الیکٹورل بانڈز خریدنے والے سرفہرست پانچ گروپوں / کمپنیوں میں سے تین نے سب سے زیادہ چندہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو دیا، جبکہ دو نے اپنے چندے کا سب سے بڑا حصہ ترنمول کانگریس کو دیا۔
(تصویر بہ شکریہ: Unsplash)
نئی دہلی: الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) اور اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کے ذریعے جمعرات کی شام کو جاری کیے گئے الیکٹورل بانڈ کے تازہ ترین ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ کون سے کارپوریٹ کس پارٹی کو اور کب چندہ دے رہے تھے۔
تازہ ترین اعداد و شمار پر اپنے پہلے تجزیے میں ہم بات کررہے ہیں الیکٹورل بانڈ کے سرفہرست خریداروں کے بارے میں اور یہ بھی کہ وہ اس غیر شفاف میڈیم کے ذریعےکس کو چندہ دے رہے تھے۔ یہ ڈیٹا 12 اپریل 2019 سے شروع ہو کر 15 جنوری 2024 (جب آخری بانڈ فروخت کیے گئے تھے) تک کے عرصے سے متعلق ہے۔ اس میں اسکیم کے پہلے سال کا ڈیٹا شامل نہیں ہے۔
ان 5 گروپوں/کمپنیوں کے بارے میں بات کریں تو ان میں سے 3 کی طرف سے دیے گئے چندے کا سب سے بڑا حصہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ملا۔ دیگر دو گروپوں/کمپنیوں سے ترنمول کانگریس کو سب سے زیادہ پیسہ ملا۔
میگھا انجینئرنگ اینڈ انفراسٹرکچر لمیٹڈ
حالاں کہ، میگھا انجینئرنگ اینڈ انفراسٹرکچر لمیٹڈ (ایم ای آئی ایل ) 12 اپریل 2019 سے 11 جنوری 2024 کے درمیان الیکٹورل بانڈ کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے لیے دوسرا سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے، لیکن ایک نئے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 584 کروڑ روپے کے ساتھ بی جے پی کو چندہ دینے والوں میں سر فہرست ہے۔ تلنگانہ واقع کمپنی کے چیئرمین پامی ریڈی پچی ریڈی اور ان کے بھتیجے پی وی کرشنا ریڈی نے اس مدت میں کل 966 کروڑ روپے کا چندہ دیا، جس کا بڑا حصہ (584 کروڑ روپے) بی جے پی کوملا۔
ایم ای آئی ایل کے ذریعے خریدے گئے الیکٹورل بانڈ کی دوسری سب سے بڑی مستفید اس وقت کی تلنگانہ کی حکمران جماعت تھی یعنی کے- چندر شیکھر راؤ کی قیادت والی بھارت راشٹر سمیتی (بی آر ایس ) تھی، جسے 195 کروڑ روپے ملے۔ وہیں، آندھرا پردیش میں وائی ایس آر کانگریس کو 37 کروڑ اور تمل ناڈو کی حکمراں جماعت ڈی ایم کے کو 85 کروڑ روپے ملے۔
ایم ای آئی ایل نے بہار کی حکمران جماعت نتیش کمار کی جنتا دل (یونائیٹڈ) کو بھی 10 کروڑ روپے دیے۔
ایم ای آئی ایل نے اپوزیشن جماعتوں کو بھی چندہ دیا، لیکن ان کے ذریعے خریدے گئے کل الیکٹورل بانڈ کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ۔ آندھرا پردیش کی تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کو 28 کروڑ روپے ملے؛ کانگریس کو 18 کروڑ روپے ملے، جبکہ جنتا دل (سیکولر) کو 5 کروڑ روپے ملے۔ پون کلیان کی قیادت والی جن سینا پارٹی کو بھی ایم ای آئی ایل سے 4 کروڑ روپے ملے۔
واضح ہو کہ
سیاسی جماعتوں کی طرف سے ای سی آئی کو دی گئی الیکٹورل بانڈ سے متعلق جانکاری سے پتہ چلتا ہے کہ جنتا دل (سیکولر) کو 12 اپریل 2023 سے پہلے 89.75 کروڑ روپے کے چندے میں سے 50 کروڑ روپے ایم ای آئی ایل سے ملے تھے، جو کل چندے کا 56 فیصدی تھا، جو مئی 2023 میں کرناٹک اسمبلی کے انتخابات سے قبل ملا تھا۔
دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایم ای آئی ایل نے اس عرصے میں کئی اہم سرکاری انفراسٹرکچر پروجیکٹ پر کام بھی شروع کیا۔ کمپنی نے 14400 کروڑ روپے کے تھانے-بوری ولی ٹوئن ٹنل پروجیکٹ کے لیے ٹینڈر حاصل کیا، جو اتفاق سے 11 اپریل 2023 کو 140 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ خریدنے کے ایک ماہ بعد اسے ملا۔ 140 کروڑ روپے میں سے 115 کروڑ روپے ایم ای آئی ایل نے بی جے پی کو چندے میں دیا گیا، جبکہ باقی 25 کروڑ روپے تیلگو دیشم پارٹی، جن سینا پارٹی، کانگریس اور جنتا دل (سیکولر) میں تقسیم کیے گئے۔
اس وقت ٹینڈر کا عمل بھی تنازعات میں گھرا ہوا تھا۔ جنوری 2023 میں سنجے گاندھی نیشنل پارک کے تحت دو سڑکوں کی سرنگوں کے لیے مہاراشٹر حکومت کی ممبئی میٹروپولیٹن ریجن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ایم آر ڈی اے) کے ٹینڈر میں صرف ایم ای آئی ایل کی بولی ہی جوابدہ پائی گئی تھی۔ ایم ای آئی ایل نے معاہدہ حاصل کرنے کے فوراً بعد، اس کے حریف ایل اینڈ نے مئی 2023 میں اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا، لیکن بامبے ہائی کورٹ نے تکنیکی بنیادوں پر ان کی عرضی خارج کر دی تھی۔
حالیہ برسوں میں، اس کی جھولی میں گئے زیادہ تر بڑے منصوبے تنازعات میں رہے ہیں۔ تلنگانہ کے نو منتخب کانگریس چیف منسٹر اے ریونت ریڈی نے چند ماہ قبل اپوزیشن میں رہتے ہوئے ایک لاکھ کروڑ روپے کی وشال کالیشورم لفٹ سینچائی پروجیکٹ میں کئی ٹھیکوں کی فراہمی میں مبینہ بے ضابطگیوں کے لیے حکمران بی آر ایس کے خلاف جارحانہ مہم چلائی تھی۔
اسی طرح آندھرا پردیش میں 2014 سے 2019 کے درمیان اپوزیشن لیڈر کے طور پر وائی ایس جگن موہن ریڈی نے این چندرابابو نائیڈو کی قیادت والی تیلگودیشم حکومت پر وشال پٹی سیما سینچائی پروجیکٹ میں ایم ای آئی ایل کوفائدہ پہنچانے کا الزام لگایا تھا۔ تاہم، اقتدار میں آنے کے بعد، جگن نے بھی ایم ای آئی ایل کو بہت سے ٹھیکے دیے، جن میں سے سب سے بڑا پولاورم ڈیم پروجیکٹ میں کچھ بڑے ٹھیکے تھے جو انہوں نے نویُگ انجینئرنگ کے ساتھ معاہدہ منسوخ کرکے دیے تھے۔ بتادیں کہ نویُگ انجینئرنگ نے 55بھی کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ خریدے تھے۔
اتفاق سے، ایم ای آئی ایل بھی محکمہ انکم ٹیکس کی جانچ کے دائرے میں ہے۔ اکتوبر 2019 میں اس کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا، جس کے بعد اس نے بڑے پیمانے پر الیکٹورل بانڈ خریدے۔ اگست 2020 میں کمپنی نے جموں و کشمیر میں زوزی لا سرنگ کی تعمیر کے لیے 4509 کروڑ روپے کا پروجیکٹ حاصل کیا تھا۔
ایم ای آئی ایل نے حیدرآباد کے مائی ہوم گروپ کے ساتھ شراکت داری میں گزشتہ چند سالوں میں میڈیا انڈسٹری میں بھی قدم رکھا ہے۔ اس نے بااثر ‘ٹی وی 9 تیلگو’ چینل حاصل کیا اور این ٹی وی چینل میں 22فیصد حصص خریدے۔ کمپنی نے جلد ہی الکٹرک گاڑیوں کی تیاری کے کاروبار میں داخل ہونے کے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
