عالمی سطح پر توانائی کے ذرائع میں تبدیلی لانے کے عمل کو ‘جسٹ ٹرانزیشن’ کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم، ملک کی دو ریاستوں چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ میں کوئلے پر انحصار کرنے والے کچھ گاؤں کے لوگوں کی حالت یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس طرح کی تمام تبدیلیوں کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: International Accountability Project/ CC BY)
گزشتہ چند دہائیوں سے موسمیاتی تبدیلی کے مضر اور مہلک اثرات عالمی سطح پر دیکھے جا رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ایندھن سے کاربن کا اخراج ہے۔ 5 دسمبر کو دبئی میں منعقد ہوئی
سی او پی -28 موسمیاتی کانفرنس (کانفرنس آف دی پارٹیز) میں جاری کیے گئے
گلوبل کاربن بجٹ رپورٹ کے مطابق، سال 2022 میں کاربن کا اخراج اپنی
ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا ۔
اسی سلسلے میں، دنیا بھر کے ممالک عالمی سطح پر کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے توانائی کے قابل تجدید ذرائع تیار کرنے اور اس کے اہم روایتی ذرائع کوئلے کے استعمال کو بتدریج کم کرنے اور اسے روکنے کی بات کر رہے ہیں۔
جسٹ ٹرانزیشن
دنیا بھر میں توانائی کے ذرائع میں تبدیلی لانے کے اس عمل کو ‘
جسٹ ٹرانزیشن‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس کے پیچھے بنیادی خیال یہ ہے کہ فضائی اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرنے والی توانائی کے ذرائع (بنیادی طور پر فوصل فیول/ حفری ایندھن) کا استعمال بند کرکے اور اس کے بجائے توانائی کے قابل تجدید ذرائع کو اپنانے کا ایک ایسا عمل ہونا چاہیے، جو سب کے لیے مناسب اور منصفانہ ہو۔
آسان لفظوں میں کہیں ، تو تبدیلی کے اس عمل کے مرکز میں معاشی، نسلی اور صنفی انصاف ہونا چاہیے،اور اس میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی برادریوں کے مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ‘جسٹ ٹرانزیشن’ کا ایک مقصد توانائی کے دیگر ذرائع جیسے معدنیات، تیل اور وغیرہ سے متعلق پالیسیوں میں کی گئی غلطیوں کو نہ دہراتے ہوئے لوگوں کی رضامندی کے بغیر ان کے ذریعہ معاش مثلاً زمین، جنگلات وغیرہ نہ لینے کے ساتھ ہی انہیں صحیح معاوضہ دینابھی ہے۔
لیکن ہندوستان کی دو ریاستوں چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ کے کوئلے پر انحصار کرنے والے دس گاؤں کے لوگوں کی حالت کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں میں ہونے والی تمام تبدیلیوں کو منصفانہ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ہی اس احساس کو بھی تقویت ملتی ہے کہ معاشی تنوع، متبادل روزگار، ملازمتیں، تربیت اور لوگوں کو نئے طریقوں سے دوبارہ ہنر مند بنانے کے خیال کی آنچ دھیمی پڑ جاتی ہے۔
متبادل ذرائع پیدا کرنے کی ضرورت
باقی دنیا میں، فوصل ایندھن کے استعمال کے خاتمے اور ‘جسٹ ٹرانزیشن’ کے عمل سے متعلق بحث کا محور اس سے متاثرہ لوگوں کے لیے روزی روٹی کے متبادل ذرائع پیدا کرنا رہا ہے۔ لیکن کیا ایسی ہی صورتحال ہندوستان کے لیے بھی ممکن ہے؟
کوئلہ ہندوستان میں بجلی پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ سال 2022-23 میں ہندوستان نے اپنی
73 فیصد بجلی کوئلے سے پیدا کی ہے ۔ ایسے میں ہندوستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ کوئلے کی کان کنی کے پورے عمل سے رسمی اور غیر رسمی طور پر وابستہ ہے۔
