نیتا جی سبھاش چندر بوس کے پوتےاور بی جے پی رہنما چندر کمار بوس نے کہا کہ ،اگر سی اے اے 2019کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہے تو اس میں ہندو، سکھ، بودھ، کرشچین، پارسی اور صرف جین کا نام کیوں ہے؟ اس میں مسلمانوں کو شامل کیوں نہیں کیا گیا ہے؟
چندر کمار بوس، فوٹو بہ شکریہ، فیس بک
نئی دہلی: مغربی بنگال بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی )کے نائب صدر اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کے پوتے چندر کمار بوس نے شہریت ترمیم قانون پر سوال اٹھادیا ہے۔ چندر کمار بوس نے کہا ہے کہ ہندوستان سبھی مذاہب اور کمیونٹی کے لیے ہے۔ انہوں نے شہریت قانون کو لے کر اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ‘اگر سی اے اے 2019کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہے تو اس میں ہندو، سکھ، بودھ، کرشچین، پارسی اور صرف جین کا نام کیوں ہے؟ اس میں مسلمانوں کو شامل کیوں نہیں کیا گیا ہے؟ شفافیت ہونی چاہیے۔’
نیتاجی سبھاش چندر بوس کے پوتے کا کہنا ہے کہ ہندوستان کا موازنہ کسی اور ملک سے نہیں ہونا چاہیے…یہ ایک ایسا ملک ہے جو سبھی مذاہب اورکمیونٹی کے لیے ہے۔
قابل ذکر ہےکہ شہریت ترمیم قانون کے حق میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدرجےپی نڈا نے پارٹی کے سینئر رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ کولکاتہ کی سڑکوں پر سوموار کو مارچ کیا تھا۔
اسی بیچ کچھ گھنٹوں بعد مغربی بنگال میں بی جے پی کے رہنما چندر کمار بوس نے ٹوئٹ کرتے ہوئے اس قانون پر سوال اٹھادیے ۔ انہوں نےاپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ، اس میں مسلمانوں کو شامل کیوں نہیں کیا گیا؟
انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اگر مسلمانون کو ان کے آبائی وطن میں ستایا نہیں جارہا ہے تو وہ نہیں آئیں گے ، ا س لیے ان کو شامل کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ ، حالاں کہ یہ پوری طرح سچ نہیں ہے ۔ پاکستان اور افغانستان میں رہنے والے بلوچ کے بارے میں کیا کہنا ہے ؟ پاکستان میں احمدیہ کے بارے میں کیا کہنا ہے؟
انہوں نے ایک ٹوئٹر صارف کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ، ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ، اس کو ہر مذہب اور کمیونٹی کے لیے کھلا ہونا چاہیے۔
غو رطلب ہے کہ ،بی جے پی میں سے اس قانون کے خلاف اس وقت آواز بلند ہونے لگی تھی ، جب بی جے پی سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر اس قانون کو لے کربیداری مہم چلا رہی ہے۔اس سے پہلےبی جے پی کی معاون پارٹی شرومنی اکالی دل نے بھی اس قانون میں مسلمانوں کو بھی جوڑ نے کی مانگ کی تھی۔ اکالی دل نے جمہوریت اور سیکولرازم کا حوالہ دیتے ہوئے بی جے پی کے سامنے اپنی مانگ رکھی تھی۔ اکالی دل کے علاوہ لوک جن شکتی پارٹی نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
اس قانون میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سےہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کااہتمام کیا گیا ہے۔اس ایکٹ میں ان مسلمانوں کوشہریت دینے کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے جو ہندوستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔اس طرح کے امتیازکی وجہ سے اس کی تنقید کی جا رہی ہے اور اس کو ہندوستان کی سیکولرفطرت کو بدلنے کی سمت میں ایک قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک کسی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے سے منع نہیں کیا گیا تھا۔