اگر ہم ایم ای آئی ایل سے وابستہ کمپنیوں کو شامل کرلیں تو بی جے پی کے لیے ان کا چندہ اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ تاہم، ایسا لگتا ہے کہ ایم ای آئی ایل سے منسلک کمپنیوں نے ایم ای این ایل کے مقابلے میں بہت کم مقدار میں چندہ دیا ہے، لیکن اس چندے کا بڑا حصہ کانگریس کو گیا ہے۔ مثال کے طور پر، ایم ای آئی ایل کی ملکیت والی ویسٹرن یوپی پاور ٹرانسمیشن کمپنی لمیٹڈ نے 220 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ خریدے ہیں۔ جبکہ اس نے بی جے پی کو 80 کروڑ روپے دیے، وہیں کانگریس کو 110 کروڑ روپے کا چندہ دیا ہے، اس نے ٹی ڈی پی اور جن سینا کو بالترتیب 20 کروڑ اور 10 کروڑ روپے کا چندہ دیا۔
ایم ای آئی ایل کی ایک اور ذیلی کمپنی ایس ای پی سی پاور نے 40 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے، جس کا بڑا حصہ کانگریس (30 کروڑ) کو گیا۔ اس نے بی جے پی اور ٹی ڈی پی کو پانچ- پانچ کروڑ روپے کا چندہ دیا۔
ایم ای آئی ایل کی ایک اور ذیلی کمپنی ایوے ٹرانس پرائیویٹ لمیٹڈ نے بی آر ایس کو بانڈ کے ذریعے 6 کروڑ روپے کا چندہ دیا۔
مجموعی طور پر، الیکٹورل بانڈ کی خریداری میں ایم ای آئی ایل اور اس کی ایسوسی ایٹ کمپنیوں کی حصے داری 1232 کروڑ روپے ہے، جس میں سے اکیلے بی جے پی کو 669 کروڑ روپے ملے، یعنی کل چندے کا تقریباً 54.3 فیصد۔ بی آر ایس کو دوسرا سب سے بڑا حصہ ملا، جو ایم ای آئی ایل اور اس سے منسلک کمپنیوں کے عطیات کے 16فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔
فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ
‘لاٹری کنگ’ سینٹیاگو مارٹن کی کمپنی فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ الیکٹورل بانڈز کے ذریعے اپریل 2019 اور جنوری 2022 کے درمیان 1368 کروڑ روپے کے ساتھ سب سے بڑی عطیہ دہندہ تھی۔ تاہم، کل رقم میں سے صرف 100 کروڑ روپے ہی حکمراں بی جے پی کو چندےمیں دیا گیا تھا۔
کمپنی نے مغربی بنگال کی حکمراں ترنمول کانگریس پارٹی کو سب سے زیادہ 542 کروڑ روپے کا چندہ دیا۔ دوسرے نمبر پر تمل ناڈو کی حکمراں جماعت دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے) کا ہے، جس کو 503 کروڑ روپے ملے۔
جن دو دیگر پارٹیوں نے خاطر خواہ چندہ حاصل کیا ان میں وائی ایس آر کانگریس کو 154 کروڑ روپے اور کانگریس کو 50 کروڑ روپے شامل ہیں۔ایک چھوٹا سا حصہ سکم کی سیاسی جماعتوں کو ملا، جو 8 کروڑ روپے ہے۔
کئی دوسرے عطیہ دہندگان کی طرح، فیوچر گیمنگ بھی ای ڈی کی جانچ کے دائرے میں ہے۔ 23 جولائی، 2019 کو ای ڈی نے منی لانڈرنگ کے ایک مبینہ گھوٹالہ میں اس کے 120 کروڑ روپے کے اثاثوں کو ضبط کر لیا تھا، جہاں سینٹیاگو مارٹن پر انعامی رقم میں اضافہ کرنے اور بے حساب نقدی سے دولت جمع کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ای ڈی نے اس گروپ سے وابستہ 70 ٹھکانوں پر چھاپے ماری بھی کی تھی۔
ہندوستان کے کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی) نے بھی پارلیامنٹ میں پیش کی گئی 2017 کی رپورٹ میں مارٹن کی ملکیت والی فیوچر گیمنگ اور ہوٹل سروسز سمیت مارکیٹنگ ایجنٹوں کی سنگین بے ضابطگیوں کو بھی نشان زد کیا ہے۔ لاٹری میں بدعنوانی اور خلاف ورزیوں کی شکایات کے بعد 2015 میں مرکزی وزارت داخلہ نے آڈٹ کا فیصلہ لیا تھا۔
ویدانتا