گویاکہ کوئلے کی کان کنی والے علاقوں جیسے جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ ریاستوں کے ہزاری باغ، رام گڑھ اور کوربا اضلاع کے مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش براہ راست اور بالواسطہ طور پر کوئلے پر مبنی ہے۔کان کنی سے پہلے ان اضلاع کے لوگوں کا بنیادی پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ لیکن کوئلے کی کان کنی کے لیے زمین کے حصول کے دوران ان میں سے اکثر اپنی زمینوں سے محروم ہو گئے اور ان کے پاس کوئی زمین نہیں بچی۔
اگرچہ اس زمین کے بدلے لوگوں کو معاوضہ اور نوکریاں ملی ہیں، لیکن یہاں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی زمین کے بدلے میں ملنے والی نوکریوں پر بھروسہ نہیں ہے۔ درحقیقت، ان میں سے زیادہ تر نوکریاں غیر رسمی ہیں اور بہت حدتک کوئلے کی معیشت پر انحصار کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ بہت سے خدشات ہیں جو ان لوگوں کو اپنی زمینوں پر مالکانہ حقوق کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
ہندوستان میں کوئلے کی کانوں کے بند ہونے کی صورت میں دیہی علاقوں کے لوگوں کی زندگی کس طرح متاثر ہوگی اس کی ایک زندہ مثال جھارکھنڈ کے رام گڑھ ضلع کا سنتھال گاؤں مہواٹانڈ ہے۔
جب 1980 کی دہائی میں ایک پی ایس یو نے یہاں ایک کان لگائی تھی تو اس گاؤں کے لوگوں نے نہ صرف اپنی زمین گنوائی بلکہ اپنی آبائی جائیداد کے ختم ہونے کے باعث غذائی تحفظ اور محفوظ مستقبل کے بحران کا مسئلہ بھی پیدا ہو گیا۔ زمینوں کے حصول کے بعد یہاں کے لوگ تقریباً پوری طرح سے کوئلے سے متعلق نوکریوں پر انحصار کرنےلگے تھے۔
گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے ایسے بھی بہت کم لوگوں کو ہی نوکریاں ملی تھیں اور سال 2019 میں یہاں کی
کانیں بند ہونے کے بعد وہ نوکریاں بھی چلی جائیں گی اور لوگ مکمل طور پر بے روزگار ہو جائیں گے۔
اسی گاؤں کے رہنے والے ببلو ہیمبرم کہتے ہیں، ‘میں نے کوئلے کی کان کنی کی ایک کمپنی میں نوکری کے لیے لمبی لڑائی لڑی اور بالآخر سال 2016 میں مجھے نوکری ملی۔ اور اب چونکہ کان میں کام بند ہو گیا ہے، میں ہر روز صرف حاضری لگانے جاتا ہوں۔’
اپنے خاندان کے مستقبل کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دو بچوں کے باپ ببلو ہیمبرم کا مزید کہنا ہے، ‘ہم میں سے اکثر کو اس بات کا افسوس ہے کہ ہمارے بزرگوں نے 1964 میں نوکری یا معاوضے کے عوض اپنی زمینیں کوئلے کی کانوں کو دے دی تھیں۔ 1984 میں کوئلے کی کان کنی شروع ہونے کے بعد معاوضے کی رقم ختم ہوگئی اور نوکری بھی خاندان کے صرف ایک فرد کو ہی ملی تھی۔ یہ نوکری بھی ایک خاص عمر کے بعد ختم ہو جائے گی۔ مستقبل میں ہم اور ہمارے بچے بھیک مانگنے کی حالت میں آ جائیں گے۔’
اس میں اضافہ کرتے ہوئے گاؤں کی سرپنچ کرن دیوی نے کہا، ‘ہمارے گاؤں کی تقریباً 75 فیصد آبادی بے روزگار ہے۔ یہاں تک کہ جو نوجوان اپنی تعلیم مکمل کر کے ڈگری حاصل کر چکے ہیں وہ بھی مالی طور پر اپنے والدین پر منحصر ہیں۔’
بیجو اوراراؤں کہتے ہیں، ‘اگر کوئی نئی صنعت بھی تیار ہو جائے تو کیا اس میں ہم سب کے لیے خاطرخواہ نوکریاں ہوں گی؟’
اب تک
جنوبی اور مغربی ریاستوں میں ہی توانائی کےقابل تجدید ذرائع کی ترقی سے ان علاقوں کے لوگوں کو کسی بھی طرح کی مدد ملتی نظر نہیں آ رہی ہے۔
