آدیواسیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کے مذہب کو پہچان دی جانی چاہیے اور مذہب کے کالم میں ان کو ٹرائبل یا Aboriginal Religion چننے کا اختیاربھی دیا جانا چاہیے۔
جب ملک کے سارے میڈیا چینل ہندوستان-پاکستان کے درمیان کشیدگی کو لےکر زور شور سے بحث ومباحثے کا سلسلہ چلا رہے تھے، اسی دوران ملک کے تقریباً 19 ریاستوں کے قبائلی نمائندے راجدھانی دہلی واقع جنتر منتر پر آئے اور اپنے یک روزہ مظاہرہ کے بعد چپ چاپ چلے بھی گئے۔ ہمیشہ کی طرح، اس بار بھی، ٹی وی چینلوں نے ہی نہیں، بلکہ دہلی سے چھپنے والے اخباروں نے بھی ان سے منھ موڑ لیا۔ایک بھی خبر نہیں چھپی کہ آخر وہ کیوں آئے تھے اور ان کی کیا تکلیف تھی۔
ملک کی آبادی میں تقریباً 12 کروڑ کا حصہ رکھنے والے آدیواسیوں کے سامنے مدعا ہے مذہب کا۔ ویسے تو یہ بحث کافی پرانی ہے کہ آدیواسیوں کا مذہب کون سا ہے یا کون سا نہیں ہے۔ لیکن خود جنتر منتر پر آئے قبائلی نمائندوں کا ماننا ہے کہ مردم شماری میں یا چاہے کہیں بھی کوئی فارم بھرنے کی بات آتی ہو، تو مذہب کے کالم میں انھیں ٹرائبل یا Aboriginal Religion یعنی ‘پیدائشی مذہب ‘ چننے کا اختیار دیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ 1951 میں جب آزاد ہندوستان میں پہلی بار مردم شماری ہوئی تھی، تو آدیواسیوں کے لئے مذہب کے کالم میں نویں نمبر پر ‘ ٹرائب’دستیاب تھا، جس کو بعد میں ختم کر دیا گیا۔ اس کے پہلے بھی جتنی بھی بار مردم شماری ہوئی تھی، آدیواسیوں کے لئے یہ اختیار موجود تھا۔ ان کا الزام ہے کہ اس کو ہٹانے کی وجہ سے آدیواسیوں کی گنتی الگ الگ مذہبوں میں بنٹتی گئی جس کی وجہ سے ان کی کمیونٹی کو کافی نقصان ہوا ہے اور ابھی بھی ہو رہا ہے۔
‘ ہم خود کو ہندو مذہب سے جڑے ہوئے نہیں سمجھتے ‘
اس مظاہرے میں شامل بہار کے رہنے والے آدیواسی کارکن مہیندر دھروا نے بتایا،ہمیں کوئی فارم وغیرہ بھرنا ہوتا ہے تو دقت ہو رہی ہے کیونکہ مذہب کے لئے صرف 6 آپشن دئے جاتے ہیں-ہندو،مسلم، عیسائی، بدھ، جین، سکھ۔ چونکہ ہم خود کو ان میں سے کسی بھی مذہب سے جڑا ہوا نہیں مانتے، تو ہم کس کو چنیں؟2011 سے پہلے مذہب کے کالم میں ساتواں کالم دیگر ہوا کرتا تھا تو کئی لوگ اس کو چن لیتے تھے۔ لیکن اب اس کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ اس سے نقصان یہ ہے کہ آگے چلکر ہماری گنتی سب ادھر ادھر تقسیم ہو جائےگی اور کسی کو یہ پتہ بھی نہیں چل پائےگا کہ ملک میں آدیواسیوں کی آبادی کتنی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کے تمام آدیواسیوں کے لئے الگ سے ایک مذہب کوڈ کا آپشن ہونا چاہیے۔ ‘
دھروا نے آگے کہا، برٹش حکومت وقت کے تمام مردم شماری (1871-1931 تک) کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس میں بھی آدیواسیوں کے لئے Aboriginal (اصلی باشندہ) کا اختیار چننے کا نظام تھا۔ آزادی کے بعد حکومتوں نے اس کو سازش کے طور پر ہی ہٹا دیا تاکہ آدیواسیوں کو ہندو یا کسی دیگر مذہب میں جوڑ کر دکھایا جائے۔ کوئی آپشن نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں کو مجبوراً دوسرے مذہب کو چننا پڑ رہا ہے۔ ‘
بہار کے ہی ایک دیگر کارکن ستیہ نارائن سنگھ نے بتایا کہ بہار کی آبادی میں 6 فیصد آدیواسی ہیں۔’ملک میں ہم سب آدیواسی گونڈی، کویا پونیم، آدی دھرم، سرنا جیسے الگ الگ مذہبی طریقوں کو مانتے آ رہے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے کسی کو مذہب کی پہچان نہیں ملی ہے۔ ان سب کے لئے حکومت ساتویں کالم میں ایک الگ مذہب کوڈ کا آپشن دے۔ اس کا نام ٹرائبل مذہب ہونا چاہیے تاکہ آدیواسیوں کی پہچان بچی رہے۔ ‘ان کا الزام ہے کہ اصلی باشندے کا آپشن ہٹاکر حکومت نے 1947 سے ہی ان کو مذہبی غلام بنانا شروع کر دیا تھا۔
