افغانستان کےمغربی صوبہ ہرات میں گورنر دفتر کے باہر لگ بھگ تین درجن خواتین نےمظاہرہ کیا۔ ریلی کی آرگنائزرس نے کہا کہ قومی اسمبلی اور کابینہ سمیت نئی سرکار میں خواتین کوسیاسی حصہ داری ملنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خواتین کے کام کرنے کے اختیار پر طالبان حکومت سے واضح جواب نہ ملنے سےمایوس ہوکر سڑکوں پر اتری ہیں۔
افغانستان کے مغربی صوبہ ہرات میں خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر/@ZahraSRahimi)
افغانستان کے مغربی صوبہ ہرات میں گورنر دفتر کے باہر لگ بھگ تین درجن خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ نئی سرکار میں خواتین کےحقوق کےتحفظ کوترجیح دی جائے۔جمعرات کو ہوئی ریلی کی آرگنائزرفریبا کبرجانی نے کہا کہ ‘لو یا جرگہ’ (قومی اسمبلی) اورکابینہ سمیت نئی سرکار میں خواتین کو سیاسی حصہ داری ملنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ افغان خواتین آج جو کچھ بھی ہیں، اسے حاصل کرنے کے لیے انہوں نے پچھلے 20 سال میں کئی قربانیاں دی ہیں۔
کبرجانی نے کہا، ‘ہم چاہتے ہیں کہ دنیا ہماری سنے اور ہم اپنے حقوق کی حفاظت چاہتے ہیں۔’
کبرجانی نے کہا کہ کچھ مقامی خاندانوں نے دوسری خواتین کو ریلی میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جبکہ طالبان کے ذریعےملک کے اقتدار میں اور قابض ہونے کے بعد ان خواتین کو اپنےتحفظ کی فکر ہے۔
احتجاجی مظاہرہ میں شامل ہونے والی ایک اورخاتون مریم ابرام نے کہا کہ طالبان ٹی وی پر خوب بیان دے رہے ہیں لیکن عوامی طور پر وہ اقتدار کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ہم نے انہیں خواتین کو پھر سے زدوکوب کرتے ہوئے دیکھا ہے۔’
مریم ابرام نے
الجزیرہ کو بتایا کہ وہ خواتین کے کام کرنے کے حقوق پر طالبان سرکار سے واضح جواب کی کمی کی وجہ سے مایوس ہوکر سڑکوں پر اتری ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسے اور دوسری خواتین کو ہفتوں تک کام پر نہیں آنے کے لیے کہا گیا ہے۔ جب وہ مغربی افغانستان کے سب سے بڑے شہر میں اپنے دفاتر میں پہنچیں تو انہیں منع کر دیا گیا۔
ابرام نے کہا کہ وہ اور دوسری ہراتی خواتین کے ایک گروپ نے طالبان کےاعلیٰ عہدیداروں سے خواتین کےحقوق پر ان کی پالیسیوں کے بارے میں وضاحت کے لیے ملاقات کی،لیکن انہیں کبھی بھی صحیح جواب نہیں ملا۔
ابرام نے کہا، ‘ہفتوں تک طالبان کے ساتھ تمام سطحوں پر جڑنے کی کوشش کرنے کے بعدخواتین نے اپنی آواز عوامی طور پر سنانے کا فیصلہ کیا۔’
سال 1996-2001 کے بیچ طالبان کے پچھلے اقتدار، جسے خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندی کو لیےنشان زد کیا گیا ہے، کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘ہم نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی،لیکن ہم نے دیکھا کہ 20 سال پہلے کے طالبان کے علاوہ وہاں کچھ نہیں تھا۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔’
پچھلے مہینے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان قیادت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ خواتین کو کام کرنے اورتعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیں گے، کیونکہ افغانوں کو سخت اقتدار کی واپسی کا ڈر ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین نے پولیس چیف اور اطلاعات وثقافت کے ڈائریکٹرسمیت کئی طالبان رہنماؤں سے کھل کر بات کی،‘آپ نے قبضہ کرنے والوں سے چھٹکارا پا لیا، آپ نے جمہوریت کو ختم کر دیا، لیکن آپ اس کی جگہ پر کیا لائیں گے اور ہمارا کیا رول ہوگا؟’
ابرام نے کہا کہ انہوں نے پچھلی سرکار کو بدعنوان طالبان کے ذریعے کی جا رہی تنقیدکو قبول کیا، لیکن وہ جاننا چاہتی ہیں کہ طالبان کی سربراہی والا نیا نظام خواتین کے لیے کیا پیشکش کرےگا؟
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں طالبان کے سینئر رہنماشیر محمد عباس ستانکزئی کے ایک انٹرویو نے انہیں سڑکوں پر اترنے کے لیے مجبور کیا۔
بی بی سی پشتو کے ساتھ حال ہی میں ایک انٹرویو میں شیر محمد عباس ستانکزئی نے کہا کہ مستقبل میں طالبان کےکی سربراہی والی سرکار میں خواتین کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو سکتی ہے۔
خواتین کے مطالبات کے بارے میں ابرام نے کہا، ‘ہم صرف حقوق مانگ رہے ہیں۔’انہوں نے کہا، ‘خواتین کے بنا سرکار کبھی نہیں ٹکےگی۔’
حالانکہ،انہوں نے کہا کہ اگر طالبان سرکار اور لو یا جرگہ(قومی اسمبلی)میں خواتین کی یکساں نمائندگی کی اجازت دیتا ہے، تو وہ اور ان کےساتھی ان کوقبول کریں گے۔
حال کے ہفتوں میں طالبان خواتین کے کام کرنے کے بارے میں ملے جلے پیغامات دے رہا ہے۔ اگست کے آخر میں طالبان کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ اسلامی قانون کے دائرے میں خواتین کےحقوق کا احترام کریں گے۔
مجاہد نے
کہا تھا، ‘خواتین کو پڑھنے اور کام کرنے کی اجازت دی جائے گی اور وہ معاشرےمیں بہت فعال ہوں گی،لیکن اسلام کے دائرے میں۔’
انہوں نے کہا تھا سرکار کے ساتھ کام کرنے والی خواتین کو تب تک گھر پر رہنا چاہیے جب تک کہ وہ سڑکوں اور دفاتر میں اپنی حفاظت یقینی نہیں کر لیتی ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)