اراؤں برادری کے شیو پال بھگت چھتیس گڑھ کے رائے گڑھ ضلع کے سارس مال گاؤں کے سرپنچ ہیں۔ اس موضوع پر جب شیو پال بھگت سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان گزشتہ چار نسلوں سے اس علاقے میں رہ رہا ہے، لیکن اس سے پہلے انہیں معاشی طور پر عدم تحفظ کا ایسا احساس کبھی نہیں ہوا تھا۔
وہ کہتے ہیں،’2007 میں ہم نے اپنی زمینیں کوئلے کی کانوں کو دی تھیں۔ تب سے اب تک ہم تقریباً بھٹک رہے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ کانوں کے آنے سے ہمارے علاقے میں ترقی ہوگی اور ہمیں مستقل روزگار ملے گا۔ لیکن بدلے میں ہم میں سے کچھ کو ٹھیکیداروں کے یہاں مزدوری کا کام ملا۔’
ان کے بھائی کلدیپ بھگت کا کہنا ہے کہ ‘اپنی زمینیں کمپنیوں کو بیچتے وقت ہمارے والدین کے پاس ضروری معلومات اور علم نہیں تھا۔’
کوئلے سے وابستہ لوگوں کی زندگی کے مسائل
ہندوستان میں کوئلے کی کان کنی کے عمل میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ 2015 سے 2022 کے درمیان ہندوستان میں
کوئلے کی 22 نئی کانیں کھلنے کے ساتھ ہی کوئلے کے
93 نئے منصوبوں کو منظوری دی گئی۔ لیکن اس کے باوجود
کوئلے کے سیکٹر میں روزگار میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہوا ہے ۔
مزید یہ کہ کوئلے کی کان کنی کے عمل کی میکانائزیشن، پرائیویٹ ٹھیکیداروں کی بڑھتی ہوئی شمولیت اور مائننگ ڈیولپمنٹ آپریٹرز (ایم ڈی او) کا بڑھتا ہوا دبدبہ لوگوں اور کوئلے کے درمیان کے تعلقات کو بہت زیادہ متاثر کر رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، اس سیکٹر میں ان آرگنائزڈ کارکنوں کی تعدادآرگنائزڈ کارکنوں کی تعداد سے تقریباً ڈھائی گنا زیادہ ہے۔
کچھ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کانوں کے ٹھیکیدار اور ایم ڈی او عام طور پر دوسری ریاستوں سے آنے والے لوگوں کو کام پر رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کانوں میں کام کرنے والے تارکین وطن مزدوروں کے لیے رہائش کا انتظام بھی کمپنی کے احاطے میں ہی کیا جاتا ہے اور وہ بغیر کسی چھٹی کے کئی مہینوں تک مسلسل کام کرتے ہیں۔
اس معاملے پر ایک مقامی شخص نے کہا، ‘کمپنی کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ بہت زیادہ چھٹیاں لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا کام متاثر ہوتا ہے۔’
نوکری کے حوالے سے عدم تحفظ
کوئلے کے سیکٹر میں کام کرنے والے زیادہ تر مقامی لوگوں کی زندگی میں کوئلے کا کردار متنازعہ ہے۔ جھارکھنڈ کے ہزاری باغ ضلع کے چرچو گاؤں کے دو لوگوں کو اس بات کی خوشی ہے کہ وہ اپنی آبائی زمین کے بدلے معاوضے کے طور پر نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
تاہم، دونوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ الزام بھی لگایا کہ انہیں ہر دو ماہ بعد مختلف کمپنیوں سے تنخواہ کی سلپ ملتی ہے۔ ایسی صورتحال میں انہیں بہت سے خدشات ہیں جیسے کہ وہ کن کے لیے کام کر رہے ہیں، اور وہ کون سی شرائط ہیں جن کی بنیاد پر وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو سکتے ہیں یا نوکری کھونے کی صورت میں انہیں کسی قسم کا معاوضہ مل سکتا ہے یا نہیں؟