‘ دوسرا مذہب ہے تو نام لکھیں-کوڈ نمبر نہیں ملےگا ‘
مردم شماری کو لے کرآن لائن سرکاری ویب سائٹس کو کھنگالنے پر جو مواد ملا وہ بھی آدیواسی-نمائندوں کے الزامات کی تصدیق کرتا ہے۔سال 2001 میں ہوئی مردم شماری کے لئے جو ہدایت جاری کئے گئے تھے، اس میں ہندو، مسلم، عیسائی، سکھ، بدھ اور جین-ان 6 مذہبوں کو 1 سے 6 تک کے کوڈ نمبر دئے گئے تھے۔ اس میں یہ بھی صاف طور پر لکھا گیا تھا کہ ‘ دیگر مذہبوں کے لئے مذہب کا نام لکھیں، لیکن کوئی کوڈ نمبر نہ دیں۔ ‘ 2011 کی مردم شماری میں بھی اسی طرح کا طریقہ اپنایا گیا تھا۔
مختلف آدیواسی کمیونٹی کے درمیان اتفاق
جب ان سے پوچھا گیا کہ الگ الگ آدیواسی کمیونٹی الگ الگ مذہبی روایات و رسوم کی پیروی کرتے ہیں اور ان کی زبان اور بولی الگ ہیں، تو ایسے میں وہ سب ایک مذہب میں کیسے خود کو یکجا رکھ پائیںگے یا ایک مانیںگے، تو ستیہ نارائن نے بتایا،’ہمارا اندازہ ہے کہ ملک بھر میں آدیواسیوں کے اندر کل 83 مذہبی رواج ہیں۔ ہم چاہے کسی بھی کمیونٹی خاص سے ہوں، اپنے-اپنے طریقے سے اپنی پہچان، رسم، دیوی-دیوتاؤں، شادی-بیاہ، جنم-موت سنسکار وغیرہ کی تقلید کریںگے لیکن ہمیں قومی سطح پر ایک مخصوص مذہبی پہچان ملنی چاہیے۔ تاکہ ہمیں مجبوراً کسی دوسرے مذہب کا سہارا لینا نہ پڑے۔ ‘
جب یہی سوال مہیندر دھروا کے سامنے رکھا گیا، تو انہوں نے بتایا، ابھی ہم 19 ریاستوں کے نمائندے یہاں موجود ہیں۔ ہمارے درمیان ایک اتفاق رائے ہے کہ علاقائی سطح پر ہماری پہچان اور ثقافت میں تنوع بھلے ہوں، لیکن قومی سطح پر تمام آدیواسیوں کے لئے یکساں مذہبی پہچان یا کوڈ ہونا ضروری ہے۔ ‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بات ہندو مذہب کے لئے بھی صحیح ہو سکتی ہے کیونکہ سارے ہندوؤں میں مذہبی رسم و رواج یا پوجا ارچنا کا طریقہ ایک جیسا نہیں ہے۔
آدیواسی نمائندوں کا ماننا ہے کہ ملک کے مختلف آدیواسی کمیونٹی میں مذہبی رسم و رواج کافی حد تک ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور تمام کمیونٹی بنیادی طور پر قدرت کے پجاری ہوتے ہیں اور ان کے فلسفیانہ سوچ اور خیال بھی تقریباً ایک جیسے ہیں۔جھارکھنڈ کے سرنا آدیواسی اس مانگ کو لےکر کئی سالوں سے جدو جہد کر رہے ہیں۔ وہ مانگکر رہے ہیں کہ مردم شماری میں ان کے آگے ہندو نہ لکھا جائے۔ ان کا صاف کہنا ہے کہ ہندو مذہب سے ان کا کوئی لینا-دینا نہیں ہے اور ان کا مذہب سرنا ہے۔ اس کمیونٹی کے لوگ چھوٹا ناگپور علاقے میں رہتے ہیں۔
لوہردگا جھارکھنڈ سے آئیں راجمنی ارانو، جو خود سرنا کمیونٹی سے ہیں، نے بتایا کہ ان کے آباو اجداد سالوں سے سرنا مذہب کی مانگ کرتے آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘آج ملک کے تمام آدیواسی اس مدعے پر متحد ہو گئے ہیں تو 2021 میں ہونے والی مردم شماری سے پہلے ہمیں ساتویں نمبر کے کالم میں الگ مذہب کوڈ ملنا چاہیے۔ ‘لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ مسئلہ جذباتی ہے یا عملی۔ الگ سے کسی مذہب کا اختیار نہ ہونے پر روزمرہ کی زندگی میں ان کو عملی طور پر کیا دقتیں آ رہی ہیں؟ جب یہ سوال بالاگھاٹ کے چندریش مراوی کے سامنے رکھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مذہب کوڈ سے دیگر کا آپشن ہٹانے سے کئی طرح کی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایم این سی میں کام کرنے والے چندریش نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے اپنے تجربات کو شیئر کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب 2011 میں مردم شماری ہو رہی تھی، مذہبی کوڈ میں دیگر کا آپشن نہیں تھا اور ان کے اعتراض کے باوجود ان کو ہندو چننے کے لئے کہا گیا تھا جس کو انہوں نے صاف منع کر دیا تھا۔وہ آگے کہتے ہیں، میری شادی کا آن لائن رجسٹریشن کراتے وقت بھی مذہب کوڈ میں کوئی آپشن نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً ہندو مذہب کو چننا پڑا تھا۔ حالانکہ جب سرٹیفکٹ ملا، تو اس میں مذہب کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ‘
‘ برہمنواد ہی ذمہ دار ہے ‘
Adivasi Resurgenceکے بانی مدیر اور آزاد محقق آکاش پویام، جو خود ایک آدیواسی ہیں، نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا،’برٹش کے دور میں ہوئی مردم شماری میں آدیواسیوں کو ‘ انیمسٹ ‘ (Animism)کے زمرہ میں رکھا گیا تھا۔ لیکن جب 1941 میں مردم شماری کی بات آئی تو اینتھروپالوجسٹ وارئر الیون، جو اس وقت حکومت ہند کے ایڈوائزر تھے، نے بستر کے ماڑیا آدیواسیوں کے بارے میں مطالعہ کرکے یہ صلاح دی تھی کہ یہ شیوازم کے قریب ہیں، جوکہ ہندوواد کا حصہ ہے، اس لئے ان کو بھی ہندو میں رکھا جانا چاہیے۔
اس کے بعد سے سارے آدیواسیوں کو، جو عیسائی نہیں بنے تھے، ہندو مذہب میں گنا جانے لگا۔ اس وجہ سے تاریخی طور پر آدیواسیوں کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ گونڈوانا مہاسبھا نے 1950 سے پہلے سے ہی آدیواسیوں کے لئے کویا پونیم مذہب کی مانگ شروع کی تھی۔ تبھی سے گونڈی مذہب کی مانگ ہونے لگی تھی لیکن اس کو پہچان نہیں ملی۔ ‘ملک میں بڑی آبادی ہونے اور ہندو مذہبی رسم ورواج سے ہٹکر مخصوص مذہبی طریقوں کو اپنانے کے باوجود الگ مذہب کی پہچان آدیواسیوں کو کیوں نہیں ملی؟ اس سوال پر آکاش الزام لگاتے ہیں کہ برہمنوادی نظریہ ہی اس کے لئے ذمہ دار ہے۔
‘آزادی کے بعد اقتدار میں جو بھی رہے ہیں، سب برہمنواد کو ماننے والے ہیں۔ اس لئے انہوں نے آدیواسیوں کو اسی نظریہ سے دیکھا۔ آر ایس ایس آدیواسیوں کو جنگل باسی کہتا ہے، جس کو کہ آدیواسی ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کے تئیں اس طرح کی نفرت اور جانبداری ہے تو وہ (حکومت) جان بوجھ کر ان کی مانگ کو پہچان نہیں دیںگے، کیونکہ اس سے ہندوؤں کی آبادی میں کچھ فیصد کا اضافہ ہوگا اور ووٹ بینک بڑھےگا۔ دوسری طرف، ابھی بہت سارے آدیواسی بھی خود کو ہندو ماننے-بتانے لگے ہیں کیونکہ ان سے 1950 سے لگاتار بولا جاتا رہا ہے کہ تم ہندو ہو۔ ‘
‘ تمام آدیواسی کمیونٹی کی فلاسفی ایک ہے ‘
اس کی ایک مثال دیتے ہوئے آکاش بتاتے ہیں،’ جب میں ریسرچ کر رہا تھا، اپنے دادا سے پوچھا کہ آپ ہندو کیسے ہو گئے۔ تو انہوں نے جواب دیا، کیونکہ یہ بات میرے کاسٹ سرٹیفکیٹ میں لکھا ہوا ہے۔ مذہب میں ہندو اور ذات میں گونڈ لکھا تھا۔ آزادی کے بعد سے ہی ان کو ہندو کے طور پر نشان زد کیا جاتا رہا ہے۔ چونکہ پچھلے 60-70 سالوں سے یہ سب ہو رہا ہے تو آج کی نسلیں خودبخود خود کو ہندو ماننے لگی ہیں۔ لیکن جب ان کے رسوم و رواج کو دیکھا جائے تو ہندو مذہب سےان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ‘
آکاش کا کہنا ہے کہ تمام آدیواسیوں کی پہچان کے لئے کوئی ایک آپشن ہونا چاہیے۔ چاہے وہ کویا پونیم ہوں یا آدی مذہب، سرنا وغیرہ سب آدیواسی فلاسفی پر اعتماد کرتے ہیں، سب ایک جیسے ہی ہیں ان میں زیادہ فرق نہیں ہے۔