جے مودی راج فیس بک پیج، رینوکا جین، شیفالی ویدیا، شنکھ ناد پورٹل، سدرشن نیوز، امت مالویہ اور سریش چہوانکے شامل ہیں۔ ان کی حرکتوں کی وجہ سے ان میں سے کچھ کوپچھلے سال گرفتار بھی کیا گیا اور کچھ پورٹلوں کو پولیس نے بند بھی کرایا لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے کیوں کہ یہ کو اس بات کو فخر سے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لکھتے ہیں کہ پی ایم مودی یا BJP کے دوسرے بڑے نیتا ان کو خود فالو کرتے ہیں !
The post
میڈیا اداروں کے زوال اور فرقہ وارانہ سوچ کے عروج کا سال رہا 2018 appeared first on
The Wire - Urdu.