اب سارس مال میں ایک ٹھیکیدار کے لیے گارڈ کے طور پر کام کرنے والے ایک شخص نے الزام لگایا ہے کہ اسے ایک کان کنی کمپنی میں صفائی کی نوکری سے اس لیے ہٹا دیا گیا تھا کہ طبی معائنے میں اس کی ایک آنکھ کمزور پائی گئی۔ اسی سلسلے میں رائے گڑھ کے ٹپ رنگا میں مقامی ملازمین کی یونین لیڈر نے بتایا کہ وہ جلد ہی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور اس کے بعد انہوں نے ہمیں اپنی بستی دکھائی جہاں کانوں میں ہونے والے دھماکے سے مکانوں میں یا تو دراڑیں پڑ گئی ہیں یا پھر وہ مکمل طور پر منہدم ہو گئے ہیں۔
بھگوان داس* بھجنگ کچھار کے رہنے والے ہیں۔ یہ گاؤں چھتیس گڑھ کے کوربا ضلع میں کوئلے کی کان کے بالکل قریب واقع ہے۔ بات چیت کے دوران بھگوان داس بتاتے ہیں کہ پہلے ان کی کھیتی کی زمین کانوں میں چلی گئی تھی اور اب کان کنی کا کام ان کے گھر کے بالکل قریب پہنچ گیا ہے۔ دن رات وہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ جلد یا بدیر ان کا گھر بھی کوئلے کی کان سے تباہ ہو جائے گا۔
ان کے ساتھ رہنے والا ان کا بیٹا شیام داس* اسی کان کنی کمپنی میں ایک ٹھیکیدار کےلیے کام کرتا ہے اور کمپنی جلد ہی ان کے گھر کی زمین پر بھی قبضہ کرنے والی ہے۔ اس کے بہت سے دوست اس مخمصے میں جی رہے ہیں۔
ان میں سے ہی ایک رنساہی سون پکٹ کا کہنا ہے کہ وہ اپنا مستقبل داؤ پر لگا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘اگرچہ میرے پاس پہلے جیسی زمین باقی نہیں ہے، لیکن پھر بھی میں اپنی باقی ماندہ زمین پر کھیتی کا کام جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے میرے بچوں کو نوکری مل جائے گی۔ لیکن اگر یہ نہیں ملی تو اس صورت میں ان کے پاس کھیتی باڑی کے لیے زمین تو ہوگی، نہ!’
زمین نہیں تو کھانا نہیں
جھارکھنڈ کی تقریباً
42 فیصد آبادی اور چھتیس گڑھ کی تقریباً
29 فیصد آبادی کئی سطحوں پر غربت کا شکار ہے۔ ان علاقوں میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ زمین کی ملکیت کا براہ راست تعلق فوڈ سیکورٹی سے ہے۔
جھارکھنڈ کے ڈھینگا میں بازآبادی کے لیے بنائی گئی ایک کالونی میں رہنے والے رام سیوک بادل کہتے ہیں، ‘جب ہماری اپنی زمین تھی، ہمیں کبھی کھانے کی کمی نہیں ہوئی۔ اب ہمیں سب کچھ خریدنا پڑتا ہے اور ہماری تنخواہ اتنی نہیں کہ ہر چیز خرید سکیں۔’
سارس مال کی 60 سالہ بھگوتی بھگت
مہوا، تیندو اور دیگر جنگلاتی پیداوار کی مدد سے اپنا گھر چلاتی تھیں ۔ وہ کہتی ہیں، ‘میں سال کے چھ مہینے کام کرتی تھی اور باقی چھ مہینے کام کیے بغیر آسانی سے میرا گزر بسر ہو جاتا تھا۔ چھ ماہ کی کمائی سے میں پورے سال اپنے خاندان کا پیٹ پال سکتی تھی۔ اب زمینوں کے کانوں میں تبدیل ہونے کی وجہ سے جنگلات کی پیداوار میں بھی کمی آئی ہے۔ اس کے علاوہ جنگل میں جانے کے لیے کان کے ٹیلوں پر چڑھنا پڑتا ہے جو انتہائی خطرناک ہوتاہے۔ پہلے ہم مورنگا بہت کھاتے تھے۔ اب ان کے درخت کوئلے سے ڈھک گئے ہیں اور انہیں پکانے سے پہلے کئی بار دھونا پڑتا ہے۔’
کوئلے سے متعلق نقل مکانی نے بھگوتی بھگت جیسی مقامی خواتین کی زندگیوں کو بہت متاثر کیا ہے، جن کے لیے زرعی مزدوری یا جنگلاتی پیداوار کے ذریعے روزی کمانا زیادہ بہتر تھا۔
مہواٹانڈ کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اپنی روزی روٹی کے لیے دوسرے علاقوں اور ریاستوں میں ہجرت کر گیا ہے، وہاں بچ جانے والوں کے لیے کوئلے کی غیر رسمی کان کنی ہی اب واحد آپشن ہے۔ خواتین اور نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک لمبی قطار کان کے اندر اندھیرے میں اترتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان میں سے کچھ کے ہاتھوں میں موبائل فون ہوتا ہے جنہیں وہ ٹارچ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
عام طور پر، پتلے اور چھوٹے قد والے لوگوں کے لیے ان زیر زمین کانوں میں داخل ہونا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ اگرچہ کمپنی نے اس غیر قانونی کان کنی کو روکنے کے لیے کانوں کے گرد گہرے گڑھے کھود لیے ہیں لیکن بھوک اور ضرورت کے پیش نظر لوگوں نے اس میں بھی اپنے لیے راستہ ڈھونڈ نکالا ہے۔
اس بارے میں پوچھے جانے پر رام مانجھی* کہتے ہیں، ‘اگر میں کوئلہ اکٹھا کرکے فروخت نہیں کروں گا تو میرے گھر کا چولہا رات کو نہیں جل سکے گا۔ کمپنی اس کوئلے کو ٹرکوں میں لاد کر لے جاتی ہے تو اسے ترقی کہتے ہیں۔ لیکن جب ہم اپنی ضروریات پوری کرنے اور پیٹ بھرنے کے لیے سائیکلوں اور بائیک پر کوئلہ لے جاتے ہیں تو اسے چوری کہا جاتا ہے۔’
مانجھی کان کنی کی وجہ سے نقل مکانی کو مجبور ہونے والے ہزاروں اور لاکھوں لوگوں میں سے ایک ہیں جنہیں نہ تو معاوضہ ملا اور نہ ہی نوکری۔ مانجھی مزید بتاتے ہیں، ‘کوئلے کی کان کنی کمپنی نے ہمیں اپنا گھر خالی کرنے پر مجبور کیا۔ گھر سے نکلنے کے بعد میں نے قریبی جنگل میں اپنے قیام کا انتظام کیا۔ لیکن اب محکمہ جنگلات کے اہلکاروں نے میرے خلاف جنگلات کی زمین پر تجاوزات کا مقدمہ درج کر دیا ہے۔
زمین نہیں تو زندگی نہیں
کان کنی کے نئے پروجیکٹ کے ذریعے زمین کے حصول سے جوجھ رہی دیہی برادریوں نے ‘کوئلے’ گاؤں کی تاریخ سے سیکھا ہے۔ جھارکھنڈ کے جگرا اور چھتیس گڑھ کے پیلما جیسے گاؤں میں مقامی لوگ نقل مکانی کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔
اس بارے میں جھارکھنڈ کے وشنو گڑھ کی ایکتا پریشد کے کارکن چنولال سورین کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ کوئلہ صنعت کی زندگی زیادہ لمبی نہیں ہے اور ممکن ہے کہ انہیں مفت میں اپنی زمین کھونی پڑے۔
سدھا لال ساؤ جگرا میں گنے کے کسان ہیں اور وہ اپنے دو بیٹوں، بہو اور پوتے پوتیوں کے ساتھ گڑ بنانے کا کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘میں اپنی یہ آبائی جائیداد پیسے کے عوض کسی کو نہیں دے سکتا۔ اس کی وجہ سے ہم مالک سے نوکر بن جائیں گے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میرے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ کیا وہ نسل در نسل خاندان کے ہر فرد کو نوکری دیں گے؟’
اسی گاؤں کے ایک سماجی کارکن کیلاش ساؤ کا خیال ہے کہ گاؤں کی زرخیز زمین پر کوئلے کی کان کنی بے وقوفی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘برکاگاؤں (جہاں وہ رہتے ہیں) کو اس خطے میں چاول کا کٹورا کہا جاتا ہے۔ اتنی زرخیز زمین کو کوئلے کی کان کنی کے لیے کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟’
جگرا کے ایک سرکاری اسکول کے کانٹریکٹ ٹیچر رام دلار ساؤ بتاتے ہیں،’اگر انہیں تین یا چار دہائیوں میں کان کنی بند کرنی ہیں، تو وہ اب زمین کیوں حاصل کر رہے ہیں۔تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہمیں اپنی زمینیں فوری فائدے کے لیے کسی کو نہیں دینی چاہیے۔’
سال 2018 میں جگرا کے رہائشیوں نے ضلع انتظامیہ سے
شکایت کی تھی کہ ان کی زمین زبردستی چھینی جا رہی ہے۔
چھتیس گڑھ میں مقامی لوگ 2011 سے
کوئلہ ستیہ گرہ کے ذریعے صنعتی کان کنی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ۔ چھتیس گڑھ کے پیلما گاؤں کے تقریباً سبھی باشندے اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ان کے گاؤں میں کوئلے کی کان کنی شروع ہوتی ہے تو ان کا مستقبل بہتر نہیں ہوگا بلکہ حالات مزید خراب ہوں گے۔
پیلما کی رہائشی راج بالا* کا خیال ہے کہ اگر اس کی زمین چھین لی گئی تو یہ اس کے لیے تباہ کن ہوگا۔ وہ کہتی ہیں، ‘یہ بہت بڑا نقصان ہوگا۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے یہیں رہیں اور کھیتی باڑی کریں۔’
شیو پال بھگت بتاتے ہیں کہ مستقبل کے منصوبوں میں ملنے والی نوکریاں ان کی اور ان کے لوگوں کی روزی روٹی کو محفوظ بنانے کے لیے کافی نہیں ہوں گی، اس لیے وہ اپنے علاقے میں کان کنی سے متاثر ہونے والے زیادہ تر لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے، ‘ہماری بقا کے لیے کھیتی کی زمین کا ہونا بہت ضروری ہے۔’
بھگت ان لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے دیگر وجوہات کے علاوہ کان کنی سے تباہ ہونے والی اوپری مٹی کی تلافی کرنے میں ناکام رہنے کے لیے ایک کان کنی کمپنی سے
ماحولیاتی نقصانات کے معاوضے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ ان کا مطالبہ ہے کہ کان کنی کمپنیاں قانون پر عمل کریں۔ کان کنی مکمل ہونے کے بعد کمپنیوں کو گڑھوں کو مٹی سے بھر کر زمین کو برابر کرنا چاہیے اور پھر اوپر کی تہہ کو محفوظ کرنے کے لیے اقدامات کرنا چاہیے تاکہ مقامی لوگ ان زمینوں کو دوبارہ استعمال کر سکیں۔
ٹپ رنگا کے یونین لیڈر کا کہنا ہے، ‘بنجر زمین بھی ہمارے لیے کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ ہم ان زمینوں کو روزی روٹی کے دیگر آپشن جیسے فش فارمنگ، مویشی پروری وغیرہ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔’
تاہم، ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں کمیونٹیز کو ان کی زمین واپس دینے کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے
قوانین کی کمی ہے ۔
ایکتا پریشد کے قومی کنوینر رمیش شرما کہتے ہیں، ‘ایک بار جب حکومت کان کنی کے لیے زمین حاصل کر لیتی ہے، تو وہ بعد میں اسے دوسرے پروجیکٹوں کے لیے استعمال کر سکتی ہے یا کسی نجی کمپنی کو لیز پر دے سکتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر نجی کمپنیوں کو توانائی کے متبادل اور قابل تجدید ذرائع جیسے سولر یا ونڈ پاور پلانٹس کے لیے زمین کی ضرورت ہے تو انہیں بڑی مقدار میں زمین ملے گی۔ تاہم، یہ زمینیں اس کے اصل باشندوں اور کسانوں کو واپس کی جائیں جو ان کے حقیقی مالک ہیں۔ بہت سی برادریاں مل کر ان زمینوں پر اپنے مالکانہ حقوق کو برقرار رکھ سکتی ہیں۔’
ملک کے تقریباً 120 اضلاع میں لوگوں کی زندگی کا انحصار براہ راست یا بالواسطہ طور پر فوصل ایندھن یا اس سے متعلقہ صنعتوں پر ہے۔ منصفانہ تبدیلی کے لیے کسی بھی قسم کی حکمت عملی وضع کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہندوستان ان سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے مقامی لوگوں کی ضروریات کو مرکز میں رکھے اور تبھی آگے بڑھے۔
موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس بات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا کہ کان کنی والے علاقوں میں مقامی لوگوں کی ضروریات ممکنہ طور پر ان کی زمینوں سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔
*تبدیل شدہ نام۔
(یہ مضمون آئی ڈی آر کی ویب سائٹ پر شائع ہو چکا ہے ۔ انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)