کان کنی کی سرکردہ کمپنی ویدانتا لمیٹڈ نے بی جے پی کو 250.15 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ دیے۔ اس طرح، ویدانتا کے ذریعے خریدے گئے تمام الیکٹورل بانڈ میں سے نصف سے زیادہ (کل 400.65 کروڑ روپے) بی جے پی کے کھاتے میں گئے، اس کے بعد کانگریس (125 کروڑ روپے)، بیجو جنتا دل (40 کروڑ روپے) اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ ( 5 کروڑروپے) کا نمبر آتا ہے۔ ترنمول کانگریس کو ویدانتا سے صرف 30 لاکھ روپے ملے۔
ویدانتا الیکٹورل بانڈ کا چوتھا سب سے بڑا خریدار ہے۔
ویدانتا لمیٹڈپر راجستھان کے باڑمیر سمیت ہندوستان میں کئی کان کنی، تیل اور گیس کے منصوبوں میں ماحولیاتی خلاف ورزیوں کے لیے باقاعدگی سےسوال اٹھتے رہے ہیں۔ ویدانتا نے جون 2018 میں جھارکھنڈ میں ایک اسٹیل پلانٹ بھی حاصل کیا تھا۔
یہ کمپنی
ای ایس ایل اسٹیل لمیٹڈ گزشتہ سال نومبر میں مقامی لوگوں اور ویدانتا کے سیکورٹی گارڈز کے درمیان تصادم کی وجہ سے سرخیوں میں تھی۔ مقامی لوگوں نے علاقے میں مقامی کمیونٹی کے لیے مزید ملازمتوں کا مطالبہ کرتے ہوئے اسٹیل پلانٹ کے گیٹ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
مہندر کے جالان اور اس کے خاندان سے متعلق کمپنیاں
جیسا کہ دی وائر نے اپنی
رپورٹ میں بتایا تھا کہ کولکاتہ کے صنعت کار مہندر کے جالان اور ان کے خاندان سے منسلک چار کمپنیوں نے اپریل 2019 اور جنوری 2024 کے درمیان 616.92 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ خریدے تھے، جو اس گروپ کو تیسرا سب سے بڑا سیاسی عطیہ دہندہ بناتا ہے۔ چار کمپنیوں کے نام کیونٹر فوڈپارک انفرا لمیٹڈ، مدن لال لمیٹڈ، ایم کے جے انٹرپرائزز لمیٹڈ اور سسمل انفراسٹرکچر پرائیویٹ لمیٹڈ ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان کمپنیوں نے کئی سیاسی جماعتوں – بی جے پی، کانگریس، ٹی ایم سی، شرومنی اکالی دل، سماجوادی پارٹی، اے اے پی، بیجو جنتا دل، بھارت راشٹر سمیتی اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ کو چندہ دیا۔ بی جے پی کو سب سے زیادہ رقم (351.92 کروڑ) ملی، اس کے بعد کانگریس (160.6 کروڑ) کا نمبر آتا ہے۔ تیسری سب سے بڑی رقم ٹی ایم سی ( (65.9 کو ملی۔
دی وائر کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ‘تقریباً دو دہائیاں قبل تک جالان ایک
رئیل اسٹیٹ بزنس مین کے طور پر معروف تھے ۔ اس کے بعد انہوں نے ڈیری، زراعت اور فوڈ پروسیسنگ کے شعبوں میں نمایاں توسیع کی۔
2022 تک جالان کولکاتہ میں دریائے ہگلی (گنگا) پر اسٹرینڈ روڈ کے سامنےایک 33 منزلہ عمارت بنانے کا منصوبہ بنا رہے تھے اور اس کی چھت پر ایک ہیلی پیڈ بنانے کا بھی منصوبہ تھا۔ فی الحال یہ منصوبہ ٹھنڈے بستے میں ہے۔’
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ‘جالان نے 2013 سے بی جے پی اور ٹی ایم سی دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنائے رکھے ہیں۔ اس وقت جب
مودی اقتدار میں نہیں آئے تھے، جالان
بنگال میں مودی کی میٹنگوں میں شرکت کرنے والے چند تاجروں میں سے ایک ہوا کرتے تھے ۔ اسی دوران انہیں ممتا بنرجی کے پروگراموں میں بھی دیکھا جاتاتھا۔’
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ‘…جالان بانڈز خریدنے والی تمام چاروں کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا حصہ نہیں ہیں۔ ان میں سے کچھ میں رادھے شیام کھیتان انچارج ہیں۔ کھیتان مدن لال لمیٹڈ اور ایم کے جے انٹرپرائزز لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا حصہ ہیں۔ وہ مدن لال لمیٹڈ گروپ کی کمپنی کیونٹر پروجیکٹس لمیٹڈ کے چیف آپریٹنگ آفیسر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کمپنی کی پروفائل کے مطابق، مدن لال لمیٹڈ سیکیورٹیز ٹریڈنگ اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں کام کرتی ہے۔
