’وال اسٹریٹ جرنل‘اخبار کی نامہ نگارسبرینا صدیقی نے امریکہ کے دورے پر گئے وزیراعظم نریندر مودی سے ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں سوال پوچھا تھا، جس کے بعد ان کے والدین کے پاکستانی ہونے کا دعویٰ کرکے ان کو’پاکستان کی بیٹی’ بتایا جا رہا ہے۔
سبرینا صدیقی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)
نئی دہلی: وال سٹریٹ جرنل اخبار کی وہائٹ ہاؤس نامہ نگارسبرینا صدیقی، جنہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ان کے امریکہ دورے کے دوران ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ مبینہ امتیازی سلوک کے حوالے سےسوال پوچھا تھا، ہندو نواز سوشل میڈیا صارفین (بالخصوص ٹوئٹر پر) کے نشانے پر آگئی ہیں۔
صدیقی پر آن لائن حملے کی قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے کی تھی، جس میں ان کے والدین کے پاکستانی ہونے کی وجہ سے ان کا پاکستانی کنکشن نکالا گیا۔
ٹوئٹر پر مالویہ نے سبرینا کے سوال کو ‘اشتعال انگیز’بتایا اور کہا کہ انہیں مودی کی طرف سے ‘مناسب جواب’دیا گیا، جو ان کے مطابق ‘ٹول کٹ گینگ’ کے لیے ایک ‘دھچکا’ تھا۔
‘ٹول کٹ گینگ’ حکمراں پارٹی کے آئی ٹی سیل چیف کی جانب سے نے ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جانے والا ایک تضحیک آمیز جملہ ہے ،جنہوں نے بی جے پی اور وزیر اعظم سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک سمیت مختلف مسائل پر سوال کیے ہیں۔
وہائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس میں
صدیقی نے مودی سے پوچھا تھا، ہندوستان نےطویل عرصے سے خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر فخر کیا ہے، لیکن انسانی حقوق کے بہت سے گروپ ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ کی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کیا ہے اور اپنے ناقدین کو خاموش کرانے کی کوشش کی ہے۔جب آپ یہاں وہائٹ ہاؤس کے ایسٹ روم میں کھڑے ہیں، جہاں بہت سے عالمی رہنماؤں نے جمہوریت کے تحفظ کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے، توآپ اور آپ کی حکومت اپنے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کو بہتر بنانے اور ‘ اظہار رائے کی آزادی’ کو بنائے رکھنے کے لیےکیا قدم اٹھانے والے ہیں؟’
ہندوستان میں اقلیتوں کے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے بارے میں چھوڑیے، وزیراعظم کے طور پر مودی کی مدت کارمیں یہ ایک نادر لمحہ تھا، جب کسی صحافی نے ان سے ایسا سوال پوچھا تھا۔
جواب میں مودی نے ‘حیرت’ کا اظہار کیا کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کی حکومت میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘جمہوریت ہماری روح ہے۔ جمہوریت ہماری رگوں میں دوڑتی ہے۔ ہم جمہوریت میں رہتے ہیں۔ ہماری حکومت نے جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو اپنایا ہے۔ ہم نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ جمہوریت نتائج دے سکتی ہے اور جب میں نتائج دینے کی بات کرتا ہوں تو یہ ذات، پات، عقیدہ، مذہب، جنس سے قطع نظر ہے۔ تفریق اور امتیازی سلوک کے لیے بالکل بھی جگہ نہیں ہے۔
تاہم، اس سوال کے فوراً بعد بی جے پی اور ہندوتوا حامی ٹوئٹر ہینڈل صدیقی کے پیچھے پڑ گئے اور انہیں ‘پاکستانی اسلامسٹ’ قرار دیا۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے ان کے آجر کی جانب سے انہیں مودی سے یہ سوال کرنے کی اجازت دینے میں بھی ایک سازش نظر آئی ۔ایسے ہی ایک ٹوئٹر ہینڈل نے کہا،وہ صرف ہندوستان پر حملہ کرتی ہے۔ نفرت پاکستانیوں کے ڈی این اے میں ہے۔
اوپ انڈیا جیسی بی جے پی کی حامی ویب سائٹس نے ایک قدم آگے بڑھ کر ایک رپورٹ شائع کی کہ وہ ‘پاکستانی والدین’ کی بیٹی ہیں اور ‘اسلامسٹ کے دعوے کو دہرا رہی ہیں’۔
اوپ انڈیا نے لکھا، ‘ان لوگوں کے لیے جن کو جانکاری نہیں ہے، ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کا الزام لگاتے ہوئے اسلامسٹ اور بائیں بازو کےلبرل کے دعووں کو دہراتے ہوئے بڑی چالاکی سے بناوٹی سوال اٹھانے والی صحافی کوئی اور نہیں بلکہ سبرینا صدیقی تھیں، جو پاکستانی والدین کی بیٹی ہیں۔
ان کو ‘ہندوستان مخالف’ بتانے والے آن لائن حملوں کے جواب میں صدیقی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر ہندوستان میں پیدا ہوئے والد کے ساتھ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی حمایت کر نے والی فوٹوپوسٹ کی۔
انھوں نے لکھا، ‘چونکہ کچھ لوگوں نے میرےشخصی پس منظر کو ایشو بنایا ہے، اس لیے پوری تصویر پیش کرنا ہی درست ہے۔ بعض دفعہ پہچان جتنی نظر آتی ہے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