کوئیک سپلائی چین پرائیویٹ لمیٹڈ
کوئیک سپلائی چین پرائیویٹ لمیٹڈ نے بی جے پی کو 375 کروڑ روپے، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کو 10 کروڑ روپے اور شیوسینا کو 25 کروڑ روپے کا چندہ دیا ہے۔
کمپنی ریلائنس کی ذیلی کمپنی کے طور پر درج نہیں ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کا ریلائنس سے مضبوط تعلق ہے۔ کمپنی کے دو موجودہ ڈائریکٹر وپل پران لال مہتا اور تاپس مترا ہیں۔
زوبا کارپ کے مطابق، تاپس مترا ریلائنس آئل اینڈ پٹرولیم، ریلائنس ایروز پروڈکشن، ریلائنس فوٹو فلمز، ریلائنس فائر بریگیڈز، آر اے ایل انویسٹمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ، ریلائنس فرسٹ پرائیویٹ لمیٹڈ، ریلائنس پالیسٹر سمیت دیگرکے بھی ڈائریکٹر ہیں۔
رائٹرز کے مطابق ، کوئیک سپلائی میں 50 فیصد سے زیادہ حصص ریلائنس گروپ کی تین کمپنیوں کے پاس ہیں۔
یہ 2018 کے بعد سے بانڈ خریدنے والی انفرادی کمپنیوں میں تیسری سب سے بڑی خریدار ہے۔ ممبئی کی اس کمپنی نے 410 کروڑ روپے کے
الیکٹورل بانڈ خریدے تھے ۔
زوبا کارپ پر دستیاب کمپنی کی جانکاری کے مطابق، کمپنی 23 سال قبل 2000 میں قائم ہوئی تھی۔ ای سی آئی کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے ڈیٹا کے مطابق، ریلائنس گروپ سے وابستہ کمپنی کوئیک سپلائی چین نے 5 جنوری 2022 کو پہلی بار بانڈ خریدا۔ پانچ دن بعد 10 جنوری کو اس نے دوبارہ بانڈ خریدے۔ اس کے بعد اگلی خریداری 11 نومبر 2022 کو ہوئی اور ایک سال بعد دوبارہ 17 نومبر 2023 کو ہوئی۔ خریدے گئے تمام بانڈز 1 کروڑ روپے کی قیمت کے تھے۔
زوبا کارپ پر اپ لوڈ کیے گئے ڈیٹا کے مطابق، کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کا دفتر جنوبی ممبئی کے دھوبی تالاب میں ہے۔
سنجیو گوئنکا گروپ
کولکاتہ کے ارب پتی صنعتکار سنجیو گوئنکا کی مختلف کمپنیوں نے ٹی ایم سی کو سب سے زیادہ چندہ دیا، اس کے بعد بی جے پی اور کانگریس کا نمبر آتا ہے۔
اس گروپ نے مغربی بنگال کی حکمران جماعت ٹی ایم سی کو 422 کروڑ روپے کا چندہ دیا۔ بی جے پی اور کانگریس کو بالترتیب 127 کروڑ اور 15 کروڑ روپے کا چندہ ملا۔
دی وائر نے اپنی
رپورٹ میں بتایا تھا کہ یہ گروپ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور سی بی آئی کی جانچ کے دائرے میں ہے۔ سی بی آئی کی تحقیقات شروع ہونے کے بعد 40 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے گئے تھے۔
گروپ نے مارچ-اپریل 2021 کے دوران سب سے زیادہ بانڈ خریدے تھے۔ اس دوران مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے۔ کیرالہ اور آسام میں بھی اسمبلی انتخابات تقریباً اسی وقت ہوئے تھے۔
الیکٹورل بانڈ خریدنے والی گروپ کی پانچ کمپنیاں تھیں؛ ہلدیا انرجی لمیٹڈ، دھاری وال انفراسٹرکچر لمیٹڈ، فلپس کاربن بلیک لمیٹڈ، کریسنٹ پاور لمیٹڈ اور آر پی ایس جی وینچرز لمیٹڈ۔
اتفاق سے، گروپ کی دو کمپنیوں پر سی اے جی نے کوئلے کی نیلامی میں دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )